میلنگ لسٹ

بريديك

موجودہ زائرین

باقاعدہ وزٹرز : 125126
موجود زائرین : 63

اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
278
فتاوى
56
مقالات
187
خطبات

تلاش کریں

البحث

مادہ

میت کے ہاں اجتماعی دعائے مغفرت

میت کے ہاں اجتماعی دعائے مغفرت

مارچ 2014کے ضیائے حدیث میں محترم جناب ابو عبد اللہ شعیب حفظہ اللہ نے ''تعزیت میں میت کے لیے دعائے مغفرت'' کے عنوان سے ایک جارحانہ مضمون تحریر فرمایا، اگر موصوف اسی عنوان کے تحت رہتے تو شاید ہمیں یہ چند سطور تحریر نہ کرنا پڑتیں ۔ لیکن ہمارے ممدوح نے دعائے مغفرت کے عنوان کے تحت ''میت کے ہاں جمع ہوکے ہاتھ اٹھا کر اجتماعی'' دعائے مغفرت کا جواز کشید کرنے کی سعی فرمائی ہے , جسے عموما "کلام بخشو " سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔لیکن ہماری سمجھ کے مطابق موصوف کے پیش کردہ دلائل سے '' مروجہ اجتماعی دعائے مغفرت'' ثابت نہیں ہوتی ۔ دلائل اور ان سے استنباط کے سوا موصوف نے مضمون میں جو باتیں شامل فرمائی ہیں ہم انکی جانب عبث ہونے کی بناء پر التفات نہیں کریں گے ۔
محترم نے اپنے موقف کے اثبات کے لیے تین دلائل پیش فرمائے ہیں:
پہلی دلیل:
ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے رجم ہو جانے کے بعد لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کچھ لوگوں کایہ کہنا تھا کہ اس کے گناہ نے اسے ہلاک کر دیا اور کچھ یہ کہہ رہے تھے کہ ماعز سے بہتر بھی بھلا کسی کی توبہ ہوگی ، کہ اس نے اپنے آپ کو سزا کے لیے پیش کر دیا ۔
ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُمْ جُلُوسٌ، فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ: اسْتَغْفِرُوا لِمَاعِزِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: فَقَالُوا: غَفَرَ اللہُ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ تَابَ تَوْبَۃً لَوْ قُسِمَتْ بَیْنَ أُمَّۃٍ لَوَسِعَتْہُمْ

پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور لوگ بیٹھے ہوئے تھے ، آپﷺ نے سلام کہا پھر بیٹھ کر فرمانے لگے ماعز بن مالک کے لیے استغفار کرو تو سب نے کہا : اللہ ماعز بن مالک کو معاف فرمائے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے ایک امت میں بھی تقسیم کر دیا جائے تو انہیں کافی ہو جائے گی ۔

(صحیح مسلم :1695)


یعنی رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان مختلف فیہ مسئلہ کو حل فرما دیا کہ اسکی غلطی نے اسے ہلاکت میں نہیں ڈالا بلکہ اسکی توبہ اعلی ترین توبہ ہے لہذا تم بھی اسکے لیے استغفار کرو تو صحابہ بلا تاخیر فورا ہی کہہ دیا کہ اللہ اسے بخشے ۔
اس حدیث میں نہ تو مروجہ اجتماعی دعاء کا ثبوت کہ ایک شخص دعاء کروائے اور باقی سب اس کی دعاء پر آمین کہیں ۔ اور نہ ہی ہاتھ اٹھانے کا کوئی اشارہ ہے، اور نہ ہی میت کے گھر اکٹھ کا کوئی تذکرہ ۔ جبکہ اسکے برعکس حدیث مبارکہ میں یہ بات واضح ہے کہ جب لوگ کسی فوت شدہ کا تذکرہ کریں تو اہل بصیرت پر لازم ہے کہ لوگوں کو اسکے لیے دعائے مغفرت کا کہیں ۔ اور اس حدیث پر بحمد اللہ تعالی تمام تر اہل الحدیث علماء وعوام کا عمل ہے ۔ کہ وہ بالکل اسی طرح مختصر الفاظ میں دعائے مغفرت کر دیتے ہیں جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کی ۔اور یہ کام تعزیت کے وقت بھی ہوتا ہے اور جب بھی اسکا ذکر خیر ہو اس طرح کے دعائیہ جملے کہے جاتے ہیں ، مثلا : اللہ اس پر رحم فرمائے ، اللہ بخشے ، وغیرہ ۔اور اس قسم کے دعائیہ کلمات ہاتھ اٹھائے بغیر کہے جاتے ہیں ۔ اور سبھی کہتے ہیںیا پھر کسی ایک کے کہنے پر باقی آمین کہہ کر اس دعاء میں شامل ہو جاتے ہیں ۔
الغرض دعاء کا وہ منظر جو موصوف نے مضمون کے آخر میں لکھوی خاندان کے ایک بزرگ کا واقعہ بیان کرکے پیش کیا ، جسے اہل علم بدعت کہتے چلے آئے ہیں، وہ اس حدیث سے قطعا ثابت نہیں ہوتا ۔
پھر موصوف نے اس پہلی حدیث کے بارہ میں اس بات کے رد میں کہ اس حدیث میں میت کے گھر میں جمع ہونے کا کوئی تذکرہ یا ثبوت نہیں ، کافی گرم گرم باتیں تحریر فرمائیں کہ ایسا کیوں نہیں ہوسکتا ۔ تو اس بارہ میں عرض ہے کہ میت کے گھر جمع ہو کر بیٹھنا شریعت اسلامیہ میں حرام ہے ۔
سیدنا جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
کُنَّا نَعُدُّ الِاجْتِمَاعَ إِلَی أَہْلِ الْمَیِّتِ وَصَنِیعَۃَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِہِ مِنَ النِّیَاحَۃِ

ہم میت کو دفن کر دینے کے بعد اہل میت کے ہاں جمع ہونے اور( ان جمع شدہ لوگوں کے لیے) کھانا پکانے کو نوحہ میں سے شمار کرتے تھے ۔

(مسند احمد ، ط الرسالۃ :6905)


اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اصحاب رسول کا مذکورہ بالا اجتماع میت کے گھر نہ تھا ۔
دوسری دلیل
ابو عامر رضی اللہ عنہ غزوہ اوطاس کے امیر تھے ،انہیں تیر لگا جس سے وہ نڈھا ل ہوگئے تو انہوں نے ابو موسی رضی اللہ عنہ کو کہا کہ نبیﷺ کو میرا سلام کہنا اور میرے لیے دعائے مغفرت کی درخواست کرنا ، اسکے کچھ ہی بعد وہ خالق حقیقی سے جاملے ۔ ابو موسی عبد اللہ بن قیس رضی اللہ عنہ جب واپس آئے تووہ نبیﷺ کے پاس گئے آپ ایک گھر میں کھجور سے بُنی چارپائی پرتشریف فرما تھے ۔ چارپائی پر بستر بچھا ہوا تھا اور آپﷺ کی کمر اور پہلوؤں پر کھجور کی رسیوں کے نشانات تھے۔ انہوں نے ابو عامر کی خبر دی اور انکے دعائے مغفرت کی درخواست بھی پیش فرمائی
فَدَعَا بِمَاء ٍ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ فَقَالَ: اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِعُبَیْدٍ أَبِی عَامِرٍ. وَرَأَیْتُ بَیَاضَ إِبْطَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّہُمَّ اجْعَلْہُ یَوْمَ القِیَامَۃِ فَوْقَ کَثِیرٍ مِنْ خَلْقِکَ مِنَ النَّاسِ. فَقُلْتُ: وَلِی فَاسْتَغْفِرْ، فَقَالَ: اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللَّہِ بْنِ قَیْسٍ ذَنْبَہُ، وَأَدْخِلْہُ یَوْمَ القِیَامَۃِ مُدْخَلًا کَرِیمًا

تو نبی کریمﷺ نے پانی منگوایا اور اس سے وضوء فرمایا پھر کچھ دیر بعد آپﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور کہا اے اللہ ابو عامر عبید کو معاف فرما دے ۔ ابو موسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کے بغلوں کی سفیدی دیکھی ، پھر کچھ دیر بعد آپﷺ نے فرمایا اللہ قیامت کے دن اسے اپنی مخلوق میں سے بہت سے لوگوں پر فوقیت عطاء فرما ۔ تو میں نے عرض کیا اور میرے لیے بھی استغفار فرما دیں تو آپﷺ نے فرمایا : اے اللہ عبد اللہ بن قیس کے گناہ معاف فرما اور اسے روز قیامت عزت والی جگہ میں داخل فرما۔

(بخاری:4323، مسلم : 2498)

یعنی عبد اللہ بن قیس رضی اللہ عنہ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو عامر رضی اللہ عنہ کی دعائے مغفرت کی درخواست پیش فرمائی تو آپﷺ نے انکے لیے ہاتھ اٹھا کر دعاء کی اور پھر اسکے بعد مزید دعاء بھی فرمائی ۔ اور پھر عبد اللہ بن قیس ابو موسی رضی اللہ عنہ نے اپنے لیے دعاء کا کہا تو آپﷺ نے انکے لیے بھی دعاء فرما دی ۔
اس حدیث مبارکہ میں ہاتھ اٹھا کر دعاء مانگنے کا ذکر تو ہے لیکن میت کے گھر جمع ہونے کا یا اجتماعی دعاء کا کوئی تذکرہ نہیں ! جسے موصوف ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔بلکہ اسکے برعکس یہ ذکر ہے کہ میت کا ولی یا قاصد خود نبی کریمﷺ کے پاس پہنچا ہے اور دعاء کی درخواست کی ہے، تو آپﷺ نے ہاتھ اٹھا کر دعاء فرما دی ۔
اوربحمد اللہ تعالی اس حدیث پر بھی اہل الحدیث علماء وعوام کا من وعن عمل ہے ۔ کہ جب بھی کوئی دعاء کی درخواست کرتا ہے ، اگر مناسب ہو تو اسکے لیے اسی وقت دعاء کر دی جاتی ہے ۔ ایسے ہی میت کے لیے بھی جب کوئی دعائے مغفرت کا کہے تو اسکے لیے بھی ہاتھ اٹھا کر دعاء کی جاتی ہے ۔
یاد رہے کہ دعاء کے مطالبہ پر فورا ہی دعاء کردینا ضروری نہیں ہے اس میں تاخیر بھی کی جاسکتی ہے ۔ جیسا کہ اسی حدیث سے واضح ہے کہ نبی کریمﷺ نے دعاء کے مطالبہ کے بعد فورا ہی ہاتھ نہیں اٹھا لیے بلکہ کچھ دیر بعد ہاتھ اٹھائے ۔کیونکہ لغت عرب میں ''ف'' تعقیب مع الوصل اور ''ثم'' تعقیب مع التراخی کے لیے آتا ہے، اور یہاں بھی لفظ ''ثم'' استعمال کیا گیا ہے ، جسکا معنی 'کچھ دیر بعد' بنتا ہے ۔ اگر لفظ 'ف' مستعمل ہوتاتو معنی بنتا 'فورا بعد'۔
رہا یہ سوال کہ میت کے گھر میں ایسا کیوں نہیں تو اسکا جواب سابقہ سطور میں گزر چکا ہے کہ میت کے گھر میں جمع ہونا اور ان جمع شدہ لوگوں کے لیے کھانا تیارکرنا نوحہ میں سے ہے جسے شریعت اسلامیہ نے حرام قرار دیا ہے ۔
الغرض اس روایت سے بھی موصوف جس مروجہ بدعی اجتماعی دعاء کو ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ ثابت نہیں ہوتی ! ۔ کیونکہ یہ حدیث نہ تو اجتماعی دعاء پر دلالت کرتی ہے اور نہ ہی میت کے گھر اکٹھ پر اس میں کوئی دلیل ہے ۔جبکہ ان دونوں باتوں کے برعکس یہ حدیث انفرادی دعاء اور غیر میت کے گھر ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔
تیسری دلیل
جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انکے گھر تشریف لے گئے آپﷺ نے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں بند فرمائیں اور فرمایا کہ جب روح قبض ہوتی ہے تو آنکھیں اسکا پیچھا کرتی ہیں ۔ یہ بات سن کرانکے گھر والے چیخنے لگے تو نبیﷺ نے فرمایا اپنے لیے بھلائی ہی مانگو، کیونکہ جوکچھ بھی تم کہتے ہو ، فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں ۔ پھر آپﷺ نے فرمایا

اللہُمَّ اغْفِرْ لِأَبِی سَلَمَۃَ، وَارْفَعْ دَرَجَتَہُ فِی الْمَہْدِیِّینَ، وَاخْلُفْہُ فِی عَقِبِہِ فِی الْغَابِرِینَ، وَاغْفِرْ لَنَا وَلَہُ یَا رَبَّ الْعَالَمِینَ، اللہُمَّ افْسَحْ فِی قَبْرِہِ وَنَوِّرْ لَہُ فِیہِ 

اے اللہ ابو سلمہ کو معاف فرما دے ، اور ہدایت یافتہ لوگوں میں اسے بلند مقام عطا فرما ، اور اسکے بعد اسکے اہل وعیال میں اسکا خلیفہ بن جا، اوراے رب العالمین اسے اور ہمیں معاف فرما دے ، اے اللہ اسکی قبر کو کشادہ فرما اور اسکے لیے اس میں روشنی کر دے ۔

(صحیح مسلم :920)

اس حدیث مبارکہ میں بھی نہ تو ہاتھ اٹھانے کا کوئی تذکرہ ہے اور نہ ہی اجتماعی دعاء کا کوئی ثبوت ۔ صرف اتنا ہے کہ آپﷺ نے اہل میت کو جزع فزع کرنے سے منع کیا اور اچھی دعاء کرنے کا کہا اور خود بھی میت کے لیے دعاء فرمائی ۔
اور بحمد اللہ تعالی وتوفیقہ اس حدیث پر بھی من وعن تمام تر اہل الحدیث عوام اور علماء کا عمل ہے ۔ کہ جب بھی کسی میت کے گھر پہنچتے ہیں ، اسکی آنکھیں اگر کھلی ہوں تو بند کر دی جاتی ہیں ، جزع فزع کرنے والوں کو روکا جاتا ہے ، اور میت کے لیے بخشش ورحمت کی دعاء کی جاتی ہے ۔لیکن نہ جانے موصوف کوان مسکینوں پر کیا غصہ تھا جو اسی مضمون میں نکال دیا ۔
حاصل بحث
میت کے لیے دعاء مغفرت کرنا ثابت ہے ، اور یہ دعائے مغفرت ورحمت میت کے گھر بھی کی جاسکتی ہے اور باہر بھی ۔ اور میت کے لیے دعاء مغفرت کی درخواست پر ہاتھ اٹھا کر بھی دعاء کی جاسکتی ہے ۔ لیکن میت کے گھر جمع ہونا ، اور اجتماعی دعاء کرنا ، کتاب وسنت سے ثابت نہیں، بلکہ بدعت ہے ۔

  • الاربعاء PM 11:54
    2022-03-09
  • 2596

تعلیقات

    = 6 + 9

    /500
    Powered by: GateGold