میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
باپردہ لوگوں کی بے پردگیاں
باپردہ لوگوں کی بے پردگیاں
مارہ رجب کے طیبات میں جب بنت عبدالرؤف کے تحریر کردہ مضمون کا یہ عنوان پڑھا توا س سرخی کو پڑھ کر بے حد مسرت ہوئی کہ یہ ایسا اہم ترین مضمون ہے جو ہمیشہ سے تشنہ چلاآتا ہے، آج اہل قلم اس کے بھی در پے ہوئے ہیں ۔ الحمد للہ اپنی استطاعت کے مطابق ایک جامع فکر انگیز تحریر تھی مگر میری دانست کے مطابق اس میں چندباتیں -جو بہت اہم تھیں - وہ رہ گئی ہیں تو میں نے سوچا کیوں کہ اس کو پایہ ٔ تکمیل تک پہنچا ہی دیا جائے۔ لہٰذا نشتر قلم کو قلب قرطاس پر پھیرنے کی جسارت کا مرتکب ہوا ہوں کہ شاید دختران طیبہ میری اس حقیر پیش کش کو مجلہ طیبات کے قلب میں جگہ دیں اور کسی کے لیے یہ سیاہی مشعل راہ بن جائے۔
اسلامی پردہ:۔
آج کل ہمارا دور فتنوں سے بھرپور ہے ۔ ہر نیا دن نئے فتنوں کو پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔ ان تمام فتنوں میں خوفناک فتنے وہ ہیں جن کو اہل مغرب کی تقلید کرنے والوں نے اسلام کا نام لیوا بن تہذیب اسلامی سے غداری کرتے ہوئے جنم دیا ہے۔ جس وقت انگریز برصغیر میں پہنچا تو اس نے "میکالے" سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ ہم مسلم اکثریت والے علاقوں میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرپاتے تو اس نے جواب دیا کہ جب تک قرآن کے ساتھ ان کی محبت باقی رہے گی اس میں کامیابی آپ کو حاصل نہیں ہوسکتی ۔ اہل اسلام آپ کے خلاف بغاوت کرتے رہیں گے تو پھر اس نے دوسرا سوال یہ کیا کہ کوئی ایسا طریقہ ٔ کار ہمیں بتاؤ کہ ہم ان پر حقیقی معنوں میں قابض ہوجائیں تو پورا سال سوچنے کے بعد میکالے نے چند تجاویز ان کے سامنے رکھیں:
۱۔ علماء اور عوام میں دوری پیدا کردو۔
۲۔ قرآن کے ترنم کے مقابل موسیقی کے آلات تیار کرو۔
۳۔ شعائر اسلام کی اہمیت ان کے دلوں سے ختم کردو۔
۴۔ لباس بدل دو۔
۵۔ خوبصورت نظر آنے کے لیے ایسی چیزوں کو رواج دو کہ اسی میں الجھ جائیں
۶۔ ان کا نصاب و نظام تعلیم تبدیل کردو۔
انگریز اپنے ان اہداف میں مکمل طور پر کامیاب ہوچکا ہے اور آج ہم نام نہاد آزادی کے حاملین فکری اور نظری اعتبار سے انگریز کے غلام ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہمارا اسلام آج ہماری خواہشات کے تابع ہے۔ ہمارا قانون ِپردہ یہ ہے رشتے دار سے پردہ نہیں، گلی محلے والے سے پردہ نہیں ، ہاتھ ، پاؤں، چہرے کا پردہ نہیں اور جو لوگ پردہ کے قائل ہیں وہ بھی شرعی اور اسلامی پردہ سے آشنا نہیں کہ کن سے پردہ کرنا ہے اور کن سے نہیں اور پردہ کیسے کیا جاتا ہے اور کیسے ہوتا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب نازل فرمائی
"يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَـٰبِيبِهِنَّ ۚ[الاحزاب: ۵۹]
اے نبی ﷺ! اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مؤمنوں کی عورتوں کو فرمادیجئے کہ اپنے اوپر جلباب (لمبی چادریں) اوڑھیں۔
تو اس وقت عورتیں صرف اپنے ہاتھ اور چہرہ ننگا رکھا کرتی تھی یا بعض خواتین کے پاؤں نظر آئے تھے ، اس آیت ِ حجاب کے نازل ہوجانے کے بعد غیر محرم حضرات اور جن سے اللہ نے پردہ کرنا فرض کیا ہے ان کے سامنے ہاتھ پاؤں اور چہرہ کوبھی چھپانا فرض ہوگیا۔ کیونکہ باقی تمام جسم عورت کا ستر ہے وہ تو محرم وغیرمحرم دونوں سے چھپانا ضروری ہے۔
پردہ کرنا کن کن سے فرض ہے؟ :۔
رہی یہ بات کہ وہ کون لوگ ہیں جن سے پردہ کرنا ضروری ہے تو وہ سورۂ نور کی آیت نمبر ۳۱ میں اللہ بیان فرمارہے ہیں کہ ان لوگوں کے علاوہ باقی تمام سے پردہ کرنا ہے۔
وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
مؤمنہ عورتوں سے کہو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو (چارو ناچار) ظاہر ہوجائے اور اپنے گریبانوں پر اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں ، والد، سسر، بیٹے، خاوند کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے ، اپنی عورتیں ، مرد غلام جن میں شہوت نہیں ہے ، وہ بچے جو عورتوں کی مخفی باتوں کا علم نہیں رکھتے (ان کے سامنے اظہار زینت کرنا جائز ہے)۔ اور وہ اپنے پاؤں زمین پہ نہ ماریں مبادا انکی پوشیدہ زینت ظاہر ہو جائے۔ اور اے مؤمنو! سبھی اللہ کے حضور توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
پردہ کا طریقہ ٔ کار:۔
عورت کا مکمل جسم پردہ ہے ، اس کی آواز بھی پردہ ہے ، اس کا لباس بھی اور قد کاٹھ بھی (الاماظہر منہا) "جو چیز مجبوراً ظاہر ہوجائے" میں عورت کا قد اور اس کا وہ لباس شامل ہے جس سے وہ پردہ کرہی ہے یعنی برقعہ وغیرہ ، باقی تمام جسم کو عورت چھپاکر رکھے گی اس کے ہاتھ ، پاؤں کا نچلا حصہ اور چہرہ کو چھپانا پردہ میں شامل ہے۔
پردہ کے نے کے لیے خواتین سادہ کپڑا استعمال کریں جس پر کڑھائی وغیرہ نہ کی گئی ہو اور زرق برق لباس سے بھی پرہیز کریں کہ وہ خود محل نظر بن جاتا ہے۔ آہستہ قدموں سے چلیں ، پاؤں کو زور سے زمین پر نہ ماریں (النور:31) اور راستہ کے ایک طر ف ہو کر چلیں (سنن ابي داود: 5272) نرم لہجہ میں گفتگو نہ کریں اور اپنی آنکھوں کو چھپانے کا بھی خاص اہتمام کریں کیونکہ انسانی جسم میں سب سے خوبصورت چیز چہرہ ہے اور چہرہ میں سب سے زیادہ خوبصورتی کی حامل آنکھ ہے، اسی لیے تو ایک عرب شاعر نے کہا تھا کہ
کل فتنۃ مبداھا من النظر
ومعظم النار من مستصغر الشرر
’’ہر فتنہ کی ابتداء نظر کے ساتھ ہوتی ہے
اور آگ کا بڑا الاؤ چھوٹے سے شعلے سے ہی روشن ہوتا ہے۔‘‘
مگر افسوس کہ تما م جسم چھپانے والی خواتین بھی آنکھوں کو چھپانے کا خیال نہیں رکھتیں ، پھر ستم بالائے ستم یہ کہ اپنے جسم کو لوگوں کی نظروں سے اوجھل کرنے والی بہنوں کی نظریں غیرمحرم مردوں کے چہروں کا طواف کرتی ہیں حالانکہ یہ بات سب سے اہم ہے کوئی عورت کسی غیرمحرم کو نہ دیکھے (النور:31)
اورجس چادر یا برقعہ کے ساتھ خواتین پردہ کرتی ہیں وہ نصف پنڈلی سے ایک ذراع نیچے کی جانب لمبا ہو (ذراع ابتداء ہاتھ سے لے کر کہنی تک کے حصہ کو کہتے ہیں) یعنی زمین پر گھسٹتا ہو کہ کہیں ان کے پاؤں غیرمحرم مردوں کو نظر نہ آجائیں ۔ پردہ کرنے کے لیے کھلے لباس کا اہتمام کریں ، برقعہ یا چادر اس قدر تنگ نہ ہو کہ پردہ کا مقصد ہی فوت ہوجائے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : "میری امت کے دو گروہ جہنمی ہیں ، میں نے ان کو نہیں دیکھا: (۱) وہ مرد جن کے ہاتھوں میں گائے کی دم کی طرح کے کوڑے ہوں اور وہ اس کے ساتھ لوگوں کے ماریں گے (۲) وہ عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہیں ( ایسا تنگ ، ادھورا اور باریک لباس پہننے سے ان کا مقصد یہ ہے کہ) وہ خود دوسروں کی طرف مائل ہوتی ہیں اور دوسروں کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں ، ان کے سر بختی اونٹوں کی کہانوں کی طرح جھکے ہوئے ہیں (یعنی سر کے بال سمیٹ کر پیچھے باندھنے والی خواتین ، جس طرح کہ آج کل عام رواج ہے) وہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ ہی جنت کی خوشبو پائیں گی جبکہ اس کی خوشبو بہت دور کی مسافت سے بھی آتی ہوگی (مسلم:2128)
بلاوجہ گھر سے باہر نہ نکلیں ، اگر مجبوراً نکلنا بھی پڑے تو خوشبو کا استعمال نہ ہو اور ان احکام کی پابندی ہو۔
ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب
الراجی الی عفو ربہ الغافر
ابوعبدالرحمن محمد رفیق الطاہر
-
الاحد AM 07:56
2022-12-18 - 3734