میلنگ لسٹ

بريديك

موجودہ زائرین

باقاعدہ وزٹرز : 125117
موجود زائرین : 52

اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
278
فتاوى
56
مقالات
187
خطبات

تلاش کریں

البحث

مادہ

حالت جنابت میں تلاوت کا حکم

حالت جنابت میں تلاوت کا حکم

محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ

 

حائضہ یا جنبی کو  اللہ کا ذکر کرنے سے منع کرنے والی کوئی ’’دلیل‘‘  معرض استدلال میں موجود نہیں!، یاد رہے کہ قرآن مجید کی تلاوت بھی اللہ کے ذکر میں شامل ہے۔ منع کرنے کے لیے جن مرویات کا سہارا لیا جاتا ہے ان میں سے کوئی بھی ’’دلیل‘‘ بننے کے قابل نہیں! جبکہ حائضہ وجنبی کے ذکر کرنے اور قرآن پڑھنے کے جواز پر ’’دلائل‘‘ موجود ہیں۔ البتہ خاص ذکر یعنی نماز سے منع کے بے شمار دلائل موجود ہیں، اور نماز محل نزاع بھی نہیں۔ یاد رہے کہ حائضہ اور جنبی دونوں کا حکم ایک ہی ہے۔

پہلی دلیل:

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

«كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ اللهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ»

نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے تھے.

صحیح مسلم: ۳۷۳

ہر حالت میں حالت جنابت بھی شامل ہے۔ یہ حدیث عام ہے اور حالت جنابت کو اس سے مستثنى کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔

دوسری دلیل:

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ہرقل کو جو خط لکھا اس میں  دو آیات بھی تھیں جنہیں پڑھا گیا ’’ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ‘‘ اور ’’يَا أَهْلَ الكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ  أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ‘‘ [آل عمران: 64]

صحیح البخاری: 2940

اور یہ بات معلوم ہے کہ اہل کفر غسل جنابت اور اسکے احکام سے نہ آشنا ہوتے ہیں اور نہ ہی جنابت سے پاک ہوتے ہیں۔

تیسری دلیل:

سیدہ ام عطیہ رضی  اللہ عنہا فرماتی ہیں:

«كُنَّا نُؤْمَرُ أَنْ نَخْرُجَ يَوْمَ العِيدِ حَتَّى نُخْرِجَ البِكْرَ مِنْ خِدْرِهَا، حَتَّى نُخْرِجَ الحُيَّضَ، فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ، فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ، وَيَدْعُونَ بِدُعَائِهِمْ»

ہم حکم دی جاتی تھیں کہ عید کے دن ہم نکلیں حتى کہ کنواری لڑکیوں اور حیض والیوں کو بھی ہم نکالیں، تو وہ لوگوں کے پیچھے ہوتیں، اور انکی تکبیر کے ساتھ تکبیر کہتیں، اور انکی دعاء کے ساتھ دعاء مانگتیں.

صحیح البخاری: 971

اس حدیث میں بھی حائضہ خواتین کا دعاء اور ذکر کرنا واضح ہے۔

چوتھی دلیل:

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب وہ حجۃ الوداع کے موقع پر حائضہ ہوگئیں تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا:

«فَإِنَّ ذَلِكِ شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَافْعَلِي مَا يَفْعَلُ الحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لاَ تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي»

یہ (حیض) ایسی شے ہے جسے اللہ تعالى نے بنات آدم پر لازم کر دیا ہے۔ سو جو کام حاجی کرتے ہیں وہ سب کرو، مگر بیت اللہ کا طواف نہ کرو، حتى کہ پاک ہو جاؤ۔

صحیح البخاری:305

بعض طرق میں یہ الفاظ بھی ہیں:

وَلَا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ

اور صفا مروہ کے درمیان سعی بھی نہ کرو۔

الاستذکار:جـ4 صـ369 (224)

اس حدیث میں بھی حائضہ کے لیے اللہ کا ذکر کرنے کی واضح دلیل ہے۔ کیونکہ حجاج کرام کا طواف و سعی کے سوا باقی مناسک میں کام ہی تلبیہ و ذکر ہے۔

جلیل القدر تابعی عکرمہ رحمہ اللہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے بارہ میں فرماتے ہیں:

أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ وِرْدَهُ وَهُوَ جُنُبٌ

وہ حالت جنابت میں بھی اپنی منزل پڑھا کرتے تھے۔

الأوسط لابن المنذر: 624

أبو مجلز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

دَخَلْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ لَهُ: أَيَقْرَأُ الْجُنُبُ الْقُرْآنَ؟ قَالَ: دَخَلْتَ عَلَيَّ وَقَدْ قَرَأْتُ سُبُعَ الْقُرْآنِ وَأَنَا جُنُبٌ

میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کیا جنبی قرآن پڑھ سکتا ہے؟ تو فرمانے لگے آپ میرے پاس آئے ہیں جبکہ میں نے حالت جنابت میں ہی قرآن کے ساتویں حصہ (ایک منزل) کی تلاوت کی ہے۔

الأوسط لابن المنذر: 625

امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عباس کا یہ موقف صحیح ثابت ہونے کا اشارہ دیا ہے۔

صحیح البخاری، قبل حدیث: 305

تنبیہ بلیغ:

موقوفات دین میں حجت و دلیل نہیں ہیں، شریعت کا مأخذ صرف اور صرف وحی الہی یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ہی ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ موقف صرف اس لیے نقل کیا گیا ہے کیونکہ بعض الناس کی طرف سے یہ دعوى کیا گیا تھا کہ کسی صحابی یا تابعی سے حائضہ یا جنبی کے لیے قراءت قرآن کی اجازت ثابت نہیں۔ ہمارا مستدل مرفوع روایات ہی ہیں۔ اور اسی وجہ سے ہم نے مانعین کی طرف سے پیش کردہ موقوفات و مقطوعات کو درخور اعتناء نہیں سمجھا۔

 

مانعین کے اور انکا جائزہ

پہلی دلیل:

مانعین کی طرف سے ایک مرفوع روایت پیش کی جاتی ہے، جو بادی النظر میں صحیح معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقت میں معلول ہے۔ وہ روایت یہ ہے:

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَخْرُجُ مِنَ الخَلَاءِ فَيُقْرِئُنَا الْقُرْآنَ، وَيَأْكُلُ مَعَنَا اللَّحْمَ وَلَمْ يَكُنْ يَحْجُبُهُ - أَوْ قَالَ: يَحْجِزُهُ - عَنِ الْقُرْآنِ شَيْءٌ لَيْسَ الْجَنَابَةَ

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے باہر تشریف لاتے، ہمیں قرآن پڑھاتے، اور ہمارے ساتھ گوشت تناول فرماتے، اور آپ کو جنابت کے سوا کوئی بھی چیز قرآن سے نہیں روکتی تھی۔

سنن أبی داود:۲۲۹

یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ یہ عمر بن مرۃ کی عبد اللہ بن سلمہ سے مرویات میں سے ہے۔ اور جب عمرو بن مرہ حدیث سننے کے لیے عبد اللہ بن سلمہ کے پاس پہنچے تو انہیں اختلاط ہو چکا تھا۔

امام شعبہ رحمہ اللہ عمرو بن مرۃ سے نقل کرتے ہیں:

نَعْرِفُ وَنُنْكِرُ يَعْنِي أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَمَةَ كَانَ كَبِرَ حَيْثُ أَدْرَكَهُ عَمْرٌو

ہم (اس کی مرویات) پہچانتے ہیں اور انکار کرتے  ہیں۔ (امام شعبہ کہتے ہیں کہ اس بات سے عمرو کی مراد یہ ہے کہ) عبد اللہ بن سلمہ کو جب عمرو نے پایا تو وہ بوڑھے ہو چکے تھے۔ (یعنی حافظہ متغیر تھا)

المنتقى لابن جارود: 94، الضعفاء الکبیر للعقیلی:جـ2 صـ 261، مختصر الکامل فی الضعفاء:صـ 455 (989)، مسند ابن الجعد:صـ26 (66)

یعنی عمرو بن مرۃ کا سماع عبد اللہ بن سلمہ سے حافظہ متغیر ہو جانے کے بعد کا ہے اور کبھی وہ ثقات کی موافقت کرتے اور کبھی مخالفت کیونکہ آخر عمر میں انکا حافظہ متغیر ہو چکا تھا۔ اور اس روایت میں کسی بھی ثقہ نے عبد اللہ بن سلِمہ کی موافقت نہیں کی، تو یہ روایت کیسے صحیح ہوسکتی ہے؟ اور جب عمرو بن مرۃ کا سماع ہی عبد اللہ کا حافظہ متغیر ہو جانے کے بعد کا ہے تو عمرو بن مرۃ عن عبد اللہ بن سلمہ سلسہ اسنادیہ ہی ضعیف ہے!

امام شعبہ رحمہ اللہ فرماتے تھے:

وَاللَّهِ لَأُخْرِجَنَّهُ مِنْ عُنُقِي وَلَأُلْقِيَنَّهُ فِي أَعْنَاقِكُمْ

اللہ کی قسم میں اسے اپنے گردن سے نکال کر تمہاری گردن میں ڈال دوں گا۔

الضعفاء الکبیر للعقیلی:جـ2 صـ 261، معرفۃ السنن والآثار للبیہقی:778، مسند ابن الجعد:صـ26 (65)

یعنی امام شعبہ رحمہ اللہ عمرو بن مرۃ عن عبد اللہ بن سلِمہ کو مشکوک سمجھتے تھے۔ اسی لیے کبھی تو اس روایت کی تحسین بھی کر دیتے تھے، وہ فرماتے ہیں:

مَا أُحَدِّثُ بِحَدِيثٍ أَحْسَنَ مِنْهُ

میں (اس باب میں) اس سے اچھی روایت نہیں بیان کرتا۔

سنن الدارقطنی:429

اس باب میں امام شعبہ رحمہ اللہ کے نزدیک سب سے اچھی روایت کا یہ حال ہے، کہ اسے سب سے اچھا قرار دینے والے خود ہی اسے مشکوک سمجھتے ہیں اوراس کا بار اپنی گردن سے اتار کر دوسروں کی گردن میں ڈالتے ہیں، تو باقی مرویات کا کیا حال ہوگا... فتدبر!

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

لَا يُتَابَعُ فِي حَدِيثِهِ

عبد اللہ بن سلِمہ ابو العالیہ الکوفی، انکی حدیث میں متابعت نہیں کی جاتی۔

التاریخ الکبیر، باب العین،(258)، الضعفاء الکبیر للعقیلی:جـ2 صـ 261

اور یہ روایت بھی ایسی ہی ہے کہ اسے بیان کرنے میں عبد اللہ بن سلِمہ متفرد ہیں اور کسی نے انکی متابعت نہیں کی، پھر یہ روایت حافظہ متغیر ہونے کے بعد کی ہے۔ کیونکہ عمرو بن مرۃ کا سماع تغیر کے بعد کا ہے۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے تھے۔

معالم السنن للخطابی:جـ1 صـ 76

امام شافعی رحمہ اللہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

وَأُحِبُّ لِلْجُنُبِ وَالْحَائِضِ أَنْ يَدَعَا الْقُرْآنَ حَتَّى يَطْهُرَا احْتِيَاطًا لِمَا رُوِيَ فِيهِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُ الْحَدِيثِ يُثْبِتُونَهُ.

میں احتیاطی طور پہ پسند کرتا ہوں کہ جنبی اور حائضہ غسل کرنے تک قرآن کی تلاوت ترک کر دیں، کیونکہ اس بارہ میں روایت موجود ہے اگرچہ  اہل الحدیث (محدثین) اس روایت کو ثابت نہیں مانتے۔

معرفۃ السنن والآثار للبیہقی:776، خلاصۃ الأحکام: جـ۱ صـ207(526)

یعنی امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ روایت ضعیف ہے، اور انکا حائضہ و جنبی کو قرآن پڑھنے سے منع کرنے والا موقف صرف ’’احتیاطی‘‘ہے، یقینی نہیں!

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَإِنَّمَا تَوَقَّفَ الشَّافِعِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ فِي ثُبُوتِ الْحَدِيثِ لِأَنَّ مَدَارَهُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ الْكُوفِيِّ، وَكَانُ قَدْ كَبُرَ، وَأُنْكِرَ مِنْ حَدِيثِهِ وَعَقْلِهِ بَعْضُ النَّكْرَةِ، وَإِنَّمَا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ بَعْدَ مَا كَبُرَ قَالَهُ شُعْبَةُ.

شافعی رحمہ اللہ کو اس حدیث کے ثبوت میں اس وجہ سے توقف تھا کہ اس کا مدار عبد اللہ بن سلِمہ کوفی پر ہے، اور اسکی حدیث اور عقل (حافظہ) پر کچھ نکیر کی گئی ہے، اور اس نے یہ حدیث حافظہ متغیر ہونے کے بعد روایت کی ہے، یہ صراحت امام شعبہ رحمہ اللہ نے فرمائی ہے۔

معرفۃ السنن والآثار للبیقہی:777

امام نووی رحمہ اللہ اس روایت کی تخریج نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

قَالَ التِّرْمِذِيُّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَالَ غَيْرُهُ مِنْ الْحُفَّاظِ الْمُحَقِّقِينَ هُوَ حَدِيثٌ ضَعِيفٌ

ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے، لیکن انکے علاوہ دیگر محقق حفاظ کا کہنا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔

المجموع: جـ۲صـ159

امام نووی رحمہ اللہ ’’جمہور‘‘  کا موقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

قَالَ التِّرْمِذِيّ: " هُوَ حسن صَحِيح " وَخَالفهُ الْأَكْثَرُونَ، فضعفوه.

امام ترمذی نے کہا ہے ''یہ حدیث حسن صحیح ہے''، لیکن اکثر (محدثین) نے انکی مخالفت کی ہے اور اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔

خلاصۃ الأحکام: جـ۱ صـ207(525)

یعنی جمہور محدثین کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے اور اسکے ضعیف ہونے کا سبب یہ ہے کہ عمرو بن مرۃ کا سماع عبد اللہ بن سلِمہ سے انکا حافظہ متغیر ہو جانے کے بعد کا ہے۔ اور اصول حدیث کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ تغیر کے بعد والا سماع معتبر نہیں ہوتا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس روایت کے بارہ میں فرمایا ہے:

رَوَاهُ أَصْحَابُ السُّنَنِ وَصَححهُ التِّرْمِذِيّ وابن حِبَّانَ، وَضَعَّفَ بَعْضُهُمْ بَعْضَ رُوَاتِهِ وَالْحَقُّ أَنَّهُ مِنْ قَبِيلِ الْحَسَنِ يَصْلُحُ

اسے اصحاب سنن نے روایت کیا ہے اور ترمذی و ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے اور بعض محدثین نے اسکے بعض رواۃ کو ضعیف قرار دیا ہے، لیکن حق یہ ہے کہ یہ (روایت) حسن کی قبیل سے ہے اور حجت بننے کے قابل ہے۔

فتح الباری: جـ۱ صـ408 قبل حدیث:306

لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے خود ہی تقریب میں عبد اللہ بن سلِمہ المرادی کے بارہ میں فرمایا ہے:

صدوق تغير حفظه

یہ سچا راوی ہے، اسکا حافظہ متغیر ہو گیا تھا۔

تقریب التہذیب:3364

اور یہ بات سابقہ سطور سے معلوم ہوچکی ہے کہ عبد اللہ بن سلمہ کی یہ روایت حافظہ متغیر ہونے کے بعد کی ہے۔ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ جب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث پر حسن کا حکم لگایا شاید اس وقت انہیں بات مستحضر نہ تھی۔ واللہ اعلم.

قصہ مختصر کہ اس روایت کا عبد اللہ بن سلمہ کا حافظہ متغیر ہو جانے  کے بعد مروی ہونا معلوم ہے اور اسکا کوئی متابع بھی نہیں، لہذا یہ روایت ثابت نہیں، اور معرض استدلال سے خارج ہے۔

 

دوسری دلیل:

اسی مسئلہ کو ثابت کرنے کے لیے ایک دوسری روایت پیش کی جاتی ہے جبکہ اس میں حائضہ وجنبی کو تلاوت سے منع کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے، محض تخمین وظن ہے اور:

إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا

یقینا ظن (گمان) حق سے کچھ بھی کفایت نہیں کرتا۔

سورۃ یونس:36، سورۃ النجم: 28

وہ روایت یہ ہے:

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

«كَانَ يَتَّكِئُ فِي حَجْرِي وَأَنَا حَائِضٌ، ثُمَّ يَقْرَأُ القُرْآنَ»

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم میری گود میں سر رکھ کر قرآن کی تلاوت فرماتے جبکہ میں حائضہ ہوتی۔

صحیح البخاری:297، صحیح مسلم: 301

اس حدیث میں حائضہ کی گود میں سر رکھ کر قراءت کرنے کا جواز تو ہے لیکن حائضہ کے لیے قراءت قران سے منع کا کوئی اشارہ نہیں۔ البتہ کچھ لوگ کشید کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:

قَالَ ابن دَقِيقِ الْعِيدِ فِي هَذَا الْفِعْلِ إِشَارَةٌ إِلَى أَنَّ الْحَائِضَ لَا تَقْرَأُ الْقُرْآنَ لِأَنَّ قِرَاءَتَهَا لَوْ كَانَتْ جَائِزَةً لَمَا تُوُهِّمَ امْتِنَاعُ الْقِرَاءَةِ فِي حِجْرِهَا حَتَّى احْتِيجَ إِلَى التَّنْصِيصِ عَلَيْهَا

ابن دقیق العید نے کہا ہے کہ اس کام میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حائضہ قرآن نہ پڑھے، کیونکہ اگر اسکے لیے قرآن پڑھنا جائز ہوتا تو اسکی گود میں قراءت کرنے کی ممانعت کا خیال ہی پیدا نہ ہوتا کہ اسکی وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس ہو۔

فتح الباری لابن حجر: جـ1 صـ402 (297)

حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ومراد البخاري بهذا الباب: أن قرب القاريء مِن الحائض ومن موضع حيضها لا يمنعه مِن القراءة؛ فإنه لَم يكن للحيض تأثير في منع القراءة لَم يكن في إخبار عائشة بقراءة النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - القرآن وَهوَ متكيء في حجرها في حال الحيض معنى، فإنها أرادت أن قرب فم القاريء للقرآن مِن محل الحيض لا يمنعه القراءة.

اس باب سے امام بخاری کی مراد یہ ہے کہ قاری کا منہ حائضہ کے حیض والی جگہ کے قریب ہونا بھی قراءت کو مانع نہیں ہے‘ اگر قراءت سے منع کرنے میں حیض کا اثر نہ ہوتا تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا حالت حیض میں نبی صلى اللہ علیہ وسلم کے اپنی گود میں سر رکھ کر قراءت کرنے کے بارے میں خبر دینے کا کوئی معنى نہیں۔ انہوں نے (یہ بیان کرنے کا) ارادہ کیا ہے کہ قاری کا منہ محل حیض سے قریب ہونا قراءت سے مانع نہیں ہے۔

فتح الباری لابن رجب: جـ2 صـ19 (297)

پہلی بات تو یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ الباری حائضہ وجنبی کی قراءت کے قائل ہیں۔

صحیح البخاری، کتاب الحیض باب تَقْضِي الحَائِضُ المَنَاسِكَ كُلَّهَا إِلَّا الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ

اور دوسری بات یہ ہے کہ حائضہ کو قرآن پڑھنے کی اجازت ہونے کے باوجود یہ روایت بیان کرنے کی حاجت تھی تاکہ واضح ہوسکے کہ حیض والی جگہ کے قریب بھی منہ ہو تو تب بھی قرآن پڑھا جاسکتا ہے، حیض قراءت قرآن کو مانع نہیں۔

اور تیسری بات یہ ہے کہ اگر اس طرز استدلال کو ہی اپنایا جائے جو انہوں نے اختیار کیا ہے تو تب بھی اس روایت سے حائضہ کے لیے تلاوت قرآن کا جواز ہی ثابت ہوتا ہے کیونکہ جو منہ محل حیض کے قریب ہے اس سے تلاوت کرنا اگر جائز ہے تو حائضہ کہ جسکا منہ محل حیض سے دور ہے اسکے لیے قراءت بالأولى جائز ہوگی۔ فتدبر!

 

تیسری دلیل:

ابو الغریف کہتے ہیں:

" أُتِيَ عَلِيٌّ بِوَضُوءٍ، فَمَضْمَضَ، وَاسْتَنْشَقَ ثَلاثًا، وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلاثًا، وَغَسَلَ يَدَيْهِ وَذِرَاعَيْهِ ثَلاثًا ثَلاثًا، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ "، ثُمَّ قَالَ: " هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ "، ثُمَّ قَرَأَ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ، ثُمَّ قَالَ: "هَذَا لِمَنْ لَيْسَ بِجُنُبٍ فَأَمَّا الْجُنُبُ فَلا، وَلا آيَةَ"

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس وضوء کا پانی لایا گیا، انہوں نے کلی کی، اور ناک میں پانی ڈالا تین مرتبہ، اور تین دفعہ اپنا چہرہ دھویا، اور اپنے دونوں ہاتھ اور بازو تین تین مرتبہ دھوئے، پھر اپنے سر کا مسح کیا پھر اپنے پاؤں دھوئے، پھر کہا میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضوء کرتے دیکھا ہے، پھر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے) کچھ قرآن پڑھا پھر کہا یہ اس کے لیے ہے جو جنبی نہ ہو، البتہ جو جنبی ہو تو وہ (قرآن ) نہیں (پڑھ سکتا) اور ایک آیت بھی نہیں۔

مسند أحمد: 872

اس روایت میں تلاوت قرآن سے متعلق حصہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے جیسا کہ الفاظ سے واضح ہے۔ لیکن کچھ لوگ اسے مرفوع سمجھ کر پیش کرتے ہیں۔ جبکہ یہ مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہی ہے۔ امام دارقطنی نے یہ روایت اپنی سنن میں نقل کی ہے اور اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر موقوف ہی روایت کیا ہے اور اس میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ تک نہیں، اور پھر فرمایا ہے:

هُوَ صَحِيحٌ عَنْ عَلِيٍّ

یہ روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے صحیح ہے۔

سنن الدارقطنی:425

یعنی یہ روایت موقوف ہے مرفوع نہیں۔ لہذا بعض الناس کا اسے مرفوع سمجھنا درست نہیں۔
پھر اسکی سند بھی معلول ہے!

ابو الغَریف عبید اللہ بن خلیفۃ مختلف فیہ ہے، اکثر محدثین اسکی تعضیف کرتے ہیں۔

امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ابو الغریف کے بارہ میں فرماتے ہیں:

وليس بالمشهور قلت هو أحب إليك أو الحارث الأعور؟ قال: الحارث أشهر، وهذا قد تكلموا فيه، وهو شيخ من نظراء أصبغ بن نباتة.

یہ مشہور نہیں ہے، (ابن ابی حاتم کہتے ہیں) میں نے پوچھا یہ آپکو زیادہ محبوب ہیں یا حارث الاعور؟ تو انہوں نے کہا کہ حارث زیادہ مشہور ہے، اور اسکے بارہ میں تو (محدثین نے) کلام کی ہے، اور یہ اصبغ بن نباتۃ جیسوں کی طرح کا شیخ ہے۔

الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم: جـ5 صـ313،(1489)

اور اصبغ بن نباتہ متروک الحدیث ہے۔ اور امام ابو حاتم رازی کے نزدیک وہ لین الحدیث ہے۔

الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم: جـ2 صـ320 (1213)

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

تكلم فيه بعضهم

بعض اہل علم نے اس میں کلام کی ہے۔ (یعنی اسے ضعیف قرار دیا ہے)

دیوان الضعفاء:2691

یعقوب بن سفیان الفسوی نے اسے ثقہ کہا ہے۔

المعرفۃ والتاریخ: جـ3 صـ200

امام دار قطنی نے بھی اسکی توثیق کی ہے۔

سؤالات السلمی للدارقطنی: صـ 256 (278)

الغرض یہ روایت معلول ہے، اور اگر اسے صحیح تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی یہ موقوف ہی ہے مرفوع نہیں!

اور مانعین کے پاس ان تین روایات کے سوا مرفوع میں سے کچھ بھی نہیں ہے۔ جن میں سے ایک تو بظاہر صحیح لیکن حقیقت میں معلول ہے جبکہ دوسری اس مسئلہ میں دلیل ہی نہیں بنتی اور تیسری اگر صحیح بھی ہو تو موقوف ہونے کی وجہ سے معرض استدلال سے خارج ہے۔ کیونکہ اولا تو موقوفات دین میں حجت ودلیل نہیں اور ثانیا ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے اسکا خلاف بھی ثابت ہے، جیسا کہ سطور بالا میں نقل کر دیا گیا ہے۔ اور جب صحابہ کرام میں اختلاف ثابت ہو جائے تو موقوفات کو حجت ماننے والے بھی توقف کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالى کا فرمان ہے:

فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ

تو اگر تمہارا کسی چیز میں تنازعہ ہو جائے تو اسے اللہ اور اسکے رسول کی طرف لوٹا دو۔

سورۃ النساء: 59

لہذا اس اختلافی مسئلہ کو وحی الہی کی عدالت میں ہی پیش کیا جائے۔ اور وحی الہی یعنی قرآن وحدیث میں حائضہ یا جنبی کو ذکر اللہ یا تلاوت قرآن سے منع کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ انکے لیے اللہ کا ذکر کرنے کا جواز موجود ہے خواہ وہ قرآن ہو یا غیر قرآن۔

پھر جو لوگ منع کرتے ہیں ان میں سے بھی اکثر ایک دو آیات کی تلاوت کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اور ہم کہتے ہیں کہ ایک دو آیات کی تلاوت بھی تو قرآن کی ہی تلاوت ہے۔ جس دلیل سے ایک آدھ آیت پڑھنا ثابت ہو جاتا ہے اس سے باقی قرآن پڑھنا بھی ثابت ہوتا ہے۔ اور دوسری بات کہ ایک دو آیات پڑھنے کی اجازت بھی حقیقت میں زیادہ پڑھنے کی اجازت ہے کیونکہ جنبی وحائضہ ایک دو آیات پڑھ کر وقفہ کرکے پھر ایک دو آیات پڑھیں پھر ٹھہر کر ایک دو آیات پڑھیں اس سے مانعین بھی منع نہیں کرتے اور نہ کر سکتے ہیں۔ تو یہ ملا جلا کر بہت سا قرآن تلاوت ہو جاتا ہے۔ خوب سمجھ لیں۔

  • الثلاثاء PM 06:20
    2022-12-20
  • 1856

تعلیقات

    = 9 + 9

    /500
    Powered by: GateGold