میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
برصغیر میں میلاد کا آغاز
برصغیر میں میلاد کا آغاز
بر صغیر پاک وہند میں اس بدعت کا آغاز چودہویں صدی ہجری سنہ 1352ھ بمطابق بیسویں صدی عیسوی سنہ 1933ء میں ہوا ۔ اسکے بارہ میں مشہور ناول نگار " نسیم حجازی" کے اخبار "روزنامہ کوہستان"(رجسٹرڈ ایل نمبر 6005) 22 جولائی 1964ء کے شمارہ میں جناب احسان صاحب بی ۔اے لکھتے ہیں :
" لاہور میں عید میلاد النبی ﷺ کا جلوس سب سے پہلے 5 جولائی سنہ 1933ء بمطابق 12ربیع الاول 1352ء کو نکلا۔ اس کے لیے انگریزی حکومت سے باقاعدہ لائسنس حاصل کیا گیا تھا ۔ اس کا اہتمام انجمن فرزندان توحید موچی دروازہ نے کیا ۔ اس انجمن کا مقصد ہی اس جلوس کا اہتمام کرناتھا۔
انجمن کی ابتداء ایک خوبصورت جذبے سے ہوئی ۔ موچی دروازہ لاہو کے ایک پرجوش نوجوان معراج الدین اکثر دیکھا کرتے تھے کہ ہندو اور سکھ اپنے دھرم کے بڑے آدمیوں کی یاد بڑے شاندار طریقے سے مناتے ہیں اور ان دنوں میں ایسے لمبے لمبے جلوس نکلتے ہیں کہ کئی بازار ان کی وجہ سے بند ہو جاتے ہیں ۔ حافظ معراج الدین کے دل میں یہ خیال آیا کہ دنیا کے لیے رحمت بن کر آنے والے نبی ﷺ کی یاد میں اس سے بھی زیادہ شاندار جلوس نکلنا چاہیے ۔ انہوں نے اپنے محلے کے بزرگوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ ان میں مستری حسین بخش رنگ ساز، شیخ قمر الدین وکیل مرحوم، مستری خدا بخش مرحوم اور دیگر کئی بزرگ شامل تھے ۔ آخر ایک انجمن قائم ہوگئی جس کا مقصد عید میلاد النبی ﷺکے موقعہ پر جلوس مرتب کرنا تھا ۔اس میں مندرجہ ذیل عہدہ دار تھے :
۱۔ صدر مستری حسین بخش ۲۔ نائب صدر مہر معراج دین ۳۔ سیکرٹری حافظ معراج الدین ۴۔ پراپیگنڈہ سیکرٹری میاں خیر دین بٹ (باباخیرا) ۵۔ خزانچی حکیم غلام ربانی ۔
اشتہارات کے ذریعہ جلوس نکالنے کے ارادہ کو مشتہر کیا گا ۔ چست اور چاق وچوبند نواجوانوں کی ایک رضاکار جماعت بنائی گئی اور جگہ جگہ نعتیں پڑھنے کا انتظام کیا گیا ۔ ابو الاثر حفیظ جالندھری کے " سلام" کی مشق خاص طور بہم پہنچائی گئی ۔ اس جماعت میں حسب ذیل نوجوان شامل تھے :
۱۔ سالار فیروز الدین (حال فزیکل انسٹرکٹر گورنمنٹ کالج ) ۲۔ نائب سالار محمد عادل خان (حال پشاور یونیورسٹی) انکے علاوہ حکیم محمد عاقل خان ، حافظ محمد اشرف ، مستری ولایت حسین ، محمد زبیر اور بابا شاکی نے بڑے جوش سے حصہ لیا ۔ موچی دروازہ کے دوسرے نوجوان بھی انکے شانہ بشانہ تھے ۔
جلوس کے لیے عرضی دی گئی تو ہندوؤں کی طرف سے اس کی شدید مخالفت کی گئی ۔ لیکن ملک محمد امین مرحوم کی کوششوں سے اجازت مل گئی اور انجمن لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔
یہ جلوس ۱۹۴۰ء تک باقاعدہ نکلتا رہا ۔ اس سال حکومت اور خاکساروں میں تصادم ہو گیا اور جلوس بطور احتجاج بند کر دیا گیا ۔ ہندو اس جلوس کی روح رواں حافظ معراج الدین کے خلاف اکثر سازشیں کرتے رہتے تھے لیکن ان کا کوئی وار کارگر نہیں ہوتا تھا ۔ اتفاق سے ایک دفعہ رنگ محل میں دو پارٹیوں کا تصام ہوگیا جس میں ایک نوجوان جس کا نام فیروز تھاقتل ہوگیا ۔ ہندوؤں کی سازش نے اس قتل میں حافظ معراج الدین کو بھی ملوث کر لیا لیکن ہندو کی یہ چال بھی کارگر نہ ہوئی ۔ حافظ معراج الدین کی عدم موجودگی میں مہر معراج الدین ملک لال دین قیصر اور فیرز دین احمد نے جلوس کا اہتمام کیا اور جلوس اسی شان سے نکلا ۔
قیام پاکستان کے بعد حافظ صاحب سردار عبد الرب نشتر گورنر پنجاب ملے اور انہیں اس بات پر رضا مند کر لیا کہ جلوس حکومت کے اہتمام میں نکلے ۔ چانچہ اس سال سرکاری اہتمام میں انتہائی تزک واحتشام کے ساتھ جلوس نکلا ۔ شاہی قلعہ لاہو میں فوج کی پریڈ ہوئی اور سلامی دی گئی ۔
اس زمانے میں جلوس کی ترتیب اس طرح کی جاتی کہ اس مہینے کا چاند دیکھنے کے بعد شہر کے ہر دروزاے پر مندرجہ ذیل لوگ لوگوں سے سلامی دیتے اور چاند کا استقبال کرتے :
موچی دروازہ کے باہر ڈپٹی سعادت علی خان مرحوم ، لوہاری کے باہر انجمن خادم المسلمین ، موری دروزے کے باہر میاں عبد الرشید دفتری ، بھاٹی کے باہر استاد گام چودھری برکت علی، اور فلمسٹار ایم اسماعیل ٹکسالی کے باہر، الطاف حسین اور عاشق حسین مستی کے باہر، حکیم نیر واسطی اور یوسف پہلوان کشمیری کے باہر، چجا ابل اور انکے احباب شیرانوالہ کے باہر، بابو ممتازیکی کے باہر ، امداد علی عرف دادو مرحوم اور سرکی بند حضرات اکبری منڈی کے باہر ، عبد الستار دلی دروازہ کے باہر ۔ " انتہى ۔
اس تحریر سے یہ باتیں واضح ہوتیں ہیں کہ :
۱۔ برصغیر میں اس جلوس کا آغاز ۱۹۳۳ء میں ہوا ۔
۲۔ اس جلوس کا مفکر وموجد حافظ معراج الدین تھا ۔
۳۔ جلوس کے لیے حکومت برطانیہ کی طرف سے باقاعدہ لائسنس جاری کیا گیا ۔
۴۔ جلوس کے لیے اشتہار بازی کی جاتی تھی ۔
۵۔ قیام پاکستان کے بعد اسے حکومتی سر پرستی حاصل ہوگئی ۔
اسی طرح مصطفى کمال پاشانے روزنامہ مشرق ۲۶ جنوری ۱۹۸۴ء کے شمارہ میں اسی حوالہ سے ایک مضمون تحریر کیا وہ لکھتے ہیں :
آزادی سے پیشتر ہندوستان میں حکومت برطانیہ ۲۵ دسمبر کو حضرت عیسى کے یوم پیدائش کو بڑے اہتمام کے ساتھ منانے کا انتظام کرتی اور اس روز کی فوقیت کو دوبالا کرنے کے لیے اس یوم کو " بڑے دن" کے نام سے منسوب کیا گیا ۔ بڑے دن کا مطلب یہ نہیں تھا کہ دن ۱۲ گھنٹے کی بجائے ۱۶ گھنٹہ کا ہوتا ہے بلکہ عوام نوجوانوں اور بچوں کے ذہنوں میں اس کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے دفتروں کارخانوں مدرسوں وغیرہ میں پندرہ روز کی رخصت دی جاتی ۔ تاکہ دنیا میں ثابت کیا جائے کہ حضرت مسیح ہی نجات دہندہ تھے ۔
حضور پاک ﷺ ۱۲ ربیع الاول کو اس دنیا میں تشریف لائے اور اسی روز وفات پائی ۔ کچھ لوگ اس مقدس یوم کو بارہ وفات کے نام سے پکارتے ہیں ۔ آزادی سے پیشتر اس یوم کے تقدس کے پیش نظر مسلمانان لاہور نے اظہار مسرت وعقیدت کے طور پر جلوس نکالنے کا فیصلہ کیا ۔ اس ضمن میں مسلمانان لاہور کا ایک وفد جس میں خلیفہ شجاع الدین ، محمد الدین ، بیرسٹر چودھری فتح محمد ، محمد فیاض اور میاں فیروز الدین احمد مرحوم شامل تھے ، گورنر سے ملا تو اسکو مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کیا ۔ گورنر نے مسلمانوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے جلوس نکالنے کی منظوری دے دی ۔ اسلامی جذبوں سے سرشار بزرگوں نے انجمن معین اسلام کے زیر تحت جس کے سیکرٹری جناب مفتی حمایت اللہ مرحوم ( والد بزرگوار شباب مفتی ) نے جلوس نکالنے کا پروگرام مرتب کیا ۔ ان دنوں کانگرس اپنے اجتماع موری دروازہ میں منعقد کیا کرتی تھی اور اسکے مقابلہ میں مسلمان اپنے اجتماع موچی دروازہ میں منعقد کرتے تھے ۔ لہذا موچی دروازہ کو سیاسی مرکز ہونے کے علاوہ سب سے پہلے عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس نکالنے کا شرف بھی حاصل ہے ۔ علمی طور پر جلوس کی قیاد ت انجمن فرزندان توحید موچی گیٹ کے سپرد ہوئی ، جس میں حافظ معراج دین ، حکیم معین الدین ، بابو سراج دین ، شاہ الدین اسلم ، مستری حسین بخش ، چودھرفتح محمد ، ملک محمد الدین بیرسٹر ،چودھری کلیم الدین ، مہر سراج دین اور میاں فیروز الدین احمد ومسلم لیگی لیڈر جنہوں نے مسٹر جناح کو قائد اعظم کا لقب دیا اور دیگر نواجوان شامل تھے ۔" دار النذیر" موچی دروازہ میں جلوس کے پروگرام اور انتظام کے متعلق اہم فیصلے کیے جاتے ۔ انجمن کی زیر قیادت جلوس ہر سال مسلسل کامیابی وکامرانی سے نکالتا رہا ۔ جلوس کا لائسنس اور اجازت نامہ میاں فیروز الدین احمد کے نام تھا ۔ ۱۹۳۴ء میں مسلم لیگ کے علاوہ تحریک خلافت بھی عوام میں مقبول تھی ۔ لہذا ۱۹۳۴ ء اور ۱۹۳۵ء میں لائسنس میاں فیروز الدین احمد سیکرٹری خلافت کمیٹی کے نام پر کر دیا گیا ۔ بعد کے دیگر لائسنس کے علاوہ ۱۹۴۲ء کے اجازت نامہ میں میاں فیروز الدین کو سیکرٹری مسلم لیگ کے طور پر منظوری ملی ۔ جلوس کا آغاز ۱۹۳۴ء ، ۱۹۳۵ء میں موچی دروازہ سے دیگر علاقہ جات سے ہوتا ہوا رات ایک بجے شاہی مسجد پہنچا ۔ بعد میں دوسرا جلوس اندرون شہر اور بھاٹی دروازہ سے گزرنے کے بعد حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر اختتام پذیر ہوا ۔
جلوس میں گھوڑے پر سوال نواجوان ہاتھوں میں نیزے لیے ہوئے گشت کرتے ۔ سیاسی ، دینی اور سماجی کارکنوں کے علاوہ جلوس کے آگے پہلوانوں کی ٹولی بھی شمولیت کرتی جسکی رہنمائی رستم زماں گاماں پہلوان اور امام بخش پہلوان وغیرہ کرتے ۔ فنکار پارٹی اور دیگر نوجوانوں کی رہنمائی ماسٹر فیروز مرحوم انسٹرکٹر فزیکل ٹریننگ گورنمنٹ کالج لاہور کے سپرد تھی ۔ اراکین خلافت کمیٹی شعبہ والنٹر کور ، مجلس احرا ، خاکسار، مجلس اتحات ملت ، نیلی پوش اور مسلم لیگی حضرات جوق درجوق شامل ہوکر جلوس کی رونق کو دوبالا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ۔
جلوس کے اختتام پر خلیفہ شجاع الدین (سپیکر اسمبلی) نواب شاہ نواز ممدوٹ ، محمد فیاض اور میاں امیر الدین و دیگر معززین لاہور اچھی کار کردگی پر انعامات تقسیم کرتے ۔
اس سے پیشتر یہ یوم بارہ وفات کے نام سے منسوب تھا ۔ مگر بعد میں انجمن نعمانیہ ٹکسالی گیٹ کے زیر اہتمام پیر جماعت علی شاہ ، مولانا محمد بخش مسلم ، نور بخش توکل اور دیگر علمائے کرام نے قرار داد کے ذریعہ عید میلاد النبی ﷺ نام دیا ۔" انتہى ۔
اس مضمون سے بھی سابقہ باتوں کے ساتھ ساتھ کچھ مزید وضاحتیں سمجھ آتی ہیں کہ :
۱۔ یہ جلوس ہندوؤں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کی بھی نقالی کرتا تھا ۔
۲۔ ربیع الاول کی ۱۲ تاریخ کو ۱۹۳۳ء سے قبل بارہ وفات کے نام سے جانا جاتا تھا ، پھر اسکے بعد ایک قرارداد کے ذریعہ اس دن کو عید میلاد النبی ﷺ کا نام دیا گیا ۔
-
السبت PM 08:39
2022-12-24 - 744