تازہ ترین
حالت حیض میں طلاق => مسائل طلاق طلاق کی عدت => مسائل طلاق بدعی طلاق => مسائل طلاق حالت نفاس میں طلاق => مسائل طلاق بیک وقت تین طلاقیں => مسائل طلاق مباشرت کے بعد طلاق => مسائل طلاق اللہ تعالیٰ کی معیت => مسائل عقیدہ ایک مجلس کی تین طلاقیں => مسائل طلاق مفاہیم عشق => مقالات علم سے دوری کیوں؟ => مقالات

میلنگ لسٹ

بريديك

موجودہ زائرین

باقاعدہ وزٹرز : 65681
موجود زائرین : 26

اعداد وشمار

47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
272
فتاوى
56
مقالات
187
خطبات

تلاش کریں

البحث

مادہ

تاریخی واقعات کی تحقیق و روایت کا منہج

تاریخی واقعات کی تحقیق و روایت کا منہج

خبر خواہ حدیث کہلائے اثر کہلائے یا تاریخ ، اسے پرکھنے کے لیے اللہ تعالى نے ایک ہی اصول دیا ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا 

اے اہل ایمان اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی بھی خبر لائے تو اسکی تحقیق کر لو۔

(الحجرات: 6)

اس آیت کے لفظ ’’جَاءَكُمْ‘‘سے اتصال سند کی شرط ، ’’فَاسِقٌ‘‘کے مفہوم سے عدالت کی شرط، ’’بِنَبَإٍ‘‘سے ضبط واتقان کی شرط اور’’فَتَبَيَّنُوا‘‘  سے عدم شذوذ و عدم علت کی شرط کشید کرکے صحت  خبر کے لیے یہ اصول مقرر کیا گیا کہ صرف وہ روایت صحیح مانی جائے گی جسکی سند متصل ہو، اسکے راوی عادل و ضابط ہوں، اور وہ روایت معلل  یا شاذ نہ ہو۔

یہ اصول تحقیق ہمہ قسم کی خبروں کی تحقیق کے لیے یکساں ہے۔ خواہ انکا تعلق زمانہ نبوت سے ہو یا بعد کے ادوار سے یا دور جاہلیت سے۔ کسی بھی قسم کی خبر کو اس اصول سے مستثنى کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

البتہ یہ ضرور ہے کہ تاریخی روایات میں قریب دور کے رُواۃ کے ضبط میں کچھ کمی بھی ہو تو انہیں قبول کر لیا جاتا ہے، کیونکہ ان اخبار کی اس زمانے میں شہرت اس نقص کو رفع کر دیتی ہے۔

 تاریخ ابن معین بروایت الدوری (60/3)، برقم: (231) میں ہے:

سَمِعت الْعَبَّاس يَقُول سَمِعت أَحْمد بن حَنْبَل وَسُئِلَ وَهُوَ على بَاب أَبى النَّضر هَاشم بن الْقَاسِم فَقيل لَهُ يَا أَبَا عبد الله مَا تَقول فِي مُوسَى بن عُبَيْدَة الربذي وفى مُحَمَّد بن إِسْحَاق فَقَالَ: أما مُحَمَّد بن إِسْحَاق فَهُوَ رجل تكْتب عَنهُ هَذِه الْأَحَادِيث كَأَنَّهُ يعْني الْمَغَازِي وَنَحْوهَا وَأما مُوسَى بن عُبَيْدَة فَلم يكن بِهِ بَأْس وَلكنه حدث بِأَحَادِيث مَنَاكِير عَن عبد الله بن دِينَار عَن بن عمر عَن النَّبِي ﷺ. فَأَما إِذا جَاءَ الْحَلَال وَالْحرَام أردنَا قوما هَكَذَا وَقبض أَبُو الْفضل على أَصَابِع يَدَيْهِ الْأَرْبَع من كل يَد وَلم يضم الْإِبْهَام-

میں نے عباس کو کہتے سنا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جب ابو النصر ہاشم بن قاسم کے دروزے پر تھے تو ان سے سوال کیا گیا اے ابو عبد اللہ آپ موسى بن عبیدہ الربذی اور محمد بن اسحاق کے بارہ میں کیا کہتے ہیں؟ تو ا نہوں نے فرمایا: محمد بن اسحاق ایسا شخص ہے کہ اس سے مغازی اور اس قسم کی احادیث نقل کی جاتی ہیں۔ اور موسى بن عبیدہ میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اس نے عبد اللہ بن دینار از ابن عمر از نبیﷺ کچھ منکر روایات نقل کی ہیں۔ لیکن جب حلال اور حرام کے بات آئے تو ہم ایسی قوم چاہتے ہیں ۔ ابو الفضل نے اپنے دونوں ہاتھوں کی چاروں انگلیاں بند کیں اور انگوٹھا بند نہ کیا۔

اور یہی بات (274/3)، برقم: (1161) میں بھی موجود ہے اور وہاں وضاحت ہے:

فَإِذا جَاءَ الْحَلَال وَالْحرَام أردنَا قوما هَكَذَا قَالَ أَحْمد بن حَنْبَل بِيَدِهِ وصم يَدَيْهِ وَأقَام أَصَابِعه الإبهامين

تو جب حلال وحرام کی بات آئے تو ہم اس طرح  کی قوم چاہتے ہیں امام احمد بن حنبل نے اپنے دونوں ہاتھوں کو بند کیا اور دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو کھڑا رکھا۔

پھر ایک اہم بات یہ بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ نے فاسق کی خبر کو تحقیق کے بعد قبول کرنے کا حکم دیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ خبریں فاسقوں کی بھی مانی جاسکتی ہیں لیکن انکے لیے تحقیق شرط ہے۔ اب یہ تحقیق کئی طرح سے ہوتی ہے یا تو وہی خبر جو وہ فاسق دے رہا ہے کسی عادل سے بھی منقول ہو۔ یا اس فاسق کی طرف سے ایسی خبر آئے جس میں اس فاسق کے جھوٹ بولنے کا شبہ تک بھی نہ ہو۔آج کل میڈیا پہ نشر ہونے والی اکثر  خبروں کا تعلق اسی دوسری قسم سے ہوتا ہے۔ اسی لیے ان پر اعتماد کر لیا جاتا ہے لیکن اگر کہیں کوئی شک کی گنجائش پیدا ہو جائے تو پھر وکی لیکس اور پانامہ لیکس پر عدالتوں میں تحقیق شروع ہو جاتی ہے اور آخر کار سچ یا جھوٹ واضح ہوجاتا ہے اور یہ تحقیق اللہ کے حکم  فَتَبَيَّنُوا پر ہی عمل پیرا ہونا ہے۔

کچھ احباب گرامی یہ سمجھتے ہیں کہ تاریخی خبروں کی جانچ پرکھ کیے بغیر ہی انہیں قبول کر لینا چاہیے۔ لیکن انکا یہ خیال خام ہے۔  ہاں انہیں یہ کہنا چاہیے کہ تاریخی واقعات  کے صدق وکذب  کا اعتبار کیے بغیر انہیں بیان کر دینے میں  کوئی حرج نہیں بالخصوص جب ان واقعات سے عبرت و نصیحت حاصل ہوتی ہو۔ کیونکہ جب نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل سے روایت کرنے کی رخصت عنایت فرمائی ہے تو امت محمد صلى اللہ علیہ وسلم  کی روایات زیادہ حق رکھتی ہیں کہ انہیں نقل کیا جائے۔ ہاں جب ان روایات میں کسی کی حق تلفی ہوتی ہو، کسی پر الزام یا بہتان لازم آتا ہو، ثابت شدہ تاریخی حقائق کا انکار ہوتا ہو، یا مسلّمات دین پہ حرف آتا ہو،  تو ایسی مرویات کو رد کر دینا ہی قرین انصاف ہے۔

  • الاحد PM 09:30
    2022-12-25
  • 713

تعلیقات

    = 1 + 3

    /500
    Powered by: GateGold