میلنگ لسٹ

بريديك

موجودہ زائرین

باقاعدہ وزٹرز : 125154
موجود زائرین : 54

اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
278
فتاوى
56
مقالات
187
خطبات

تلاش کریں

البحث

مادہ

تاریخ وفات النبی ﷺ کی تحقیق

تاریخ وفات النبی ﷺکی تحقیق

محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ

 

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لِخَمْسٍ بَقِينَ مِنْ ذِي القَعْدَةِ

ہم رسول اللہ صلى  اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کے لیے اس وقت نکلے جب) ذو القعدہ کے پانچ دن باقی تھے۔

صحیح البخاری: 1709

اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے مدینے سے سفرکا آغازبروز ہفتہ 25 ذو القعدہ کو بنتا ہے اگر مہینا 30 دن کا ہو، اور اگر مہینا 29 دن کا ہو تو سفر کا آغازبروز جمعہ 24 ذو القعدہ  کو بنتا ہے تاکہ باقی 5 دن ہوں۔ لیکن چونکہ قمری مہینے کے کل ایام کے بارے میں عام طور پہ علم نہیں ہوتا کہ 30 ہونگے یا 29 اس لیے حساب کرتے ہوئے اسے 30 دن کا ہی فرض کیا جاتا ہے۔ اور یہاں بھی ایسا ہی ہوا، اور اتفاق سے اہل مدینہ کی رؤیت کے مطابق 10 ہجری  کا ذو القعدہ 30 دن کا ہی تھا۔کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے جس دن سفر کا آغاز فرمایا اس دن جمعہ نہیں تھا۔ کیونکہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ مَعَهُ بِالْمَدِينَةِ الظُّهْرَ أَرْبَعًا، وَالعَصْرَ بِذِي الحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی چار رکعتیں ادا کیں جبکہ ہم بھی آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی مدینے میں تھے، اور پھر ذو الحلیفہ جا کر عصر کی نماز دو رکعت ادا کی۔

صحیح البخاری: 1551

یہی روایت مسنداحمد میں ان الفاظ سے ہے:

صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ فِي مَسْجِدِهِ بِالْمَدِينَةِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ صَلَّى بِنَا الْعَصْرَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ آمِنًا لَا يَخَافُ، فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ

ہمیں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز اپنی مسجد میں مدینہ میں چار رکعت پڑھائی ، پھر ہمیں ذو الحلیفہ میں دو رکعت نماز عصر پڑھائی ، ہم حالت امن میں تھے، کوئی خوف نہ تھا، یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔

مسند احمد: 13488

امام طبرانی نے یہ روایت مزید وضاحت سے نقل فرمائی ہے:

صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ بِالْمَدِينَةِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى بَعْضِ أَسْفَارِهِ، فَصَلَّى بِنَا الْعَصْرَ عِنْدَ الشَّجَرَةِ رَكْعَتَيْنِ

میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینے میں ظہر کی 4 رکعت ادا کی پھر  اس کے بعد آپ صلى اللہ علیہ وسلم سفر پہ نکلے اور درخت کے پاس(ذو الحلیفہ میں) عصر کی نماز دو رکعت پڑھائی۔

المعجم الأوسط للطبرانی: 6375

اس حدیث میں واضح ہے کہ جس نے آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے سفر کا آغاز فرمایا ہے، اس دن مدینے میں ظہر کی نماز 4 رکعت ادا کرکے نکلے ہیں اور عصر کی نماز ذو الحلیفہ پہنچ کر 2 رکعت قصر نماز ادا کی۔

اگر ہم 24 ذو القعدہ کو ہفتے کا دن مان لیں ، اور مہینا 29 دن کا شمار کریں تو 9 ذوالحجہ کا دن اہل مدینہ کی رؤیت کے مطابق ہفتے کے دن آتا ہے۔اور اگر ہم 24 ذو القعدہ کو ہفتے کا دن مان لیں ، اور مہینا 30 دن کا شمار کریں تو 9 ذوالحجہ کا دن اہل مدینہ کی رؤیت کے مطابق اتوار کے دن بنے گا، اور مہینے میں پانچ کے بجائے چھے دن باقی ہونگے جو کہ مذکورہ  روایت کے خلاف ہے۔ اور اگر ہم 25 ذو القعدہ کو ہفتے کا دن مان لیں ، اور مہینا 30 دن کا شمار کریں توبھی 9 ذوالحجہ کا دن اہل مدینہ کی رؤیت کے مطابق ہفتے کے دن آتا ہے۔   لیکن اگر ہم 24 ذو القعدہ کوجمعے کا دن مان لیں ، اور مہینا 29 دن کا شمار کریں تو 9 ذوالحجہ کا دن اہل مدینہ کی رؤیت کے مطابق جمعے  کے دن آتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل ’’مدنی کلینڈر‘‘ سے واضح ہے:

 

 

درست مدنی کلینڈر

ایام

ذو القعدہ

ذو الــحــجـــہ

جمعہ

24

1

8

ہفتہ

25

2

9

اتوار

26

3

10

سوموار

27

4

11

منگل

28

5

12

بدھ

29

6

13

جمعرات

30

7

14

 

جمعے کا دن یوم ِآغاز ِسفر  فرض کرنے کی صورت میں مدنی کلینڈر

ایام

ذو القعدہ

ذو الــحــجـــہ

جمعہ

24

2

9

ہفتہ

25

3

10

اتوار

26

4

11

سوموار

27

5

12

منگل

28

6

13

بدھ

29

7

14

جمعرات

1

8

15

 

لیکن ایسا فرض کرنا  اس لیے درست نہیں کہ جس دن سفر کا آغاز ہوا، اس دن جمعہ نہیں تھا، کیونکہ ظہر کی نماز ادا کرکے نکلے تھے، اور جس دن نکلے اس دن ذو القعدہ کے ابھی پانچ دن باقی تھے۔

یعنی یہ بات یقینی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ہفتے کے دن ہی مدینے سے نکلے ہیں کیونکہ  جمعے کے دن کوچ کرنے کی نفی مذکورہ حدیث سے واضح ہے کہ جمعے کے دن مقیم لوگ ظہر کی 4 رکعتیں ادا نہیں کرتے، اور اگر اتوار یا اس کے بعد کا کوئی دن آغاز سفر کا دن مان لیں تو اس سے یوم عرفہ اور زیادہ تاخیر سے آئے گا کیونکہ جس نے روانگی ہوئی اس دن سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کے مطابق 5 دن ذو القعدہ کے باقی تھے۔

مکہ میں یوم عرفہ یعنی 9 ذو الحجہ کے دن جمعہ کا دن ہونے پہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت دلالت کرتی ہے:

أَنَّ رَجُلًا، مِنَ اليَهُودِ قَالَ لَهُ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، آيَةٌ فِي كِتَابِكُمْ تَقْرَءُونَهَا، لَوْ عَلَيْنَا مَعْشَرَ اليَهُودِ نَزَلَتْ، لاَتَّخَذْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ عِيدًا. قَالَ: أَيُّ آيَةٍ؟ قَالَ: {اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا} [المائدة: 3] قَالَ عُمَرُ: «قَدْ عَرَفْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ، وَالمَكَانَ الَّذِي نَزَلَتْ فِيهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَةَ يَوْمَ جُمُعَةٍ»

یہود میں سے ایک شخص نے  ان سے کہا اے امیر المؤمنین! آپ کی کتاب (قرآن مجید) میں ایک آیت ہے جس کی آپ تلاوت کرتے ہیں، اگر وہ ہم یہودیوں پہ نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن کو عید کا دن قرار دیتے۔ پوچھا  کہ وہ کونسی آیت ہے؟ تو اس (یہودی) نے کہا  {اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا} [المائدة: 3] تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اس دن کو جانتا ہوں اور اس جگہ کوبھی جانتا ہوں جس میں وہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم پہ نازل ہوئی، آپ صلى اللہ علیہ وسلم جمعے کے دن عرفہ میں کھڑے تھے ( جب یہ نازل ہوئی)۔

صحیح البخاری: 45

اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ 10 ہجری کو جب نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم حج کے لیے گئے  مکہ میں عرفہ یعنی 9 ذو الحجہ کا دن جمعے کے دن تھا۔مزید وضاحت کے لیے درج ذیل مکی کیلنڈر ملاحظہ فرمائیں:

 

مکی کیلنڈر

ایام

ذو القعدہ

ذو الــحــجـــۃ

جمعہ

24

2

9

ہفتہ

25

3

10

اتوار

26

4

11

سوموار

27

5

12

منگل

28

6

13

بدھ

29

7

14

جمعرات

یکم ذو الحجہ

8

15

اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل مدینہ اپنے حساب کے مطابق ہفتے کے دن 25 ذو القعدہ کو سفر پہ نکلے جب کہ ابھی ذو القعدہ کے پانچ دن باقی تھے، لیکن جب مکہ پہنچے تو اہل مکہ نے 29 ذو القعدہ بدھ کے روز چاند دیکھ لیا اور جمعرات کو یکم ذو الحجہ تھی۔ جس کے مطابق عرفہ کا دن یعنی 9 ذو الحجہ جمعے کا دن تھا۔ اس تحقیق سے اہل مکہ اور اہل مدینہ کی رؤیت میں فرق معلوم ہوگیا۔ یہی فرق ذو الحجہ، محرم، اور صفر ، تین ماہ تک جاری رہا یہ تینوں ماہ  مدینہ میں 30 دنوں کے تھے۔کیونکہ احادیث میں صراحت ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم سوموار کے دن فوت ہوئے۔

سیدنا انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

أَنَّ المُسْلِمِينَ بَيْنَا هُمْ فِي الفَجْرِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُصَلِّي بِهِمْ، «فَفَجِئَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَشَفَ سِتْرَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَنَظَرَ إِلَيْهِمْ وَهُمْ صُفُوفٌ، فَتَبَسَّمَ يَضْحَكُ» فَنَكَصَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى عَقِبَيْهِ، وَظَنَّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ أَنْ يَخْرُجَ إِلَى الصَّلاَةِ، وَهَمَّ المُسْلِمُونَ أَنْ يَفْتَتِنُوا فِي صَلاَتِهِمْ، فَرَحًا بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَأَوْهُ، فَأَشَارَ بِيَدِهِ: «أَنْ أَتِمُّوا، ثُمَّ دَخَلَ الحُجْرَةَ، وَأَرْخَى السِّتْرَ»، وَتُوُفِّيَ ذَلِكَ اليَوْمَ.

مسلمان سوموار کے دن فجر کی نماز تھے، ابو بکر رضی اللہ عنہ انہیں امامت کروا رہے تھے کہ اچانک نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کا پردہ ہٹایا اور انہیں صفوں میں دیکھا، تو ہنس کر مسکرا دیے۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ الٹے پاؤں پیچھے ہٹنے لگے یہ سمجھ کر کہ شاید رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں، اور  مسلمان نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اتنے خوش ہوئے کہ وہ نماز میں آزمائش میں پڑنے لگے(یعنی کیا نماز توڑ دیں یا جاری رکھیں) تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ نماز پوری کرو، پھر آپ صلى اللہ علیہ وسلم حجرے میں تشریف لے گئے اور پردہ گرا دیا، اور اسی دن وفات پاگئے۔

صحیح البخاری: 1205

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کس دن فوت ہوئے تو انہوں نے فرمایا:

«يَوْمَ الِاثْنَيْنِ»

سوموار کے دن۔

صحیح البخاری: 1387

اور تاریخ کے بارے میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

وَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاثْنَتَيْ عَشْرَةَ لَيْلَةً مَضَتْ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الأَوَّلِ، فِي الْيَوْمِ الَّذِي قَدِمَ فِيهِ الْمَدِينَةَ مُهَاجِرًا، قَالَتْ: كَمُلَ فِي هِجْرَةٍ عَشْرُ سِنِينَ كَوَامِلَ

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم 12 ربیع الاول کو فوت ہوئے، اسی دن جس  دن مدینہ میں مہاجر بن کر آئے تھے۔ کہتی ہیں کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ہجرت میں دس سال مکمل کیے۔

تفسیر ابن المنذر: 997

ام المؤمنین سیدعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس صراحت کے مطابق رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی وفات 12 ربیع الاول سوموار کے روز ہے۔

 لیکن اس پہ ایک اشکال پید ہوتا ہے کہ امام سہیلی فرماتے ہیں:

وَاتّفَقُوا أَنّهُ تُوُفّيَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ إلّا شَيْئًا ذَكَرَهُ ابْنُ قُتَيْبَةَ فِي الْمَعَارِفِ الْأَرْبِعَاء قَالُوا كُلّهُمْ وَفِي رَبِيعٍ الْأَوّلِ غَيْرَ أَنّهُمْ قَالُوا، أَوْ قَالَ أَكْثَرُهُمْ فِي الثّانِي عَشَرَ مِنْ رَبِيعٍ وَلَا يَصِحّ أَنْ يَكُونَ تُوُفّيَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلّا فِي الثّانِي مِنْ الشّهْرِ أَوْ الثّالِثَ عَشَرَ أَوْ الرّابِعَ عَشَرَ أَوْ الْخَامِسَ عَشَرَ لِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِينَ عَلَى أَنّ وَقْفَةَ عَرَفَةَ فِي حَجّةِ الْوَدَاعِ كَانَتْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَهُوَ التّاسِعُ مِنْ ذِي الْحَجّةِ فَدَخَلَ ذُو الْحَجّةِ يَوْمَ الْخَمِيسِ فَكَانَ الْمُحَرّمُ إمّا الْجُمُعَةُ وَإِمّا السّبْتُ فَإِنْ كَانَ الْجُمُعَةُ فَقَدْ كَانَ صَفَرٌ إمّا السّبْتُ وَإِمّا الْأَحَدُ فَإِنْ كَانَ السّبْتُ فَقَدْ كَانَ رَبِيعٌ الْأَحَدَ أَوْ الِاثْنَيْنِ وَكَيْفَا دَارَتْ الْحَالُ عَلَى هَذَا الْحِسَابِ فَلَمْ يَكُنْ الثّانِي عَشَرَ مِنْ رَبِيعٍ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ بِوَجْهِ وَلَا الْأَرْبِعَاءَ أَيْضًا

سب کا اس بات پہ تو اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سوموار کے دن فوت ہوئے۔ہاں ابن قتیبہ نے معارف میں بدھ کا دن ذکر کیا ہے(تنبیہ:۔المعارف میں ابن قتیبہ نے وفات کا دن سوموار کا ہی ذکر کیا ہے اور دفن کا دن بدھ کا۔ ملاحظہ ہوالمعارف ص 165،166)۔ اور اس بات پہ بھی سبھی متفق ہیں کہ ربیع الاول میں وفات ہوئی، ہاں ان سب نے یا ان میں سے اکثر نے ربیع الاول کی 12 تاریخ بتائی ہے، لیکن یہ صحیح نہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم 2  یا 13 یا 14 یا 15 تاریخ کے سوا کسی اور تاریخ کو فوت ہوئے ہوں! ۔ کیونکہ مسلمانوں کا اس بات پہ اجماع ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا حجۃ الوداع میں وقوف عرفہ جمعے کے دن تھا اور وہ ذو الحجہ کا نواں دن ہے۔ اس حساب سے ذو الحجہ جمعرات کو شروع ہوا، اور اگلا محرم یا تو جمعے کے دن یا ہفتے کے دن شروع ہوا، اگر جمعے کے دن شروع ہوا تو صفر ہفتے کے دن یا اتوار کے دن شروع ہوا،اور اگر ہفتے کے دن شروع ہو تو ربیع الاول اتوار یا سوموار کو شروع ہوا، جس طرح بھی حساب کرلیا جائے سوموار کا دن بارہ ربیع الاول کو کسی طرح بھی نہیں بنتا، اور نہ ہی بدھ کے دن!

الروض الأنف:7/577

خلاصہ کلام یہ کہ ذو الحجہ، محرم، صفر تینوں مہینے تیس دن کے ہوں ، تینوں انتیس دن کے ہوں، یا انتیس تیس کے ملے جلے ، اگر 9 ذو الحجہ کو جمعے کا دن تھا تو 12 ربیع الاول کسی بھی صورت سوموار کے دن نہیں بنتی۔جبکہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مطابق 12 ربیع الاول سوموار کے دن تھی۔

یہی وہ اشکا ل ہے جسے امام سُہیلی (508 - 581 ھ)  کے بعد  بہت سے اہل علم نے نقل کیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری میں یہ اشکال نقل کر کے  اسکا جواب بھی بارزی اور ابن کثیر سے نقل کیا ہےکہ ذو الحجہ کی رؤیت اہل مکہ اور اہل مدینہ کی الگ الگ تھی  ۔ اہل مکہ نے بدھ کو چاند دیکھ لیا تھا  سو جمعرات سے انکا  ذو الحجہ کا مہینا شروع ہوا، جبکہ اہل مدینہ کا ذو الحجہ جمعے کے دن سے شروع ہوا۔ یوں دونوں شہروں کی رؤیت میں ایک دن کا فرق آگیا۔ اور 9 ذوالحجہ اہل مکہ کی رؤیت کے مطابق  جمعے کے دن تھی جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے، جبکہ یہی 9 ذو الحجہ اہل مدینہ کی رؤیت کے مطابق ہفتے کے دن تھی۔ تو جب اہل مدینہ واپس آئے تو انہوں نے ربیع الاول کی مدنی تاریخ 12 ذکر کی کیونکہ تینوں مہینے 30 کے تھے۔

(بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ قبل حدیث4428)

 اور فتح الباری سے احمد رضا خان بریلوی نے یہ اشکال نقل کرکے  12 ربیع الاول کے یوم وفات ہونے کا انکار کیا ہے۔ اور فتاوى رضویہ سے پڑھ کر انجینئر محمد علی مرزا ، اور اس قبیل کے دیگر لوگوں نے اسے اپنی تحقیق قرار دے کر’’محکک زماں‘‘ ہونے کا تمغہ سجا رکھا ہے۔  جبکہ  اس اشکال کا حل وہی ہے جسے بارزی سے حافظ صاحب نے نقل فرمایا ہے، اور ہم سابقہ سطور میں تفصیل سے اس کی وضاحت کر چکے ہیں۔ مزید سہولت کے لیے ان مہینوں کا مدنی اور مکی کلینڈر بنا کر ذیل میں پیش کیا گیا ہے تاکہ سمجھنے میں آسانی رہے، ملاحظہ فرمائیں:

مدنی تقویم

ذو القعدہ

ذو الـحـجـۃ

مـــحـــرم

صــــفـــر

ربیع الاول

جمعہ

24

1

8

15

22

29

 

6

13

20

27

 

4

11

18

25

 

2

9

 

ہفتہ

25

2

9

16

23

30

 

7

14

21

28

 

5

12

19

26

 

3

10

 

اتوار

26

3

10

17

24

 

1

8

15

22

29

 

6

13

20

27

 

4

11

 

سوموار

27

4

11

18

25

 

2

9

16

23

30

 

7

14

21

28

 

5

12

 

منگل

28

5

12

19

26

 

3

10

17

24

 

1

8

15

22

29

 

6

13

 

بدھ

29

6

13

20

27

 

4

11

18

25

 

2

9

16

23

30

 

7

14

 

جمعرات

30

7

14

21

28

 

5

12

19

26

 

3

10

17

24

 

1

8

15

 

مکی تقویم

ذو القعدہ

ذو الـحـجـۃ

مـــحـــرم

صــــفـــر

ربیع الاول

جمعہ

24

2

9

16

23

30

 

7

14

21

28

 

5

12

19

26

 

3

10

 

ہفتہ

25

3

10

17

24

 

1

8

15

22

29

 

6

13

20

27

 

4

11

 

اتوار

26

4

11

18

25

 

2

9

16

23

30

 

7

14

21

28

 

5

12

 

سوموار

27

5

12

19

26

 

3

10

17

24

 

1

8

15

22

29

 

6

13

 

منگل

28

6

13

20

27

 

4

11

18

25

 

2

9

16

23

30

 

7

14

 

بدھ

29

7

14

21

28

 

5

12

19

26

 

3

10

17

24

 

1

8

15

 

جمعرات

1

8

15

22

29

 

6

13

20

27

 

4

11

18

25

 

2

9

16

 

اس پہ  ایک یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ تین ماہ تو مسلسل 30 دن کے آ جاتے ہیں لیکن مسلسل 4 ماہ 30 دن کے ہونا ممکن نہیں ہے۔ لیکن یہ اشکال نا قابل التفات ہےکیونکہ چار ماہ مسلسل کامل (یعنی 30 دن کے) آنا بھی ممکن ہے۔  اور پھر مسلمانوں کے لیے تو نہایت آسان دین اللہ تعالى نے دیا ہے،جس میں دقیق حسابت کتاب کی ضرورت ہی نہیں۔ خود رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

«إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ، لاَ نَكْتُبُ وَلاَ نَحْسُبُ، الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا» يَعْنِي مَرَّةً تِسْعَةً وَعِشْرِينَ، وَمَرَّةً ثَلاَثِينَ

ہم ان پڑھ امت ہیں، ہم زیادہ حساب کتاب نہیں جانتے، مہینا اس طرح اور اس طرح ہوتا ہے۔ یعنی 29 یا 30 دن کا۔

صحیح البخاری: 1913

اور 29 یا 30 کا فیصلہ کرنے کے لیے بھی آسان سا طریقہ مقرر فرما دیا :

الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً، فَلاَ تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا العِدَّةَ ثَلاَثِينَ

مہینا 29 دن کا ہوتا ہے، لہذا اس وقت تک روزہ نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو، اور اگر وہ تم سے اوجھل رہ جائے تو 30 کی گنتی پوری کر لو۔

صحیح البخاری: 1907

اس حدیث میں نہایت سادہ سا اصول شریعت نے دیا ہے کہ یا تو نیا چاند نظر آنے پہ اگلے مہینے کا آغاز ہوگا یا  تیس دن  مکمل ہونے پہ۔ جب 29 ویں کی شام کو مغرب کے بعد چاند نظر نہ آسکے تو اگلا دن بھی اسی مہینے کا شمار کرکے مہینا 30 دنوں کا مکمل کر لیا جائے۔ اور اگر مسلسل کئی مہینوں کے آخر میں مطلع ابر آلود ہو تب بھی اصول شرع یہی ہے۔ یعنی فلکیات کے حساب کتاب سے شرعی مہینے کا آغاز یا اختتام نہیں ہوتا، نہ ہی شریعت میں اس تقویم کا کوئی اعتبار ہے۔ شریعت انسانی آنکھ سے دیکھے گئے ہلال کا اعتبار کرتی ہے یا 30 دن مکمل ہونے کا۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی ایسا ہی کیا۔ اور ایسا کرنے میں اہل مدینہ کے چار ماہ مسلسل 30دن کے ہوئے اور اہل مکہ کے تین ماہ۔

چونکہ یوم عرفہ کو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے، سو انہوں نے مکہ کا دن یعنی جمعہ کے دن یوم عرفہ ذکر کیا جو کہ اہل مکہ کی رؤیت کے مطابق تھا۔ اور نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم چونکہ مدینہ میں فوت ہوئے سو انہوں نے سوموار کے دن 12 ربیع الاول تاریخ بتائی جو کہ اہل مدینہ کی رؤیت کے مطابق تھی۔

الغرض اشکال پیدا ہونے کی اصل وجہ یہی ہے کہ یوم عرفہ اہل مکہ کی رؤیت والا لے لیا جاتا ہے اور تاریخ وفات اہل مدینہ کی رؤیت والی۔ اگر اہل مدینہ کی رؤیت کا اعتبار کیا جائے تو 12 ربیع الاول کے یوم وفات ہونے میں کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا۔  

  • السبت PM 09:47
    2022-12-24
  • 2367

تعلیقات

    = 6 + 2

    /500
    Powered by: GateGold