کورونا کے باعث گھر میں جمعہ

کورونا کے باعث گھر میں جمعہ | ||
کورونا کے باعث گھر میں جمعہ
محمد رفیق طاہرعَفَى اللَّہُ عَنْہُ کورونا وائرس کی وجہ
سے دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے میں جہاں مساجد کو عام نمازیوں کےلیے
بند کر دیا گیا ہے، وہاں جمعہ ادا کرنے کے بارہ میں سوالات اٹھ رہے ہیں کہ اس
فریضہ سے کیسے عہدہ برآ ہوا جائے؟ کیونکہ مردوں کے لیے باجماعت نماز جمعہ ادا کرنا
فرض ہے۔ فرضیت جمعہ:
اللہ تعالى کا
ارشاد گرامی ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ
يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ
خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ اے لوگو جو ایمان
لائے ہو! جب جمعہ کے دن نماز (جمعہ) کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو
اور خرید وفروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔ سورة الجمعة: 9 سیدنا عبد اللہ
بن عمر اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلى
اللہ علیہ وسلم کو منبر نبوی پہ یہ کہتے ہوئے سنا: لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ وَدْعِهِمُ
الْجُمُعَاتِ، أَوْ لَيَخْتِمَنَّ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ، ثُمَّ لَيَكُونُنَّ
مِنَ الْغَافِلِينَ لوگ جمعے چھوڑنے
سے باز آجائیں ، وگرنہ ا للہ تعالى انکے دلوں پہ مہر لگا دے گا، پھر وہ غافلوں میں
سے ہو جائیں گے۔ صحیح مسلم: 865 سیدنا طارق بن
شہاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ
مُسْلِمٍ فِي جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً: عَبْدٌ مَمْلُوكٌ، أَوِ امْرَأَةٌ،
أَوْ صَبِيٌّ، أَوْ مَرِيضٌ باجماعت جمعہ ادا
کرنا ہر مسلمان پر حق واجب ہےما سوا چار افراد : مملوک غلام، عورت، بچہ، مریض۔ سنن أبي داود: 1067 سیدنا عبد اللہ
بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے جمعہ سے
پیچھے رہنے والوں کے متعلق ارشاد فرمایا: لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ رَجُلًا يُصَلِّي
بِالنَّاسِ، ثُمَّ أُحَرِّقَ عَلَى رِجَالٍ يَتَخَلَّفُونَ عَنِ الْجُمُعَةِ
بُيُوتَهُمْ میں چاہتاہوں کہ
ایک آدمی کو حکم دوں جو لوگوں کو جماعت کروائے ، پھر جو مرد جمعہ میں حاضر نہیں
ہوتے انکے گھر جلا ڈالوں۔ صحیح مسلم: 5652 سیدنا ابو جَعْد
ضَمْری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ تَرَكَ ثَلَاثَ جُمَعٍ تَهَاوُنًا بِهَا،
طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ جس نے تین جمعے
معمولی سمجھتے ہوئے چھوڑے ،اللہ تعالى اسکے دل پہ مہر لگا دے گا۔ سنن أبي داود: 1052 مذکورہ بالا دلائل
سے جماعت اور جمعہ کی فرضیت صاف ظاہر ہے کہ ان کی ادائیگی کا شریعت نے حکم دیا ہے
اور کوتاہی کرنے پہ وعید سنائی ہے۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان جہاں بھی
ہوں گے وہیں جماعت اور جمعہ کا اہتمام کریں گے، کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ
وسلم نے مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ اور
انکے ساتھی کو سفر کے دوران بھی اقامتِ صلاۃ کا حکم دیا تھا، تو مسجد میسر نہ ہونے
کی صورت میں دوران سفر بھی جب مسلمان اکٹھے
ہوں تو باجماعت نماز پنچگانہ ادا کریں گے اور جمعہ کے دن جمعہ با جماعت ادا
کیا جائے گا۔ دیہاتوں میں جمعہ:
نبی مکرم صلى
اللہ علیہ وسلم کے ان فرامین کی روشنی میں
جہاں مدینہ طیبہ میں جمعہ کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا رہا، وہیں دور دراز رہنے
والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی جمعہ اور جماعت کا اہتمام کرتے رہے۔ سیدنا عبد اللہ
بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: إِنَّ أَوَّلَ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ بَعْدَ
جُمُعَةٍ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي
مَسْجِدِ عَبْدِ القَيْسِ بِجُوَاثَى مِنَ البَحْرَيْنِ یقینا مسجد نبوی کے بعد پہلا جمعہ جو پڑھایا گیا وہ
بحرین کی بستی جُواثَى میں مسجدِ عبد القیس میں پڑھایا گیا تھا۔ صحیح البخاری: 892 سیدنا ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ بحرین میں تھے تو انہوں نے امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب کی طرف
خط لکھ کر جمعہ کے بارہ میں دریافت کیا تو آپ انہوں نے فرمایا: جَمِّعُوا حَيْثُمَا كُنْتُمْ تم جہاں کہیں بھی ہو جمعہ ادا کرو۔ مصنف ابن أبي شيبة: 5108 امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے
عدی بن عدی کو خط لکھا : أَيُّمَا أَهْلِ قَرْيَةٍ لَيْسُوا بِأَهْلِ
عَمُودٍ يَنْتَقِلُونَ ، فَأَمِّرْ عَلَيْهِمْ أَمِيرًا يُجَمِّعُ بِهِمْ. جو بھی آبادی خیمہ لگا کر ایک سے دوسری جگہ نقل
مکانی کرنے والی نہ ہو ، ان پر ایک امیر مقرر کردیں جو انہیں جمعہ پڑھائے مصنف ابن أبي شيبة: 5109 مسجد کے علاوہ جمعہ:
امام بیہقی نے
معاذ بن موسى بن عقبہ اور محمد بن اسحاق کے حوالے سےنقل کیا ہے: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ حِينَ رَكِبَ مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فِي هِجْرَتِهِ إِلَى
الْمَدِينَةِ مَرَّ عَلَى بَنِي سَالِمٍ، وَبَنِي قُرَّةَ بَيْنَ قُبَاءَ،
وَالْمَدِينَةِ فَأَدْرَكَتْهُ الْجُمُعَةُ فَصَلَّى فِيهِمُ الْجُمُعَةَ،
وَكَانَتْ أَوَّلَ جُمُعَةٍ صَلَّاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ بلا شبہ جب نبی
صلى اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت کےدوران میں جب بنی عمر بن عوف سے سوار ہو
کر بنی سالم اور بنی قرہ کے پاس سے گزرے جو قباء اور مدینہ کے درمیان ہے تو جمعہ کا
وقت ہوگیا تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان میں جمعہ پڑھایا، اور یہ رسول اللہ صلى
اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے وقت پہلا جمعہ تھا۔ معرفة السنن والآثار للبيهقي: 6320 امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: كَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم
فِي هَذِهِ الْمِيَاهِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ يُجَمِّعُونَ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے صحابہ مکہ اور مدینہ کے درمیان پانیوں پر(جب پڑاؤ کرتے
تو) جمعہ ادا کیا کرتے تھے۔ مصنف ابن أبي شيبة: 5111 سیدنا انس بن
مالک رضی اللہ عنہ بصرہ شہر سے باہر دو
فرسخ(14.4کلو میٹر) کے فاصلے پر اپنے ڈیرے اور باغات کے پاس اقامت
پذیر تھے وہ کبھی اپنے اہل وعیال کے ساتھ اپنے محل ہی میں جمعہ پڑھ لیتے اور کبھی
بصرہ کی جامع مسجد میں تشریف لے جاتے۔ اتحاف الخيرة المهرة: 1492، المطالب العالية:
679 رزیق بن حکیم زمینوں
پر کام کروا رہے تھے اور ان کے ساتھ سیاہ فام لوگوں کی ایک جماعت بھی تھی، انھوں
نے امام ابن شہاب زہری سے پوچھا کہ کیا میں ان افراد کو لے کر جمعہ پڑھایا کروں؟
تو امام زہری نے جمعہ پڑھنے کی تلقین کی۔ صحيح البخاري: ٨٩٣ خلاصہ:
مذکورہ بالا
دلائل سے یہ بات ظاہر ہے کہ مسلمان جہاں بھی جمع ہونگے وہیں جمعہ کی نماز با جماعت
ادا کریں گے۔ اگرچہ مسافر کو جمعہ کی رخصت ہے لیکن پھر بھی اگر اہل ایمان دوران
سفر جمعہ ادا کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین کا عمل رہاہے۔اور جمعہ کی فرضیت کے
دلائل میں کہیں بھی تعداد کا تذکرہ نہیں ہے، لہذا دو افراد بھی ہوں تو ایک اذان
واقامت کہے اور دوسرا خطبہ و امامت کے فرائض سر انجام دے، کیونکہ شریعت اسلامیہ نے
جمعہ کے لیے کسی خاص تعداد کی شرط نہیں لگائی۔ اور جب مسجد میں جانا نہایت مشکل ہو تو اپنے ڈیرے، گھر اور باغ وکھیتی
میں بھی اہل ایمان جمعہ کا فریضہ ادا کرسکتے ہیں جیسا کہ سیدنا انس بن مالک رضی
اللہ عنہ کرتے رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں
کورونا کی وجہ سے دنیا لاک ڈاؤن ہوتی جا رہی ہے، اور مساجد جانے سے بھی اہل ایمان
کو روک دیا گیا ہے، تو ایسے میں انکے لیے جمعہ اپنے گھر ادا کرلینا بالکل جائز و
درست عمل ہے۔ تاہم جو رخصت پہ عمل کرتے ہوئے گھر میں ظہر کی نماز ادا کر لے تو وہ
بھی درست ہے، کیونکہ خوف ومرض کا عذر اسکے پاس موجود ہے، اور وہ لاچار بھی ہےکہ
مسجد جانا نہ جانا اسکے اختیار میں نہیں رہا۔ هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم
إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم وصلى الله على نبينا محمد وآله وبارك وسلم | ||
|
اضافی لنکس | ||||
لنک کا عنوان | سماعت/مشاہدہ فرمائیں | ڈاؤنلوڈ |


مقالہ گزشتہ | مقالات متشابہہ | مقالہ آئندہ |




