میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
جوابِ آں غزل
جوابِ آں غزل
محمد رفیق طاہر، عَفَا اللہ عنہ
میں نے 2 شعبان1441ھ کو اپنی ویب سائیٹ پہ کورونا وائرس (covid-19) کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن اور مساجد کی جبری بندش کے پیش نظر ایک مضمون بعنوان ’’کرونا کے باعث گھر میں جمعہ‘‘ نشر کیا تھا۔ جس میں کتاب وسنت کے دلائل سے یہ ثابت کیا تھا:
1۔ جمعہ ادا کرنا فرض ہے۔
2۔ جمعہ کی ادائیگی کے لیے شریعت نے افراد کی کوئی خاص تعداد مقرر نہیں کی، لہذا دو افراد بھی ہوں تو جیسے جماعت کروا سکتے ہیں ، ویسے جمعہ کا اہتمام بھی کر سکتے ہیں۔
3۔ جمعہ قائم کرنے کے لیے جگہ کی بھی کوئی شرط نہیں، دیہات، قصبہ، شہر ہو یا صحراء ، جنگل، یا سمندر کی پشت پہ چلتے بحری جہاز، جہاں بھی اہل ایمان جمعہ کے وقت جمع ہوں، وہیں جمعہ ادا کیا جاسکتا ہے۔
4۔ وہ لوگ جن کے لیے مسجد میسر نہ ہو، خواہ مسجد کا وجود ہی نہ ہو، یا انہیں مسجد جانے سے روک دیا گیا ہو، وہ اپنے ڈیرے، گھر، اور ٹھکانے پہ، جہاں بھی وہ محبوس ہیں، جمعہ کا اہتمام کر سکتے ہیں۔
ہمارے اس مضمون پہ بعض الناس کی طرف سےچند سطحی قسم کے اعتراضات کیے گئے ہیں، اور لطف یہ ہے کہ ہمارے یہ معترض ملک پاکستان میں اپنے سوا کسی کو بھی ’’سلفی‘‘ نہیں سمجھتے ، اور انکے زعم میں وہ بلا شرکت ِ غیرے ، اکیلے ہی پاکستان کے ’’سلفی عالم دین‘‘ ہیں، انکے سوا باقی تمام تر علمائے اہل الحدیث موصوف کے نزدیک ’’منہجِ سلف‘‘ سے ہٹے ہوئے ہیں۔’’فتنہء تبدیع وتجریح‘‘ میں مبتلا ہمارے ممدوح ہمیں بھی ’’صفِ سلفیت‘‘ سے کب کے نکال چکے ہیں، سو بزعم خود انہوں نے ایک غیر سلفی کے افکار و آراء پہ نقد فرما کر امت کو گمراہی سے بچا لیا ہے! گوکہ انکی ’’ملت سلفیہ‘‘ بھی پاکستان میں انگلیوں پہ گنی جانے والی تعداد میں ’’بکثرت‘‘ موجود ہے، تاہم وہ ان چند ہمنواؤں کو پاکستانی علمائے اہل الحدیث کے چنگل میں پھنسنے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش میں لگے رہتے ہیں، سو ہمارے اس مضمون پہ وارد شُبہات بھی اسی ’’سلسلہ ذہبیہ‘‘ کی ایک کڑی ہیں ۔ذیل میں ہم بفضلہ تعالى انہی کے الفاظ کو من وعن نقل کرکے ان شبہات کا جواب پیش کریں گے۔
پہلا شبہہ:
موصوف فرماتے ہیں:
’’قرآن و حدیث سے جتنے دلائل صاحب تحریر نے ذکر کیئے ہیں وہ برحق ہیں ۔ ان دلائل سے ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ جمعہ مسلمانوں پر فرض ہے خواہ وہ شہر کے رہنے والے ہوں یا دیہات کے یا شہر اور دیہاتوں کے درمیان علاقوں سے تعلق رکھتے ہوں ۔ یہ مسئلہ ہمارے درمیان محل اختلاف نہیں ہے ۔ موجودہ خاص صورتحال میں جو مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ جب ایک علاقے کے مسلمانوں کے لئے جمعہ کی رخصت ہے اور فرضیت ساقط ہو چکی ہے تو کیا وہ لوگ اپنے گھروں میں جمعہ کی نماز اور خطبہ کے شعائر کو سرانجام دے سکتے ہیں ۔ اس مسئلہ پر موصوف نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ جمعہ کی رخصت ہے لوگ اپنے گھروں میں ظہر کی نماز ادا کر سکتے ہیں ۔ لیکن اگر وہ چاہیں تو جمعہ بھی ادا کیا جا سکتا ہے ۔ اس پر موصوف نے کوئی دلیل نہیں دی ہے ۔ سوائے ایک اشارہ کرنے کے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سفر میں جمعہ کی رخصت ہونے کے باوجود جمعہ کی نماز ادا کرتے تھے ۔‘‘
جواب:
جن لوگوں پہ جمعہ کی فرضیت ساقط ہو چکی ہو، وہ دو طرح کے ہوتے ہیں۔
- جنہیں کسی مرض یا سفر کی وجہ سے رخصت ملی، وہ اگر ہمت کرکے مسجد میں پہنچنا چاہیں تو پہنچ سکتے ہیں اور نماز جمعہ ادا کرسکتے ہیں، یعنی انکے پاس دو نوں اختیار موجود ہیں، چاہیں تو مسجد میں آئیں اور جمعہ ادا کریں اور چاہیں تو اپنے گھر یا سرِ راہ رُک کر نماز ظہر ادا کر لیں۔ اور مسافر اگر ایک سے زائد ہوں ، اور وہ ایسے سفر پہ ہوں جہاں قریب انہیں کوئی مسجد میسر نہ ہو، تو وہ راستے میں کہیں بھی رک کر جمعہ قائم کرسکتے ہیں۔
- وہ لوگ جنہیں مسجد میں آنے سے روک دیا گیا ہے، یا انکا نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے مسجد پہنچنا ناممکن یا تقریبا ناممکن ہے۔ خواہ گھر یا جیل میں قید کیے جانے کی وجہ سے، خواہ رہائش آبادی سے کئی کلو میٹر دور ہونے کیوجہ سے ۔
ہمارا محورِ کلام یہی دوسری قسم کے لوگ ہیں۔ کہ انکے پاس صرف اور صرف ایک ہی اختیار ہے کہ وہ جہاں ہیں وہیں رہیں، انکا مسجد پہنچنا محال و ناممکن ہے۔ ایسے لوگ اپنی ٹھکانے پہ یا تو جمعہ ادا کریں یا نماز ظہر دونوں عمل درست ہیں ۔ اس کے لیے ہم نے کتاب وسنت کے دلائل سے یہ ثابت کیا کہ اگر یہ لوگ کسی بھی جگہ ایک سے زائد تعداد میں ہوں تو وہ نماز جمعہ کا اہتمام کرسکتے ہیں۔ لیکن ہمارے ممدوح کو صرف سیدنا انس رضی اللہ عنہ والی ایک موقوف روایت ہی اس موضوع پہ نظر آئی، کوئی مرفوع حدیث انہیں دکھائی نہ دے سکی ۔ حالانکہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی موقوف روایت سے پہلے ایک مرفوع روایت بھی درج کی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نےدوران سفر مسجد کے بغیر جمعہ پڑھا۔ بنا بریں مسجد کے علاوہ باہر جمعہ پڑھا جاسکتا ہے وہ بھی دوران سفر اور وہ بھی دو چار بندوں کے ساتھ تو گھر میں بطریق اَولى جمعہ قائم کیا جاسکتا ہے۔
پھر اس پہ اپنے ممدوح جیسے ’’منہجیوں‘‘ کی ضیافت طبع کےلیےہم نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا عمل نقل کیا ہے کہ وہ اپنے محل میں جمعہ پڑھ لیتے تھے کہ وہ شہر سے تقریبا ساڑھے چودہ کلومیٹر دور رہائش پذیر تھے اور جب کبھی ممكن ہوتا تو جمعہ پڑھنے کے لیے شہر بھی آ جایا کرتے تھے۔
ہمارا اصل مستدل تو نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، جس سے مسافر کے لیے، خارج از مسجد جمعہ کا اہتمام ثابت ہوتا ہے، اور یہ وہی کیفیت ہے جس میں جمعہ کی رخصت ہے لیکن پھر بھی جہاں موجود ہیں وہیں جمعہ کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ پھر سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا اپنے ڈیرے پہ جمعہ ادا کرنے والا عمل پیش کیا جسے موصوف نے اپنی تلبیس کا شکار بناتے ہوئے ’’ سفر میں جمعہ کی رخصت ہونے کے باوجود جمعہ کی نماز ادا‘‘ کرنے سے تعبیر کرکے قارئین کی آنکھوں میں دھول جھونکنے، اور دماغوں پہ اپنی لفاظی کا جادو جگا کر انہیں دھوکہ دینے کی مذموم کوشش کی! حالانکہ میں نے واضح لفظوں میں لکھا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے ڈیرے اور محل میں جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ یعنی وہ مسافر نہ تھے، بلکہ اپنے محل میں مقیم تھے! ا ور اپنی جائے اقامت پہ ہی جمعہ کا اہتمام کر لیا کرتے تھے۔ لیکن ہمارے ممدوح نے مقیم کو مسافر باور کروا کر اپنی ’’علمی دیانتدادری‘‘ کا ثبوت دیا ہے۔
لطف کی بات تو یہ ہے کہ اگر سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو ’’مسافر‘‘ بھی مان لیا جائے تب بھی موصوف کا اعتراض باقی نہیں رہتا کیونکہ یہ بھی رخصت کے باوجود اپنے گھر میں نماز جمعہ ادا کرنے کا عمل ہی تو ہے۔ اور ہمارے ممدوح کے نزدیک تو فہم سلف ، عمل سلف بالخصوص عمل صحابہ حجت و دلیل ہے، خصوصا اس وقت جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اسکا خلاف موجود نہ ہو۔
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
دوسرا شبہہ:
ہمارے ممدوح رقمطراز ہیں:
’’ موصوف کے نزدیک فہم سلف کی قید حجت نہیں ہے بلکہ بدعت ہے ۔ لیکن کیونکہ موصوف کے پاس اس مسئلہ میں کوئی مرفوع نص نہیں ہے کہ رخصت کے باوجود جمعہ گھروں میں قائم کرنا جائز ہے ۔ اس لئے شاید انہوں اپنے فہم کو تقویت دینے کے لئے ناقابل حجت دلائل سے استئناس لیا ہے ۔‘‘
جواب:
ایک بار پھر توجہ دلاؤں گا کہ اپنے موقف کے اثبات کے لیے میں نے پہلے ایک مرفوع روایت ذکر کی ، اور پھر اسکے بعد صحابہ و تابعین کے اقوال و عمل پیش کیے تاکہ وہ لوگ جو فہم سلف کو حرف آخر سمجھتے ہیں، انکے درد کا درماں بھی ہو جائے۔ لہذا موصوف کا یہ کہنا سو فیصد غلط ہے کہ اس مسئلے میں ہمارے پاس کوئی مرفوع نص نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ممدوح مرفوع نص سے اغماض کر گئے ہیں!
نابینا نکالتے ہیں میرے عمل میں نقص
بہروں کو شکوہ ہے غلط بولتا ہوں میں
رہی یہ بات کہ’’ فہم سلف کی قید ہمار نزدیک حجت نہیں‘‘ ، تو اس میں بھی کچھ تلبیس سے کام لیا گیا ہے، ہم ’’قید‘‘ ہی نہیں بلکہ مطلق طور پر ہی فہم سلف کو حجت نہیں مانتے!۔ ہمارے نزدیک شریعت میں وحی الہی کے سوا کچھ بھی حجت و دلیل نہیں ہے۔اس امر کی وضاحت ہم اپنی بہت سی تحاریر میں کر چکے ہیں۔ اور یہ بھی بتا چکے ہیں کہ فہم سلف اور منہج سلف میں کیا فرق ہے، جس کے ہم قائل ہیں، اور یہ بھی کہ فہم سلف کو اگر ہم حجت نہیں مانتے تو کیا مانتے ہیں؟ اور یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ ہم اسلاف کی آراء کو فہم نصوص میں ممدو معاون سمجھتے ہیں، نہ کہ نصوص شرعیہ پہ قاضی وحاکم۔ اور ہمارے ممدوح اور انکے ہمنواؤں کے نظریات کے کچھ تناقضات بھی سپردِ قرطاس کر چکے ہیں۔ سو اس مسئلے پہ تفصیل کے لیے محولہ بالا بحوث کا مراجعہ کر لیا جائے۔
ویسے ہمارے ممدوح کے نزدیک تو موقوفات حجت ہیں، اور فہم سلف بالخصوص فہم صحابہ نصوص شرعیہ کا معنى طے کرنے میں ، بلکہ مستقل حجت ہے۔ اور خصوصا جب اس کا کوئی مخالف بھی نہ ہو، تو موصوف کے لیے تو یہ حجت قطعی بن جاتی ہے کہ اپنے ڈیرے اور گھر وغیرہ میں جمعہ ادا کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے ڈیرے پہ مقیم تھے اور وہیں جمعہ ادا فرما لیتے تھے!۔ لہذا اس پہ کم از کم آپکو تو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیےتھا..! ۔ بلکہ آپکو تو دل وجان سے اسے تسلیم کرلینا چاہیے کہ ایک سلف یعنی صحابی کا فہم یہی ہے کہ گھر پہ جمعہ ادا ہو سکتا ہے۔ جب مرفوع نص بھی موجود ہو، اور پھر آپکے زاویہ نگاہ کے مطابق سلف کا فہم بھی موجود ہو تو پھر تو ہمارا اور آپکا اتفاق ہوا کرتا ہے اس مسئلے پہ، لیکن یہاں آپ ہمیں کیوں چھوڑ گئے؟
انہی راستوں نے ، جن پہ کبھی تم تھے ساتھ ہمارے
مجھے روک روک پوچھا ’’تیرا ہمسفر کہاں ہے؟‘‘
کہیں ایسا تو نہیں کہ جناب کے ’’سلف بھی مرضی کے ہیں اور فہم سلف بھی مرضی کا‘‘۔ جب جی میں آیا فہم سلف کو مان لیا، جب جی چاہا انکار کر دیا، جسے چاہا سلف مانا اور جسے چاہا سلف کی فہرست سے نکال باہر پھینکا...!۔
دو رنگی چھوڑ کر یک رنگ ہو جا
سراسر موم ہو، یا سنگ ہو جا
یہاں تو مسئلہ بھی گھمبیر ہے کہ جو سلف میں نے پیش کیے ہیں ان میں سے ایک صحابی رسول صلى اللہ علیہ وسلم ہیں جو اپنے ڈیرے پہ جمعہ ادا کرتے ہیں، اور پھر انکے علاوہ دیگر بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں کہ جنکے بارے میں امام مالک رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں کہ وہ مکہ و مدینہ کے درمیان ہوتے تو بھی جمعہ ادا کر لیا کرتے تھے، یعنی دوران سفر، جب انہیں جمعہ کی رخصت تھی ، تب بھی وہ جمعہ کا اہتمام کرتے تھے، پھر انکے بعد امام زہری رحمہ کا فتوى ہے کہ انہوں نے رزیق بن حکیم کو اپنے مزدوروں کے ساتھ اپنی کھیتی میں ہی جمعہ قائم کرنے کی تلقین فرمائی۔ کہیں یہ سبھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، اور ابن شہاب زہری رحمہ اللہ اور انکے ہمنوا دیگر تابعین وتبع تابعین ومحدثین’’سلف کی فہرست‘‘ سے آپکے نزدیک خارج تو نہیں ہوگئے؟ یا پھر ’’خاکم بدہن‘‘ آپ بھی کہیں ’’منکِرِ سلف‘‘ تو نہیں بنتے جا رہے؟!۔ بزعم خود ٹھیکدار تو آپ فہم سلف کے ہیں، لیکن فہم سلف کا نام لے کر درونِ خانہ اسی کو رد کیے جا رہے ہیں۔ فہم سلف کا عنوان ماتھے پہ سجائے ، سلف کے فہم کو ہی ریگدنے کا کا م تو ان صحافیوں جیسا ہے کہ جن کی صحافت کا حال شاعر نے یوں بیاں کیا تھا:
سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں
حرف بارود اُگلتے رہے اخبار کے بیچ
کیا وجہ ہے کہ آپ اس مسئلے میں اپنے اصولوں کو بھی خیر باد کہہ گئے ہیں، اور سلف کو چھوڑ کر خلف کے پیچھے لگ گئے ہیں، جبکہ خلف میں تو اس بارے اختلاف پایا جارہا ہے ، حالانکہ سلف میں سے کسی نے بھی سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے اپنے قصر میں نماز پڑھنے پہ نکیر نہیں کی۔
ع................ آخر کچھ تو ہے ، جسکی پردہ داری ہے!
تیسرا شبہہ:
ہمارے ممدوح رقمطراز ہیں:
’’لہذا مسئلہ تو جوں کا توں کھڑا ہے کہ کیا رخصت کے باوجود جمعہ کی نماز گھروں میں بجائے ظہر کی نماز کے پڑھ سکتے ہیں ۔ جیسا کہ عید اور جمعہ کا دن اگر اکھٹے ہو جائیں تو جن لوگوں نے عید کے خطبے اور نماز میں شرکت کی ہو ان سے جمعہ کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے تو کیا وہ اپنے گھروں میں جمعہ قائم کر سکتے ہیں ؟ !
اسی طرح جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن نماز کو اپنے اپنے گھروں پڑھ لینے کا اعلان کروا دیا تھا ،تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے اپنے گھروں میں جمعہ کی نماز پڑھی تھی ؟‘‘
جواب:
پتا پتا ،بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے ،گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
ہمارے ممدوح ’’گل محمد‘‘کو کہ جو ’’ہرگز نہ جنبد‘‘ کی عملی تصویر ہے، مرفوع حدیث، دو موقوف روایات، اور مقطوع روایت کے باو جود مسئلہ جوں کا توں کھڑا نظر آتا ہے، نجانےان تمام تر دلائل میں جنہیں یہ بیک جنبش قلم اپنی تحریر کی پہلی سطر میں ہی ’’حق‘‘ مان چکے ہیں ، یہ کیوں نظر نہیں آتا کہ سفر کی وجہ سے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم پر، اور مکہ ومدینہ کے درمیان جمعہ قائم کرنے والے صحابہ پر جمعہ کی فرضیت ساقط تھی، تب بھی انہوں نے مسجد کے علاوہ جمعہ قائم کیا،تو جب کھلے میدان میں ، سرِراہ گزر جمعہ ادا کیا جاسکتا ہے توگھر میں جمعہ بطریقِ اَولى پڑھا جاسکتا ہے، پھر سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کے موافق عمل کیا اور اپنے قصر میں جمعہ ادا کرتے رہے، اس واضح فہم صحابی کے بعد کم از کم فہم سلف کی حجیت کے قائلین کو تو انکار نہیں کرنا چاہیے، اور جنہیں اللہ نے قوت استنباط سے نوازا ہے ، وہ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے عمل سے براہِ راست یہ سمجھ سکتے ہیں کہ علاوہ از مسجد، رخصت کے باوجود جمعہ ادا کیا جاسکتا ہے۔
پھر ہمارے ممدوح نے خلط مبحث کرتے ہوئے، جمعہ کے دن عید پڑھنے والوں کو جمعہ کی رخصت والی مثال پیش کی ہے، حالانکہ ہمارے زیرِ بحث مسئلے اور جمعہ کے دن عید آنے پر جمعہ کی رخصت والے مسئلے میں بُعد المشرقین ہے!۔ کیونکہ وہاں تو عید پڑھنے کے باوجود ان لوگوں کے لیے جمعہ ادا کرنے کے لیے مسجد آنے میں کوئی رکاوٹ ہی نہیں ہے، انہیں دونوں اختیار حاصل ہیں۔ جبکہ یہاں ہماری زیر بحث کیفیت میں تو ان لوگوں کی بات ہے جو جمعہ کے دن مسجد پہنچنے سے قاصر ہیں، اسی طرح بارش کے دن اپنے اپنے گھروں میں نماز ادا کرنے کا اعلان بھی ایسی رخصت ہے کہ اگر کوئی عزیمت پہ عمل کرتے ہوئے مسجد میں آنا چاہے تو اس پہ کوئی پابندی ہی نہیں ہے۔
پھر جب بھی مسئلہ رخصت وعزیمت کا ہوتا ہے، تو اس میں رخصت یا عزیمت دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے میں مکلف آزاد ہوتا ہے۔ چاہے تو رخصت کو اختیار کر لے اور چاہے تو عزیمت کو اپنا لے۔ اور ہمارے ممدوح موجودہ صورت حال میں ترکِ جمعہ کو رخصت قرار دے رہے ہیں، تو ا س رخصت کے مقابل عزیمت بھی تو ہے ، کیونکہ عزیمت کے بغیر رخصت نہیں ہوتی، تو اگر کوئی عزیمت اختیار کرنا چاہتا ہے، تو اسے کس دلیل سے روکا جا رہا ہے؟
ہم اپنے ممدوح کی خدمت میں عرض گداز ہیں کہ ایسی کوئی دلیل پیش فرمائیں کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہو، کہ اگر کسی کو مسجد جانے سے روک دیا جائے، خواہ اسکے گھر میں، یا جیل میں، یا کہیں بھی، تو اسکے لیے جمعہ پڑھنا جائز ہی نہیں رہتا۔ اگر ایسی کو ئی دلیل آنجناب کے علم میں ہے تو ہمیں بھی بتائیں، تاکہ ہم بھی لوگوں کو روک سکیں کہ اب تم جمعہ پڑھ ہی نہیں سکتے۔ اور اگر ایسی کو ئی دلیل نہیں ہے تو صاف ظاہر ہے کہ جواز باقی رہتا ہے۔ اور ہر ایک کو اختیار ہے کہ وہ رخصت کو چُنے یا عزیمت اختیار کرے۔
فائدہ:
بطور فائدہ یہاں یہ بات سمجھ لیجئے کہ اپنے ڈیرے، زمینوں، اور گھر میں بوقت مجبوری بھی جمعہ کی رخصت نہ دینے کے پیچھے بعض الناس کا ایک خاص نظریہ ہے، جو کہ ہمارے ممدوح کے نہاں خانہء دماغ میں بھی بیٹھا ہوا ہے، لیکن تحت الشعور ہونے کی وجہ سے شاید انہیں بھی اس کا ادراک نہیں ہو رہا۔ وہ یہ کہ جامع مسجد کے علاوہ کہیں بھی جمعہ نہیں ہوتا۔اپنے اس اصول کو لے کر وہ لوگ اک طویل عرصہ تک لوگوں کو جمعہ کے فریضہ سے محروم کرتے چلے آئے ہیں۔ اسی طرح انکا ایک دوسرا اصول یہ بھی ہے کہ ’’مصرِ جامع‘‘ کے علاوہ کہیں جمعہ نہیں ہوتا!۔ اور مصر جامع کے لیے انہوں نے کچھ خود ساختہ شرطیں رکھی ہوئی ہیں کہ مصر جامع اس بڑے شہر کو کہا جائے گا جہاں عدالت و کچہری ہو، حدود کا نفاذ کیا جاتا ہو، اوروہاں امیر مقرر ہو۔ اسی اصول کے پیش نظر آج سے چند سال پہلے تک ہمارے ملک پاکستان کے سینکڑوں دیہات و قصبہ جات کی مساجد جمعہ کے خطبہ سے نا آشنا رہی ہیں۔ یہ تو بھلا ہو پاکستان کے علمائے اہل الحدیث کا، کہ جنہوں نے کتاب وسنت کی دعوت کو اس قدر پھیلا دیا کہ انہیں اپنے اصول چھوڑنے پڑے اور اب بستی بستی ، قریہ قریہ، نگر نگر، وہ سبھی لوگ اپنی مساجد میں جمعہ کا اہتمام کرنے پہ مجبور ہوئے ہیں۔ اور یہ کام انہی دلائل کی قوت کی وجہ سے ہوا ہے جنہیں ہمارے ممدوح ’’حق‘‘ کہنے کے باوجود، تلبیسات کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
دل کو جلا کے دی ہے زمانے کو روشنی
جگنو پکڑ کے ہم نے اُجالا نہیں کیا..!
لیکن برا ہو’’فتنہء تبدیع وتجریح‘‘ کا کہ اسکے ڈسے ہوئے مریضوں نے کتاب وسنت کے ان عَلمبرداروں ہی کو جنہوں نے حق کے پھریرے چہار سو لہرا دیے ہیں، منہج سلف سے خارج قرار دے کر ان سے علم حاصل کرنے سے اپنی بھیڑوں کو روک رکھا ہے۔ لیکن ایسے فرسودہ خیالات والے کج فہم مفتیوں کی پرواہ کیے بغیر شب وروز یہ کاروانِ عزیمت رواں دواں ہے۔
’’طاہر‘‘ کو تم جیسے فقـیـہانِ شہر کی
پروا نہیں ہے شوق سےکافر کہا کرو
چوتھا شبہہ:
ہمارے ممدوح فرماتے ہیں:
’’اور پھر اس مسئلے میں جو اجماع ہے کہ "جس شخص کی نماز جمعہ فوت ہو جائے اگرچہ بغیر عذر کے تو اسے جمعہ پڑھنا جائز نہیں ہے بلکہ ظہر کی چار رکعات ادا کرے گا " حتی کہ وہ شخص جو جمعہ کی جماعت میں تو شریک ہوگیا تھا لیکن کیونکہ امام تو آخری رکعت کے سجدوں میں تھا یا تشہد میں تھا لہذا کم از کم ایک رکعت نہ ملنے کی وجہ سے اس کے جمعہ کی نماز نکل چکی ہے ، وہ شخص بھی اب امام کے سلام پھیرتے ہی کھڑے ہو کر نماز ظہر ادا کرے گا ۔ تو وہ لوگ جن پر ہے ہی رخصت وہ کیسے اپنے گھروں میں جمعہ کی نماز پڑھ لیں گے ۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ صاحب رخصت اگر ان لوگوں کے پاس موجود ہو جن پر رخصت نہیں ہے تو اگر وہ چاہے تو ان کے ساتھ شریک ہو کر جمعہ پڑھ سکتا ہے، جیسا کہ مریض مسافر عورت غلام وغیرہ ۔ مگر یہ فتوی دینا کہ اپنے اپنے گھروں میں جمعہ کی نماز ادا کر سکتے ہیں ۔ یہ بغیر دلیل کے ہے ۔ اور ساتھ ہی اجماع کے خلاف ہونے کی وجہ سے شاذ ہے۔ لہذا ناقابل التفات ہے ۔‘‘
جواب:
جس اجماع کی آپ نے بات کی ہے وہ اس شخص کے لیے ہے جو مسجد میں لیٹ پہنچتا ہے حتى کہ امام آخری رکعت کا رکوع کر چکا ہوتا ہے تو وہ ظہر ہی ادا کرے گا۔ یا جمعہ کی نماز مکمل ہو جانے کے بعد پہنچنے والا، یا ....الخ الغرض وہ تمام لوگ جن کا جمعہ ’’فوت‘‘ ہو جائے۔اور اس سے ہمیں بھی انکار نہیں کہ جس کا جمعہ فوت ہو جائے، وہ جمعہ کی جگہ ظہر پڑھے، لیکن ہمارے یہاں زیر بحث قضیے میں اس شخص کی بات ہی نہیں ہو رہی جس کا جمعہ فوت ہو جائے، بلکہ اسکی بات ہو رہی ہے جسے جمعہ کا وقت ملا اور وہ بروقت جمعہ پڑھنے پہ قادر ہے، لیکن وہ مسجد پہنچنے سے قاصر ہے۔ یعنی یہ معاملہ بالکل مختلف ہے۔اس اجماع کے بجائے جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں، کوئی ایسا اجماع دکھا دیجئیے کہ جو شخص مسجد سے بہت دور رہتا ہو، جس کا مسجد پہنچنا ناممکن ہو، اور وہ اکیلا بھی نہ ہو بلکہ چند اہل ایمان کے ساتھ ہوتب بھی وہ جمعہ نہیں پڑھ سکتا بلکہ اس پہ ظہر ادا کرنا ہی لازم ہے۔
إن لم تفعلوا ولن تفعلوا
پھر آپ یہ جانتے ہیں کہ اجماع بذات خود ہمارے نزدیک حجت ہی نہیں ہے بلکہ جس دلیل شرعی (وحی الہی) سے مسئلہ مستنبطہ پہ اتفاق ہو ،یا نہ بھی ہو ، ہمارے نزدیک وہ نص شرعی حجت ہوتی ہے، تو ہمارے لیے آپکو ایسی دلیل پیش ہی نہیں کرنی چاہیے جو ہمارے لیے حجت نہ ہو!
میں نے تو وہ دلیل پیش کی ہے جو آپ کے نزدیک حجت ہے۔ اور اس سے بھی پہلے اپنا اصل مستدل مرفوع روایت کی صورت بھی پیش کیا ہے جسے آپ سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔
پانچواں شبہہ:
موصوف نے اپنی دوسری تحریر میں لکھا ہے:
’’ آپ نے حدیث شریف میں مذکور صورتحال کو غلط رنگ دیا ہے کہ وہ مسافر تھے اور دو چار لوگ تھے۔ کیونکہ بنو عمرو بن عوف جہاں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم تقریبا آدھا مہینہ ٹھہرے تھے اور مسجد قباء تعمیر کرکے جمعہ کی نمازادا کی تھی اس وقت آپ صلى اللہ علیہ وسلم سفر کی حالت میں نہیں تھے۔ اور اب آپ مقیم کے حکم تھے۔ ‘‘
جواب:
ع................ اس ’’عیاری‘‘ پہ کون مرنہ جائے اے خدا!
اسے کہتے ہیں ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ الزام مجھے دے رہے ہیں کہ میں نے غلط بیانی کی ہے، اور مسجد قباء میں ادا کیے گئے جمعہ کو دوران سفر ادا کیا گیا جمعہ بنا کر پیش کیا ہے۔ حالانکہ یہ دجل موصوف خود فرما رہے ہیں۔ میں ایک مرتبہ پھر وہ روایت یہاں پیش کیے دیتا ہوں، ملاحظہ ہو:
امام بیہقی نے معاذ بن موسى بن عقبہ اور محمد بن اسحاق کے حوالے سےنقل کیا ہے:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَكِبَ مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فِي هِجْرَتِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ مَرَّ عَلَى بَنِي سَالِمٍ، وَبَنِي قُرَّةَ بَيْنَ قُبَاءَ، وَالْمَدِينَةِ فَأَدْرَكَتْهُ الْجُمُعَةُ فَصَلَّى فِيهِمُ الْجُمُعَةَ، وَكَانَتْ أَوَّلَ جُمُعَةٍ صَلَّاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ
بلا شبہ جب نبی صلى اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت کےدوران میں جب بنی عمر بن عوف سے سوار ہو کر بنی سالم اور بنی قرہ کے پاس سے گزرے جو قباء اور مدینہ کے درمیان ہے تو جمعہ کا وقت ہوگیا تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان میں جمعہ پڑھایا، اور یہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے وقت پہلا جمعہ تھا۔
معرفة السنن والآثار للبيهقي: 6320
قارئین کرام! ملاحظہ فرمائیے کہ حدیث میں واضح الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف سے نکل کر بنی سالم اور بنی قرہ کے پاس سے گزر رہے تھے اور یہ بھی صراحت ہے کہ وہ جگہ قباء اور مدینہ کے درمیان ہے!۔ اتنی واضح نص ہونے کے باوجود موصوف ان صریح الفاظ کو شیرِ ِمادر سمجھ کر پی گئے، اور صرف لفظ ’’بنی عمرو بن عوف ‘‘ کو سامنے رکھ کر اس تنکے پہ عمارت کھڑی کر دی، اور پھر غلط رنگ دینے کا بہتانِ عظیم مجھ ناتواں پہ لگا دیا۔
یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا
’’وہ الزام ہم‘‘ کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا
اتنے صریح الفاظ کے باوجود اگر کوئی اسے مسجد قباء میں ادا کیا گیا جمعہ قرار دے ، جبکہ حدیث کے الفاظ چیخ چیخ کے کہہ رہے ہوں کہ یہ جمعہ قباء اور مدینہ کے درمیان بنی قرہ اور بنی سالم کے پاس ادا کیا گیا تھا، تو اسے ہم اسکے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ :
خِرد کا نام جُنوں رکھ دیا ، جُنوں کا خرد
جو چاہے تیرا ’’فہم‘‘ کرشمہ ساز کرے
اور پھر بڑی ڈھٹائی سے فرما رہے ہیں کہ ’’آپکے پاس کوئی دلیل نہیں... الخ‘‘۔ کیا عجب ہے کہ ہم نے دلیل دی، جسے انہوں نے اپنی تلبیسات سے اپنی تحریر میں یکسر بدل کے رکھ دیا، اور پھر وہی نعرہء مستانہ کہ ’’آپکے پاس کوئی دلیل نہیں‘‘ .. یا للعجب!
آنکھیں اگر بند ہوں تو دن بھی ہے رات
اس میں بھلا قصور کیا ہے آفتاب کا
اور بقول شیخ سعدی:
گر نہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمہ آفتاب را چہ گناہ
چھٹا شبہہ:
موصوف اپنی اس دوسری تحریر میں لکھتے ہیں:
’’ آپ نے موجودہ صورت حال کو حدیث میں مذکور واقعے پر قیاس کیا ہے۔ اور قیاس کا نمبر تو اجماع کے بھی بعد میں ہے۔ جب اجماع ہی آپکے نزدیک حجت نہیں ہے تو قیاس کی کیسے سوجھی ؟۔‘‘
مزید فرماتے ہیں:
’’اور پھر آپ کا یہ قیاس قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے مردود ہے‘‘
جواب:
اگر ہمارے ممدوح ہماری معروضات کو بغور پڑھ لیتے تو شاید ایسی بات نہ کرتے، کیونکہ ہم نے قیاس نہیں کیا، بلکہ دلالتِ نص سے استدلال کیا ہے! اور اپنی تحریر میں اسکااظہار کرنے کے لیے ’’بطریق اَولى‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اصول فقہ میں اسے استدلال بالأولویہ، دلالتِ نص، فحوائے کلام، فحوائے خطاب، قیاسِ اَولى ، اور قیاس ِجلی کہا جاتا ہے۔ کاش آپ کو اصول فقہ کی یہ بحث یاد ہوتی تو آپ یہ الفاظ نہ کہتے، کیونکہ استدلال بالاَولَوِیہ کا نمبر اجماع کے بعد نہیں اس سے بہت پہلے آتا ہے، اسکا تعلق براہ راست نص سے ہے۔ آپ ایک مرتبہ کسی اچھے استاذ سے اصول فقہ پڑھ لیں ، تاکہ آپ اس طرح کی کچی اور سطحی باتیں کرنے سے بچ جائیں، ابھی آپکی عمر سیکھنے کی ہےلہذا ’’ الدین النصیحۃ‘‘ کے تحت میرا آپکو یہ خیرخواہانہ مشورہ ہے، کہ آپ اصول فقہ اچھی طرح کسی ماہر استاذ سے پڑھ لیں۔پھر آپ ایسے موقعوں پہ یہ نہیں کہیں گے کہ’’جب اجماع ہی آپکے نزدیک حجت نہیں ہے تو قیاس کی کیسے سوجھی‘‘۔ کیونکہ آپکو سمجھ آجائے گی کہ جس قیاس کا ہم رد کرتے ہیں وہ قیاس ’’قیاس خفی‘‘ ہے۔ جس میں علت نہ تو منصوصہ ہوتی ہے اور نہ بدیہیہ، بلکہ خود سے ایک علت سوچ یا گھڑ لی جاتی ہے۔ اور پھر ’’استحسان‘‘ کے نام پہ شریعت پہ چھری چلائی جاتی ہے۔ اس قیاس کا نمبر اصولیوں کے ہاں اجماع کے بعد آتا ہے۔ اور جو طرز استدلال میں نے اپنایا ہے یہ تو ’’نص‘‘ کی بحث میں بعنوان ’’دلالۃ النص‘‘ آپکو اصول فقہ کی ہر کتاب میں مل جائے گا۔
ناتواں! اتنا تو سمجھ اپنے دل میں تو کہ ہم
لاکھ ناداں ہوئے ، کیا تجھ سے بھی ناداں ہوگئے؟!
ساتواں شبہہ:
موصوف اسی دوسری تحریر میں فرماتے ہیں:
’’عورتوں کی مثال موجود ہے کہ ان پر جمعہ کی فرضیت ساقط ہے لہذا وہ گھروں میں ظہر کی نماز پڑھتی ہیں جمعہ گھروں میں ادا نہیں کرسکتیں۔‘‘
مزید لکھتے ہیں: ’’...کیونکہ جمعہ کی فرضیت ساقط ہو چکی ہے جیساکہ خواتین سے ساقط ہے‘‘
جواب:
ع ..........آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے؟!
یہ جو آپ نے کیا ہے اسے قیاس بلکہ قیاس مع الفارق کہتے ہیں!، کیونکہ عورتوں پہ تو جمعہ واجب ہی نہیں ہے۔ جبکہ مردوں پہ واجب ہے، مردوں پہ واجب ہونے کے بعد انکے لیے مرض و سفر میں رخصت ہے، جبکہ عورتوں پہ اصلا جمعہ ہے ہی نہیں، ہاں اگر وہ جمعہ ادا کرتی ہیں تویہ انکی اضافی نیکی ہے، جیسا کہ جہاد عورتوں پہ واجب ہی نہیں ہے، تاہم اگر کوئی عورت جہاد میں شریک ہو تو وہ اسکی اضافی نیکی شمار کی جاتی ہے۔ آپ نے یہاں دو غلطیاں کی ہیں : ایک تو یہ کہ مردوں کو عورتوں پہ قیاس کیا، اور دوسری یہ کہ جن پہ فریضہ عائد ہی نہیں ہوا ، ان پر، انہیں قیاس کیرلیا جن پہ فریضہ عائد ہونے کے بعد انہیں بوجوہ رخصت ملی۔ اور ان دونوں کے مابین بُعد المشرقین ہے!۔ نیز آپکا یہ قیاس ،قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے بھی مردود ہے، اور اس وجہ سے بھی مردود ہے کہ قیاس کی یہ قسم ہمارے نزدیک، آپ بھی جانتے ہیں کہ حجت ہی نہیں۔ اصول اختلاف ومناظرہ کا ادنی طالبعلم بھی جانتا ہے کہ مخالف کو وہ دلیل پیش کی جاتی ہے جسے وہ بھی تسلیم کرتا ہو۔ لہذا آپ بھی اپنے خصم کو وہ دلیل پیش کریں جو اسکے نزدیک دلیل بننے کے لائق ہو۔ لیکن صد افسوس کہ آپ تو خصم کو وہ دلیل دے رہے ہیں جو آپکے اپنے اصولوں کے مطابق بھی دلیل نہیں چہ جائیکہ خصم کے لیے دلیل بن سکے!
آٹھواں شبہہ:
موصوف اسی دوسری تحریر میں لکھتے ہیں:
’’بہر حال یہ جتنے بھی دلائل بمع آثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ نے تحریر میں ذکر کئے ہیں وہ سب برحق ہیں لیکن ان سے آپ کا اپنا استدلال کہ گھروں میں جمعہ کی نماز ادا کی جاسکتی ہے غلط ہے۔ کیونکہ مذکورہ تمام دلائل و آثار عام ہیں جن صرف اس بات کا ثبوت ہےکہ جمعہ کی نماز تمام مسلمانوں پر فرض ہے خواہ شہر کے رہنے والے ہوں یا دیہات کے یا شہر اور دیہاتوں کے درمیان علاقوں میں ڈیروں اور کھیتوں سے تعلق رکھتے ہوں۔‘‘
جواب:
اسے کہتے ہیں:
راہ پر تم کو ’’لے آئے ہیں‘‘باتوں ہی باتوں میں
اور کھل جاؤ گے دو چار ملاقاتوں میں.........!
ہمارے ممدوح تسلیم کر گئے کہ جو دلائل ہم نے دیے ہیں ان میں اس بات کا ثبوت ہے کہ ’’ڈیروں اور کھیتوں سے تعلق رکھنے والوں پہ جمعہ کی نماز فرض ہے‘‘۔ تو جناب کہیے کہ جہاں سے آپکو یہ سمجھ آگیا کہ ڈیروں والوں پہ فرض ہے ، اسی دلیل میں جس میں آپکو ڈیرہ نظر آیا ہے یہ بھی ہے کہ ڈیرے پہ ہی جمعہ ادا کیا جاتا رہا، یہ ڈیرے پہ ہی جمعہ کی ادائیگی والی بات بھی نظر آئی کہ نہیں؟۔ اس ڈیرے کو حدیث کے الفاظ میں ’’قصر‘‘ یعنی ’’محل‘‘ کہا گیا ہے۔ اور بادشاہ یا جاگیر دار کا محل اسکا گھر ہی ہوتا ہے!۔ سو ثابت ہوا کہ مسجد پہنچنا جس کے لیے ناممکن ہو، وہ اپنے گھر پہ نماز ادا کر لے۔
نہ تنہا من دریں میخانہ مستم
جنید وشبلی وعطار ہم شد مست
آخری بات:
ہمارے ممدوح دوسری تحریر کے آخر میں فرماتے ہیں:۔
’’ہاں وہ لوگ جن سے جمعہ کی فرضیت ساقط نہیں ہوئی اور وہ گھروں میں ٹھہرے ہوئے ہیں بوجہ ’راستوں کی رکاوٹ‘ کے یا جامع مسجد کے دور ہونے کے ۔ یہ صورتحال ہماری بحث سے خارج ہے۔‘‘
تبصرہ:
ہمارے ممدوح آخر میں کیا کہہ گئے ہیں؟ ایک بار پھر غور سے پڑھیےکہ انھوں نے کیا فرمایا ہے؟! سوچیئے کہ انہیں بھی علم ہوا ہے،کہ وہ کیا لکھ گئے ہیں؟
کہہ گیا ہوں جنوں میں کیا کیا
کچھ نہ سمجھے ، خدا کرے، کوئی
موصوف فرما گئے ہیں کہ راستوں کی رکاوٹ کی وجہ سے جو لوگ گھروں میں ٹھہرے ہوئے ہیں، انکی صورتحال ہماری بحث سے خارج ہے!!!۔ اچھا یہ بتائیے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے راستے توبند نہیں ہوئے؟؟؟ کیا لوگ اپنی خوشی سے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں؟؟؟۔ موصوف کی اس آخری بات کا فیصلہ ہم قارئین کے سپرد کرتے ہیں ، اور یہ کہتے ہوئے رخصت لیتے ہیں کہ:
ع ......دل والے خود ہی لکھ لیں گے کہانی اس افسانے کی
وصلى اللہ على نبینا محمد وآلہ وبارک وسلم
-
الثلاثاء PM 05:45
2022-12-20 - 477