میلنگ لسٹ

بريديك

موجودہ زائرین

باقاعدہ وزٹرز : 125121
موجود زائرین : 61

اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
278
فتاوى
56
مقالات
187
خطبات

تلاش کریں

البحث

مادہ

حدیث لا عدوى اور وبائی امراض

حدیث ’’لا عَدْوَى‘‘ اور وبائی امراض

محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ، وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ المَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الأَسَدِ»

کوئی بیماری متعدی نہیں ، اور نہ ہی بدشگونی جائز ہے ، اور نہ ہی  الو سے متعلق عقیدہ درست ہے ، اور نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے، اور جُذام (کوڑھ) والے سے ایسے بھاگ جیسے تو شیر سے بھاگتا ہے۔

صحیح بخاری (5707)

اس حدیث  میں پہلا اور آخری جملہ بظاہر ایک دوسرے کے خلاف محسوس نظر آتا ہے، لیکن حقیقت  یہ ہے یہ تعارض ظاہری ہے حقیقی نہیں ہے۔ اور اسی ایک ہی حدیث سے ایک غلط نظریہ کا رد بھی ہے اور وبائی امراض سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر اختیار کرنے  کاحکم بھی۔

مختصر طور پہ یوں سمجھیں کہ حدیث کہہ رہی  : کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ کسی ایک مریض کا مرض دوسرے کو لگ جائے۔ بلکہ مریض جس سبب سے مرض کا شکار ہوا اسی سبب سے کوئی دوسرا شخص مریض بنتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مریض کے قرب وجوار میں بیماری کے جُرثومے  بکثرت موجود ہوتے ہیں  جو اسکی سانس کے ذریعہ ہوا میں شامل ہوتے رہتے ہیں اور اسکے لعاب  اور منہ کے ذریعے اسکے باقی بدن اور لباس پر آ دھمکتے ہیں ۔ اور پھر انہی میں سے کوئی جُرثومہ  کسی دوسرے شخص کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ اب اگر وہ شخص خوب صحتمند اور مضبوط قوت مدافعت کا حامل ہے تو وہ اس بیماری سے بچا رہتا ہے اور اگر کمزور قوت مدافعت والا ہے تو اس وائرس اور اس شخص کی قوت مدافعت میں جنگ جاری رہتی ہے اور کچھ وقت کے بعد وہ شخص بیماری کا شکار ہو جاتا ہے اور اگر وہ زیادہ ہی کمزور ہو تو چند لمحوں میں ہی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ مجذوم (کوڑھ کی بیماری والے) سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو یعنی ان وبائی امراض کے شکار افرد سے دور رہیں اور حفاظتی تدابیر اختیار کیے بغیر انکے قریب نہ آئیں۔

اس توضیح کی تائید درج ذیل احادیث نبویہ سے بھی ہوتی ہے:

1...سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان فرمائی تو ایک دیہاتی نے یہ سوال کیا:

يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا بَالُ إِبِلِي، تَكُونُ فِي الرَّمْلِ كَأَنَّهَا الظِّبَاءُ، فَيَأْتِي البَعِيرُ الأَجْرَبُ فَيَدْخُلُ بَيْنَهَا فَيُجْرِبُهَا؟

اے اللہ کے رسول صلى ا للہ علیہ وسلم پھر میرے اونٹوں کو کیا ہے کہ وہ صحراء میں ہرن کی طرح (چست وتوانا) ہوتے ہیں  تو جب ایک خارش زدہ اونٹ آ کر ان میں داخل ہوتا ہے تو وہ انہیں بھی خارش زدہ کر دیتا ہے؟

تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«فَمَنْ أَعْدَى الأَوَّلَ؟»

تو پھر پہلے کو کس نے بیماری لگائی؟

صحیح البخاری (5717)

گویا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے صراحت فرما دی کہ  پہلا مریض (زیرو پیشنٹ) جس سبب سے بیمار ہوا،  اسی سبب سے باقی بھی بیمار ہوئے۔ ایسا نہیں کہ پہلے مریض نے باقیوں کو بیمار کر دیا..!

موجودہ صورتحال پہ اسے منطبق کرتے ہوئے آسان لفظوں میں یوں سمجھیے کہ کرونا وائرس بیماری کا سبب ہے۔ پہلا مریض اسی وائرس کی وجہ سے بیمار ہوا۔ اب یہ نہیں ہے کہ اس مریض نے باقی لوگوں کو مریض بنایا ، بلکہ وہی وائرس جو پہلے مریض کو شکار کرنے کا سبب بنا اسی وائرس کی بناء پر ہی دوسرا شخص بھی مریض ہوا۔

یہی بات آج میڈیکل سائنس بھی چیخ چیخ کر بتلا رہی ہے کہ وائرس بیماری کا سبب ہے۔ ایک مریض اپنے جسم یا لباس پہ وائرس اٹھائے ہوتا ہے اور جب وہ کسی دوسرے سے مس کرتا ہے تو وہ وائرس دوسرے تک منتقل ہو جاتا ہے۔ الغرض مریض کا مرض اسکی ذات تک ہی رہتا ہے وہ آگے دوسرے کو نہیں لگتا البتہ  اس مرض کا وائرس جس نے پہلے مریض کو بیمار کیا ، وہی آگے منتقل ہو ا، اور بیماری پھیلتی چلی گئی۔ یعنی یہی وائرس اصل سبب ہے  بیماری کو پھیلانے کا ۔

اور جدید تحقیق  یہ بھی پکار رہی ہے کہ بچوں عورتوں اور صحت مند جوانوں  اس وائرس کا اثر کم ہوتا ہے جبکہ کسی بیماری کا شکار افراد اور کمزور قُوى کے مالک  اشخاص پہ  اثر زیادہ بلکہ انکے لیے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اور یہ اسی بات کی تصدیق کہ مضبوط قوت مدافعت کے حامل افراد اس سے بچنے میں کامیاب رہتے ہیں جبکہ کمزور قوت مدافعت والے اسکا شکار ہو جاتے ہیں۔

خبردار..!

اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایک صحت مند ، مضبوط جسم والا، بیماریوں سے محفوظ جوان یہ سمجھے کہ مجھے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی حاجت نہیں ہے۔ بلکہ اسے بھی اپنے بچاؤ کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے  جُذام والے سے بچنے کا حکم دیا ہے۔

2...عَمْرو بن الشَّرِيد اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ وفدِ ثقیف میں ایک مجذوم (کوڑھ کی بیماری میں مبتلا) شخص تھا تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اسکی طرف پیغام بھیجا:

«إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ فَارْجِعْ»

ہم نے تجھ سے بیعت کر لی ہےلہذا تو واپس چلا جا۔

صحیح مسلم(2231)

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی متوکل  اور متقی  نہیں ہو سکتا ۔ اور توکل کا مفہوم بھی امام الانبیاء صلى اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا۔اس بات پہ انسانیت میں سے سب سے زیادہ یقین رسول مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کو ہی تھا کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی اور اللہ کے اِذن کے بغیر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اسی طرح آپ صلى اللہ علیہ وسلم اس وائرس تھیوری کو بھی جانتے تھے جسے آج  میڈیکل سائنس بھی تسلیم کرتی ہے کہ بیماریوں کے جراثیم  مریض کے پاس زیادہ ہوتے  ہیں  اور انکی فوج ظفر موج سے بچنے کے لیے مریض سے مناسب فاصلہ رکھنا اور حفاظتی تدابیر اختیار کیے بغیر اسکے قریب نہ جانا  ضروری ہے۔ اسی لیے آپ صلى ا للہ علیہ وسلم نے مجذوم سے ایسے بچنے کا حکم دیا جیسے شیر سے بچا جاتا ہے اور خود بھی عملاً اسکا نمونہ پیش فرمایا کہ جب ایسا مریض اپنی قوم کے وفد میں بیعت کے لیے حاضر ہوا تو اسکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیعت کرنے اور مجمع عام میں بلانے کے بجائے اسے پیغام بھیج دیا کہ ہم نے اس سے بیعت کر لی ہے اور یہ بھی کہ اب وہ یہاں بالکل نہ ٹھہرے بلکہ فورا یہاں سے چلا جائے..!

کرونا کے شکار مریضوں سے دور رہنے اور ان سے مصافحہ ومعانقہ نہ کرنے کا سنت ہونا اس حدیث سے واضح طور پہ ثابت ہو رہا ہے۔اور جو لوگ ان مریضوں سے  عدم اختلاط اور عدم مصافحہ ومعانقہ کو خلاف توکل و ایمان سمجھتے ہیں  انہیں اپنی اس ’سمجھ‘ پہ نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

تنبیہ بلیغ:

ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ایک مجذوم کا ہاتھ پکڑا  اور اپنے ساتھ برتن میں اسکا ہاتھ رکھ کر فرمایا:

«كُلْ ثِقَةً بِاللَّهِ وَتَوَكُّلًا عَلَيْهِ»

اللہ پہ اعتماد کرتے ہوئے اور اس پہ توکل کرتے ہوئے کھاؤ۔

سنن أبی داود (3925)

اور اس روایت کی بناء پہ کہا جاتا ہے کہ وبائی مریض سے دور رہنے یا  محتاط رہنے کی کوئی حاجت و ضرورت نہیں۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت پایہء ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ اس کی سند میں مُفَضَّل بن فَضَالَہ نامی راوی ضعیف ہے۔ لہذا یہ روایت معرض استدلال سے ویسے ہی خارج ٹھہرتی ہے چہ جائیکہ اسے بنیا د بنا کر صحیح احادیث کی مخالفت کی جائے۔ خوب سمجھ لیں!

3... سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

«إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَدْخُلُوهَا، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا مِنْهَا»

جب تم کسی سرزمیں میں طاعون کا سنو تو اس میں نہ جاؤ اور جب یہ طاعون کی علاقہ میں پھیل جائے اور تم وہیں موجود ہو تو پھر وہاں سے نہ نکلو۔

صحیح البخاری (5728)

نبی محترم صلى اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان وبائی امراض کی چین کو توڑنے کے لیے اک رہنما اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ کہ جس علاقے میں خطرناک موذی وباء پھیل چکی ہو  اسکا لاک ڈاؤن کر دیا جائے۔ نہ کوئی وہاں داخل ہو اور نہ ہی کوئی وہاں سے نکلے۔ تاکہ دیگر لوگ اس سے وباء کا شکار نہ ہو جائیں۔

یہاں اک سوال اٹھتا ہے کہ جو لوگ اس وباء زدہ علاقے میں موجود ہیں لیکن ان پہ بیماری کے اثرات ظاہر نہیں تو انہیں کیوں وہاں سے نکلنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ؟

تو اسکا جواب یہ ہے کہ کبھی وبائی مرض کے جراثیم انسان میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں اور اس انسان کی قوت مدافعت اور ان جراثیم کے درمیان جنگ چل رہی ہوتی ہے یا پھر وہ جراثیم ابھی مرحلہ حضانت میں ہوتے ہیں جس کی بناء پر بیماری کی کوئی بھی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد جراثیم قوت مدافعت پہ فتح حاصل کرکے یا مرحلہ حضانت سے نکل کر اس انسان کو بیمار کر دیتے ہیں اور علامات مرض ظاہر ہو جاتی ہیں۔ اسی لیے نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے اس خطے میں موجود صحت مند افراد کو بھی وہاں سے نکلنے کی اجازت نہیں دی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ وہاں سے نکل آئیں اور انکے جسم میں بیماری کے جراثیم موجود ہوں جو تھوڑے ہی وقت میں بیماری کو ظاہر کر دیں اور یہ وباء دوسرے علاقہ میں بھی داخل ہو جائے۔

آج اس کرونا والے مسئلہ نے نبی محترم صلى اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی حقانیت  بھی دنیا پہ آشکار کر دی ہے کہ کرونا کا مریض وائرس کا شکار ہونے کے باوجود کچھ دنوں تک بیماری کی علامات سے بریء رہتاہے ، پھر  چند دن بعد بیماری کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

اسی طرح کبھی کرونا زدہ علاقے سے آیا ہوا شخص خود تو اس بیماری سے اپنی مضبوط قوت مدافعت کی وجہ سے بچ جاتا ہے لیکن اپنے ساتھ اپنے بدن و لباس پہ کرونا وائرس اٹھا لاتا ہے جسے وہ نئے علاقے میں پھیلا کر لوگوں کی موت کا سبب بن جاتا ہے۔

اسی طرح یہ حدیث  ’’قرنطینہ‘‘  کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ اک خاص وقت تک کے لیے مریضوں کو الگ تھلگ کر دیا جائے اور اسی پہ عمل کرتے ہوئے ولید بن عبد الملک بن مروان  نے دنیا میں سب سے پہلے قرنطینہ کی داغ بیل ڈالی تھی جسے آج کی اس وباء میں سب سے مؤثر طریقہ علاج مانا  جا رہا ہے۔

خلاصہ:

اس ساری بحث سے یہ بات  واضح ہوئی کہ

  • کوئی بھی بیماری کسی بیمار سے صحت مند کی طرف منتقل نہیں ہوتی بلکہ بیماری کا سبب بنے والا وائرس جس نے پہلے شخص کو بیمار کیا وہی دوسرے کو بیمار کرتا ہے۔
  • وبائی امراض سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا نبی مکرم صلى علیہ وسلم کی سنت بھی ہے اور دینی فریضہ بھی!

هذا ، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وبارك وسلم

 

  • الثلاثاء PM 06:56
    2022-12-20
  • 561

تعلیقات

    = 7 + 8

    /500
    Powered by: GateGold