میلنگ لسٹ

بريديك

موجودہ زائرین

باقاعدہ وزٹرز : 125140
موجود زائرین : 39

اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
278
فتاوى
56
مقالات
187
خطبات

تلاش کریں

البحث

مادہ

اللہ کی صفت ’’شخص‘‘

اللہ تعالى کے لیے لفظ ''شخص'' کا استعمال

محمد رفیق طاہر‘ عفا اللہ عنہ

تین  روز قبل علماء اہل الحدیث کے مجموعہ میں اللہ کے لیے لفظ شخص استعمال کرنے  کے بارہ میں استفسار ہوا۔ جس پہ میں نے عرض کیا کہ ایک تو لفظ شخص کی دلالت اللہ کے لیے اس لفظ کے استعمال سے مانع نہیں ہے۔ اور دوسرا حدیث نبوی میں بھی اللہ کے لیے اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے۔ اور مسند احمد کی وہ حدیث بھی میں نے بیان کی۔ جس پہ یہ بات سامنے آئی  کہ آجکل عدالت عالیہ میں ایک کیس چل رہا ہے جو ایسے تراجم قرآن کے خلاف  کیا گیا ہے جن میں اللہ کے لیے لفظ شخص کا استعمال کیا گیا ہے۔ اور مدعی نے موقف یہ اپنایا ہے کہ یہ لفظ اللہ کے لیے استعمال کرنا درست نہیں کیونکہ یہ اللہ کے شایان شان نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس مسئلہ میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے  اس لفظ کو اللہ کے لیے استعمال کرنے کے شرعی جواز کو بیان کیا۔ کچھ احباب گرامی  کی خواہش تھی کہ اس حوالہ سے عوام میں شعور بیدار کرنے کے لیے میں کچھ لکھوں، تو انکی آرزو کی تکمیل میں یہ چند سطور تحریر کر رہا ہوں۔

ویسے اس طرح کے موضوعات پہ میں نہ زیادہ لکھنے کا عادی ہوں اور نہ ہی مجھے کچھ زیادہ لکھنا آتا ہے۔ ہم سیدھے  سے لوگ ہیں کہ آیت یا حدیث بیان کرنے پہ ہی اکتفاء کرتے ہیں اور اسے ہی علم سمجھتے ہیں۔ اسکے سوا باقی کچھ بھی ہو اسے علم کا نام دیتے ہوئے ہمیں کچھ عجب سا محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے اس بارہ میں بھی میں کچھ زیادہ نہیں لکھ سکوں گا بس یہی کافی ہے کہ یہ لفظ رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے لیے استعمال فرمایا ہے۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنی مسند میں فرماتے ہیں:

18168 - حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ وَرَّادٍ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: لَوْ رَأَيْتُ رَجُلًا مَعَ امْرَأَتِي لَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ غَيْرَ مُصْفَحٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَيْرَةِ سَعْدٍ، فَوَاللهِ لَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ، وَاللهُ  أَغْيَرُ مِنِّي، وَمِنْ أَجْلِ غَيْرَةِ اللهِ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَلَا شَخْصَ أَغْيَرُ مِنَ اللهِ، وَلَا شَخْصَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعُذْرُ مِنَ اللهِ، مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ بَعَثَ اللهُ الْمُرْسَلِينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ، وَلَا شَخْصَ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِدْحَةٌ مِنَ اللهِ، مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ وَعَدَ اللهُ الْجَنَّةَ "

سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھ لوں تو اسے سیدھی تلوار  ماروں گا۔ یہ بات رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم سعد کی غیرت پر تعجب کرتے ہو؟ اللہ کی قسم میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں، اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت مند ہے۔ اور اللہ کی غیرت کیوجہ سے ہی اللہ نے ظاہری و باطنی بے حیائیوں کو حرام قرار دیا ہے۔ اور کوئی شخص بھی اللہ سے زیادہ غیرت مند نہیں۔ اور اللہ سے زیادہ کسی بھی شخص کو عذر پسند نہیں، اسی وجہ سے اللہ نے رسولوں کو خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا ۔ اور کوئی بھی شخص ایسا نہیں کہ جسے اللہ سے زیادہ مدح وتعریف پسند ہو، اسی وجہ سے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے۔

یہی روایت انہی الفاظ کے ساتھ صحیح مسلم: 1499میں بھی موجود ہے۔

یہ روایت بیان کرنے کے بعد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے بیٹے عبد اللہ بن احمد رحمہ اللہ  اپنے شیخ عبید اللہ القواریری کے واسطہ سے بھی یہ روایت بیان کرتے ہیں اور انکا ایک قول نقل فرماتے ہیں ۔ ملاحظہ کیجئے:

  • 18169 - قَالَ عَبْدُ اللهِ بْن أَحْمَدَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ سَوَاءً (1) قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: قَالَ عُبَيْدُ اللهِ الْقَوَارِيرِيُّ: " لَيْسَ حَدِيثٌ أَشَدَّ عَلَى الْجَهْمِيَّةِ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ قَوْلِهِ: لَا شَخْصَ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِدْحَةٌ مِنَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ "

عبید اللہ القواریری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہمیہ پر اس حدیث سے زیادہ سخت اور کوئی حدیث نہیں (کیونکہ اس حدیث میں) نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم قول ہے کوئی شخص نہیں جسے اللہ عز وجل سے بڑھ کر مدحت پسند ہو۔

یہ روایت بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہے۔

مجموعہ میں یہ روایت پیش کرنے کے بعد میں یہ بات بھی کہی تھی کہ جب آپ یہ روایت اہل بدعت کو پیش کریں گے تو وہ جھٹ سے آپ پہ''مجسمہ''  کی پھبتی کسیں گے!۔

تو لیں جناب!

میں نے بھی یہ روایت ترجمہ سمیت پیش کر دی ہے۔ اب جس جس کے حلق سے نیچے یہ صحیح حدیث نہیں اترتی اسے کھلی چھوٹ ہے کہ وہ مجھے بھی مجسمہ کہہ کر اپنی جلن ٹھنڈی کر لے۔ مجھے کوئی فرق نہیں  کہ

طاہر کو تم جیسے فقیہان شہر کی

پروا نہیں ہے شوق سے کافر کہا  کرو

عبید اللہ القواریری رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد جو یہ تبصرہ فرمایا ہے کہ یہ حدیث لفظ شخص کی وجہ سے جہمیہ پہ بہت گراں ہے۔ تو اس میں کوئی شک نہیں، عصر حاضر کے جہمیہ پہ بھی یہ حدیث بھاری ہے کہ اس میں اللہ کے لیے لفظ شخص کا  استعمال کیا گیا ہے کہ'' شخصوں میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہیں جو اس شخص یعنی اللہ تعالى سے بڑھ کر غیرت مند ہو''۔

کوموں (’’‘‘)کے درمیان والا جملہ میرا اپنا نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس حدیث کے الفاظ کا سلیس ترجمہ ہے!

 کیونکہ ’’لا شخص‘‘  نفی از اثبات ہے جو کہ جنس کی متقاضی ہے ، نتیجۃ لفظ شخص کے اللہ پر  صادق آنے کی متقاضی ہے۔

اور پھر اس معنى میں ایک اور روایت بھی ہے جسکی سند متحمل للتحسین ہے۔اور  وہ ہے ابو رزین لقیط بن عامر رضی اللہ عنہ کی طویل روایت  کہ جب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم روز محشر اللہ کو دیکھو گے تو عرض کرنے لگے:

يَا رَسُولَ اللهِ، كَيْفَ وَنَحْنُ مِلْءُ الْأَرْضِ وَهُوَ شَخْصٌ وَاحِدٌ نَنْظُرُ إِلَيْهِ وَيَنْظُرُ إِلَيْنَا؟ قَالَ: " أُنَبِّئُكَ بِمِثْلِ ذَلِكَ فِي آلَاءِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ آيَةٌ مِنْهُ صَغِيرَةٌ تَرَوْنَهُمَا وَيَرَيَانِكُمْ، سَاعَةً وَاحِدَةً لَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَتِهِمَا، وَلَعَمْرُ إِلَهِكَ لَهُوَ أَقْدَرُ عَلَى أَنْ يَرَاكُمْ، وَتَرَوْنَهُ مِنْ أَنْ تَرَوْنَهُمَا، وَيَرَيَانِكُمْ لَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَتِهِمَا

اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم یہ کیسے ممکن ہوگا کہ ہم اسکی طرف دیکھیں اور وہ ہمیں دیکھیے  جبکہ ہم زمیں بھر ہونگے اور اللہ تعالى تو ایک شخص ہے ؟ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تجھے اللہ عزو جل کی نعمتوں میں سے ہی اسکی مثال دیتا ہوں۔ سورج اور چاند اسکی حقیر سی نشانیاں ہیں ، تم انہیں دیکھتے ہو اور وہ تمہیں ، بیک وقت تمہیں انکی طرف دیکھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی، تیرے الہ کی عمر کی قسم، وہ  تمہیں دیکھنے اور تمہارے اسے دیکھنے پر  سورج و چاند کو تمہارے دیکھنے اور انکے تمہیں دیکھنے سے زیادہ قادر ہے کہ تم ان دونوں کے دیکھنے میں بھی دقت نہیں محسوس کرتے۔

(مسند احمد: 16206)

اس روایت میں ابو رزین رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالى کے لیے لفظ شخص کا استعمال فرمایا اور نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا۔ اگر اللہ کے لیے یہ لفظ استعمال کرنا جائز نہ ہوتا تو نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم انہیں ٹوک دیتے اور اصلاح فرماتے۔

قصہ مختصر کہ اللہ تبارک وتعالى کے لیے لفظ ''شخص'' کا استعمال جائز و درست ہے اور نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ لفظ اللہ کے لیے بولا گیا جسے آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا جیسا کہ ابو رزین رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے۔ اور خود نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ تعالى کے لیے یہ لفظ استعمال فرمایا جیسا کہ پہلی حدیث میں مذکور ہے کہ جسے عبید اللہ القواریری رحمہ اللہ نے جہمیہ پر سب سے گراں حدیث قرار دیا ہے۔

معترضین  خبر دار رہیں کہ اگر انہوں نے امام رازی رحمہ اللہ والی باطل تأویلات  ہمارے رد میں پیش کرنے کی کوشش کی تو ہم بھی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ والا جواب جو انہوں نے رازی کو دیا  اور دس وجوہ سے انکی باطل تأویل کا توڑ کیا۔ اسے پیش کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ فلسفیانہ اعتراض کرنے والے ایک اور بات بھی نوٹ فرما لیں کہ  لفظ شخص کے اللہ تعالى کے لیے اثبات پر دور نبوی سے لیکر اب تک کے سلفی علماء  کی ایک طویل فہرست موجود ہے، سو اگر ہم پہ شخصیات کا نام لے کر رعب جھاڑنے کی کوشش کی گئی تو اگرچہ ہم کسی بھی شخصیت سے مرعوب نہیں ہوتے،  پھر بھی وہ فہرست کسی بھی وقت حوالہ جات سمیت پیش کرنے پہ قادر ہیں۔ اور تیسری بات بھی متکلمین عصر ملحوظ رکھیں کہ ان کے گھر سے بھی ہم کچھ گواہیاں انکے خلاف پیش کرنے کی پوری استعداد رکھتے ہیں۔ ویسے اس باب میں ابن اثیر سب سے اچھے رہے کہ انہوں نے شخص سے ذات باری تعالى مراد لی ہے۔

خیر... فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔ پھر اگر کسی نے چھیڑا تو ہم بھی چھڑ جائیں گے.... ابتسامۃ!


پر ہوں میں شکوے سے یوں ، جیسے راگ سے باجا

اک ذرا چھیڑیئے ، پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے۔

 

  • الاربعاء PM 02:52
    2022-12-14
  • 585

تعلیقات

    = 2 + 9

    /500
    Powered by: GateGold