میلنگ لسٹ

بريديك

موجودہ زائرین

باقاعدہ وزٹرز : 125121
موجود زائرین : 56

اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
278
فتاوى
56
مقالات
187
خطبات

تلاش کریں

البحث

مادہ

حدیث کی تلاوت عبادت ہے

حدیث کی تلاوت عبادت ہے

محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ

وحی الہی کو عام طور پہ  دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:

  • وحی متلو (جس کی تلاوت کی جاتی ہے)
  • وحی غیر متلو (جس کی تلاوت نہیں کی جاتی)

قرآن مجید کو وحی متلو اور حدیث نبوی کو وحی غیر متلو قرار دیا جاتا ہے۔اسکا معنى یہ ہوتا ہے کہ جس طرح عرف عام میں قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے ویسے حدیث کی تلاوت نہیں کی جاتی۔لیکن اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ حدیث کی تلاوت ہوتی ہی نہیں ہے۔ یا حدیث پڑھنے کو تلاوت حدیث  کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ جبکہ عامۃ الناس میں یہی تصور پایا جاتا ہے کہ تلاوت صرف قرآن پڑھنے کو ہی کہا جاتا ہے اور حدیث پڑھنے کو تلاوت نہیں کہا جا سکتا ہے۔ اور اسکے ساتھ ساتھ یہ تصور بھی پایا جاتا ہے کہ قرآن پڑھنے پہ تو اجر ملتا ہے کہ اسکے ہر حرف پہ دس نیکیاں ہیں لیکن حدیث پڑھنے پہ ایسے نیکی نہیں ملتی، جبکہ یہ تصور بھی درست نہیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ حدیث پڑھنا بھی نیکی و عبادت ہے اور  مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا (جو بھی کوئی ایک نیکی لائے گا  تو اسکے لیے اس جیسی دس نیکیاں ہوں گی) کے  تحت  دس گنا نیکیوں کا سبب ہے۔

 

تلاوت کا معنى:

لغت میں تلاوت  کا مطلب ہے کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کہ ان کے درمیان کوئی اور چیز حائل نہ ہو۔

ابن فارس کہتے ہیں:

التَّاءُ وَاللَّامُ وَالْوَاوُ أَصْلٌ وَاحِدٌ، وَهُوَ الِاتِّبَاعُ. يُقَالُ: تَلَوْتُهُ إِذَا تَبِعْتَهُ. وَمِنْهُ تِلَاوَةُ الْقُرْآنِ، لِأَنَّهُ يُتْبِعُ آيَةً بَعْدَ آيَةٍ.

[معجم مقاييس اللغة 1/351]

’ت‘ اور ’ل‘ اور ’و‘ ایک اصل ہے، اور  وہ ہے ’’ اتباع‘‘ ۔  جب آپ کسی کے پیچھے چلیں تو اسے عربی میں تَلَوْتُهُ کہہ کر تعبیر کرتے ہیں ۔ اور اسی سے تلاوت قرآن  کا لفظ مأخوذ ہے، کیونکہ اسکی آیات  ایک دوسرے کے  پیچھے آتی ہیں۔

اسی طرح چاند کے سورج کے پیچھے چلنے پہ بھی قرآن مجید میں یہی  مادہ استعمال کیا گیا ہے:

وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَاهَا

[سورة الشمس: 2]

اور چاند کی قسم جب وہ اس (سورج) کے پیچھے آئے۔

قرآن مجید میں تو اللہ سبحانہ وتعالى نے ان الفاظ کو پڑھنے کے لیے بھی تلاوت کا لفظ استعمال فرمایا ہےجو شیاطین  سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کرکے  جادو کے لیے پڑھتے پڑھاتے تھے:

وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ 

[سورة البقرة:  102]

’’اور وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے جو شیا طین سلیمان (علیہ السلام) کے عہد  حکومت میں پڑھتے تھے‘‘۔

قرآن مجید کی اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی چیز کے پڑھنے پڑھانے کے لیے تلاوت  کا لفظ دور نبوی  میں مستعمل رہا ہے۔  جادو  کے الفاظ اور جنتر منتر پڑھنا بھی لغت میں تلاوت کہلاتا ہے۔ اگرچہ یہ حرام اور کفریہ کام ہے اور اللہ سبحانہ وتعالى نے اس سے منع کیا ہے۔ اور تلاوت کے لفظ کو صرف قرآن کی تلاوت کے لیے خاص کرنا بعد کی اصطلاح ہے۔  گوکہ زمانہ نبوی میں بھی قرآن مجید کے لیے ’تلاوت‘ کا لفظ بطور خاص  مستعمل تھا جیسا کہ حدیث افک میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے:

وَاللهِ مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنْ يُنْزَلَ فِي شَأْنِي وَحْيٌ يُتْلَى

[صحيح مسلم: 2770]

’’اللہ کی قسم مجھے ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ میرے بارے میں ایسی وحی نازل ہوگی جسکی (قرآن میں) تلاوت کی جائے گی۔‘‘

الغرض تلاوت  کالفظ عربی لغت میں کسی کے پیچھے آنے کے  معنى میں استعمال ہوتا ہے۔ اور اسی مناسبت سے ہر پڑھی جانے والی عبارت کی قراءت پہ تلاوت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اسکے الفاظ و جملے ایکدوسرے کے پیچھے آتے ہیں۔ اور قرآن مجید کی قراءت پہ بھی اسی وجہ سے تلاوت کا لفظ بولا جاتا ہے۔

 

حدیث وحی متلو ہے:

اللہ سبحانہ وتعالى نے امہات المؤمنین کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ

(سورة الأحزاب: 34)

’’اور تمہارے گھروں میں اللہ تعالى کی جن آیات اور حکمت  کی تلاوت کی جا تی ہے انھیں یاد کرو‘‘۔

اس آیت میں آیات اللہ اور حکمت دونوں کی تلاوت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اور آیات اللہ سے مراد  قرآن مجید فرقان حمید کی آیات ہیں اور حکمت سے مراد قرآن مجید کے علوم و معانی ہیں جو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے  اور اسکے ساتھ ساتھ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے جملہ اقوال  وافعال و احوال  اور تقریرات وتصویبات بھی  اس حکمت کے مفہوم میں داخل ہیں۔ یعنی تمام تر احادیث  وجملہ اقسام سنت حکمت  ہیں  اور انھیں پڑھنے  ، یاد کرنے، اور دہرانے کو اللہ سبحانہ وتعالى نے تلاوت قرار دیا ہے۔

 

نماز میں حدیث کی تلاوت:

جب یہ واضح ہو چکا کہ   کسی بھی چیز کی پڑھنے کو تلاوت کہا جاتا ہے تو  یہ بات سمجھنے میں کوئی  دقت نہیں ہونی چاہیے کہ نماز میں حدیث کی تلاوت قرآن کی تلاوت سے کہیں زیادہ ہے۔ قرآن مجید سے تو صرف سورۃ الفاتحہ نماز میں پڑھنا فرض ہے اور اسکے بعد کچھ مزید تلاوت کرنا مستحب و مسنون ہے۔ جبکہ نماز کا آغاز یعنی تکبیر و دعائے استفتاح اور پھر رکوع سے سلام تک سب حدیث ہی کی تلاوت ہے۔

تلاوتِ حدیث کا اجر:

جس طرح قرآن مجید فرقان حمید کی تلاوت باعث اجر وثواب ہے بعینہ حدیث پڑھنا سننا بھی باعث اجر وثواب ہے۔

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا:

نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا، فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ

[سنن أبي داود: 3660]

’’اللہ تعالى اس شخص کو خوش وخرم رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی  پھر اسے یاد رکھا حتى کہ اسے آگے پہنچا دیا۔‘‘

اس حدیث مبارکہ میں تین کاموں پہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے دعاء دی ہے:

1۔   حدیث سننا۔

2۔ حدیث یاد رکھنا۔

3۔ حدیث آگے پہنچانا / کسی کو سنانا۔

یعنی جس طرح قرآن سننا اور سننا باعث  اجر ہے اسی طرح حدیث سننا اور سنانا بھی باعث اجر ہے۔ ہاں یہ ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید کی تلاوت پہ اجر کی خصوصی وضاحت نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے:

مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، وَالحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا

[جامع الترمذي: 2910]

’’جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا تو اسکے لیے ایک نیکی ہے اور ہر نیکی اپنے جیسی دس نیکیوں  کے برابر ہے۔‘‘

اور یہ اصول ہر نیکی کے لیے عام ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالى نے فرمایا ہے:

مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا

[سورۃ الأنعام: 160]

’’جو بھی کوئی ایک نیکی لائے گا  تو اسکے لیے اس جیسی دس نیکیاں ہوں گی۔‘‘

تو اس اصول کے تحت چونکہ حدیث کا ایک ایک لفظ پڑھنا نیکی ہے ، سو وہ   بھی دس دس نیکیوں کا باعث ہے۔ اسکی نظیر بھی حدیث میں موجود ہے:

سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ، ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَشْرٌ» ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَرَدَّ عَلَيْهِ، فَجَلَسَ، فَقَالَ: «عِشْرُونَ» ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، فَرَدَّ عَلَيْهِ، فَجَلَسَ، فَقَالَ: «ثَلَاثُونَ»

[سنن أبي داود: 5195]

ایک شخص نبی صلى اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو اس نے کہا السلام علیکم ،تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا، پھر وہ شخص بیٹھ گیا تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’دس‘‘۔  پھر  ایک اور  شخص آیا  تو اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ ، تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا ، پھر وہ شخص بیٹھ گیا تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بیس‘‘۔  پھر  ایک اور  شخص آیا  تو اس نے کہا السلام علیکم  ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ، تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا ، پھر وہ شخص بیٹھ گیا تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تیس‘‘۔

یعنی سلام کہنے والوں میں سے جس نے ایک لفظ کہا اسکے لیے دس جس نے دو کہے اسکے لیے بیس اور جس نے تین الفاظ کہے اسکے لیے تیس نیکیوں  کا  اجر بیان فرمایا۔

اسی طرح جیسے قرآن مجید کی مختلف سورتیں پڑھنے کا الگ الگ اجر احادیث میں ذکر ہوا  ہے، بعینہ بعض احادیث کی تلاوت یعنی کچھ ادعیہ و اذکار کرنے پہ بھی خاص اجر کا تذکرہ احادیث میں مذکور ہے۔

خلاصہ:

حدیث پڑھنے پہ بھی لغوی طور پہ تلاوت کا لفظ صادق آتا ہے اور یہ بھی باعث اجر وثواب اور عبادت ہے۔

 

  • الثلاثاء PM 06:26
    2022-12-20
  • 618

تعلیقات

    = 3 + 4

    /500
    Powered by: GateGold