میلنگ لسٹ

بريديك

موجودہ زائرین

باقاعدہ وزٹرز : 125146
موجود زائرین : 51

اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
278
فتاوى
56
مقالات
187
خطبات

تلاش کریں

البحث

مادہ

سترے کے احکام و مسائل

سُترے کے احکام

محمد رفیق طاہر عفااللہ عنہ

www.rafiqtahir.com

 

نماز دین اسلا م کا اہم ترین رکن ہے اور اس کی بجاآوری کے لئے بہت سے احکام کی پابندی ضروری ہے لیکن اکثر نمازی یا تو ان سے  غافل ہیں یا سستی کا شکار ہیں انہی میں سے ایک اہم مسئلہ "سترہ" کا بھی ہے کہ جس کے بارہ میں لوگ افراط یاتفریط کا شکار ہیں یعنی کچھ تو سترہ کو فرض و واجب قرار دیکر بغیرسترہ پڑھی جانیوالی نماز کے بطلان کے قائلین ہیں جبکہ دیگر سترہ کی عدم فرضیت کا اعتقاد رکھنے کی بناءپر سترہ کو اہمیت دینے سے قاصرہیں جسکے نتیجہ میں انکی اکثر نمازیں سترہ کے بغیر  ہی ادا ہوتی ہیں جو کہ خلاف سنت ہے۔ذیل میں ہم ان دلائل کو پیش کر یں گے جن کے ذریعہ سے حق بات کا علم ہو سکے کہ سترہ رکھنا نمازی کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے , مگر یہ ایسا فرض یا واجب بھی نہیں کہ سترہ کے بغیر نماز ہی نہ ہو بلکہ اگر کو ئی شخص کبھی سترہ کے بغیر نماز پڑھ لے تو اس کی نماز ہو جائیگی  مگر اس کو معمول بنانا خلاف سنت ہے۔

 

سترہ کی اہمیت

عن عبد الله بن عمر رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم  لا تصل إلا إلى سترة ولا تدع أحدا يمر بين يديك فإن أبى فلتقاتله فإن معه القرين

 [صحیح ابن خزیمہ۲/۹ (۸۰۰/۲/۱۷)(۸۲۰)باب النهی عن الصلوۃ الی غیر سترۃ]

"سترے کے بغیر نماز نہ پڑھو اور کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دو اگر وہ انکا ر کر دے تو اس سے لڑو کیونکہ اسکے ساتھ یقینا    شیطان ہے ۔

 

 سیدنا  ابوسعیدخدری رضی الله عنہ  فر ماتے ہیں كہ  رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

  إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيُصَلِّ إِلَى سُتْرَةٍ وَلْيَدْنُ مِنْهَا

[ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب ما یؤمر المصلی أن یدرأعن الممربین یدیہ ۶۹۸]

جب تم میں سے کو ئی ایک نماز  پڑھے تو وہ ستر ے کیطرف نماز ادا کرے اور اس کے قریب ہو۔

  

سیدنا أنس رضی الله عنہ بیان فرماتے  ہیں  :

 لقد رأيت كبار أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم يبتدرون السواري عند المغرب وزاد شعبة عن عمرو عن أنس حتى يخرج النبي صلى الله عليه و سلم

[صحیح بخاری کتاب الصلاۃ باب الصلوۃ الی الا سطوانۃ(481)]

میں نے کبار صحابہ  کرام رضوان اللہ علیھم أجمعین کو دیکھا کہ وہ مغرب کے وقت ستونو ں کیطرف جلدی کر تے تھے [یعنی مغرب سے قبل دو رکعتیں پڑھنے کے لئے انکو اپنا سترہ بناتے ۔]

 

یحی بن ابی کثیر سے مروی ہے کہ

 رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ قَدْ نَصَبَ عَصًا يُصَلِّي إلَيْهَا.

[المصنف لابن أبی شیبہ ۱/۳۱۰ (۱۰) باب قدركم یستر المصلی]

میں نے انس بن مالك رضی الله عنہ كو مسجد حرام میں د یكها  کہ وه لاٹهی گاڑه كر اسكی طرف نماز اداكر رہے تھے ۔

نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں

كَانَ ابْنُ عُمَرَ إذَا لَمْ يَجِدْ سَبِيلاً إلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ ، قَالَ لِي : وَلِّنِي ظَهْرَك.

[المصنف لابن أبی شیبہ ۱/۲۷۹باب الرجل یستر الرجل إذاصلی إلیہ أم لا؟]

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب مسجد کے ستون میں سے کسی ستون کی جانب کو ئی جگہ نہ پاتے تو مجھے کہتے کہ میری طرف اپنی پشت کر دو ۔

 

مندرجہ با لا ادلہ سے معلوم ہوا کہ

۱)رسول ﷺ نے بغیر سترہ نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہیں۔

۲)آپﷺ نے سترہ کا اہتمام کر نیکی تاکید فرمائی ہیں۔

۳)اور سترہ کے قریب ہو نیکا حکم دیا ہے ۔

۴)صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سترہ کا بہت زیادہ اہتمام کرتے ۔

۵)کسی کو بغیر ستر ہ نماز پڑھتے دیکھ کر اسکو ستر ے کے قریب کر دیتے ۔

۶)مسجد میں بھی سترہ کا اہتما م فرماتے ۔

۷)دیوار یا ستون کے پیچھے جگہ نہ ملتی تو لاٹھی وغیرہ کا ستر ہ اپنے آگے رکھ لیتے ۔

۸)اور اسکی عدم موجو دگی میں کسی شخص کو سترہ بنا کر نماز ادا کر تے ۔

  

سترہ مستحب ہے

سترہ کی اس قدر اہمیت ہے کہ بغیر سترہ نماز پڑھنے کا تصور خیر القرون میں تقر یبا نا پید تھا لیکن اسکا یہ معنی نہیں کہ سترہ رکھنا فرض ہے بغیر ہ سترہ بھی رسول ﷺ نے نماز ادا کی ہے ۔

1۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں

صَلَّى رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم فِي فَضَاءٍ لَيْسَ بَيْنَ يَدَيْهِ شَيْءٌ.

[المصنف لابن أبئ شئبه ۱/۲۸۸۳(۲) باب من رخص فی الوفضا ء أن یصلی بها  مسند احمد (۱۹۶۶)مسند أبی یعلی ۴/۴۶۹(۲۶۰۱)]

رسول اللہ ﷺ نے کھلی جگہ میں نماز پڑھی اور آپکے سا منے کو ئی چیز (بطور سترہ) نہ تھی۔

 

2۔سیدنا عبدالله بن عباس رضی الله عنہ  فرماتے ہیں

 قَالَ أَقْبَلْتُ رَاكِبًا عَلَى حِمَارٍ أَتَانٍ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ قَدْ نَاهَزْتُ الِاحْتِلَامَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِمِنًى إِلَى غَيْرِ جِدَارٍ

[صحیح بخاری كتاب العلم باب متی یصح سماع الصغیر (76)]

میں گدھی پر سوار ہو کر آیا ان دنو ں میں قریب البلوغت تھا اور رسو ل ﷺ منی میں بغیر دیوار کے نماز پڑھ رہے تھے ۔

 

3۔اس باب میں حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں مسند بزار کے حو الے سے تا ئید ا یہ روایت ذکر کی ہے

 والنبي صلى الله عليه و سلم يصلي المكتوبة ليس لشيء يستره

[فتح الباری 1/76]

نبی  ﷺ فرض نماز ادا کر رہے تھے آپ کے آگے کو ئی ایسی چیز نہ تھی جو آپکا سترہ بنی۔

ابن بطال نے شرح بخاری ۲/۱۲۹میں اسکی سند ذکر کی ہے جو حسن ہے ۔

 

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

 جئت أنا وغلام من بني هاشم على حمار فمررنا بين يدي النبي صلى الله عليه و سلم وهو يصلي فنزلنا عنه وتركنا الحمار يأكل من بقل الأرض - أو قال : من نبات الأرض - فدخلنا معه في الصلاة فقال رجل : أكان بين يديه عنزة ؟ قال : لا

[مسند احمد أبی یعلی ۴/۳۱۱/(۲۴۲۳)]

میں اور بنی ہاشم کا ایک لڑکا گدھے پر سوار ہو کر آئے ۔ ہم رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے گزرے تو آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے تو ہم (گدھے سے )اترے اور اسکو زمین کی نباتا ت کھانے کے لئے چھوڑدیا اور ہم آپ ﷺ کے سا تھ نماز میں داخل ہو گے ایک آدمی نے (ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ) پو چھا کیا آپ ﷺ کے آگے لاٹھی یا نیزہ (بطور سترہ)تھا تو فرمایا نہیں ۔

                                                                                                                     اس حدیث کے تمام رجال صحیح کے ہیں اور صحیح میں بھی یہ حدیث مختصرا آئی ہے

[مجمع الزوائد للھیثمی (۲۲۷۹)]

 

مذکو رہ بالا دلائل سے یہ واضح ہوا کہ سترہ فرض یا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے کیونکہ اصول یہ ہے کہ جس کا م کے کرنے کا رسول اللہﷺ حکم دیں وہ فرض و واجب ہو تا ہے لیکن  جب کوئی قرینہ صارفہ مو جود ہو تو آپ ﷺ  کا امر وجوب و فر ضیت کے لئے نہیں بلکہ استحباب کے لئے ہو تا ہے  زیر بحث مسألہ میں رسول اکرم ﷺ کا حکم موجود ہے کہ سترہ کا اہتمام کرو اور سترہ کے بغیر نماز ادا کی ہے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ فرض و واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے

لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ چو نکہ ستر ہ مستحب ہے لہذا اسکااس قدر اہتما م کرنا بھی ضروری نہیں جیسا کہ سمجھ لیا گیا ہے بلکہ کسی فعل کا مستحب ہونا یہ معنی رکھتا ہے  کہ اسکو ضرور بضرور کیا جائے لیکن اگر کبھی زندگی میں ایسا مر حلہ آجائے کہ بندہ اس پر عمل نہ کر ے تو وہ گناہگار نہ ہو گا ۔لیکن اگر وہ مستحب کو پس پشت ڈالناہی اپنا اکثر کا معمو ل بنالے تو یہ جائز نہیں ۔اسکی مثال یو ں سمجھیے کہ رسول اللہ ﷺ نے بغیر عذر کے زندگی میں ایک با ر دو نمازوں کو صورۃجمع کر کے ادا کیا ہے جس سے جمع بین الصلوتین بغیر عذر کا جواز نکلتا ہے لیکن اگر کو ئی اسکو معمول ہی بنا لے اور اکثر دو نمازوں کو جمع کر تا رہے تو وہ مخالف سنت ہو گا۔ وھلم جراً۔

لہذا ستر ہ کا اہتمام کرنے کی ہر ممکن کو شش کی جائے لیکن اسکے باوجود اگر کبھی سترہ نہ مل سکے یا کو ئی شئے سترہ بنانے کی نظرنہ آئے تو بغیر سترہ بھی نماز ادا کی جا سکتی ہے۔

 

سترہ اور نمازی کے درمیان فاصلہ

 سیدنا ابو سعید خدری رضی الله عنہ بیان فر ماتے  ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :

إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيُصَلِّ إِلَى سُتْرَةٍ وَلْيَدْنُ مِنْهَا

[ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب مایؤ مر المصلی أن یدرأعن الممربین ید یہ (۶۹۷)]

جب تم میں سےکو ئی ایک نماز پڑھے تو وہ سترہ کی طرف نماز پڑھے اور اس کے قریب ہو جائے۔

 

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

كان بين مصلى رسول الله صلى الله عليه و سلم وبين الجدار ممر الشاة

[بخاری کتاب الصلاۃ باب قدرکم ینبغی أ ن یکون بین المصلی والسترۃ]

رسول اللہ ﷺ کی نماز والی جگہ اور دیوار کے درمیان بکری کے گزرنے کی جگہ تھی ۔

 

درج بالا ادلہ سے  معلوم ہوا کہ

(۱)نمازی سترہ کا اہتمام کر ے اور اسکے قریب کھڑا ہو ۔

(۲)سترہ اور نمازی کے سجدہ والی جگہ کے درمیا ن زیادہ سے زیادہ بکری کے گزر سکنے کی جگہ  ہو ،

 

سترہ کی مقدار

سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ بیان فر ماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

إذَا جَعَلْتَ بَيْنَ يَدَيْكَ مِثْلَ مُؤَخَّرَةِ الرَّحْلِ فَلاَ يَضُرُّكَ مَنْ مَرَّ بَيْنَ يَدَيْكَ

[سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب مایستر المصلی (۶۸۵)]

جب تو اپنے آگے اونٹ کے کجاوے کے پچھلے حصہ کے برابر کو ئی چیز کر لے تو تیرے آگے سے گزرنے والا تجھے کو ئی نقصان نہ دیگا۔

بعض اہل علم یہ سمجھتے ہیں کہ مؤخرۃ الرحل سے مراد یہ ہے کہ کجاوا جب اونٹ پر رکھا گیا ہو اس وقت اسکا پچھلا حصہ جتنا اونٹ کی کمر سے اونچا ہوتا ہے وہ مقدار ہے اور یہ تقریبا چھ انچ بنتی ہے۔ لیکن یہ فہم درست نہیں کیونکہ مؤخرۃ الرحل کو سترہ بنانے سے یہ مراد نہیں ہے۔ خود رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم  کا عمل اسکی وضاحت کرتا ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں :

«كَانَ يُعَرِّضُ رَاحِلَتَهُ، فَيُصَلِّي إِلَيْهَا»، قُلْتُ: أَفَرَأَيْتَ إِذَا هَبَّتِ الرِّكَابُ؟ قَالَ: «كَانَ يَأْخُذُ هَذَا الرَّحْلَ فَيُعَدِّلُهُ، فَيُصَلِّي إِلَى آخِرَتِهِ - أَوْ قَالَ مُؤَخَّرِهِ -» وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَفْعَلُهُ "

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کو اپنے سامنے (بطور سترہ) کرکے اسکی طرف نماز پڑھتے تھے۔ (نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں ) میں نے پوچھا جب سواری اچھلتی کودتی تو پھر؟ (ابن عمر رضی اللہ عنہ نے) کہا وہ (یعنی نبی صلى اللہ علیہ وسلم) اس کجاوے کو اٹھاتے اور اسے اپنے سامنے رکھتے اور اسکے پچھلے حصہ کی طرف  نماز پڑھتے۔ (نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ) ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔

صحیح البخاری: 507

اس سے واضح ہوا کہ  مؤخرۃ الرحل (اونٹ کے کجاوے کے پچھلے حصہ ) کو سترہ بنانا کس طرح ہے۔ یعنی کجاوا زمین پر رکھا جائے اور اسکے پچھلے حصہ کو سترہ بنایا جائے۔ اور اس وقت اسکی اونچائی کم از کم ایک ذراع یعنی ڈیڑھ فٹ ہوتی ہے۔

عطاء بن أبی رباح فرماتے ہیں

قَالَ آخِرَةُ الرَّحْلِ ذِرَاعٌ فَمَا فَوْقَهُ.

[سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب مایستر المصلی (۶۸۶)]

اونٹ کے کجاوے کا پچھلا حصہ ذراع یا اس سے زیادہ (اونچا)ہوتا ہے 

               ہتھیلی کو کھول کر کہنی تک کا حصہ ذراع کہلاتا ہے اور یہ تقریباَ ڈیڑھ فٹ  بلند چیز رکھے تو وہ اسکا سترہ بن سکے گی اس سے کم اونچائی والی چیز سترہ کا کا م نہیں دیتی ہیں۔

 رہی وہ روایت جس میں خط کھینچنے کا ذکر ہے کہ اگر سترہ  میسر نہ آئے تو خط کھنچ لیا جائے (سنن ابی داؤد ۶۸۹) تو ا س کی سند میں ابو عمر وبن  محمد بن حرُیث اور اسکا دادا حُریث  مجہول ہیں ۔ لہذا یہ روایت ساقت الاعتبار ہے لہذا خط کھینچنا سترہ سے کفایت نہ کریگا اور جو لو گ بطور سترہ اینٹ یا کوئی اور چیز جو ڈیڑھ فٹ سے چھوٹی ہو رکھ کر نماز پڑھتے ہیں انکی نماز بغیر سترہ ہے کیو نکہ سترہ کی شرعی مقدار " مثل مؤخرۃ الرحل"بیان کی گئی ہے  جو کہ ذراع فما فوقہ یعنی ڈیڑھ فٹ یا اس سے زائد ہے۔

 

نمازی کے آگے سے گزرنا

ابو جہیم عبداللہ بن حارث الأنصاری رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا

 لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه لكان أن يقف أربعين خيرا له من أن يمر بين يديه"

[صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب اثم المار بین یدیہ(۴۸۸)]

اگر نمازی کے آگے سے گزرنے  والے کو علم ہو جائے کہ اس پر کتنا گنا ہ ہے تو اس کے لئے چالیس ( دن ،مہینے ،یا سال )  تک کھڑا ر ہنا گزرنے سے بہتر ہو گا۔

  دج بالا حدیث سے معلو م ہو تا ہے  کہ نمازی کے آگے سے گزرنا بہت سخت گناہ ہے لہذا کسی بھی حالت میں نمازی اور سترہ کے درمیان سے یا اگر سترہ موجود نہ ہو تو نمازی کے آگے سے نہ گزرا جائے ۔

یا د رہےکہ نمازی کے آگے سے گزرنے کی یہ ممانعت مطلقا  ہے گزرنے والا جتنے بھی فاصلے  سے  گزرے اسے اتنا  گناہ ہے جتنا کہ قریب سے گزرنے والے کے لئے ہے ۔اسی طرح  امام اور مقتدیوں کے درمیا ن گزرنا بھی سترہ اور نمازی کے درمیان سے گزرنا ہی ہے کیو نکہ امام کا سترہ ہی مقتدیوں کے لیے سترہ ہے ۔  لہذا  امام ومقتدی کے درمیا ن سے گزرنے والا نمازی اور سترہ کے درمیان سے گزرنے والا ہے لہذا اس  سے بھی اجتناب کیا جائے  ۔

  • السبت AM 10:11
    2022-09-03
  • 2241

تعلیقات

    = 3 + 1

    /500
    Powered by: GateGold