میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
تشہد اول میں درود اور دعاء
پہلے تشہد میں درود اور دعاء کا حکم
محمد رفیق طاہر، عفا اللہ عنہ
نماز کے ہر تشہد میں التحیات کے بعد درود پڑھنا بھی فرض ہے اور دعاء مانگنا بھی ۔ کیونکہ دونوں کا شارع نے حکم دیا ہے، اور نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کسی بھی تشہد میں درود یا دعاء چھوڑنا ثابت نہیں ہے۔
اللہ تبارک وتعا لی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
’’یقینا اللہ تعالی اور اس کے فرشتے نبی کریم ﷺ پر درود بھیجتے ہیں اے ایما ن والو ں تم بھی آپ ﷺ پر صلاۃ و سلام بھیجو ‘‘
[الأحزاب: 56]
اس آیت مبارکہ کا حکم عام ہے اور یہ نماز کو بھی شامل ہے ۔ جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے سوالات سے ظاہر ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہو ں نے سوال کیا کہ ہم سلام تو سیکھ چکے ہیں صلوۃ کیسے پڑھیں۔ چنانچہ ابو مسعود انصاری عقبہ بن عمر و رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
أَقْبَلَ رَجُلٌ حَتَّى جَلَسَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمَّا السَّلَامُ عَلَيْكَ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ ، فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ إِذَا نَحْنُ صَلَّيْنَا فِي صَلَاتِنَا؟ ، قَالَ: فَصَمَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَحْبَبْنَا أَنَّ الرَّجُلَ لَمْ يَسْأَلْهُ ، ثُمَّ قَالَ: " إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلَيَّ فَقُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
’’ایک آدمی آیا وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا اور ہم بھی موجود تھے وہ کہنے لگا اے اللہ کے رسول ﷺ ’’سلام ‘‘ تو ہم سیکھ چکے ہیں تو صلاۃ ہم اپنی نمازوں میں آپ پر کیسےبھیجیں (یہ بات سن کر رسو ل اللہ ﷺ خاموش ہو گئے حتی کہ ہم نے چاہا کہ کاش یہ آدمی سوال ہی نہ کر تا ۔ پھر آپ نے فرما یا جب تم مجھ پر صلاۃ بھجو تو کہو ’’ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ‘‘ .... الخ
[ سنن دار قطنی کتاب الصلاۃ باب ذکر وجوب الصلاۃ علی النبی فی التشھد (1339)]
اسی طرح صحیح مسلم میں ایک روایت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ہم سعد بن عبادۃ کی مجلس میں بیٹھے ہو ئے تھے کہ رسو ل اللہ ﷺ تشریف لائے تو بشیر بن سعد نے سوال کیا کہ
أَمَرَنَا اللهُ تَعَالَى أَنْ نُصَلِّيَ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ، فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى تَمَنَّيْنَا أَنَّهُ لَمْ يَسْأَلْهُ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُولُوا اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَالسَّلَامُ كَمَا قَدْ عَلِمْتُمْ
اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آ پ ﷺ پر صلاۃ بھیجیں تو ہم کیسے آپ ﷺ پر درود بھیجیں نبی اکرم ﷺ خاموش ہو گئے حتی کہ ہم تمنا کر نے لگے کہ آ پ سے سوال نہ کر نا پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہو ’’اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ‘‘۔۔۔۔الخ اور سلام (ویسے ہی )جیسے تم سیکھ چکے ہو۔
[مسلم کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ علی النبی بعد التشہد(405)]
درج بالا ادلہ سے معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ پر درود پڑھنے کا حکم اللہ نے سورہ احزاب میں دیا ہے اس آیت مبارکہ کے نزول کے بعد صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ سے طریقہ درود سیکھا تو آپ نے انہیں نماز والا درود (درود ابراہیمی ) سکھایا ۔لہذا یہ ثابت ہوا کہ نماز میں تشہد کے بعد درود پڑھنا اللہ کا حکم ہے ۔
نبی کریم ﷺ بھی نماز میں درمیانے اور آخری دونوں قعدوں میں تشہد کے بعد درود پڑھا کر تے تھے جس پر درج ذیل احادیث دلالت کر تی ہیں ۔
عن عائشة رضی الله عنها قالت: كُنَّا نُعِدُّ لِرَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ ، فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ مَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ يَتَسَوَّكُ وَيَتَوَضَّأُ ، ثُمَّ يُصَلِّى تِسْعَ رَكَعَاتٍ لاَ يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلاَّ عِنْدَ الثَّامِنَةِ ، فَيَدْعُو رَبَّهُ وَيُصَلِّى عَلَى نَبِيِّهِ ، ثُمَّ يَنْهَضُ وَلاَ يُسَلِّمُ ، ثُمَّ يُصَلِّى التَّاسِعَةَ فَيَقْعُدُ ، ثُمَّ يَحْمَدُ رَبَّهُ وَيُصَلِّى عَلَى نَبِيِّهِ ، وَيَدْعُو ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً يُسْمِعُنَا
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما بیان فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی مسواک اور وضو کا پانی تیار کر کے رکھ دیتے تو جب اللہ کی مرضی ہو تی آپﷺ کو رات کے وقت بیدار فرمادیتا تو آپﷺ مسواک فرماتے پھر نو(9) رکعتیں پڑھتے ان میں صرف آٹھویں رکعت میں بیٹھتے اللہ سے دعا مانگتے درود پڑھتے پھر کھڑے ہو جاتے سلام نہ پھرتے پھر نویں (9) رکعت پڑھتے اس کے آخر میں بیٹھتے اللہ کی حمد بیان کرتے اس کے نبی ﷺ پر درود بھیجتے اور دعا مانگتے پھر سلام پھیردیتے ۔۔الخ
[سنن البيهقي کتاب الصلاۃ باب في قیام اللیل (2/499/4822)، سنن ابن ماجه کتاب الصلاۃ والسنة فيها باب ماجاء فی الوتر بثلاث و خمس و تسع(1191)]
یہی حدیث صحیح مسلم میں بایں الفاظ مروی ہے:
وَيُصَلِّي تِسْعَ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهَا إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ، فَيَذْكُرُ اللهَ وَيَحْمَدُهُ وَيَدْعُوهُ، ثُمَّ يَنْهَضُ وَلَا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّ التَّاسِعَةَ، ثُمَّ يَقْعُدُ فَيَذْكُرُ اللهَ وَيَحْمَدُهُ وَيَدْعُوهُ، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا
اور آپ ﷺ نو(9) رکعتیں پڑھتے صرف آٹھویں رکعت میں (تشھد) بیٹھتے (اس سے قبل نہ بیٹھتے ) پس اللہ کا ذکر کر تے اس کی حمد بیا ن کر تے دعا مانگتے پھرکھڑ ے ہو جاتے سلام نہ پھرتے پھر نو یں رکعت پڑھتے اس میں (تشھد ) بیٹھتے اللہ کا ذکر کر تے اسکی حمد بیان کرتے اور دعا مانگتے پھر سلام پھیر دیتے ۔۔۔الخ
[مسلم كتاب صلاۃ المسافرین وقصرها باب جامع صلاۃ اللیل ومن نام عنه أو مرض (746)]
امام احمدؒ نےسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مسانید میں اس روایت کو یو ں نقل کیا ہے
ثُمَّ يُصَلِّي ثَمَانِي رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلَّا عِنْدَ الثَّامِنَةِ فَيَجْلِسُ وَيَذْكُرُ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَيَدْعُو وَيَسْتَغْفِرُ ثُمَّ يَنْهَضُ وَلَا يُسَلِّمُ ثُمَّ يُصَلِّي التَّاسِعَةَ فَيَقْعُدُ فَيَحْمَدُ رَبَّهُ وَيَذْكُرُهُ وَيَدْعُو ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا..... الخ
پهرآٹھ رکعتیں پڑھتے صرف آٹھویں رکعت میں ہی (تشھد ) بیٹھتے اور اللہ کا ذکر کر تے دعا مانگتے استغفار کر تے پھر کھڑئے ہو جاتے سلام نہ پھرتے پھر نویں رکعت پڑھتے اللہ کی حمد بیان کرتے اسکا ذکر کرتے دعا مانگتے پھر سلام پھیرتے ۔۔ الخ
[مسند احمد 24269]
تو ان احادیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ نو رکعتیں پڑھتے ان میں صرف آٹھویں رکعت میں بیٹھتے اللہ کا ذکر ، اس کی حمد بیان کر تے اور اسکے نبی ﷺ پر درود پڑھتے دعا مانگتے ، استغفار کر تے پھر کھڑے ہو جاتے سلام نہ پھرتے پھر نویں رکعت پڑھتے ـــــالخ
ایک دوسری روایت جو کہ ( بخاری و مسلم )میں موجود ہے جس میں نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام کو تشہد پڑھنے کا طریقہ سکھایا ہے اس میں بھی تشہد کے بعد دعا مانگنے کا حکم نبی کریم ﷺ نے دیا ہے
[بخاری کتاب الاستئذان، باب السلام من أسماء الله تعالی (6230) ، کتاب الاذان (835) مسلم کتاب الصلاۃ باب التشهد فی الصلوة (402) ]
اسی طرح یہ حدیث سنن نسائی میں شرط مسلم پر ان الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے :
ثُمَّ لِيَتَخَيَّرْ مِنَ الدُّعَاءِ بَعْدُ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ يَدْعُو بِهِ
پھر جو دعا اسکو پسند ہو وہ دعا مانگے۔
[نسائی کتاب صفۃ الصلاۃ باب تخییر الدعا بعد الصلاۃ علی النبیﷺ1298]
جس سے معلوم ہو تا ہے کہ نبی کر یم ﷺ اور صحابہ کرام تشہد اور دعا پڑھا کرتے تھے ۔خواہ تشہد پہلا ہو یا آخری کیونکہ تخصیص کی کو ئی دلیل نہیں ہے۔ پھر ’’5‘‘ ھ میں سورۃ الا حزاب کے نازل ہو نے کے بعد تشہد اور دعا کے درمیان صلوۃ (درود) کا اضافہ کیا گیا جیسا کہ سابقہ احادیث سے معلوم ہو تا ہے ۔لہذا پہلے اور دوسرے دونوں قعدوں میں تشہد کے بعد درود بھی پڑھنا چاہیے اور دعا بھی مانگنی چاہیے ۔
اسی طرح رسول اللہ صلى اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر کرنے یا سننے پہ درود پڑھنے کے دلائل بھی تشہد اول میں درود پڑھنے پہ دلالت کرتے ہیں کہ اس میں بھی شہادتین میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی ذکر ہوتا ہے، اور ذکر رسول صلى اللہ علیہ وسلم ہونے پہ درود نہ پڑھنے والوں کے لیے وعید ہے:
سیدنا حسین بن على رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
البَخِيلُ الَّذِي مَنْ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ
وہی بخیل ہے کہ جس کے پاس میرا ذکر ہوا اور اس نے مجھ پہ درود نہ پڑھا۔
جامع الترمذی: 3546
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ
اس شخص کا ناک خاک آلود ہو کہ جس کے پاس میں ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پہ درود نہ بھیجا۔
جامع الترمذی : 3645
تشہد درمیانہ ہو یا آخری، رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک آتا ہی ہے۔ اور پھر اگر کوئی درود پڑھے بغیر اٹھ جائے تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے ان فرامین عالیہ کے مطابق وہ بخیل اور مذکورہ بالا وعید کا مستحق بھی!۔
فائدہ:
یہاں ایک اور بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ نماز میں پڑھنے کے لیے نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے ایک خاص درود یعنی درود ابراہیمی سکھایا ہے، اور ’’قولوا‘‘ کہہ کر یہ خاص الفاظ پڑھنے کا حکم د یا ہے۔ لہذا کوئی بھی نماز ہو اس میں درود ابراہیمی کے سوا کوئی اور درود کفایت نہیں کرے گا، کیونکہ اسی کا حکم دیا گیا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا ادلہ سے واضح ہے۔البتہ نماز کے سوا کسی بھی اور موقع کے لیے کوئی درود خاص نہیں ہے ، سو درود کے لیےکوئی سے بھی الفاظ اختیار کیے جاسکتے ہیں بشرطیکہ ان میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔
مانعین کے دلائل کا جائزہ
پہلی دلیل:
عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ كَأَنَّهُ عَلَى الرَّضْفِ»، قَالَ: قُلْنَا: حَتَّى يَقُومَ؟ قَالَ: «حَتَّى يَقُومَ»
ابو عبیدہ اپنے والد گرامی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جب دو رکعتوں (کے تشہد) میں ہو تے تو یو ں ہو تا کہ گویا آپﷺ پتھر پر ہیں (شعبہ ) کہتے ہیں کہ ہم نے کیا جب تک آپ ﷺ کھڑے نہ ہوتے تو ( سعد بن ابراہیم نے ) کیا جب تک آپ ﷺ کھڑئے نہ ہو تے ( یعنی بہت جلد پہلےتشہد سے کھڑے ہو جاتے تھے) ۔
[سنن ابی داود کتاب الصلاۃ باب فی تخفیف القعود(995)]
محاکمہ: ۔
اولا: اس روایت کو ابو عبیدہ عامربن عبداللہ بن مسعود اپنے والد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہا ہے جبکہ ابو عبیدہ کا سماع اپنے والد عبداللہ بن مسعود سے ثابت نہیں ہے لہذا یہ حدیث انقطاع کی وجہ سے ضعیف اور ناقابل عمل ہے ۔
ثانیا: اس روایت کے الفاظ درمیانے قعدے کےاختصار پر تو دلالت کر تے ہیں مگر تشہد ہی کے الفاظ پر اکتفاءکرنے اور درود نہ پڑھنے اور دعا نہ کر نے پر بالکل دلالت نہیں کر تے ہیں لہذا یہ روایت درود نہ پڑھنے کی دلیل ہی نہیں بنتی ۔
دوسری دلیل :
عَنْ عَائِشَةَ «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَزِيدُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ عَلَى التَّشَهُّدِ»
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دو رکعتوں ( یعنی درمیانے تشہد میں ) تشہد سے زیادہ کچھ نہ پڑھتے ۔
[مسند أبی یعلى 7/337(4373)]
محاکمہ
اولا: مسند ابی یعلی الموصلی میں اس کی سند یوں ہے :
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنْ عَائِشَةَ
تو اس سند میں ابو الجوزاء عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیا ن کر رہا ہے جبکہ محدثین کی تحقیق کے مطابق ابو الجو زاء کا عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع ثابت نہیں ہے جیسا کہ حافظ صاحب نے تھذیب التھذیب میں ابن عدی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ
وقول البخاري فی إسناده نظر یرید أنه لم یسمع من مثل ابن مسعود وعائشة وغیرهما
’’ اور بخاری کا یہ کہنا کہ اس سند محل نظر ہے اس کا معنی یہ ہے کہ اس ( ابو الجوزاء) نے عبد اللہ بن مسعو د اور عائشہ وغیرہ جیسو ں سے نہیں سنا ‘‘ لہذا یہ روایت انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے ۔
[ تہذیب التہذیب 1/ 335(702)]
ثانیا: علی بن أبی بکر الھیثمی نے مجمع الزوائد و منبع الفوائد [2/142] میں اس روایت کو نقل کر نے کے بعد لکھا ہے
رواه أبو يعلى من رواية أبي الحويرث عن عائشة والظاهر أنه خالد بن الحويرث وهو ثقة وبقية رجاله رجال الصحيح
اسکو ابو یعلی نے ابو الحویرث عن عائشہ بیان کیا ہے اور ظاہر بات یہ کہ وہ خالد بن الحویرث ہے اور وہ ثقہ ہے اور اسکے باقی تمام رجال صحیح کے رجال ہیں ۔
لیکن مجھے مسند ابو یعلی میں تو یہ روایت نہیں ملی جو ابو الحویرث عن عائشہ کے طریق سے مروی ہے شاید کسی اور جگہ ہو گی، غالب گمان یہی ہے کہ ہیثمی کو وہم ہوا ہے کہ ابو الجوزاء کے بجائے ابو الحویرث سمجھ بیٹھے ہیں۔ بہر حال بفرضِ تسلیمِ وجود، اس کی سند میں بھی مقال ہے کیو نکہ ابو الحویرث جو عائشہ سے روایت کر تا ہے طبقہ ثالثہ ( طبقہ وسطی من التابعین ) میں سے ہے اور وہ مجہول ہے جیسا کہ میزان میں ہے :
ابو الحویرث عن عائشة لا یعرف فان کان الأول فلم یدرك عائشة
وہ ابو الحویرث جو عائشہ سے روایت کرتا ہے وہ تو معروف نہیں ( مجہو ل ) ہے اگر پہلا ( ابو الحویر ث یعنی عبد الرحمن بن معاویہ) مراد ہے تو اس نے عائشہ کو نہیں پایا ہے۔
[ میزان الاعتدال فی نقد الرجال 7/359(10144)]
تو ابوالحویرث کی روایت دونوں صورتو ں میں مقبول نہیں بن سکتی ہے کیونکہ ایک ابو الحو یر ث جو عائشہ سے روایت کرتا ہے وہ تو ہے ہی مجہول اور دوسرا ابو الحو یرث جوعبد الر حمن بن معاویہ ہے اس نے ابن عباس کو تو پایا ہے مگر عائشہ کو نہیں پایا لہذا اس صورت میں روایت منقطع ہے۔ رہا علامہ ہیثمی کا یہ کہنا کہ یہ ابو الحو یرث نہیں بلکہ خالد بن الحو یر ث ہے تو وہ بھی مجہول ہے، علامہ مزی تہذیب الکمال 8/41(1600) میں رقمطراز ہیں :
’’قال عثمان بن سعيد الدارمي سألت يحيى بن معين عنه فقال لا أعرفه قال أبو احمد بن عدي وخالد هذا كما قال بن معين لا يعرف وأنا لا أعرفه أيضا وعثمان بن سعيد كثيرا ما سأل يحيى بن معين عن قوم فكان جوابه أن قال لا أعرفهم وإذا كان يحيى لا يعرفه فلا تكون له شهرة ولا يعرف‘‘
’’ عثمان بن سعید دارمی کہتے ہیں کہ میں نے یحی بن معین سے اس ( خالد بن حویر ث ) کے بارے میں سوال کیا تو فرمایاکہ میں اسے نہیں پہچانتا ، ابو احمد بن عدی کہتے ہیں اور یہ خالد (ابن الحویرث) جیسا کہ ابن معین نے کہا ہےمجہول ہے، اور میں بھی اسے نہیں جانتا اور عثمان بن سعید اکثر جب یحی بن معین سے لو گو ں کے متعلق پو چھتے اور وہ انکو مژدہ ’’لا أعرفھم‘‘ سنا دیتے تو اس وقت صورت حال یہ ہو تی کہ جب یحیی کسی کو نہ جانتے ہوئے تو نہ ہی اسکو شہرت حاصل ہو تی تھی اور نہ ہی وہ معروف ہو تا تھا (یعنی ارباب علم کے ہاںوہ مجہول قرار پاتا ) ۔
ابن حبان کا اسکو کتاب الثقات میں ذکر کرنا کسی کام کا نہیں ہے کیونکہ محدثین کے ہان ابن حبان کی ایسی تو ثیق مقبو ل نہیں ہے ۔
حاصل کلام
یہ کہ یحیی بن معین جیسے امام الجرح والتعدیل اعلم الناس بالرجال نے بھی خالد بن الحویرث کو مجہول قرار دیا ہے لہذا اسکی روایات بھی ساقط الاعتبار ہیں تونتیجہ یہ کہ سیدہ عائشہ سے روایت کر نیوالا خالد بن حویر ث ہو، ابو الحویر ث ہو ، یا دوسرا ابو الحویرث یعنی عبدالرحمان بن معاویہ ہو تینو ں صورتوں میں یہ روایت ناقابل احتجاج ہے دو کی جہالت اور ایک کی عدم لقاء کی وجہ سے ۔
ثالثا: یہ روایت منکر بھی ہے! ۔ کیونکہ اس کے متن میں ابو معمر نے ثقات کی مخالفت کی ہے۔ ابن ابی شیبہ نے عبد السلام سے اسے اسی سند کے ساتھ بایں الفاظ روایت کیا ہے:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ : التَّحِيَّاتُ.
نبی صلى اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں میں التحیات پڑھتے تھے۔
مصنف ابن أبی شیبۃ: 3040
اور ان الفاظ میں حصر نہیں ہے! کہ صرف التحیات پر ہی اکتفاء کرتے تھے یا زائد بھی پڑھتے تھے ۔
پھر اگر ابو معمر سے اوپر دیکھیں تو عبد السلام کے علاوہ بہت سے ثقات نے اس روایت کو بدیل سے نقل کیا ہے جو ابن ابی شیبہ کے نقل کردہ الفاظ کی تایید کرتے ہیں مثلا حسین المعلم نے یہ روایت بدیل سے بایں الفاظ نقل کی ہے:
وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّةَ
اور نبی صلى اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعتو ں میں التحیات پڑھتے تھے۔
صحیح مسلم: 498 واللفظ لہ،سنن أبی داود: 783، مستخرج أبی عوانۃ: 2004، مسند أبی یعلى: 4667، صحیح ابن خزیمۃ: 4667، مصنف عبد الرزاق: 3081، مسند إسحاق بن راہویہ: 1331، مسند أحمد: 24030
اور اسی طرح عبد الرحمن بن بدیل العقیلی نے اپنے والد بدیل سے یہ روایت اسی سند سے بایں الفاظ نقل کی ہے:
وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّاتِ
اور وہ ہر دو رکعتوں میں التحیات پڑھتے تھے۔
مسند الطیالسی: 1651
عبد السلام بن حرب اگرچہ ثقہ ہیں اور صحیحین کے راوی ہیں تاہم ان کی مناکیر بھی ہیں، اور اس روایت میں انہوں نے ثقات کی مخالفت کی ہے، سو ایسی صورت میں انکی روایت قبول نہیں کی جاسکتی۔اصل روایت میں التحیات کا مطلق ذکر تھا، جسے غلطی سے حصر کے ساتھ ذکر کر دیا گیا، اور یہ غلطی اس روایت کی علت ہے!
الغرض یہ روایت ابو الجوزاء اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان انقطاع، اور ابو معمر کی ابن ابی شیبہ کی مخالفت یاعبد السلام بن حرب کی ابن بدیل اور حسین المعلم کی مخالف کی بنا پر منکر ضعیف ہے۔
تیسری دلیل:
عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَنْ تَشَهُّدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ وَفِي آخِرِهَا، عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ النَّخَعِيُّ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّشَهُّدَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ وَفِي آخِرِهَا، فَكُنَّا نَحْفَظُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ حِينَ أَخْبَرَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَهُ إِيَّاهُ، قَالَ: فَكَانَ يَقُولُ: إِذَا جَلَسَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ، وَفِي آخِرِهَا عَلَى وَرِكِهِ الْيُسْرَى: «التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ، وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ» ، قَالَ: «ثُمَّ إِنْ كَانَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ نَهَضَ حِينَ يَفْرُغُ مِنْ تَشَهُّدِهِ، وَإِنْ كَانَ فِي آخِرِهَا دَعَا بَعْدَ تَشَهُّدِهِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدْعُوَ ثُمَّ يُسَلِّمَ»
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھے رسو ل اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پہلے اور آخری تشہد کے بارے میں عبد الرحمن بن اسود بن یزید النخعی نے بتایا جسے وہ اپنے والد سے اور وہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے نماز کے درمیان اور آخر میں تشہد سکھایا۔ تو جب انہوں نے ہمیں بتایا کہ انہیں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ سکھایا ہے تو ہم عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ سیکھتے تھے۔ تو جب وہ (عبد اللہ بن مسعود) نماز کے درمیان اور آخر میں اپنی بائیں ران پہ بیٹھتے تو کہتے «التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ، وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ» (اسود بن یزید ) کہتے ہیں پھر اگر وہ (ابن مسعود رضی اللہ عنہ) نماز کے درمیان میں ہوتےتو تشہد سے فارغ ہوتے ہی اٹھ جاتے، اور اگر آخر (والے تشہد) میں ہوتے تو تشہد کے بعد جو چاہتے دعاء کرتےپھر سلام پھیرتے۔
مسند أحمد: 4382
محاکمہ
اولا: اس روایت میں پہلے تشہد میں التحیات کے بعد کھڑے ہوجانے کا ذکر موقوف ہے یعنی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا فعل ہے جسے انہوں نے نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کیا ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ ضرور کہا ہے کہ مجھے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے تشہد سکھایا، لیکن یہ نہیں فرمایا کہ میرا یہ تشہد رسول اللہ صلى ا للہ علیہ وسلم والا ہی ہے، جیسا کہ عموما صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم وضاحت کیا کرتے ہیں، سو یہ روایت موقوف ہے اور موقوفات دین میں حجت نہیں۔بالخصوص جب وہ مرفوع روایت کے مخالف بھی ہوں۔
اور اس کی موقوف متصل ہونے کی دلیل ابن خزیمہ والی روایت ہے جس میں صراحت موجود ہے:
عن ابن إسحاق قال : وحدثني عن تشهد رسول الله في وسط الصلاة ، وفي آخرها عبد الرحمن بن الأسود بن يزيد النخعي ، عن أبيه قال : وكنا نحفظه عن عبد الله بن مسعود كما نحفظ حروف القرآن حين أخبرنا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم علمه إياه قال فكان يقول إذا جلس.....ثم إن كان في وسط الصلاة نهض حين يفرغ من تشهده ، وإن كان في آخرها دعا بعد تشهده... الحدیث
" ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے نماز کے درمیان والے اورآخر والے تشہد کے بارے میں عبدالرحمن بن الاسود نے اپنے باپ اسود بن یزید سے روایت کرتے ہوئے حدیث سنائی کہ ہم عبداللہ بن مسعود ؓ سے یاد کرتے تھے جیسے کہ ہم قرآن کے حروف یاد کرتے ہیں جب انھوں (عبداللہ بن مسعودؓ) نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو یہ (تشہد) سکھایا ہے تو جب وہ بیٹھتے تو کہتے ...... پھر اگر وہ نماز کے درمیان میں ہوتے تو تشہد سے فارغ ہوکر کھڑے ہوجاتے اور اگر آخر والے تشہد میں ہوتے تو تشہد کے بعد دعا مانگتے ......الحدیث
[[ابن خزیمہ ۳۵۰/۱ (۷۰۸)]]
یہی روایت ابن خزیمہ۳۴۸/۱ (۷۰۲) میں ان الفاظ کے ساتھ بھی آئی ہے:
أنا عبد الله بن مسعود ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم علمه التشهد في الصلاة أنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَهُ التَّشَهُّدَ فِي الصَّلَاةِ قَالَ: كُنَّا نَحْفَظُهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ كَمَا نَحْفَظُ حُرُوفَ الْقُرْآنِ الْوَاوَ وَالْأَلِفَ، فَإِذَا جَلَسَ عَلَى وَرِكِهِ الْيُسْرَى قَالَ:....الحديث
"اسود بن یزیدکہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن مسعود ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہﷺ نے اس کو نماز میں تشہد پڑھنا سکھایا۔ کہتے ہیں (اسود بن یزید)کہ ہم اس کو عبداللہ بن مسعود ؓ سے یاد کرتے تھے جیسا کہ قرآن مجید کے حروف واؤ،الف وغیرہ یاد کرتے تھے ، تو جب وہ بیٹھتے تو ...الحدیث
ان روایات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ یہ روایت ابن مسعود ؓ پر موقوف ہے اور کان یقول اور اذا جلس کی ضمیریں عبداللہ بن مسعود ؓ کی طرف لوٹتی ہے ۔ ان کے فاعل عبداللہ بن مسعود بنتے ہیں اور ’’إذا جلس‘‘اسود بن یزید نخعی کا مقولہ ہے۔
درج بالا بحث سے معلوم ہو اکہ یہ روایت موقوف ہے اور موقوف روایات دین حجت نہیں۔
ثانیا: اصول یہ ہے کہ کبھی ’’جزء‘‘ بول کر’’کُل‘‘ مراد لیاجاتا ہے ۔ اس جگہ بھی قعدہ اولیٰ اور اخیرہ میں تشہد سے مراد تشہد مع درود ہی ہے۔ اگر تشہد سے صرف تشہد ہی مراد لیا جائے تو اس روایت کے مطابق آخری رکعت والے تشہد میں بھی تشہد کے بعد دعا مانگنے کا ذکر ہے، درود پڑھنا آخری رکعت میں بھی ثابت نہیں ہورہا۔
اگر اس اصول کو بھی مدنظر رکھ لیا جائےکہ’’عدم ذکر عدم ثبوت کو مستلزم نہیں ہوتا‘‘ تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ آخری رکعت میں درود کے ثبوت کے لیے دیگر روایات کا سہارا لینا پڑے گا تو دیگر روایات بعینہٖ قعدہ اولیٰ میں بھی درود پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں۔ لہٰذا دونوں کا معاملہ یکساں ہے اور یہ روایت بھی مانعین کے لیے دلیل بننے سے قاصر ہے۔
ثالثا: اس روایت کے بھی متن میں نکارت ہے!سو یہ بھی معرض استدلال سے خارج ہے!۔ کیونکہ ابن اسحاق اگرچہ صدوق ، حسن الحدیث الحدیث ہیں، لیکن انکے حافظہ میں کچھ معمولی سا مسئلہ تھا، سو جب ان کی روایت کے سُقم پہ قرینہ موجود ہو تو ان کے تفرد کو قبول کرنے سے احتراز لازم ہے۔ اور یہ روایت بھی اسی قبیل سے ہے۔ کیونکہ وہ اس روایت کو نقل کرنے میں اضطراب کا شکار ہوئے ہیں۔ کبھی تو پہلے تشہد میں تورک کا ذکر کیا ہے(جیسا کہ مذکورہ بالا روایت میں ہے) اورکبھی نہیں کیا ، اور کبھی پہلے تشہد میں التحیات کے فورا بعد اٹھنے کا ذکر کیا ہے اور کبھی نہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَشَهَّدُ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ: وَكُنَّا نَحْفَظُهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا نَحْفَظُ حُرُوفَ الْقُرْآنِ الْوَاوَاتِ وَالْأَلِفَاتِ، قَالَ: " إِذَا جَلَسَ عَلَى وَرِكِهِ الْيُسْرَى قَالَ: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ يَدْعُو إِلَهَهُ ثُمَّ يُسَلِّمُ وَيَنْصَرِفُ "
محمد بن اسحاق ، عبد الرحمن الاسود سے روایت کرتے ہیں ، وہ اپنے والد سے ، وہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے نماز میں تشہد پڑھا کرتے تھے، کہتے ہیں کہ ہم اسے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے سیکھا کرتے تھے جیسا کہ قرآن کے حروف واؤ اور الف سیکھتے تھے۔کہتے ہیں کہ جب بائیں ران پہ بیٹھتے تو کہتے :
التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
پھر اللہ سے دعاء مانگتے پھر سلام پھیرتے اور رخ پھیر لیتے۔
المعجم الکبیر للطبرانی: 9932
یہاں درمیانے تشہد کا کوئی ذکر تک نہیں ہے!، اور اسود بن یزید کے مقولہ ’’ كُنَّا نَحْفَظُهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ‘‘ كو بھی ان الفاظ میں بدل دیا ہے ’’ وَكُنَّا نَحْفَظُهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘ ۔
مزید دیکھیے:
عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ «يَجْلِسُ فِي آخِرِ صَلَاتِهِ عَلَى وَرِكِهِ الْيُسْرَى»
ابن اسحاق ، عبد الرحمن الاسود سے روایت کرتے ہیں ، وہ اپنے والد سے ، وہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کے آخر میں اپنی بائیں ران پہ بیٹھتے تھے۔
صحیح ابن خزیمۃ: 701
اس روایت میں پہلے قعدے میں تورک کا ذکر نہیں صرف آخری قعدے میں تورک کا ذکر ہے۔
پھر سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی جو تشہد سیکھنے سے متعلق روایت ہے ، اسے ان سے بہت سے لوگوں نے روایت کیا ہے اس میں تشہد اول یا ثانی کا کوئی ذکر تک نہیں ہے! جیسا کہ صحیحین میں ہے (صحیح البخاری: 835، صحیح مسلم: 402) بلکہ اس میں تو مطلق تشہد اور اسکے بعد دعاء کا ذکر ہے۔اور اسے کسی ایک تشہد کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی دلیل بھی نہیں، اور یہ روایت تو محض تشہد پڑھ کر اٹھنے کے خلاف دلیل بنتی ہے۔ اور پھر عبد اللہ بن سخبرہ کی ان سے روایت (صحیح البخاری:6265) کہ جس میں قرآن کی سورت سکھانے کی طرح تشہد سکھانے کا ذکر ہے، اس میں بھی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
بلکہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح مرفوعا ہر دو رکعتوں میں تشہد اور دعاء ثابت ہے، ملاحظہ فرمائیں:
كُنَّا لَا نَدْرِي مَا نَقُولُ فِي الصَّلَاةِ، حَتَّى قَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا جَلَسْتُمْ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ فَقُولُوا: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ يَتَخَيَّرُ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ "
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ ہم نماز میں کیا کہیں حتى کہ ہمیں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم ہر دو رکعتوں میں بیٹھو تو کہو:
’’ التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ‘‘
پھر تم میں سے ہر کوئی جو دعاء اسے پسند ہو کر لے۔
المعجم الکبیر للطبرانی: 9914، واللفظ لہ، مسند أحمد:4160، وإسنادہ على شرط مسلم، سنن النسائی:1163 والکبرى ط.تأصیل 838 وط. الرسالۃ753، مسند الطیالسی: 302
یہ روایت جہاں پہلے تشہد میں دعاء کو ثابت کرتی ہے وہاں یہ تشہد کے عدم پہ مزعومہ دلیل کی نکارت بھی واضح کرتی ہے۔ کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے ہر دو رکعتوں میں تشہد کے بعد دعاء بھی سکھائی تھی۔ اور یہ وضاحت شروع میں کی جا چکی ہے کہ یہ سورہ احزاب میں درود کا حکم نازل ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ جب سلام کے ساتھ درود پڑھنے کا حکم بھی آگیا تو دعاء اور سلام کے درمیان میں درود کا اضافہ ہوگیا۔
نتیجۃ البحث:۔
اس تمام بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے تشہد میں درود پرھنا رسول اللہ ﷺ سے حكما اور عملا ثابت ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، جیسا کہ فہم صحابہ اس بات پر دال ہے، نیز یہ کہ اس کو ترک کرنے کے لیے کوئی بھی دلیل موجود نہ ہے۔ اورالله اور اسکے رسول ﷺ کا حکم فرضیت پہ دلالت کرتا ہے، جب اسکے لیے کوئی قرینہ صارفہ نہ ہو، اور اس باب میں بھی کوئی صارف موجود نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم ﷺ کے طریقے پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے۔ آمین
-
الاثنين AM 07:36
2022-12-19 - 1863