میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
صدقہ فطر کی قیمت ادا کرنا
سوال
کیا عہد صحابہ و تابعین میں صدقہ فطر کی قیمت ادا کرنا ثابت ہے؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
رسول اللہ ﷺ کے دور مسعود اور اسکے بعد صحابہ و تابعین کے ادوار مبارکہ میں اجناس ہی بطور قیمت استعمال ہوتی تھیں۔ درہم و دینار تھے تو وہ بھی سونے اور چاندی کی جنس سے ہی بنے ہوئے۔ جس طرح آج پیپر کرنسی, یا چپ کرنسی, یا الیکٹرانک کرنسی کا دور ہے اسکا تصور بھی اس زمانہ میں موجود نہ تھا۔ وہ لوگ اجناس کا ہی تبادلہ کرتے تھے۔ کبھی غلہ واناج کا آپس میں تبادلہ ہوتا کبھی اناج کا سونے چاندی کے ساتھ تبادلہ۔ اور اسلام میں یہی اصل کرنسی ہے, جو ڈی ویلیو نہ ہوسکے۔ مروجہ پیپر کرنسی وغیرہ تو اصل زر نہیں ہیں بلکہ یہ مالیت کی رسیدیں ہیں, شرعی طور پہ انہیں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اس وقت یہود کی سازشوں کی نتیجہ میں پوری دنیا اس بے قیمت کرنسی کے جال میں پھنس چکی ہے۔ اور مجبورا تمام تر لوگ اسے استعمال کر رہے ہیں۔
اس وقت جو بھی شخص کوئی بھی جنس لے کر بازار جاتا اسے اس جنس کے صحیح دام ملتے اور اسکے عوض مناسب مقدار میں چیز مل جاتی ۔ لیکن عصر حاضر میں چونکہ بارٹر سسٹم (اجناس کا تبادلہ) تقریبا ختم ہو چکا ہے اور ہر شے کو روپے کے عوض ہی بیچا یا خریدا جاتا ہے , تو آج اگر کوئی مسکین جسے آپ جنس صدقہ فطر میں ادا کریں , اسکے پاس وہ جنس پہلے سے ہی وافر مقدار میں موجود ہو اور وہ اسے بیچنے کے لیے مارکیٹ کا رخ کرے تو اسے اس جنس کی کم بلکہ کم ترین قیمت ملتی ہے۔ تو ایسے میں اگر آپ خود اس مسکین کے وکیل بن جائیں اور اسے اسی جنس کی بہتر بلکہ بہترین قیمت ادا کر دیں تاکہ وہ اپنی دیگر حوائج ضروریہ پوری کر سکے , تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ اسلام میں کسی کا وکیل بننا یا کسی کو اپنا وکیل بنانا مستحسن امر ہے۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-
الثلاثاء PM 02:25
2022-02-08 - 592