میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
آداب تلاوت
آداب تلاوت
محمد رفیق طاہر، عفا اللہ عنہ
www.rafiqtahir.com
تلاوت قرآن کا اجر:
قرآن مجید فرقان حمید کی تلاوت افضل ترین عبادات میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس کتابِ عزیز کے ساتھ تعلق جوڑنے اور اسکی تلاوت کرتے رہنے کی ترغیب دی ہےاور اسکا بہت بڑا ثواب بیان کیا ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الَّذِي يَقْرَأُ القُرْآنَ، وَهُوَ حَافِظٌ لَهُ مَعَ السَّفَرَةِ الكِرَامِ البَرَرَةِ، وَمَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ، وَهُوَ يَتَعَاهَدُهُ، وَهُوَ عَلَيْهِ شَدِيدٌ فَلَهُ أَجْرَانِ
جوشخص قرآن کی تلاوت کرتا ہے اوروہ حافظ ہے تو وہ باعزت نیک پیغام رساں فرشتوں کے ساتھ ہوگا۔ اور جو قرآن بار بار پڑھتا اور جبکہ وہ اسکے لیے دشوار ہے تو اسکے لیے دو اجر ہیں۔
صحیح البخاری: 4937
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ الْأُتْرُجَّةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ، وَطَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ التَّمْرَةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَلَا رِيحَ لَهَا، وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ، رِيحُهَا طَيِّبٌ، وَطَعْمُهَا مُرٌّ، وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ طَعْمُهَا مَرٌّ، وَلَا رِيحَ لَهَا
اس مؤمن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے سنگترے کی طرح ہے جسکی خوشبو بھی اچھی ہے اور ذائقہ بھی عمدہ ہے۔ اور جو مؤمن قرآن نہیں پڑھتا اسکی مثال کھجور کی طرح جسکا ذائقہ تو اچھا ہے لیکن اسکی خوشبو نہیں ہے۔ اور جو فاجر قرآن پڑھتا ہے اسکی مثال پھول کی طرح ہے کہ اسکی خشبو اچھی ہے لیکن ذائقہ کڑوا ہے۔ اور جو فاجر قرآن نہیں پڑھتا اسکی مثال کوڑتمے کی طرح ہے کہ اسکا ذائقہ کڑوا ہے اور اسکی خوشبو بھی نہیں ہے۔
سنن أبی داود: 4892
تلاوت کے بنیادی آداب:
اخلاص نیت:
کسی بھی عبادت کے لیے اخلاص نیت پہلی شرط ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالى کا ارشاد گرامی ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ
اور انھیں اسی بات کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت اسکے لیے دین کو خالص کرنے والے بن کر یکسو ہو کر کریں۔
سورۃ البینہ: 5
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا:
إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى
یقینا اعمال کا دارو مدار تو نیتوں پر ہی ہے، اور یقینا ہر بندے کو وہی ملے گا جسکی اس نے نیت کی۔
صحیح البخاری: 1
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جن لوگوں کے خلاف فیصلہ سنایا جائے گا ان میں سے ایک وہ شخص ہوگا جس نے علم سیکھا اور سکھایا اور قرآن پڑھا، اسے لایا جائےگا، اسےاللہ تعالى اپنی نعمتیں یاد کروائے گا، تو وہ تسلیم کرے گا، اللہ پوچھے گا پھر تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا کہ میں نے علم سیکھا اور سکھایا اور تیری خاطر قرآن پڑھا اللہ تعالى فرمائیں گے:
كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِيُقَالَ: عَالِمٌ، وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ: هُوَ قَارِئٌ، فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ
تو نے جھوٹ کہا! تونے تو علم اس لیے سکھا تھا کہ کہا جائے ’’بڑا عالم ہے‘‘ اور قرآن اس لیے پڑھا تھا کہ کہا جائے ’’بڑا قاری ہے‘‘، سو وہ تو کہہ دیا گیا۔ پھر اسکے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا حتى کہ اسے جہنم میں گرا دیا جائے گا۔
صحیح مسلم: 1905
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم قرآن پڑھ رہے تھے، ہم میں اعرابی بھی تھے اور اعجمی بھی ، تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اقْرَءُوا فَكُلٌّ حَسَنٌ وَسَيَجِيءُ أَقْوَامٌ يُقِيمُونَهُ كَمَا يُقَامُ الْقِدْحُ يَتَعَجَّلُونَهُ وَلَا يَتَأَجَّلُونَهُ
پڑھو، سب اچھا ہے، اور عنقریب ایسی قومیں آئیں گی جو اس (قرآن ) کو ایسے سیدھا کریں گے جیسا تیر سیدھا کیا جاتا ہے ، وہ اس کا اجر(دنیا میں) جلد ہی لینا چاہیں گے اور (آخرت تک) مؤخر نہیں کریں گے!
سنن ابی داود: 830
ترتیل:
دیگر عبادات کی طرح تلاوت قرآن کا طریقہ کار بھی رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے۔ قرآن پڑھنے کے نبوی طریقے کو مختصر ا ’’ترتیل‘‘ کہتے ہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالى نے نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کو جبریل امین کے ذریعہ قرآن ٹھہر ٹھر کر پڑھایا تھا:
وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا
اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھر کر پڑھا، خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا۔
سورۃ الفرقان: 32
یہاں ٹھہرنے سے مراد ایک تو وفقہ وقفہ سے 23 برس میں نازل ہونا ہے۔ اور دوسرا تلاوت کے دوران ٹھہرنا یعنی وقف کرنا بھی مراد ہے۔
اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کو ترتیل کے ساتھ یعنی ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھنے کاحکم دیا گیا :
وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا
اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھ۔
سورۃ المزمل: 4
نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے اللہ سبحانہ وتعالى کے اس حکم کے مطابق قرآن مجید ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کے دکھایا تاکہ امت کے لیے نمونہ بن جائے۔
ترتیل کا معنى:
قرآن مجید کو ترتیل سے پڑھنے کے حکم باری تعالى میں پانچ چیزیں شامل ہیں:
1۔ ٹھہر ٹھہر کر پورے غور و فکر کے ساتھ تلاوت کرنا۔:
سیدہ حفصہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں :
وَ كَانَ يَقْرَأُ بِالسُّوْرَةِ فَيُرَتِّلُهَا حَتّٰی تَكُوْنَ أَطْوَلَ مِنْ أَطْوَلَ مِنْهَا
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورت کی تلاوت کرتے اور اسے اتنا ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے کہ وہ اس سے لمبی سورت سے بھی لمبی ہو جاتی۔
صحيح مسلم:۷۳۳
2۔ہر لفظ الگ الگ کرکے پڑھنا:
یعلیٰ بن مملک نے ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت اور نماز کے متعلق سوال کیا، انھوں نے پہلے آپ کی رات کی نماز کا حال بیان کیا :
ثُمَّ نَعَتَتْ قِرَاءَتَهٗ فَإِذَا هِيَ تَنْعَتُ قِرَاءَةً مُّفَسَّرَةً حَرْفًا حَرْفًا
پھر ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت کی صفت بیان کی تو انھوں نے ایسی قراءت بیان کی جس کا ایک ایک حرف واضح کیا گیا تھا۔
جامع الترمذي: ۲۹۲۳ ، سنن النسائی: 1022
3۔ ہر آیت پرٹھہرنا :
بعض لوگ ایک ہی سانس میں وقف کے بغیر آیت کے ساتھ آیت ملائے جاتے ہیں اور اسے کمال سمجھتے ہیں، اور سننے والے بھی جتنی زیادہ آیات ایک سانس میں پڑھی جائیں اتنی زیادہ داد دیتے ہیں، حالانکہ یہ سنت کے خلاف ہے۔
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَطِّعُ قِرَاءَتَهُ يَقْرَأُ: {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} [الفاتحة: 2]، ثُمَّ يَقِفُ، {الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} [الفاتحة: 1]، ثُمَّ يَقِفُ، وَكَانَ يَقْرَؤُهَا: (مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ)
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم اپنی قراءت الگ الگ کرکے پڑھتے تھے ۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ}پڑھتے ، پھر وقف کرتے، پھر {الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} پڑھتے، پھر وقف کرتے، اور آپ (مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ) پڑھا کرتے تھے۔
جامع الترمذی: 2927
مسند احمد میں یہ روایت ان الفاظ سے ہے:
كَانَ يُقَطِّعُ قِرَاءَتَهُ آيَةً آيَةً
آپ صلى اللہ علیہ وسلم اپنی قراءت آیات کو جدا جدا کرکے (یعنی آیات پہ وقفہ کرکے) کرتے تھے۔
مسند أحمد: 26583
الغرض رسول اللہ علیہ وسلم کی تلاوت آیات پر وقف کرکے ہوا کرتی تھی، یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے رموز اوقاف آیت کے دائرہ کے متعلق یہ صراحت اکثر مصاحف میں لکھی ہوتی ہے کہ ’’یہ وقف تام کی علامت ہے‘‘ یعنی آیت بذاتِ خود علامت وقف ہے۔ اور یہ وقف النبی صلى اللہ علیہ وسلم ہے۔ جیسا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے واضح ہے۔
آج کل عموما قراء حضرات اس حوالے سے کوتاہی کا شکار ہیں۔ حتى کہ باقی تمام امور میں نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کو اسوہ حسنہ سمجھنے والے بھی تلاوت قرآن کے دوران آیات پہ وقف کرنے والے اسوہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم کو نجانے کیوں بھول جاتے ہیں۔ جبکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے دو یا زائد آیات کو ملا کر پڑھنا ثابت ہی نہیں ہے۔ آپکی سنت اور طریقہ آیات پہ وقف کرنا ہے اور یہ ترتیلِ قرآن میں شامل ہے۔ وخير الهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم۔
راقم الحروف نے ایک مرتبہ استاذ محترم حافظ عبد المنان نورپوری رحمہ اللہ سے ایک ہی سانس میں ایک سے زائد آیات تلاوت کرنے کے بارہ میں سوال کیا تو فرمانے لگے:
یہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم والا طریقہ نہیں، آپ صلى اللہ علیہ وسلم تو ہر ہر آیت پہ وقف کیا کرتے تھے۔
میں نے محافل حسن قراءت کے بارے میں پوچھا تو گویا ہوئے:
یہ محافل صحیح ہیں، بس قراء حضرات طریقہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم والا اپنا لیں، اور علماء کرام جو وہاں موجود ہوتے ہیں ، انہیں چاہیے کہ وہ اس طریقے سے منع کریں۔ لیکن وہ بولتے ہی نہیں، بلکہ سبحان اللہ ، ما شاء اللہ، کہتے رہتے ہیں۔
یہاں ایک جگہ پر میرا درس تھا ، وہاں قاری صاحب سے انہوں نے درس سے پہلے تلاوت کروائی، انہوں نے بھی اسی طرح پہلے ایک آیت پڑھی آرام سے، پھر دوسری، پھر تیسری، پھر دوبارہ شروع ہوئے اور ساری آیات ایک ہی سانس میں پڑھ دیں۔ لوگ ما شاء اللہ، سبحان اللہ کہتے رہے۔ اور جب میری باری آئی درس دینے کی، تو میں نے کہا: وضوء، نماز، حج، عمرہ، سبھی نبی صلى اللہ علیہ وسلم والا، کیونکہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم ہر چیز میں اسوہ حسنہ ہیں، تو کیا یہ قراءات اس سے مستثنى ہیں؟! یہ بھی تو نبی صلى اللہ علیہ وسلم والی ہونی چاہیے۔ ’’لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ‘‘ (تمہارے لیے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم میں بہترین نمونہ ہے) ہے، یہ تو نہیں کہ ’’لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْ غَيْرِ التِّلَاوَةِ‘‘ يا ’’فِيْ غَيْرِالْقِرَاءَةِ‘‘ (تمہارے لیے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم میں بہترین نمونہ ہے، تلاوت یا قراءت کے سوا..!!!)۔ اور ساتھ بتایا کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم ہر آیت پہ وقف فرماتے تھے۔ تو بعد میں قاری صاحب فرمانے لگے ہمیں تو اس بات کا علم ہی نہیں تھا، اور نہ کسی نے ہمیں بتایا ہے۔
میں نے پھر سوال کیا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کیا ہوا اگر یہ طریقہ ثابت نہیں (منع بھی تو نہیں ہے)؟
حافظ صاحب رحمہ اللہ فرمانے لگے:
انہیں کہیں ساتواں ، چالیسواں اگر ثابت نہیں تو کیا ہوا؟ یہ بھی کر لیا کرو، بیس تراویح بھی ثابت نہیں تو کیا ہوا؟ پڑھ لیا کرو۔ یہ دو چار مثالیں دیں انہیں جلدی سمجھ آ جائے گی۔ ایسی مثالیں پیش کیا کرو جو یہ مانتے ہیں کہ ثابت نہیں، لیکن کرتے نہیں، بلکہ لاٹھی لے کر ان (کرنے والوں) کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ اور پوچھو کہ کیا ہوا؟!۔ انکا علاج یہی ہے۔
میں نے مزید پوچھا کہ مصری قاری بسا اوقات ایک ہی لمبی آیت پڑھتے ہیں لیکن زور لگا کر اور کھینچ کر؟
فرمایا:
یہ زور لگا لگا کر کھینچنے والا کام بھی ثابت نہیں۔ پہلے اسکا بہت رواج تھا، اب کم ہوگیا ہے۔ قاری ادریس عاصم صاحب اور کچھ دیگر نے آکر یہ زور والا کام تو کم کر دیا ہے۔
یہاں بڑی مسجد میں ایک قاری صاحب تھے، کانوں پر ہاتھ رکھ لیتے ، ہمیں تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ اب اسکا دماغ پھٹ چلا ہے!، اور ابھی پھٹا کہ پھٹا، اس نے اتنا زور لگانا، اسکا منہ لا ل سرخ ہو جاتا تھا۔ اب وہ والا طریقہ تو ختم ہوگیا ہے۔
(حافظ صاحب رحمہ اللہ سے یہ سوالات انکے گھر 22 شعبان 1431ھ کو ایک مجلس میں راقم نے پوچھے تھے)
4۔ حروف مدّہ کو لمبا کرکے پڑھنا:
قتادہ بن دِعامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے کہا:
«كَانَتْ مَدًّا»، ثُمَّ قَرَأَ: {بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} يَمُدُّ بِبِسْمِ اللَّهِ، وَيَمُدُّ بِالرَّحْمَنِ، وَيَمُدُّ بِالرَّحِيمِ
آپ صلى اللہ علیہ وسلم الفاظ کو لمبا کھنچ کر پڑھتے تھے۔ پھر انہوں نے بسم اللہ الرحمن پڑھی اور کہا کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم بسم اللہ کو بھی لمبا کھینچتے، الرحمن کو بھی لمبا کرتے اور الرحیم پہ بھی مد کرتے۔
صحیح البخاری: 5046
5۔ خوب صورت لہجے اور خوش آوازی سے پڑھنا:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَمْ يَأْذَنِ اللَّهُ لِشَيْءٍ مَا أَذِنَ لِلنَّبِيِّ أَنْ يَتَغَنَّى بِالقُرْآنِ
اللہ تعالى نے اپنے نبی کو کسی چیز کے لیے اس قدر اجازت نہیں دی جس قدر قرآن کریم کو خوش الحانی سے بآواز بلند پڑھنے کی اجازت دی ہے۔
صحيح البخاري: 5023
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ
جو شخص قرآن کو خوبصورت لہجے اور خوش آوازی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔
صحیح البخاري: ۷۵۲۷
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
زَيِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِكُمْ
قرآن کو اپنی آوازوں سے زینت دو۔
سنن أبی داود: 1468
یہ کل پانچ مطالب ترتیل قرآن کے حکم باری میں شامل ہیں اور یہی تلاوت قرآن کے اصل آداب ہیں۔ اور علم تجوید قرآن انہیں کے گرد گھومتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ ابن جزری رحمہ اللہ نے علم تجوید کو لازم قرار دیتے ہوئے فرمایا:
والأخذ بالتجويد حتم لازم من لم يجود القرآن آثم
لأنه به الإله أنزلَ وهكذا منه إلينا وصلَ
تجوید کا اہتمام کرنا حتمی اور لازمی ہے، جو کوئی قرآن تجوید سے نہیں پڑھتا وہ گہنگار ہے۔ کیونکہ اللہ تعالى نے قرآن ایسے ہی نازل کیا ہے اور نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی ہم تک پہنچا ہے۔
اس شعر کی ایک دوسری روایت بھی ہے جسے گوکہ محققین ترجیح نہیں دیتے لیکن اس میں قدرے وسعت بھی ہے اور معنى کا واضح تعین بھی وہ یہ ہے:
والأخذ بالتجويد حتم لازم من لم يصحح القرآن آثم
اور قرآن مجید کو عمدگی سے پڑھنا حتمی و لازمی ہے، جو قرآن درست نہ پڑھے وہ گہنگار ہے۔
اہل فن یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ یہاں گہنگار ہونے والی بات لحن جلی پہ ہے، لحن خفی معفو عنہ ہے۔ اور یہ حکم بھی صاحب استطاعت کے لیے ہے۔ کیونکہ تلاوت قرآن میں مشکل کا سامنا کرنے والے کے لیے دو اجر کا وعدہ کیا گیا ہے جیساکہ سابقہ سطور میں گزر چکا۔
اسی طرح تلاوت کے تینوں طریقے (تحقیق، حدر، تدویر) ترتیل میں شامل ہیں۔
تنبیہ بلیغ:
خوش الحانی سے پڑھتے ہوئے آواز کو ضرورت سے زیادہ بلند کرنا درست نہیں۔ بعض لوگ زور لگا کر چیخ چیخ کر پڑھنے کو خوش الحانی سمجھتے ہیں، جبکہ ایسا کرنے سے شریعت نے منع کیا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالى کا فرمان ہے:
وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا
اور اپنی نماز نہ بلند آوز سے پڑھ اور نہ اسے پست کر، اور اس کے درمیان کوئی راستہ اختیار کر۔
سورۃ بنی اسرائیل: 110
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ لَيْلَةً، فَإِذَا هُوَ بِأَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُصَلِّي يَخْفِضُ مِنْ صَوْتِهِ، قَالَ: وَمَرَّ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَهُوَ يُصَلِّي رَافِعًا صَوْتَهُ، قَالَ: فَلَمَّا اجْتَمَعَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «يَا أَبَا بَكْرٍ، مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تُصَلِّي تَخْفِضُ صَوْتَكَ»، قَالَ: قَدْ أَسْمَعْتُ مَنْ نَاجَيْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: وَقَالَ لِعُمَرَ: «مَرَرْتُ بِكَ، وَأَنْتَ تُصَلِّي رَافِعًا صَوْتَكَ»، قَالَ: فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوقِظُ الْوَسْنَانَ، وَأَطْرُدُ الشَّيْطَانَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا بَكْرٍ ارْفَعْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئًا»، وَقَالَ لِعُمَرَ: «اخْفِضْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئًا».
نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم ایک رات نکلے، تو انہوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پایا کہ وہ اپنی آواز بہت پست کر رہے تھے، اور عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو وہ اپنی آواز بہت اونچی کرکے نماز پڑھ رہے تھے۔ تو جب دونوں نبی صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوئے تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابو بکر! رضی اللہ عنہ میں آپکے پاس سے گزرا جبکہ آپ اپنی آواز پست کرکے نماز پڑھ رہے تھے۔ عرض کیا اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم جس سے میں مناجات کر رہا تھا ، اسے سنا رہا تھا۔ اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہا میں آپکے پاس سے گزرا جبکہ آپ آوزا بلند کرکے نماز پڑھ رہے تھے تو عرض کیا اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم میں سوئے ہوئے کو (اپنی آواز سے) جگا رہا تھا، اور شیطان کو بھگا رہا تھا۔ تو نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنی آواز کو کچھ بلند کر، اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہا اپنی آواز کچھ کم کر۔
سنن أبی داود: 1329
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ قاری کو مناسب آواز سے تلاوت کرنی چاہیے خواہ نماز میں ہو یا نماز کے علاوہ۔ اتنی پست آواز نہ ہو کہ سننے والوں تک بھی نہ پہنچ پائے، اور زیادہ بلند بھی نہ ہو، بلکہ’’وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا‘‘ کے مطابق درمیانی آواز سے تلاوت کرے۔اور آج کے اسپیکر کے دور میں بعض جگہوں پہ دیکھا گیا ہے کہ چھوٹی سی مسجد میں ایک ڈیڑھ صف نمازی ہوتے ہیں لیکن ائمہ مساجد اسپیکر لگا کر جماعت کروا رہے ہوتے ہیں حالانکہ انکی اپنی آواز اتنے نمازیوں تو نہایت واضح پہنچ سکتی ہے، تو یہ بھی مناسب نہیں۔ اسی طرح اسپیکر کی آواز کچھ جگہوں پہ ضرورت سے زیادہ بلند ہوتی ہے، یہ بھی نا مناسب ہے۔ واضح ہے کہ اسپیکر کے بغیر ہی اپنی آواز کو ضرورت سے زیادہ اونچا کرنا منع ہے، تو اسپیکر کا والیم زیادہ رکھنا بھی بطریق اولى منع ہے۔ پھر اسی طرح منہ کے سامنے مایک کی موجودگی میں تلاوت کے لیے پورا زور لگا دینا بھی غیر مناسب طرز عمل ، بلکہ شرعا ممنوع ہے۔
سیدنا ابو موسى اشعری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، تو جب ہم کسی وادی میں چڑھتے تو تکبیر وتہلیل کہتے، ہماری آواز یں بلند ہوئیں تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّكُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلاَ غَائِبًا، إِنَّهُ مَعَكُمْ إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ، تَبَارَكَ اسْمُهُ وَتَعَالَى جَدُّهُ
اے لوگو! اپنی جان پہ رحم کرو! تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے، وہ یقینا تمہارے ساتھ ہے، وہ خوب سننے والا، نہایت قریب ہے، اسکا نام بابرکت ہے، اور اسکی بزرگی بلند ہے۔
صحیح البخاری: 2992
لہذا قراء حضرات کو بھی خاص کر محافل حسن قراءت والوں کو اپنی جانوں پہ رحم کرنا چاہیے، اتنا زور نہ لگا یا کریں کہ دیکھنےوالے بھی ترس کھانے لگیں۔
تنبیہ ثانی:
محض حسن صوت کو بعض لوگوں نے آجکل معیار امامت قرار دے رکھا ہے، جبکہ یہ درست روش نہیں۔ امامت کے شریعت اسلامیہ نے خوش الحانی کو معیار نہیں بنایا بلکہ علم وفضل کو معیار قرار دیا ہے۔ اور خوش الحانی کو معیار امامت قرار دیے جانے پہ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم خوف کھاتے تھے اور فرماتے تھے:
وَنَشْوٌ يَتَّخِذُونَ الْقُرْآنَ مَزَامِيرَ يُقَدِّمُونَ الرَّجُلَ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ لَيْسَ بِأَفْقَهِهِمْ لاَ يُقَدِّمُونَهُ إِلاَّ لِيُغَنِّيَهُمْ بِهِ غِنَاءً.
اور ایسی نسل (سے ڈرتا ہوں) جو قرآن کو گانا بنا لیں گے، آدمی کو اپنے آگے کریں گے جو ان میں سے زیادہ فقیہ نہیں ہوگا، بلکہ اسے صرف اس لیے آگے کریں گے کہ وہ انہیں گا گا کر (قرآن) سنائے۔
المعجم الکبیر للطبرانی : 18/34
معلوم ہوا کہ امامت کے لیے اسے آگے کیا جائے جوزیادہ فقیہ ہو، نہ کہ محض خوش الحان۔
اضافی آداب:
ان اصل آداب کے ساتھ کچھ اضافی آداب بھی ہیں جنکا تعلق طرز ادا یا نطق و تلفظ سے نہیں ہے۔ وہ یہ ہیں:
باوضوء ہونا:
بہتر ہے کہ تلاوت کے وقت انسان باوضوء ہو۔ تاہم وضوء کے بغیر بھی تلاوت کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ شریعت اسلامیہ نے تلاوت کے لیے وضوء کو شرط نہیں قرار دیا۔ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں اللہ کا ذکر کر لیا کرتے تھے، خواہ وضوء سے ہوں یا نہ۔حتى کہ حالت جنابت میں بھی تلاوت قرآن ممنوع نہیں ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
«كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ اللهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ»
نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے تھے.
صحیح مسلم: ۳۷۳
ہر حالت میں حالت جنابت بھی شامل ہے اور حالت حدث (بے وضوء ہونے کی حالت) بھی۔ یہ حدیث عام ہے اور حالت جنابت یا حالت حدث کو اس سے مستثنى کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ہرقل کو جو خط لکھا اس میں دو آیات بھی تھیں جنہیں پڑھا گیا’’بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ‘‘ اور’’يَا أَهْلَ الكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ، أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ، فَإِنْ تَوَلَّوْا، فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ‘‘[آل عمران: 64]
صحیح البخاری: 2940
اور یہ بات معلوم ہے کہ اہل کفر غسل جنابت اور اسکے احکام سے نہ آشنا ہوتے ہیں اور نہ ہی جنابت سے پاک ہوتے ہیں۔
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
«كُنَّا نُؤْمَرُ أَنْ نَخْرُجَ يَوْمَ العِيدِ حَتَّى نُخْرِجَ البِكْرَ مِنْ خِدْرِهَا، حَتَّى نُخْرِجَ الحُيَّضَ، فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ، فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ، وَيَدْعُونَ بِدُعَائِهِمْ »
ہم حکم دی جاتی تھیں کہ عید کے دن ہم نکلیں حتى کہ کنواری لڑکیوں اور حیض والیوں کو بھی ہم نکالیں، تو وہ لوگوں کے پیچھے ہوتیں، اور انکی تکبیر کے ساتھ تکبیر کہتیں، اور انکی دعاء کے ساتھ دعاء مانگتیں.
صحیح البخاری: 971
اس حدیث میں بھی حائضہ خواتین کا دعاء اور ذکر کرنا واضح ہے۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب وہ حجۃ الوداع کے موقع پر حائضہ ہوگئیں تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا:
«فَإِنَّ ذَلِكِ شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَافْعَلِي مَا يَفْعَلُ الحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لاَ تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي»
یہ (حیض) ایسی شے ہے جسے اللہ تعالى نے بنات آدم پر لازم کر دیا ہے۔ سو جو کام حاجی کرتے ہیں وہ سب کرو، مگر بیت اللہ کا طواف نہ کرو، حتى کہ پاک ہو جاؤ۔
صحیح البخاری:305
بعض طرق میں یہ الفاظ بھی ہیں:
وَلَا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ
اور صفا مروہ کے درمیان سعی بھی نہ کرو۔
الاستذکار:جـ4 صـ369 (224)
اس حدیث میں بھی حائضہ کے لیے اللہ کا ذکر کرنے کی واضح دلیل ہے۔ کیونکہ حجاج کرام کا طواف و سعی کے سوا باقی مناسک میں کام ہی تلبیہ و ذکر ہے۔
جلیل القدر تابعی عکرمہ رحمہ اللہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے بارہ میں فرماتے ہیں:
أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ وِرْدَهُ وَهُوَ جُنُبٌ
وہ حالت جنابت میں بھی اپنی منزل پڑھا کرتے تھے۔
الأوسط لابن المنذر: 624
أبو مجلز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
دَخَلْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ لَهُ: أَيَقْرَأُ الْجُنُبُ الْقُرْآنَ؟ قَالَ: دَخَلْتَ عَلَيَّ وَقَدْ قَرَأْتُ سُبُعَ الْقُرْآنِ وَأَنَا جُنُبٌ
میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کیا جنبی قرآن پڑھ سکتا ہے؟ تو فرمانے لگے آپ میرے پاس آئے ہیں جبکہ میں نے حالت جنابت میں ہی قرآن کے ساتویں حصہ (ایک منزل) کی تلاوت کی ہے۔
الأوسط لابن المنذر: 625
امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عباس کا یہ موقف صحیح ثابت ہونے کا اشارہ دیا ہے۔
صحیح البخاری، قبل حدیث: 305
تعوذ :
بہتر ہے کہ تلاوت قرآن سے قبل اعوذ باللہ پڑھ لیا جائے۔ اللہ سبحانہ وتعالى کا ارشاد گرامی ہے:
فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
تو جب تو قرآن پڑھنے لگے تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کر لے۔
سورۃ النحل: 98
اللہ تعالى کا یہ حکم فرضیت و وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب و افضلیت کے لیے ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کبھی اعوذ باللہ پڑھے بغیر بھی تلاوت فرما لیا کرتے تھے۔
(مسند احمد: 18534)
البتہ افضل وبہتر یہی ہے کہ جب بھی تلاوت کا آغاز کیا جائے تعوذ سے کیا جائے، خواہ نماز کی ہر رکعت میں فاتحہ کی تلاوت ہو یا نماز کے علاوہ آغاز تعوذ سے کرنا بہتر اور افضل ہے، اور تعوذ ترک کر دینے پہ کوئی مؤاخذہ نہیں۔
تعوذ کے الفاظ:
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم تلاوت سے قبل یہ الفاظ کہتے:
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ، وَنَفْخِهِ، وَنَفْثِهِ
سنن ابی داود: 775
مختلف مواقع پہ تعوذ کے مختلف کلمات رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، تلاوت قرآن کے موقع پر مذکورہ بالا الفاظ آپ صلى اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے، اسکے علاوہ غصہ پہ قابو پانے کے لیے آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے تعوذ کے یہ کلمات سکھائے ہیں:
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
صحیح البخاری: 6115
اسی طرح دیگر کئی مواقع پہ تعوذ کے الگ الگ الفاظ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ تو جو الفاظ جس موقع پہ پڑھنا ثابت ہیں، اس موقع پہ وہی کلمات ادا کیے جائیں۔
بسملہ:
بسملہ یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ التوبہ کے سوا تمام تر سورتوں کے آغاز میں نازل ہوئی اور یہ انکی پہلی آیت ہے۔ لہذا مکمل سورت کی تلاوت بسملہ کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ جب سورۃ التوبہ کے سوا کسی بھی سورت کا آغاز کیا جائے تو بسملہ سے کیا جائے۔ خواہ سورۃ الفاتحہ ہو یا کوئی دوسری سورۃ۔
البتہ کسی بھی سورۃ کے درمیان سے اگر تلاوت کا آغاز کیا جائے تو وہاں بسم اللہ نہیں پڑھی جائے گی۔
سجدہ تلاوت:
دوران تلاوت آیات سجدہ پہ سجدہ کرنا بھی مستحب ہے۔ یہ بھی فرض یا واجب نہیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کبھی ان آیات پہ سجدہ کر لیا کرتے تھے اور کبھی نہیں کرتے تھے:
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ سُورَةَ النَّجْمِ، فَسَجَدَ بِهَا
بے شک نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے سورہ نجم کی تلاوت کی ، تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے سجدہ (تلاوت) کیا۔
صحیح البخاری: 1070
سیدنا زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قَرَأْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّجْمِ فَلَمْ يَسْجُدْ فِيهَا
میں نے نبی صلى اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورہ نجم کی تلاوت کی تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے سجدہ (تلاوت) نہیں کیا۔
صحیح البخاری: 1072
سجدہ تلاوت کی دعاء:
سجدہ تلاوت میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے صرف ایک ہی دعاء ثابت ہے اور وہ یہ ہے:
اللَّهُمَّ اكْتُبْ لِي بِهَا عِنْدَكَ أَجْرًا، وَضَعْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا، وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا، وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ
اے اللہ ! میرے لیے اس کے بدلے اپنے پاس اجر لکھ دے، اور اسکی وجہ سے مجھ سے بوجھ اتار دے، اور اسے میرے لیے اپنے پاس ذخیرہ فرما لے، اور اسے مجھ سے ویسے ہی قبول فرما لے جیسے تو نے اپنے بندے داود (علیہ السلام) سے قبول فرمایا تھا۔
جامع الترمذی: 579
اسکے علاوہ سجدہ تلاوت کی ایک اور دعاء مشہور ہے:
سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ
میرے چہرے نے اس اللہ کے لیے سجدہ کیا جس نے اسے پیدا کیا اور اسکی سماعت و بصارت کو اپنی قوت و طاقت سے کھولا۔
جامع الترمذی: 580
یہ در اصل ایک طویل روایت کا ٹکڑا ہے، جسے راوی نے اختصار کے ساتھ بیان کیا جسکی وجہ سے یہ اشکال پیدا ہوگیا کہ شاید یہ سجدہ تلاوت کی دعاء ہے، حالانکہ ایسا نہیں، بلکہ یہ تو عام سجدہ کی دعاء ہے جو نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز کے سجدہ میں کیا کرتے تھے۔
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قیام اللیل کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر تحریمہ کے بعد یہ کلمات کہتے:
وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي، وَنُسُكِي، وَمَحْيَايَ، وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، اللهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَنْتَ رَبِّي، وَأَنَا عَبْدُكَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي، وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي، فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ، لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ، وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ، أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ
اور جب رکوع میں جاتے تو کہتے:
اللهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، خَشَعَ لَكَ سَمْعِي، وَبَصَرِي، وَمُخِّي، وَعَظْمِي، وَعَصَبِي
اور رکوع سے اٹھتے تو یہ دعاء فرماتے:
اللهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَاوَاتِ، وَمِلْءَ الْأَرْضِ، وَمِلْءَ مَا بَيْنَهُمَا، وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ
اور جب سجدہ کرتے تو یہ دعاء کرتے:
اللهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَصَوَّرَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، تَبَارَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ
اور تشہد کے بعد سلام سے پہلے یہ دعاء فرماتے:
اللهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، وَمَا أَسْرَفْتُ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ
صحیح مسلم: 771
رات کی نماز کو رمضان المبارک کی نسبت سے قیام رمضان اور طویل قیام کے سبب کبھی ایک پاؤں اور کبھی دوسرے پر مکمل وزن ڈال کر ایک پاؤں کو راحت پہنچانے اور ہر دو رکعت کے بعد وقفہ کرنے کی نسبت سے نماز تراویح کہتے ہیں ۔ اور چونکہ اسکے ساتھ ہی وتر بھی ادا کیے جاتے ہیں تو اس مناسبت سے مکمل قیام اللیل یا تراویح کو نماز وتر بھی کہہ دیتے ہیں ۔ اور ہُجُود یعنی رات کی نیند کو ترک کرکے اس نماز کو ادا کرنے کی وجہ سے اسی نماز کو ہی نماز تہجد بھی کہا جاتا ہے ۔ اور طویل قراءت کی وجہ سے اسے قرآن باللیل کے نام سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
روات حدیث نے اس روایت کو مختصر بیان کرتے ہوئے یہ الفاظ استعمال کیے:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي سُجُودِ القُرْآنِ بِاللَّيْلِ
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قرآن باللیل (یعنی قیام اللیل) کے سجدوں میں یہ کہا کرتے تھے۔
جامع الترمذی: 580، سنن ابی داود: 1414
اور کسی نے مزید اختصار کرتے ہوئے ’’باللیل‘‘ کے الفاظ بھی حذف کر دیے اور کہا:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي سُجُودِ الْقُرْآنِ
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قرآن کے سجدوں میں یہ کہا کرتے تھے۔
مسند احمد: 24022
تو یہاں سے التباس ہوا کہ شاید قرآن کے سجدوں میں مراد سجدہ تلاوت ہے حالانکہ یہ مراد نہیں بلکہ مراد قرآن باللیل یعنی رات کی نماز کے سجدے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم والی حدیث میں واضح ہے۔ اور پھر اختصار کرتے ہوئے بھی بعض رواۃ نے صراحت سے بیان کیا :
كَانَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يُصَلِّي تَطَوُّعًا قَالَ إِذَا سَجَدَ
جب آپ صلى اللہ علیہ وسلم رات کے وقت نفل نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوتے تو جب سجدہ کرتے تو یہ کہتے۔
سنن النسائی: 1128
اور کسی نے مطلق سجدہ کہہ کر اس روایت کو اختصار سے بیان یوں بیان کیا:
كَانَ يَقُولُ فِي سُجُودِهِ
آپ صلى اللہ علیہ وسلم اپنے سجدوں میں کہا کرتے تھے۔
سنن النسائی: 1127
اور کسی نے کہا:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا سَجَدَ قَالَ
بے شک نبی صلى اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو کہتے۔
سنن ابن ماجہ: 1054
یہ مؤخر الذکر اختصار کوئی اشکال پیدا نہیں کرتا، بلکہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ یہ مطلق سجدہ کی دعاء ہے ، تلاوت کے خاص سجدہ کی مخصوص دعاء نہیں۔ البتہ اول الذکر اختصار سے شبہ پیدا ہوتا ہے۔ تاہم دیگر روایت اس شبہ کا ازالہ کرتی ہیں کہ سجود القرآن یا سجود القرآن باللیل سے کونسے سجدے مراد ہیں۔ خوب سمجھ لیں!
سجدہ تلاوت کے آداب:
یہ بات ذہن نشیں رہے کہ یہ سجدہ تلاوت کا سجدہ ہے، نماز کا سجدہ نہیں، لہذا اس پہ نماز والے احکام لاگو نہیں ہونگے بلکہ تلاوت والے احکام لاگو ہونگے۔ یعنی جس طرح تلاوت کے لیے باوضوء ہونا، یا قبلہ رو ہونا شرط نہیں ہے، ایسے ہی سجدہ تلاوت کے لیے بھی طہارت یا استقبال قبلہ شرط نہیں، تاہم اگر اسکا بھی اہتمام کر لیا جائے تو بہر حال بہتر و افضل ہے، لیکن لازم یا ضروری نہیں۔ طہارت کے بغیر بھی اور قبلہ کے علاوہ کسی بھی سمت رخ کرکے یہ سجدہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سجدہ کے لیے جاتے ہوئے اور سجدہ سے اٹھتے ہوئے تکبیر کہنا اور بعد میں سلام پھیرنا بھی سجدہ تلاوت کے آداب میں شامل نہیں۔ ہاں جب یہ سجدہ تلاوت دوران نماز کیا جائے گا تو پھر نماز والے سارے احکام لاگو ہونگے کیونکہ اس وقت محض تلاوت نہیں بلکہ دوران نماز تلاوت ہے، اور نماز کے اپنے خاص احکام ہیں۔
ہمارے استاذ محترم حافظ عبد المنان نورپوری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: ’’سجدہ تلاوت رکھتا ہے حکم تلاوت، دلیل ہے اسکی تلاوت‘‘۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ
جس نے بھی ہمارے اس (دین کے) معاملہ کچھ نیا ایجاد کیا، جو اس میں سے نہیں، تو وہ( کام ) مردود ہے۔
صحیح مسلم: 1718
انھی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ
جس نے بھی کوئی بھی ایسا کام کیا جس پہ ہمارا امر نہیں ، تو وہ کام مردود ہے۔
صحیح مسلم: 1718
لہذا سجدہ تلاوت کے لیے بھی وہی آداب اور طریقہ کار اپنایا جائے جو نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ اپنی طرف سے کسی بھی عمل کا اضافہ احداث فی الدین اور بدعت ہے۔
دوران نماز سجدہ تلاوت کے لیے رفع الیدین:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
وَيَرْفَعُهُمَا فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ يُكَبِّرُهَا قَبْلَ الرُّكُوعِ حَتَّى تَنْقَضِيَ صَلَاتُهُ
نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم رکوع سے پہلے والی ہر تکبیر میں دونوں ہاتھ اٹھایا (یعنی رفع الیدین کیا ) کرتے تھے حتى کہ آپکی نماز مکمل ہو جاتی۔
سنن أبی داود: 722
نماز کے دوران فاتحہ کے بعد تلاوت کرتے ہوئے سجدہ والی آیت آ جائے تو اسکے لیے تکبیر کہہ کر سجدہ میں جانا ہے:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَسْجُدُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، ثُمَّ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي الصَّلاَةِ كُلِّهَا حَتَّى يَقْضِيَهَا
پھر جب سجدہ کرتے تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم تکبیر کہتے، پھر جب (سجدے سے) سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے، پھر یہ کام آپ اپنی ساری نماز میں کرتے حتى کہ اسے مکمل کر لیتے۔
صحیح البخاری: 789
تو چونکہ یہ تکبیر بھی رکوع سے قبل ہےلہذا اس روایت کی رو سے سجدہ تلاوت کے لیے تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرنے پہ بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے۔ لیکن یہ استدلال درست نہیں۔ اگر چہ اپنے عموم کی وجہ سے یہ حدیث سجدہ تلاوت، تکبیرات عیدین، اور تکبیرات جنازہ کے ساتھ رفع الیدین کے مسنون ہونے پہ دلالت کرتی ہے، لیکن سجدہ تلاوت کے لیے رفع الیدین نہ کرنا خاص دلیل سے ثابت ہے لہذا سجدہ تلاوت اسکے عموم سے مستثنى ہے، اسکی تکبیر کے ساتھ رفع الیدین نہیں کیا جائے گا۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
وَلاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يَسْجُدُ، وَلاَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ "
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یہ (رفع الیدین) سجدے کے لیے جاتے ہوئے نہیں کرتے تھے، اور نہ ہی اس وقت جب آپ اپنا سر سجدے سے اٹھاتے۔
صحیح البخاری: 738
انہی سے روایت ہے :
وَلَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي السُّجُودِ
اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھوں کو سجدوں میں نہیں اٹھاتے تھے۔
سنن ابی داود: 722
یعنی سجدہ میں جاتے ہوئے اور سجدہ سے اٹھتے ہوئے اسی طرح دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرنا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم سے ان مواقع پر رفع الیدین نہ کرنا ثابت ہے۔ لہذا تکبرات سجدہ کے ساتھ رفع الیدین نہیں کیا جائے گا، خواہ وہ تکبیرات سجدہ تلاوت کی ہوں ، یا نماز کے عمومی سجدہ کی۔
بیٹھ کر تلاوت کرنا:
بہتر ہے کہ قاری خشوع و خضوع اور سکون و وقار کے ساتھ بیٹھ کر تلاوت کرے جیسے وہ اپنے استاذ کے سامنے بیٹھتا ہے۔ لیکن اگر وہ اسکے علاوہ کسی بھی حالت میں تلاوت کرے توبھی جائز ہے۔
اللہ تعالى کا فرمان ہے:
الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ
جو اللہ تعالى کا ذکر کھڑے ہوکر اور بیٹھ کر اور اپنے پہلوؤں کے بل لیٹ کر کرتے ہیں۔
سورۃ آل عمران: 191
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَانَ يَتَّكِئُ فِي حَجْرِي وَأَنَا حَائِضٌ، ثُمَّ يَقْرَأُ القُرْآنَ»
یقینا نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم میری گود میں سر رکھ کر تلاوت فرمایا کرتے تھے جبکہ میں حائضہ ہوتی تھی۔
صحیح البخاری: 297
رکوع وسجود میں تلاوت:
رکوع اور سجدے کی حالت میں قرآن مجید فرقان حمید کی تلاوت کرنا ممنوع ہے۔ قرآنی دعائیں بھی قرآن ہی ہیں لہذا بطور دعاء بھی قرآن مجید سجدہ کی حالت میں نہیں پڑھا جاسکتا۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَإِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَاكِعًا أَوْ سَاجِدًا
اور میں رکوع یا سجدہ کی حالت میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا ہوں۔
صحیح مسلم: 479
جب نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے یا مجھے منع کیا گیا ہے تو اس سے مراد ہوتا ہےکہ اللہ تعالى نے حکم دیا ہے یا منع کیا ہے۔ گویا رکوع وسجدہ میں قرآن پڑھنے سے اللہ تعالى نے منع فرمایا ہے۔ اور اس عمومی حکم سے دعائیہ آیات کے مستثنى ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ لہذا وہ بھی منع کے اس حکم میں شامل ہیں۔ کچھ لوگ ایک روایت سے استدلال کرکے قرآنی دعائیں سجدہ میں پڑھنے کا جواز کشیدتے ہیں ، لیکن انکا استدلال درست نہیں، جیسا کہ آئندہ سطور میں واضح کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ
قبرستان میں تلاوت:
گورستان میں قرآن مجید کی تلاوت منع ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ، إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنَ الْبَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ
اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، یقینا شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورۃ البقرۃ پڑھی جاتی ہے۔
صحیح مسلم: 780
آیت کا تکرار:
قاری اگر چاہے تو ایک یا زائد آیات کو بار بار بھی پڑھ سکتا ہے، خواہ نماز میں قراءت کر رہا ہو، یا نماز کے علاوہ۔
سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فَقَرَأَ بِآيَةٍ حَتَّى أَصْبَحَ، يَرْكَعُ بِهَا وَيَسْجُدُ بِهَا: {إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ}
رسو ل اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ایک رات نماز (تہجد) پڑھی تو ایک ہی آیت صبح تک پڑھتے رہے، ہر رکعت میں یہی آیت پڑھتے تھے {إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} [المائدة: 118]
مسند أحمد:21328
تنبیہ بلیغ:
بعض احباب گرامی اس حدیث کے الفاظ ’’يَرْكَعُ بِهَا وَيَسْجُدُ بِهَا‘‘ کا معنى یہ کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم رکوع میں بھی اور سجدے میں بھی یہی آیت پڑھتے رہے۔ پھر وہ اس پہ بنیاد بنا کر رکوع وسجدہ میں بطور دعاء آیات قرآنیہ پڑھنے کے جواز کا فتوى دیتے ہیں، لیکن یہ بات محل نظر ہے۔ کیونکہ
اولا:
یہ استدلال نص صریح کے خلاف ہے جیسا کہ سطور بالا میں ذکر ہوا۔
ثانیا:
’’يَرْكَعُ بِهَا وَيَسْجُدُ بِهَا‘‘ کا معنى رکوع اور سجد میں اس آیت کی تلاوت نہیں، بلکہ ہر رکعت کے قیام میں تلاوت کرنا ہے۔ یہی الفاظ اسی معنى میں حدیث میں مذکور ہیں، مثلا:
1- سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَافْتَتَحَ الْبَقَرَةَ، فَقُلْتُ: يَرْكَعُ عِنْدَ الْمِائَةِ، ثُمَّ مَضَى، فَقُلْتُ: يُصَلِّي بِهَا فِي رَكْعَةٍ، فَمَضَى، فَقُلْتُ: يَرْكَعُ بِهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ النِّسَاءَ، فَقَرَأَهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ آلَ عِمْرَانَ، فَقَرَأَهَا، يَقْرَأُ مُتَرَسِّلًا، إِذَا مَرَّ بِآيَةٍ فِيهَا تَسْبِيحٌ سَبَّحَ، وَإِذَا مَرَّ بِسُؤَالٍ سَأَلَ، وَإِذَا مَرَّ بِتَعَوُّذٍ تَعَوَّذَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَجَعَلَ يَقُولُ: «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ»، فَكَانَ رُكُوعُهُ نَحْوًا مِنْ قِيَامِهِ، ثُمَّ قَالَ: «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ»، ثُمَّ قَامَ طَوِيلًا قَرِيبًا مِمَّا رَكَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَقَالَ: «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى»، فَكَانَ سُجُودُهُ قَرِيبًا مِنْ قِيَامِهِ.
میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رات نماز ادا کی تو آپ نے سورۃ البقرۃ شروع کی تو میں نے کہا سو آیات پہ رکوع کر لیں گے، لیکن آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے قراءت جاری رکھی، میں نے کہا ایک رکعت میں یہ مکمل سورۃ پڑھیں گے،آپ نے قراءت جاری رکھی میں نے کہا اس سورۃ کو مکمل کر کے رکوع کریں گے پھر آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے سورہ نساء شروع کی، وہ مکمل پڑھی پھر آل عمران شروع کی وہ مکمل پڑھی، آپ صلى اللہ علیہ وسلم الفاظ کو لمبا کھینچ کر پڑھتے تھے، جب کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح ہو، تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم تسبیح کہتے، اور جب سوال سے گزرتے تو سوال کرتے، اور جب تعوذ سے گزرتے تو تعوذ کرتے، پھر آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا اور سبحان ربی العظیم کہنا شروع ہوئے، آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا رکوع بھی قیام کی طرح (طویل) ہی تھا۔ پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا ، پھر تقریبا رکوع جیسا لمبا قیام کیا، پھر سجدہ کیا تو کہا سبحان ربی الاعلى، تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا سجدہ آپ کے قیام کے قریب (یعنی قیام کی طرح سجدہ بھی لمبا ہی) تھا۔
صحیح مسلم: 772
اس حدیث میں سورہ بقرہ کے متعلق سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا ’’یرکع بہا‘‘ اسکا معنى یہ نہیں کہ انہوں نے سوچا کہ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم رکوع میں یہ سورۃ پڑھیں گے، بلکہ قیام کی بات ہو رہی ہے اور ’’یرکع بہا‘‘ کا معنى واضح سمجھ آ رہا ہے کہ انہوں نے دل میں سوچا کہ شاید یہ مکمل کرکے رکوع کریں گے۔ اور پھر رکوع کے بارے میں بیان فرمایا کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے رکوع میں سبحان ربی العظیم کہا۔
2- ابن ابی شیبہ میں یہی روایت مختصرا ہے ، وہاں الفاظ یہ ہیں:
«صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَافْتَتَحَ الْبَقَرَةَ، فَقُلْتُ يَخْتِمُهَا فَيَرْكَعُ بِهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ آلَ عِمْرَانَ، فَقُلْتُ يَخْتِمُهَا فَيَرْكَعُ بِهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ النِّسَاءَ، فَقُلْتُ يَرْكَعُ بِهَا، فَقَرَأَ حَتَّى خَتَمَهَا»
میں نے نبی صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے سورہ بقرہ کا آغاز کیا تو میں نے کہا اسے ختم کرکے اسکے ساتھ رکوع کریں گے، پھر آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے آل عمران شروع کی، میں نے کہا اسے ختم کریں گے اور اسکے ساتھ رکوع کریں گے، پھر آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے سورہ نساء شروع کی، میں نے کہا اسکے ساتھ رکوع کریں گے، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھا حتى کہ اسے مکمل کیا۔
مصنف ابن ابی شیبہ: 3704
اس روایت میں تینوں سورتوں کے متعلق انکا گمان ’’یرکع بہا‘‘ کے الفاظ سے مذکور ہے۔ اور یہ واضح ہے کہ وہ ان سورتوں کی رکوع میں تلاوت مراد نہیں لے رہے بلکہ یہ پڑھ کر رکوع کرنا مراد لے رہے ہیں۔
3- امام عبد الرزاق رحمہ اللہ نے باب اپنی مصنف میں باب باندھا ہے’’جب امام رکوع کی حالت میں اور مقتدی نماز میں شامل ہونا چاہے تو وہ کتنی تکبیریں کہے گا؟ ‘‘ پھر اسکے تحت وہ امام حماد رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں:
لَا يُجْزِيهِ إِلَّا تَكْبِيرَتَانِ تَكْبِيرَةٌ يَفْتَتِحُ بِهَا، وَتَكْبِيرَةٌ يَرْكَعُ بِهَا
اسے دو تکبیریں ہی کفایت کریں گی، ایک تکبیر جسکے ساتھ وہ نماز کا آغاز کرے گا ( تکبیر تحریمہ) اور ایک تکبیر جسکے ساتھ ورہ رکوع کرے گا۔
مصنف عبد الرزاق: 3358، ط تأصیل: 3397
یہاں بھی ’’یرکع بہا‘‘ کا یہ معنى نہیں کہ وہ رکوع میں تکبیر کہے گا، بلکہ معنى ہے کہ رکوع سے پہلے تکبیر کہے گا رکوع کے لیے۔ یعنی مسبوق جب حالت رکوع میں امام کو ملے تو دو مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں جائے۔
قصہ مختصر کہ ’’یرکع بہا‘‘ کا معنى رکوع میں پڑھنا نہیں بلکہ رکوع تک پڑھنا ہے۔ اور ’’یرکع بہا ویسجد بہا‘‘ کا معنى بھی یہی ہے کہ رکوع وسجود تک یہ آیت پڑھتے رہے مطلب کہ ہر رکعت میں بار بار اسی ایک آیت کی تلاوت فرمائی۔
آیات کا جواب:
آیات کے جواب سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی ایسی آیت سنی یا تلاوت کی جائے جس میں تسبیح کا حکم ہو، تو تسبیح کی جائے، دعاء والی آیت پہ دعاء کی جائے، عذاب کا ذکر ہو تو اللہ کی پناہ طلب کی جائے وغیرہ۔ اسکی دلیل سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی وہ روایت ہے جو صحیح مسلم کے حوالے سے ابھی سطور بالا میں گزری ہے۔
تنبیہ اول:
اس حکم میں قاری وسامع دونوں برابر ہیں، اور امام ومقتدی بھی ۔ یعنی نماز میں قراءت ہو تب بھی اور نماز سے خارج قراءت ہو تب بھی سننے والا اور پڑھنے والا دونوں ہی آیات کا جواب دے سکتے ہیں۔ کیونکہ فرق کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور جب تک امام ومقتدی و منفرد کے مابین فرق کی دلیل نہ ہو انکی نماز کے احکام ایک ہی ہوتے ہیں۔ یہ مسئلہ ہم نے اپنے رسالہ ’’القول الرفیع في مسئلۃ التسمیع‘‘ میں کھول کر بیان کیا ہے۔ تفصیل کے لیے اسکا مطالعہ فرمائیں۔
تنبیہ ثانی:
بعض لوگوں کو سنا گیا ہے کہ دوران نماز جب امام صاحب کوئی آیت تلاوت فرماتے ہیں جس کا جواب دیا جاتا ہے، تو مقتدیان کرام بآواز بلند جواب دیتے ہیں، یہ طریقہ درست نہیں۔مقتدی جواب دیں، لیکن اونچی آواز نکالے بغیر، اسی طرح امام بھی ان آیات کا جواب جہرا نہیں دے گا، بلکہ سراً جواب دے گا۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالى نے ذکر کے لیے ایک ضابطہ مقرر فرمایا ہے:
وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ
اور اپنے رب کا اپنے دل میں عاجزی سے ، اور خوف سے، اور آواز بلند کیے بغیر ذکر کر۔
سورۃ الاعراف: 205
تسبیح ، تہلیل، تکبیر، تحمید یہ سب اللہ کا ذکر ہیں، تلاوت قرآن بھی اللہ کا ذکر ہی ہے۔ ہمہ قسم کے ذکر کے لیے اصل اور بنیادی قاعدہ یہی ہے کہ اپنے دل میں، عاجزی سے، خوف یعنی اللہ سے ڈرتے ہوئے، اور اونچی آواز نکالے بغیر ذکر کیا جائے۔ ہاں جو اذکار بآواز بلند کرنا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں وہ اذکار اس عمومی قاعدہ سے مستثنى ہیں۔ مثلا نماز میں امام کا تکبیرات اونچی آواز سے کہنا، جہری نمازوں میں قراءت بآواز بلند کرنا، نماز کے بعد کے اذکار اونچی آوازسے کرنا، ان سب کا جہر مستقل دلیل سے ثابت ہے۔ جبکہ مقتدی کے لیے تکبیرات یا قراءت بآواز بلند کرنے کی دلیل نہیں تو وہ اس عمومی حکم کے تحت سرا (یعنی دل میں) یہ سب کرے گا۔اسی طرح نماز ہی کو لیجئے کہ اس میں رکوع وسجود کی تسبیحات امام اور مقتدی دونوں ہی سرا کہیں گے کہ اسے جہرا کہنے کی کوئی خاص دلیل نہیں ہے، لہذا قرآن مجید کے عمومی حکم’’دون الجہر من القول‘‘ کے تحت آواز نکالے بغیر رکوع و سجود کی تسبیحات کہی جائیں گی۔ وھلم جرا....۔
اور تسبیح والی آیات قرآنیہ پہ جہرا تسبیح کہنے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے، لہذا امام و مقتدی ومنفرد تینوں ہی، اور غیر نمازی خواہ وہ محفل حسن قراءت میں تلاوت سننے یا کرنے والا ہو، اسکے علاوہ ، بہر حال سراً یعنی دل میں ہی تسبیح وتحمید کہیں گے۔ ہاں اگر کبھی بے ساختہ آواز نکل جائے تو اس پہ مؤاخذہ نہیں۔
اوراسی طرح دعاء کے متعلق ضابطہ بیان فرمایا:
ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے سے پکارو، یقینا وہ حد سے بڑھنے والوں سے محبت نہیں فرماتا۔
سورۃ الاعراف: 55
اگر بآواز بلند دعاء کی جائے یا دعاء کے لیے ہاتھ اٹھائے جائیں ، دونوں صورتوں میں دعاء ’’خفیہ‘‘ نہیں رہتی بلکہ سامعین وناظرین پہ آشکار ہو جاتا ہے کہ یہ شخص دعاء مانگ رہا ہے۔ اللہ تعالى نے دعاء کے لیے ’’خفیہ طورپہ‘‘ دعاء مانگنے کا اصول مقرر فرمایا ہے۔ لہذا تمام قسم کی دعائیں خفیہ طور پر ہی مانگی جائیں، یعنی نہ تو آواز نکالی جائے اور نہ ہی ہاتھ اٹھائے جائیں۔ ہاں جن مواقع پہ بآواز بلند دعاء کرنا یا دعاء کے لیے ہاتھ اٹھانا نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، وہ مواقع اس عمومی قاعدہ سے مستثنى ہیں۔مثلا نماز میں دعائے استفتاح، رکوع وسجدہ کی دعائیں، اور تشہد کی دعائیں وغیرہ سب اسی قرآنی اصول کے تحت ’’خفیۃً‘‘ کی جاتی ہیں، جبکہ امام ومقتدی دونوں کا سورہ فاتحہ کے اختتام پہ آمین بآواز بلند کہنا ایک مستقل دلیل سے ثابت ہے، اسی طرح قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھانا ، اور امام کا جہراً دعاء کرنا، اور مقتدیوں کو بآواز بلند آمین پکارنا، یہ سب مستقل دلیل سے ثابت ہونے کی وجہ سے اس عمومی قاعدہ سے مستثنى ہے۔ اسی طرح قبرستان میں ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا، اور کسی کے مطالبہ پر ہاتھ اٹھا کر بآواز بلند دعاء کرنا نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم سےثابت ہونے کی وجہ سے اس عمومی اصول سے مستثنى ہے۔ اور دعاء والی آیات پہ بآواز بلند آمین کہنا یا اللہ کے عذاب سے پناہ مانگنے یا رحمت کا سوال کرنے کی دعاء اونچی آوز سے کرنا کسی بھی دلیل سے ثابت نہیں، لہذا بلند آوز کے بغیر دل ہی دل میں ان آیات قرآنیہ پہ دعاء کی جائے، یا آمین کہی جائے، کیونکہ یہ موقع اللہ سبحانہ وتعالى کے اس عمومی حکم میں شامل ہے اور استثناء کی کوئی دلیل موجود نہیں۔
آنکھیں پر نم ہونا:
قرآن مجید فرقان حمید کی تلاوت کرتے یا سنتے ہوئے آنکھوں سے آنسو جاری ہو جانا مستحسن امر ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالى نے ایسے لوگوں کی تعریف فرمائی ہے:
وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ
اور جب وہ سنتے ہیں جو رسول کی طرف نازل کیا گیاہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ انکی آنکھیں آنسوؤں سے بہ رہی ہوتی ہیں، اس وجہ سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے، سو ہمیں شہادت دینے والوں کے ساتھ لکھ لے۔
سورۃ المائدۃ: 83
نیز فرمایا:
وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا
اور وہ تھوڑیوں کے بل گر جاتے ہیں، روتے ہیں، اور قرآن انہیں عاجزی میں زیادہ کرتا ہے۔
سورۃ الإسراء: 109
تلاوت قرآن کی وجہ سے نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں بھی چھلک پڑتی تھیں:
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پہ قرآن پڑھو، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کیا میں آپ پر پڑھوں جبکہ یہ آپ پر نازل کیا گیا ہے، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں! ۔ تو میں نے سورۃ النساء کی تلاوت کی حتى کہ جب اس آیت پہ پہنچا {فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِيدًا} [النساء: 41] تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس اتنا ہی کافی ہے، تو میں نے آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا ، آپکی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔
صحیح البخاری : 5050
-
الاثنين PM 07:04
2022-08-01 - 2122