میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
رؤیت ہلال و استقبال رمضان
رمضان المبارک کی آمد
رمضان المبارک کا مہینہ ہجری سال کا نواں مہینہ ہے ۔اسی میں اللہ تعالى نے قرآن نازل فرمایا ، اور اسی ماہ کے روزے رکھنے کا حکم صادر فرمایا :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ
(البقرۃ : ۱۸۵)
رمضان کا مہینہ وہ ہے کہ جس میں قرآن نازل کیا گیا ، جوکہ لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ہدایت کی اور (حق وباطل میں) فرق کرنے والی واضح دلیلیں ہیں ، تو تم میں سے جو بھی اس مہینے کو پا لے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسکا (مہینہ بھر ) روزہ رکھے ۔
شعبان کے انتیس دنوں کے بعد چاند نظر آجانے یا شعبان کے تیس دن پورے ہو جانے کے بعد رمضان المبارک کا آغاز ہوتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً، فَلاَ تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا العِدَّةَ ثَلاَثِينَ
(صحیح بخاری : ۱۹۰۷)
مہینہ انتیس راتوں کا ہوتا ہے ، لہذا جب تک تم اس (چاند) کو نہ دیکھ لو اس وقت تک روزہ نہ رکھو ، تو اگر وہ تم پر پوشیدہ ہو جائے ( مطلع ابر آلود ہو جائے) تو تیس کی گنتی پوری کر لو ۔
روئیت ہلال :
چاند کا نظر آنا ہر مطلع کے لیے الگ الگ ہوتا ہے ۔ کسی ایک علاقہ کے رؤیت دوسرے علاقہ کے لیے اس وقت معتبر ہوگی جب انکا مطلع ایک ہی ہوگا۔
عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ فَقَدِمَ أَعْرَابِيَّانِ فَشَهِدَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّهِ لَأَهَلَّا الْهِلَالَ أَمْسِ عَشِيَّةً فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ أَنْ يُفْطِرُوا وَأَنْ يَغْدُوا إِلَى مُصَلَّاهُمْ
(سنن ابی داود : ۲۳۳۹)
ایک صحابی رسول بیان فرماتے ہیں کہ لوگ رمضان کے آخری دن کے بارہ میں اختلاف کا شکار ہوگئے ۔ تو دو دیہاتی آئے اور انہوں نے نبی ﷺ کے پاس اللہ کی قسم اٹھا کر گواہی دی کہ انہوں نے کل شام چاند دیکھا تھا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ روزہ افطار کر لیں اور کل عیدگاہ کی طرف نکلیں ۔
البتہ جب مطالع مختلف ہوں تو ایک علاقہ کی رؤیت دوسرے علاقہ کے لیے معتبر نہیں ہوگی ۔
عَنْ كُرَيْبٍ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ، بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ، فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا، وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْتُ الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ؟ فَقُلْتُ: رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: أَنْتَ رَأَيْتَهُ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، وَرَآهُ النَّاسُ، وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ: " لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ، فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ، أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَوَ لَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ؟ فَقَالَ: لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "
(صحیح مسلم : ۱۰۸۷)
کریب فرماتے ہیں کہ مجھے ام الفضل بنت الحارث نے شام میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا ۔ کہتے ہیں کہ میں شام آیا اور اسکا کام کیا ۔ اور ابھی میں شام میں ہی تھا کہ رمضان کا چاند نظر آ گیا ، میں نے جمعہ کی شام کو چاند دیکھا ، پھر میں مہینہ کے آخر میں مدینہ پہنچا تو عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کچھ باتیں پوچھیں اور پھر ہلال کا تذکرہ کیا اور کہا کہ تم نے ہلال کب دیکھا تھا ، تو میں نے کہا ہم نے جمعہ کی رات کو دیکھا تھا ، تو انہوں پوچھا کیا تم نے خود دیکھا تھا ؟ میں نے کہا ہاں ! میں نے بھی دیکھا اور لوگوں نے بھی دیکھا، اور انہوں نے روزہ رکھا اور معاویہ رضی اللہ عنہ بھی روزہ رکھا ۔ تو انہوں نے فرمایا کہ ہم نے ہفتہ کی رات کو چاند دیکھا تھا ، تو ہم روزہ رکھتے رہیں گے حتى کہ ہم تیس کی گنتی پوری کر لیں یا چاند دیکھ لیں ۔ میں نے کہا کیا معاویہ رضی اللہ عنہ کی رؤیت اور روزہ آپکو کافی نہیں ہے ؟ تو انہوں نے کہا نہیں ! ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح حکم دیا ہے ۔
آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ جہاں چاند نظر آیا ہے وہاں سے عین مشرق کی جانب تقریبا ۸۴۰ کلومیٹر تک طلوع ہلال کا اعتبار کیا جائے گا ۔ اور عین مغرب کی جانب آخر تک رؤیت ہلال معتبر ہوگی ۔ البتہ وہ علاقہ جات جو شمال مغرب میں ہیں انکی رؤیت الگ ہوگی۔ ممکن ہے کہ انہیں ایک یا دو دن قبل چاند نظر آ جائے ۔ مراکش ، تیونس اور فجی کے علاقوں میں پاکستان سے دو دن اور سعودیہ سے ایک دن قبل چاند نظر آ جاتا ہے ۔
اگر مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ رمضان کا چان نظر آنے میں کوتاہی ہو جائے ۔ اور شعبان کے تیس دن مکمل کرکے رمضان کا آغاز کیا جائے لیکن رمضان المبارک کی ۲۸ تاریخ کو ہی چاند نظر آ جائے تو ایسی صورت میں اگلے دن عید منائی جائے گی اور اسکے بعد ایک روزہ کی قضائی دیں گے ۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے چاند دیکھ کر عید منانے کا حکم دیا ہے
( صحیح بخاری: ۱۹۰۹)
لوگوں کے ساتھ روزہ رکھنا اور عید منانا :
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفِطْرُ يَوْمَ يُفْطِرُ النَّاسُ وَالْأَضْحَى يَوْمَ يُضَحِّي النَّاسُ
(جامع الترمذی : ۸۰۲)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عید الفطر اس دن ہے جس دن لوگ عید منائیں اور عید الأضحى اس دن ہے جس دن لوگ قربانیاں کریں ۔
اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ عیدین مسلمانوں کے اجتماعی معاملات میں سے ہیں جس میں تفرد شریعت اسلامیہ کو گوارہ نہیں ہے ۔ لہذا کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ عام مسلمانوں سے ایک دن قبل یا بعد عید منائے یا روزہ رکھے ۔
استقبال رمضان کا روزہ :
کچھ لوگ رمضان المبارک سے ایک دن قبل روزہ رکھتے ہیں جسے استقبال رمضان کا روزہ کہا جاتا ہے ۔ جبکہ نبی مکرم ﷺ نے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے :
إِذَا انْتَصَفَ شَعْبَانُ فَلَا تَصُومُوا
(سنن ابی داود : ۲۳۳۷)
جب شعبان آدھا ہو جائے تو روزہ نہ رکھو ۔
اسی طرح بالخصوص رمضان سے ایک دو دن پہلے کا روزہ بھی آپ ﷺ نے منع فرمایا ہے :
لَا يَتَقَدَّمَنَّ أَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمَهُ فَلْيَصُمْ ذَلِكَ الْيَوْمَ
(صحیح البخاری : 1914)
تم میں سے کوئی بھی رمضان سے ایک یا دو دن قبل روزہ نہ رکھے ۔ الا کہ کوئی شخص کسی دن کا روزہ رکھتا ہو تو وہ اس دن کا روزہ رکھ لے ۔
یعنی مثلا کوئی شخص سوموار یا جمعرات کا باقاعدگی سے روزہ رکھتاہے اور کسی سال سوموار کا دن شعبان کی ۲۹ یا ۳۰ تاریخ کو آ جائے تو اُس کے لیے اس دن کا روزہ ممنوع نہیں ہوگا ۔
-
الاربعاء PM 02:26
2022-12-14 - 461