میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
تشہد میں بازو کا مقام
تشہد میں بازو کا مقام
محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ
نماز دین اسلام کا ایک اہم ترین رکن ہے لیکن اس کے باوجود جس قدرغفلت و کوتاہی اہل اسلام نماز کے بارے میں برتتے ہیں ، ارکان اسلام میں سے کسی دوسرے رکن کے بارے میں شاید نہ برتتے ہوں۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لو صلیت فی مائة مسجد ما رأیت أهل مسجد واحد یقیمون الصلاة علی ما جاء عن النبی ﷺ وعن أصحابه رحمة الله علیهم۔ فاتقوا الله، انظروا في صلاتکم وصلاة من یصلي معکم»
’’اگر میں سو مسجدوں میں بھی نماز ادا کروں تو ایک بھی مسجد کے سارے نمازی اس انداز میں نماز ادا کرتے نہیں دیکھتا جس طرح کہ نبی کریم ﷺ اورآپ کے صحابہ رحمہم اللہ سے منقول ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی نمازوں اور اپنے ساتھ نماز پڑھنے والوں کی نمازوں کو دیکھو اور اصلاح کرو۔‘‘
[رسالة "الصلاة" لأحمد بن حنبل، ص: 40، مندرجه مجموعة رسائل في الصلاة، ط: الرئاسة العامة لإدارات البحوث العلمیة والإفتاء والدعوة والإرشاد، الریاض: 1413 هـ]
یہ حال امام احمد بن حنبل اپنے دور کے نمازیوں کا بیان فرمارہے ہیں اور آج کا حال تو بہت ہی خراب ہے۔
ہمارے ہاں نماز کے بارے میں سن سنا کر اور ایک دوسرے کو دیکھ کر عمل کرنے کا رواج ہے۔ جس کے نتیجے میں غیر شعوری طور پر ہم نماز کے کچھ ارکان کو خلاف سنت ادا کربیٹھتے ہیں ۔ منجملہ ان باتوں کے ایک مسئلہ دوران تشہد بازوؤں کا بھی ہے۔ عام طور پر درمیانے تشہد میں تو دونوں بازوؤں کو رانوں سے جدا کرکے رکھا جاتا ہے، جبکہ آخری تشہد میں کچھ لوگ اپنا دائیاں بازو اور کہنی کو دائیں ران پر رکھ لیتے ہیں اور اکثر تو آخری تشہد میں بھی اپنی کہنی ران سے ہٹاکر ہی رکھتے ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ سے بلا امتیازتشہد اولیٰ و آخرۃ میں دونوں بازوؤں کو دونوں رانوں پر رکھنا ثابت ہے ۔ ذیل میں دلائل ملاحظہ فرمائیں:
1۔ «عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ، فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ ذِرَاعَيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ يَدْعُو بِهَا»
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نماز میں بیٹھے تو آپ نے اپنے بائیں پاؤں کوپھیلایا اور اپنی دونوں ذراع کو اپنی رانوں پر رکھا اور شہادت والی انگلی سے اشارہ کیا ، آپ اس کے ساتھ دعا کرتے تھے۔
[سنن النسائي، كتاب السهو، باب موضع الذراعين، (1264)]
ذراع لغت عربی میں کلائی سے کہنی تک کے حصہ کو کہا جاتا ہے۔یہ حدیث بازوؤں کو رانوں پر رکھنے کے لیے نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہے۔
2۔ «عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَعَدَ يَدْعُو، وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ، وَوَضَعَ إِبْهَامَهُ عَلَى إِصْبَعِهِ الْوُسْطَى، وَيُلْقِمُ كَفَّهُ الْيُسْرَى رُكْبَتَهُ»
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ ﷺ جب دعا کے لیے بیٹھتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھتے اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے اور شہادت والی انگلی سے اشارہ فرماتے اور اپنے انگوٹھے کو درمیانی انگلی پر رکھتے اور بائیں ہتھیلی سے بائیں گھٹنے کو لقمہ بناتے۔‘‘
[صحيح مسلم، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب صفة الجلوس في الصلاة ، وكيفية وضع اليدين على الفخذين (579)]
عربی زبان میں لفظ ’’ید‘‘ (ہاتھ) مکمل بازو پر بھی بولا جاتا ہے اور صرف ہتھیلی پر بھی۔ یہاں پر ’’ید‘‘ سے مراد بازو (ذراع) ہے کیونکہ ’’کف‘‘ (ہتھیلی) کی جگہ علیحدہ اور ’’ید‘‘ کی جگہ رکھنے کی علیحدہ ذکر کی گئی ہے۔ فافھم
3۔ «أَنَّ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ قَالَ: قُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ إِلَى صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يُصَلِّي؟ فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ فَوَصَفَ، قَالَ: «ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ وَرُكْبَتِهِ الْيُسْرَى، وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِهِ الْأَيْمَنِ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَيْنِ مِنْ أَصَابِعِهِ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً، ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُو بِهَا»، مُخْتَصَرٌ»
وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی نماز دیکھتا ہوں کہ آپ کیسے نماز پڑھتے ہیں تو میں نے آپ کو دیکھا۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کی نماز کی کیفیت بیان کی اور فرمایا : ’’پھر آپ بیٹھ گئے اور اپنے بائیں پاؤں کو پھیلایا اور بایاں ہاتھ اپنی ران اور گھٹنے پر رکھا اور اپنی دائیں کہنی کے کنارے کو اپنی دائیں ران پر رکھا پھر اپنی دو انگلیاں بند کیں اور حلقہ بنایا۔ پھر اپنی (شہادت والی) انگلی کو اٹھایا تو میں نے دیکھا ،آپ اس کو حرکت دیتے تھے اور دعا فرماتے تھے۔‘‘ امام نسائی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث لمبی حدیث کا ایک ٹکڑا ہے۔
[سنن النسائي، كتاب السهو، باب قبض الثنتين من أصابع اليد اليمنى وعقد الوسطى، (1268)، وکتاب الافتتاح، باب موضع الیمین من الشمال في الصلاۃ، (889) مسند أحمد، (18850)، قال الألباني: ’’صحیح علی شرط مسلم‘‘ إرواء الغلیل: 2/68، (352)]
اس حدیث میں دائیں کہنی کی حد (کنارے) کو دائیں ران کے ساتھ لگانے کی نص صریح موجود ہے۔
4۔ «عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رضی الله عنه:.... فَلَمَّا قَعَدَ افْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ حَدَّ مِرْفَقِهِ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى .... الحدیث»
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں: ..... پس جب آپ بیٹھے ، آپﷺ نے اپنے بائیں پاؤں کو پھیلایا اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھا اور اپنی کہنی کی طرف (کنارے) کو اپنی دائیں ران پر رکھا .... الحدیث
[مسند أحمد، (18850)]
5۔ «عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رضی الله عنه :.... ثُمَّ جَلَسَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى، وَحَدُّ مِرْفَقِهُ الْأَيْمَنَ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى .... الحدیث»
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے....پھر آپ ﷺ بیٹھے ، پس آپﷺ نے اپنے بائیں پاؤں کو پھیلایا اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھا اور آپ کی دائیں کہنی کا کنارہ آپ کی دائیں ران پر تھا۔
[سنن النسائي، کتاب السھو، باب موضع المرفقین، (1265)، سنن أبي داؤد، کتاب الصلاۃ، باب رفع الیدین في الصلاۃ، (726)، وباب کیف الجلوس في التشھد، (957)]
دلیل نمبر ۱، ۳، ۴، ۵ درحقیقت ایک صحابی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ایک ہی روایت ہے، جس کو مختلف الفاظ کے ساتھ روایت بالمعنی کی گیا ہے۔ صرف الفاظ کا اختلاف ہے، معنی ایک ہی ہے جو کہ اہل علم پر واضح ہے۔
مانعین کے دلائل اور ان کا تجزیہ:
میرے ناقص علم کے مطابق کوئی واضح دلیل موجود ہی نہیں ہے۔ صرف وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے وہ الفاظ جن کو راقم نے دلیل نمبر ۵ کے طور پر پیش کیا ہے ، ان الفاظ کی عبارت پڑھنے اور سمجھنے میں غلطی کھا جاتے ہیں۔ «حَدُّ مِرۡفَقِه الۡاَیۡمَن» کو«حَدَّ مِرۡفَقَہ الأیمن» پڑھ جاتے ہیں ، یعنی لفظ ’’حد‘‘ کو اسم کی بجائے ماضی کا صیغہ بنا ڈالتے ہیں، جیساکہ علامہ وحید الزماں نے سنن ابی داؤد اور سنن نسائی کے تراجم میں کیا ہے۔ جب اس کو فعل ماضی مان لیا جائے تو اس کا معنی یوں بن جاتا ہے کہ آپﷺ نے اپنی دائیں کہنی کو دائیں ران پر اٹھا کر (دور کرکے) رکھا اور یہ معنی بھی اس وقت بنتا ہے جب علیٰ کو بھی عن کے معنی میں مانا جائے، وگرنہ نہیں۔ اور ’’علیٰ‘‘ کو ’’عن‘‘ کے معنی میں استعمال کرنا شاذ ہے۔
حقیقتاً عبارت کے شروع میں لفظ ’جعل‘ یا ’وضع‘ تھا جس کو بشر بن مفضل نے روایت بالمعنی کرتے ہوئے حذف کر کے لفظ ’حد‘ کو مبتداً مرفوع پڑھا ہے ، لہٰذا اس میں کوئی فرق نہیں آیا، معنی وہی رہا جو ’جعل‘ یا ’وضع‘ کے الفاظ ذکر کرکے عاصم بن کلیب کے دیگر شاگردوں مثلاً زائدہ، زہیر بن معاویہ اور عبدالواحد وغیرہ نے بیان کیاتھا۔ تاہم اگر کوئی شخص اس عبارت میں لفظ ’حد‘ کو فعل ماضی ہی بنانے پر مصر رہے تو بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ پھر یہ روایت شاذ بن جائےگی ، کیونکہ علم اصول حدیث کا ادنی سا طالب علم بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ جب کوئی ثقہ راوی اپنے اوثق یا ثقات کی مخالفت کرے گا تو ثقہ کی روایت شاذ اور ثقات یا اوثق کی روایت محفوظ ہوجائے گی۔
اور یہاں پر بھی مخالفت والا ہی معاملہ بن جائے گا کہ عاصم بن کلیب کے تمام شاگرد کہنی کو ملانا ثابت کرتے ہیں جبکہ بشر بن مفضل اس کو ہٹانا ذکر کرتا ہے۔ لہٰذا اس اعتبار سے یہ ثقات کی مخالفت ہے اور روایت شاذ قرار پائے گی، اور معرض استدلال سے غائب ہوجائے گی۔
جبکہ اس حدیث کومحدثین میں سے کسی نے بھی شاذ قرار نہیں دیا کیونکہ وہ سب جانتے ہیں کہ اس کی عبارت کیا ہے اور اس کامفہوم کیا ہے،اور مخالفت بنتی ہی نہیں ہے۔ فتأمل!
اسکے علاوہ ایک اور دلیل بھی پیش کی جاتی ہے ، ملاحظہ فرمائیں:
«وَيَتَحَامَلُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى فَخْذِهِ الْيُسْرَى»
اور نبی ﷺ اپنے بائیں ہاتھ کے ساتھ بائیں ران پر وزن ڈالتے ہوئے رکھتے تھے۔
[سنن أبي داود، كتاب الصلاة، تفريع أبواب الركوع والسجود، باب الإشارة في التشهد (989)، الأحاد المثاني: 589]
لیکن اس راویت کے وہ الفاظ جن پہ تکیہ ہے یعنی ’’یتحامل‘‘ جن کا معنى ’’ ران پر وزن ڈالتے ہوئے رکھتے تھے‘‘ کیا جاتا ہے،یہ عمرو بن دینار کے سوا کسی نے روایت نہیں کیے۔ عامر بن عبد اللہ بن الزبیر سے یہ حدیث انکے سوا محمد بن عجلان، عثمان بن حکیم،اور مخرمہ بن بکیر وغیرہ نے بھی روایت کی ہے، لیکن وہ سبھی عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت انہیں الفاظ کے ساتھ بیان کرتے ہیں جن الفاظ سے دیگر صحابہ مثلا حارث بن ربعی السلمی ،زبیر بن العوام، ابو حمید الساعدی، عمر بن الخطاب، عبد اللہ بن عمر،عبد اللہ بن عباس ، وائل بن حجر رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہ بیان کرتے ہیں، یعنی ’’وَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى‘‘ جیسے الفاظ جس میں وزن ڈالنے کا معنى نہیں پایا جاتا، بلکہ محض آرام سے رکھ دینے کا معنى یا گھٹنے کو پکڑنے کا معنى ہے جو وزن ڈالنے کے منافی ہے، لہذا یہ الفاظ معلول ہیں۔ پھر اگر یتحامل کا معنى بھی محض ہاتھ رکھنے کا ہی کیا جائے تو عمرو بن دینار کی یہ روایت ابن عجلان، عثمان بن حکیم اور مخرمہ بن بکیر وغیرہ کی روایات کے موافق ہو جائے گی۔
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ بائیں ہاتھ سے بائیں گھٹنے کو لقمہ بناکر رکھنے کے علاوہ ران پر ہی رکھ لینا بھی رسول اللہﷺ سے منقول ہے، جسے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے نقل فرمایاہے :
«وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى»
’’اور آپﷺ نے اپنی بائیں ہتھیلی کو اپنی بائیں را ن رکھا۔‘‘
[صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب صفۃ الجلوس وکیفیۃ وضع الیدین علی الفخذین، (580)]
اور لقمہ بناتے ہو ئے بھی ہتھیلی کا کچھ حصہ ران پر اور کچھ گھٹنے پر ہوگا جیسا کہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ والی حدیث سے واضح ہے۔
«وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ وَرُكْبَتِهِ الْيُسْرَى»
’’اور آپ ﷺ نے اپنی بائیں ہتھیلی کو بائیں ران اور گھٹنے پر رکھا۔‘‘
[سنن النسائي، کتاب الافتتاح، باب مواضع الیمین من الشمال، (889)]
اور پھر لفظ ’’وضع‘‘ اس بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ ذراع ران کے ساتھ چِپکی ہوئی ہو۔ بلکہ ’’وضع‘‘ تو کلائی کو صرف ران پر رکھنے کا متقاضی ہے خوا وہ ران کے ساتھ لگ جائے اور خواہ نہ لگے‘ لیکن ہو ران پر رکھی گئی!
یاد رہے کہ دونوں ہاتھوں اور بازوؤں کی یہ کیفیت نماز کے تمام تر قعدوں میں یکساں ہے خواہ وہ بین السجدتین ہو یا تشہد اول ہو یا تشہد ثانی ،کیونکہ ان کے درمیان فرق ثابت نہیں ہے۔
ھذا ما عندی واللہ تعالی أعلم
ابو عبد الرحمن محمد رفیق الطاہر
28/07/1428 ھــ
-
الثلاثاء PM 04:10
2022-12-20 - 905