میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی عمر پر اعتراض کا جواب
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی عمر پر اعتراض کا جواب
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام على سید الأنبیاء والمرسلین ، أما بعد !
ام المؤمنین، صدیقہ بنت صدیق، محبوبہء رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم ، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے بارہ میں خود فرماتی ہیں :
تَزَوَّجَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَنَزَلْنَا فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ خَزْرَجٍ فَوُعِكْتُ فَتَمَرَّقَ شَعَرِي فَوَفَى جُمَيْمَةً فَأَتَتْنِي أُمِّي أُمُّ رُومَانَ وَإِنِّي لَفِي أُرْجُوحَةٍ وَمَعِي صَوَاحِبُ لِي فَصَرَخَتْ بِي فَأَتَيْتُهَا لَا أَدْرِي مَا تُرِيدُ بِي فَأَخَذَتْ بِيَدِي حَتَّى أَوْقَفَتْنِي عَلَى بَابِ الدَّارِ وَإِنِّي لَأُنْهِجُ حَتَّى سَكَنَ بَعْضُ نَفَسِي ثُمَّ أَخَذَتْ شَيْئًا مِنْ مَاءٍ فَمَسَحَتْ بِهِ وَجْهِي وَرَأْسِي ثُمَّ أَدْخَلَتْنِي الدَّارَ فَإِذَا نِسْوَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فِي الْبَيْتِ فَقُلْنَ عَلَى الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ وَعَلَى خَيْرِ طَائِرٍ فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِنَّ فَأَصْلَحْنَ مِنْ شَأْنِي فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضُحًى فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ
جب میں چھ سال کی تھی تو نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی ، پھر ہم مدینہ میں آئے اور بنی حارث بن خزرج میں ہم نے قیام کیا ، یہاں آکر مجھے بخار چڑھا اور اسکی وجہ سے میرے بال گرنے لگے ، پھر اسکے بعد کندھوں تک میرے بال خوب بڑھ گئے ، ایک دن میری والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا تشریف لائیں جبکہ میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی ، انہوں نے مجھے بلایا تو میں انکے پاس گئی ، مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ میرے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہیں ، انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر گھر کے دروازہ کے پاس کھڑا کر دیا اور میرا سانس پھولا جار ہا تھا ، کچھ دیر بعد جب میرا سانس ٹھہرا تو انہوں نے تھوڑا سا پانی لے کر میرے منہ اور سر پر پھیرا ۔ پھر گھر کے اندر مجھے لے گئیں ۔ وہاں انصار کی چند عورتیں موجود تھیں ، جنہوں نے مجھے دیکھ کر خیر وبرکت کی دعاء دی ، میری والدہ نے مجھے انکے حوالے کر دیا اور انہوں نے میری آرائش وزیبائش کی ، اسکے بعد اچانک دن چڑھے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو انہوں نے مجھے آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا ، ان دنوں میں نو سال کی تھی۔
[صحیح بخاری کتاب المناقب باب تزویج النبی صلى اللہ علیہ وسلم عائشۃ ح ۳۸۹۴]
منکرین حدیث کا ایک بہت بڑا طبقہ اپنی علمی کم مائیگی کی بناء پر ان احادیث صحیحہ پر زبان طعن دراز کرتا ہے جن میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر بوقت رخصتی نو (۹) سال بیان کی گئی ہے ۔ اور انکا یہ اعتراض کسی اصول کی بناء پر نہیں اور نہ ہی اسکی بنیاد کوئی ’’علم‘‘ ہے ۔ بلکہ صرف اور صرف اپنی عقل کوتاہ پر بنیاد رکھ کر انہوں نے ان احادیث صحیحہ کو طعن کا نشانہ بنایا ہے ، کہ اتنی کم عمر میں نکاح اور پھر رخصتی کیسے ممکن ہے ؟عقل اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ نو سالہ بچی کے ساتھ مباشرت کی جائے ، اور نہ ہی انکے بقول شرع میں اس بات کی رخصت ہے ، اسکے ساتھ ساتھ وہ بزعم خود یہ بھی سمجھے بیٹھے ہیں کہ نو (۹) سال کی عمر میں بچی جوان نہیں ہوسکتی ، اور قبل از بلوغت عورت کے ساتھ نکاح ، و مباشرت عقل وشرع بالخصوص قرآن حکیم کے خلاف ہے ۔
اس بات کے دلائل بھی ہماری نظر میں ہیں کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی جب رخصتی ہوئی تو وہ سن بلوغت کو پہنچ چکی تھیں ، اسکے علاوہ ایسی مثالیں بھی زیر نظر ہیں کہ کچھ خواتین کا نکاح نو سال کی عمر میں ہوا اور اسکے سال بعد اللہ نے انہیں اولاد جیسی نعمت سے بھی نواز دیا ۔ لیکن صرف نظر اس بات سے کہ اس عمر میں عورت کا بالغ ہونا ممکن ہے یا نہیں ، اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نو سال کی عمر بالغ ہو چکی تھیں یا نہیں ، ہم بحث کو ایک کلی قاعدہ اور اصول پر مرتکز کرتے ہیں کہ آیا قبل از بلوغت نکاح و رخصتی و مباشرت کی اجازت اللہ رب العالمین نے دی ہے یا نہیں ! جب یہ بات ثابت ہو جائے کہ قبل از بلوغت بھی عورت سے نکاح کیا جاسکتا ہے اور ہمبستری بھی کی جاسکتی ہے تو اس بات کی تحقیق کی ضرورت ہی نہیں کہ نو سال میں کوئی بالغہ ہوئی یا نہیں !
اللہ رب العالمین نے قرآن مجید فرقان حمید میں طلاق یافتہ عورتوں کی عدت مختلف اعتبارات سے مختلف بیان فرمائی ہے ۔اگر تو کسی عورت کو نکاح کے بعد طلاق دے دی گئی ہے اور رخصتی نہیں ہوئی یا رخصتی بھی ہوئی ہے لیکن ابھی تک انکے خاوندوں نے انکے ساتھ ہمبستری نہیں کی اور پہلے ہی طلاق دے دی ہے تو ایسی عورتوں پر کوئی عدت نہیں ہے وہ طلاق کے فورا بعد چاہیں تو اسی دن ہی کسی بھی دوسرے مرد سے نکاح کر سکتی ہیں :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا
" اے اہل ایمان جب تم مؤمنہ عورتوں سے نکاح کرو اور انہیں چھونے (ہمبستری کرنے ) سے پہلے ہی طلاق دے دو تو تمہاری خاطر ان کے ذمہ کوئی عدت نہیں ہے ۔ "
[الأحزاب : 49]
اور وہ عورتیں جنہیں حیض آتا ہے ان کی عدت تین حیض متعین کی گئی ہے :
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوَءٍ
" اور طلاق یافتہ عورتیں تین حیض تک انتظار کریں (یعنی عدت گزاریں ) "
[البقرة : 228]
اور وہ خواتین جنہیں حیض نہیں آتا:
اگر تو حمل کی وجہ سے حیض کی بندش ہے تو انکی عدت وضع حمل ہے۔
اور اگر وہ بانجھ ہو چکی ہیں یا ابھی انہیں حیض آنا شروع ہی نہیں ہوا یعنی نابالغ ہیں اور انہیں طلاق دے دی گئی ہے تو انکی عدت تین ماہ ہے:
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ
" اور وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں تو انکی عدت تین ماہ ہے اور ان عورتوں کی بھی جنہیں ابھی حیض شروع نہیں ہوا ، اور حمل والی خواتین کی عدت وضع حمل ہے ۔"
[الطلاق : 4]
اللہ رب العالمین کے اس فرمان کی روشنی میں یہ بات نہایت ہی آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ عورت اگر نابالغ ہو تو بھی اس سے نکاح کیا جاسکتا ہے ، رخصتی ہوسکتی ہے ، خاوند اس سے ازدواجی تعلقات قائم کرسکتا ہے ۔ کیونکہ ازوداجی تعلقات قائم کرنے سے پہلے ہی اگر کوئی شخص اپنی منکوحہ کو طلاق دے دے تو اس پر عدت نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالى کے فرمان سے یہ بات واضح کی جاچکی ہے ۔اور اس آخری آیت میں اللہ تعالى نے ان عورتوں کی عدت بیان کی ہے جنہیں حیض نہیں آیا اور طلاق دے دی گئی ، اور یہ بات تو ہر کہہ ومہ کو علم ہے کہ طلاق صرف اسے ہی دی جاسکتی ہے جس سے نکاح کیا گیا ہو ، غیر منکوحہ عورت کو طلاق دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
اور وہ عورت جسے طلاق دے دی گئی جبکہ اسے ابھی حیض آیا ہی نہیں ہے یعنی وہ بالغ ہوئی ہی نہیں ہے تو اسے تین ماہ تک عدت گزارنے کا حکم دیا جا رہا ہے ، جبکہ غیر مدخول بہا عورت کے لیے عدت ہے ہی نہیں ، تو اس سے یہ بات واضح طور پر سمجھ آتی ہے کہ یہ ایسی نابالغ عورت کی عدت ہے جس سے بلوغت سے قبل ہی نکاح کیا گیا اور ازدواجی تعلقات بھی قائم کیے گئے اور قبل ازبلوغت ہی اسے طلاق بھی دے دی گئی ۔اگر قبل از بلوغت عورت سے نکاح کرنا اور ازدواجی تعلقات قائم کرنا ناجائز ہوتا تو اللہ سبحانہ وتعالى کبھی اس قسم کی عورت کے لیے طلاق کی عدت مقرر نہ فرماتے ۔جب اللہ تعالى کے فرمان ، قرآن مجید فرقان حمید سے یہ بات ثابت ہوچکی کہ نابالغہ عورت سے نکاح کیا جاسکتا ہے ، اس سے ازدواجی تعلقات قائم کیے جاسکتے ہیں ، اور اگر اسے طلاق ہو جائے تو اسے عدت گزارنے کا بھی حکم ہے ۔ تو کسی بھی ایسے شخص کے لیے جو اللہ اور اسکے رسول صلى اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہو ، قرآن کو سچی کتاب مانتا ہو ، یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کہتا پھرے کہ بلوغت سے قبل نکاح ورخصتی عقل کے خلاف ہے !!!
اور جب قبل ازبلوغت نکاح و رخصتی کا جواز قرآن مجید فرقان حمید میں موجود ہے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی کمسنی میں شادی اور رخصتی پر اعتراض کرنا کیونکر روا ہوگا ۔جبکہ نو سال کی عمر عورتوں کے بالغ ہونے کے بہت سے دلائل موجو د ہیں اور صرف عورتوں کے ہی نہیں بلکہ مردوں کا بھی اس عمر میں بالغ ہو جانا بعید نہیں ہے بلکہ ایسا ہوا ، اور اصحاب رسول صلى اللہ علیہ وسلم میں اسکی مثالیں موجود ہیں ۔
اللہ تعالى حق کوسمجھنے اور اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے۔
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا إتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه آمين
-
الثلاثاء AM 11:12
2022-06-07 - 1360