میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
تبصرہ بر’’تکفیر وخروج اور عصر حاضر کی خارجی تحریکیں‘‘
تکفیر و خروج اور عصر حاضر کی خارجی تحریکیں!
روس کے خلاف افغان جہاد میں جہاں بہت سی خیر برآمد ہوئی وہیں اسکے ساتھ ساتھ کچھ شر بھی در آیا۔ اس شر میں سے ایک ’’تکفیر و خارجیت کا فتنہ‘‘ بھی ہے۔ روس ناقابل تسخیر قوت بن کرگرم پانیوں کی طرف بڑھتا چلا جا رہا تھا، اور دنیا بھر کی حکومتیں خود کو بچانے کے لیے خطوں کو نگلنے والے اس سفید ہاتھی سے دبک کر جان کی امان مانگ رہیں تھیں۔ یہ افغانستان میں داخل ہوا ، اور بڑھتا ہی چلا گیا۔ اسکا اگلا ہدف ’’پاکستان‘‘ تھا۔ لیکن جب یہ افغانستان کے صوبہ ’نورستان‘ میں پہنچا تو وہاں اسے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ صوبہ نورستان افغانستان میں سلفیوں کا صوبہ کہلاتا ہے، کیونکہ یہاں تقریبا تمام تر لوگ سلفی الفکر ہیں۔ نوری سلفیوں نے روس کے بڑھتے قدم روک دیے تو امریکہ سمیت ساری دنیا کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی، ہرکوئی اپنے اپنے مفاد کی خاطر اس جنگ میں کودا، پاکستان نے اپنی بقاء کی خاطر اس جنگ میں اپنا کردار ادا کیا تو اہل عرب نے اپنے افراد واموال سے اس جنگ کو کامیاب کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ افغانستان دنیا بھر سے آئے مجاہدین کا گہوارہ بن گیا۔مجاہدین کے اس بین الأقوامی اجتماع کے نتیجہ میں افکار ونظریات بھی ایک دوسرے میں منتقل ہوئے۔ عرب میں موجود الاخوان المسلمون اور اس جیسی دیگر ’’خارجی الفکر‘‘ تنظیموں نے جب جہاد افغانستان میں شمولیت کے لیے اپنے افراد بھیجے تو انکی یہ فکر پاکستانی مجاہدین میں بھی سرایت کرتی چلی گئی۔البتہ شیخ جمیل الرحمن رحمہ اللہ اور انکی ماتحتی میں جہاد کرنے والے بہت حد تک اس فتنہ سے بچے رہے۔جب یہ’’تکفیر گزیدہ‘‘ لوگ بالخصوص روس کے بھاگ جانے کے بعد پاکستان لوٹے تو ان میں ’’فتنہء تکفیر کے جراثیم‘‘ موجود تھے۔ جو اندر ہی اندر پھلتے پھولتے رہے۔ پھر اچانک 9/11 کا واقعہ ہوا اور امریکہ بہادر’’سپر پاورز کے قبرستان‘‘ آن پہنچا، اور ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ پاکستان جو دنیا بھر میں جہاد اسلامی کا پشتی بان تھا، اسے ایک نئی سپر پاور کو افغانستان میں شکست دینی تھی، سو فی الفور ’’نئی جنگی حکمت عملی‘‘ اختیار کی گئی، جسے ’’حدثاء الاسنان، سفہاء الاحلام‘‘ سمجھنے سے قاصر رہے، اور سینوں میں چھپا ’’جذبہ تکفیر‘‘ ظاہر ہونے لگا، سو انہوں نے ’’جہاد اسلامی کے بیس کیمپ‘‘ پاکستان کے خلاف ہی’جہاد کے نام پر فساد‘ بپا کر دیا۔ کچھ بیرونی آشیرباد بھی انہیں حاصل ہوئی تو یہ فتنہ بڑھتا ہی چلا گیا، اور بہت سے لوگ اس کی رو میں بہہ گئے۔ چونکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حکمرانوں کے خلاف خروج اور بغاوت کے قائل تھے، اور ہمارے ملک میں امام موصوف کی تقلید کرنے والا ایک بہت بڑا گروہ موجود ہے، اور انکی فکر و نظر میں ہی تکفیر وخارجیت پہناں ہے، سو یہ مکتب فکر اس فتنہ سے بہت زیادہ متأثر ہوا۔ اسکی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان سے جہادِ افغانستان میں شریک ہونے والوں میں سے چونکہ انکی کثرت تھی، اور افغانستان میں بھی انکے ہم مکتب موجود تھے،اسی وجہ سے اس مکتبہ فکر کے نوجوان بہت جلد اس فتنہ کا شکار بن گئے۔ جب ’’تحریک طالبان پاکستان‘‘ کے نام سے تکفیر ذہنیت اور خارجی سوچ لیے ایک گروہ نمودار ہوا تو اس میں شامل ہونے والے سبھی لوگ اسی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ کچھ ’’لبرل سلفی‘‘ بھی انکے ہمنوابنے لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ وقت گزرتا رہا، ایک نئی خارجی تنظیم ’’داعش‘‘ کے نام سے ابھری تو ’’ٹی ٹی پی‘‘ میں شامل افراد کا ایک بڑا حصہ اس تنظیم میں شامل ہوگیا ۔ چونکہ یہ عرب افراد پہ مشتمل تھی، اور باوجود تفاوت مسالک یہ سبھی نماز میں سینہ پہ ہاتھ باندھنے والے اور رفع الیدین کرنے والے تھے، تو ہندوستانی ماحول میں سانس لینے والے کچھ ’’سلفی‘‘ نوجوان ان خارجیوں کو بھی سلفی سمجھ بیٹھے اور انکی جانب کھنچتے چلے گئے۔ اس مغالطہ کا سبب یہ تھا کہ بر صغیر پاک وہند میں جو بھی ’’رفع الیدین، آمین بالجہر، سینہ پہ ہاتھ باندھنا‘‘ اور اس جیسی سنتوں پہ عمل پیرا ہوتا تھا وہ ’’سلفی العقیدہ اور سلفی المنہج اہل حدیث‘‘ ہی ہوتا تھا۔اس لیے ان نوجوانوں نے جب عرب شافعی مقلدین کو رفع الیدین کرتے دیکھا تو دھوکہ کھا بیٹھے کہ شاید یہ بھی سلفی ہی ہیں،اور ان میں جا شامل ہوئے۔
ابھی جب یہ فتنہ سر اٹھا رہا تھا، لال مسجد والا وقوعہ ہوئے کچھ ہی دن گزرے تھے،بیلوکس (beylux) ماسنجر پہ میرے ہفتہ وار دروس اور سوال وجواب کی نشستیں ہوا کرتی تھیں سو وہاں بھی اس بارہ میں سوالات اٹھائے جانے لگے۔ سوشل میڈیا کی اس آزاد دنیا میں جس کا جو جی چاہتا، کھلے دل سے کہتا، اور مافی الضمیر کے اظہار پہ خوش ہوتا۔ کچھ خیر اندیش احباب یہ طے کیا کہ اس موضوع پہ باقاعدہ دروس ہو جائیں تو بہتر ہے۔ سو ’’تکفیر کے اصول وضوابط‘‘ کے عنوان پر ’رب زدنی علما‘ روم میں میرا درس ہوا جسے کچھ عرصہ بعد کمپوز کرکے مختلف ویب سائٹس اور فورمز پہ نشر کر دیا گیا۔اردو زبان میں چونکہ اس موضوع پہ یہ پہلا درس اور اسکے بعد پہلی تحریر تھی، اور مجھے بھی زندگی میں پہلی مرتبہ اس موضوع سے پالا پڑا تھا، سو اس میں ایک جملہ کی علمی غلطی رہ گئی، جسے بعد آڈیو اور تحریر سے حذف کر دیا گیا۔ اسکے بعد جب خودکش دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا تو فورا ہی اسی فورم پہ ’’خودکش دھماکوں‘‘ اور ’’تحکیم‘‘ کے مسئلہ پر دروس اور سوال و جواب کی طویل نشستیں منعقد کی گئیں، بعد میں یہ دروس بھی تحریر کر لیے گئے۔ پھر کچھ سالوں بعد جب 2011ء کے اواخر یا 2012ء کے اوائل میں جماعۃ الدعوۃ کی طرف سے باقاعدہ طور پر ’’تکفیر کاؤنٹر مہم‘‘ کا آغاز کیا گیا تو پھر ان موضوعات پہ تحریر وتقریر کا سلسلہ نہایت تیزی سے شروع ہوا۔
اس دوران ’’الصادقین پبلیکیشنز‘‘ میرے دروس من وعن نشر کر دیے، جس سے یقینا فائدہ تو ہوا، لیکن تحریر اور تقریر کا چونکہ اسلوب الگ الگ ہوتا ہے، سو عام قارئین کے لیے اسے سمجھنا قدرے مشکل تھا، جس کے پیش نظر ان کتابچوں پہ نظرثانی و تسہیل کے بعدچھوٹے پیمانے پہ انہیں نشرکیا گیا۔ بعض اہل علم اور باذوق افراد تک یہ کتابچے پہنچے لیکن اکثر کی دسترس سے باہر رہے۔ ان میں سے کچھ تحاریر میں نےاپنے قلمی نام ’’جابر علی عسکری‘‘ سے لکھی تھیں جنہیں سرقہ کرنا بہت سے ’’خدام دین‘‘ نے اپنا فرض منصبی سمجھا، لیکن حیرت ہے کہ میرے اصل نام سے نشر کی گئیں بعض تحریریں میرے اصل نام سے شائع شدہ تھیں اور بالخصوص فیس بک واٹساپ اور میری آفیشل سائیٹ پہ میرے نام سے موجود تھیں ، لیکن پھر بھی انہیں نہ بخشا گیا۔ حتى کہ ’’سلفیت اور خارجیت کے مابین فرق‘‘ والی تحریر ملک کے ایک مؤقر مکتبہ سے ’’کسی معزز شخصیت‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ، مجھے علم ہوا تو میں نے ’’مدیر صاحب‘‘ کو صورت حال سے آگاہ بھی کیا ، لیکن .....ع
ایک خامشی تری، سب کے جواب میں!
والا قصہ بن گیا، اور کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ یہ تو ایک تحریر اور نامی گرامی دار النشر کا معاملہ ہے، باقی سوشل میڈیا پہ غیروں کے نام پہ اور میرے نام کے بغیر کبھی ’’مولانا منقول حفظہ اللہ‘‘ کے نام سے اور کبھی اسکے بھی بغیر یہ تحریریں بہت سے لوگوں کے لیے ’’داد تصنیف‘‘ وصول کرنے کا سبب بنتی رہیں۔ اسی طرح ’’ادارہ رد الفتن‘‘ نے ایک مجموعہ مضامین ’’مقالات تکفیر‘‘ کے نام سے شائع کیا جس میں میری کچھ تحاریر میرے اصل نام سے اور کچھ قلمی ناموں سے نشر ہوئیں۔ ’’مقالات تکفیر‘‘ کے ناشرین کا خلوص دیکھیے کہ چند ہی دنوں میں اس کتاب کا ایڈیشن ختم ہوگیا، اور ایک مرتبہ پھر یہ تحریریں طلب کرنے والوں کے لیے ناپید ہوگئیں، گویا زبان حال سے کہہ رہی ہوں....ع
آئے عُشاق ، گئے وعدہءِ فردا دے کر
اب ڈھونڈ انہیں چراغِ رُخِ زیبا لے کر
ایسی صورت حال میں مولانا’’حافظ شاہد رفیق‘‘ حفظہ اللہ نے ان کی افادیت کے پیش نظر انہیں جمع کیا اور ضروری تنقیح وتصحیح کے بعد فضیلۃ الشیخ ’’حافظ صلاح الدین یوسف‘‘ حفظہ اللہ سے نظر ثانی کروا کر اسی مجموعہ کو قابل اشاعت بنا دیا۔ اور طبعہ ونشر کا بیڑہ ’’مکتبہ بیت السلام‘‘ نےا ٹھالیا اور ’’تکفیر و خروج اور عصر حاضر کی خارجی تحریکیں‘‘ کے عنوان سے یہ کتاب قارئین کے پیش خدمت کردی۔
اس مجموعہ رسائل میں خارجیت اور رد میں مختلف موضوعات یکجا کیے گئے ہیں، جنکے مطالعہ کے بعد فتنہ تکفیر اور خارجی نظریات سے آگاہی اور اس فکر کا سُقم واضح ہو جاتا ہے۔ کافر کافر کی گردان کرنے والوں کی علمی غلطی اور کسی بھی کلمہ گو پہ ارتداد کا فتوى لگانے لیے ضروری شرطیں اور موانع بیان کیے گئے ہیں تاکہ اس امر کی حیثیت واضح ہو سکے۔ اسی طرح ملک بھر میں ہونے والے خودکُش دھماکوں کی شرعی حیثیت واضح کی گئی ہے۔ یہ خودکُش حملے جنہیں یہ لوگ ’’استشہادی‘‘ کارروائی قرار دیتے ہیں، انکے طریقہ کار کی قباحت اور اسکے جواز میں پیش کیے جانے والے ’’کلمۃ حق ارید بہا الباطل‘‘ کے مصداق دلائل کا علمی محاکمہ پیش کیا گیا ہے۔ اور مسلمان حکام و عدلیہ کی تکفیر اور مسئلہ تحکیم پہ مدلل گفتگو کے ساتھ ساتھ خوارج کی علامات و پہچان بتا کر سلفی منہج فکر اور خارجی منہج فکر کا فرق واضح کیا گیا ہے۔ اور داعش جیسی خارجی تنظیم کا کچا چٹا کھولا گیا ہے۔ اور آخر میں اہل تکفیر و خروج کی طرف سے وارد شبہات کا ازالہ اور اس موضوع سے متعلق اہم سوالات کے جوابات بھی شامل مجموعہ ہیں۔ امید ہے کہ یہ کتاب نونہالان قوم کے لیے اس موضوع پہ رہنما ثابت ہوگی۔اور اس موضوع سے متعلق مختلف پہلوؤں اور مسائل کو صحیح منہج اور شرعی موقف کو اجاگر کرنے میں ممد و معاون ہو گی اور عوام و طلبائے علم کے ذہن میں اٹھنے والے کئی سوالات حل کر نے میں مدد دے گی۔ ان شاء اللہ
اللہ تعالى اس کار خیر میں شامل تمام افراد کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور مؤلف، مصحح، مراجع، اور ناشر کے لیے توشہ آخرت بنا دے۔ آمین۔
ایں دعاء از من واز جملہ جہاں آمین باد
آخر میں اس کتاب پہ مولانا صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کی تقریظ ملاحظہ فرمائیں:
زیرِ نظر کتاب چند مضامین کا مجموعہ ہے، ان مضامین کا محور ایک ہی موضوع ہے، اور وہ ہے فتنہء تکفیر۔ یہ فتنہ خارجی ذہن کی پیداوار ہے، جس میں بدقسمتی سے کچھ گروہ اور بعض ایسے نوجوان مبتلا ہیں جو کتاب و سنت پر عمل کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ یہ نوجوان اس فتنے کا شکار کیوں اورکیسے ہوئے؟
اس کا جواب واضح ہے کہ ان کا طریقِ کار اور فکر غلط ہے، جب کہ اچھے جذبات کے ساتھ ضروری ہے کہ فکر بھی صحیح ہو اور طریقِ کار بھی درست ہو۔
فکر و نظر کی کجی ہی نے ان کو غلط راستے پر ڈال دیا ہے، اس لیے اخلاص اور حسنِ نیت کے باوجود ان کا رویہ ایک ایسا فتنہ بن گیا ہے، جس نے اسلامی ملکوں کے امن کو تباہ کر دیا اور بین الاقوامی استعمار کے اُن مقاصد کو آگے بڑھایا ہے جو وہ اسلام، مسلمانوں اور اسلامی مملکتوں کے بارے میں رکھتے اور ان کے حصول کے لیے وہ مختلف قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اور کر رہے ہیں۔
ان حضرات کو سوچنا چاہیے کہ وہ جس سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں، اس کی حقیقت کیا ہے؟ اور اس سے کس کو فائدہ پہنچ رہا ہے؟ ان کی مثال بقولِ شاعر حسبِ ذیل ہے:
رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نَے ہاتھ باگ پر ہیں نہ پا ہے رکاب میں
فاضل مؤلف مولانا محمد رفیق طاہر صاحب حفظہ اللہ نے مسئلہ زیرِ بحث کے مختلف پہلوؤوں کو خوب اجاگر کیا ہے اور اس کے پسِ منظر، پیشِ منظر اور تہ منظر کو نمایاں کر کے بھٹکے ہوئے راہیوں کو دعوتِ فکر بھی دی ہے اور صحیح طریق کار کی نشان دہی بھی کی ہے۔
یہ رہروانِ راہ گم گشتہ اگر واقعی اپنی عظمتِ رفتہ اور متاعِ گم شدہ کے حصول کی سچی تڑپ رکھتے ہیں تو ان کو علمائے راسخین کی راہنمائی میں اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنا زاویہء فکر و نظر بھی بدلنا ہو گا اور اسی کی روشنی میں جادہ و منزل کا تعین کر کے جدوجہد کا آغاز کرنا ہو گا، تاکہ عند اللہ بھی ان کی سعی رائیگاں نہ ہو اور عند الناس بھی وہ مقبول اور مشکور ہو۔
اس اعتبار سے فاضل مولف کی یہ کاوش وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اور گم کردہ راہوں یا حسین سپنوں کی دنیا میں رہنے والوں کے لیے ایک حقیقت نما آئینہ بھی ہے ع
مؤذن مرحبا بروقت بولا
تری آواز مکے اور مدینے
فاضل مؤلف تمام اہلِ اسلام کی طرف سے شکریے اور قدر افزائی کے مستحق ہیں کہ ان کی سعی و کاوش سے ایک ایسا علمی خلا پُر ہو گیا ہے، جس کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ جزاہ اللہ أحسن الجزاء
حافظ صلاح الدین یوسف
2 ربیع الأول 1438 ھ
2 دسمبر 2016ء
شاداب کالونی، گڑھی شاہو، لاہور
-
الثلاثاء PM 04:53
2022-12-20 - 506