میلنگ لسٹ

بريديك

موجودہ زائرین

باقاعدہ وزٹرز : 125149
موجود زائرین : 58

اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
278
فتاوى
56
مقالات
187
خطبات

تلاش کریں

البحث

مادہ

مسئلہ عول اور جاوید احمد غامدی صاحب

مسئلہ عول اور جاوید احمد غامدی صاحب

محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ

مجھے آج منکر حدیث جاوید احمد غامدی صاحب ہداہ اللہ کے ویڈیو کلپ کا یوٹیوب لنک موصول ہوا جس میں موصوف نے علم میراث کے مسئلہ عول کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے امت کی اجماعی غلطی قرار دیا ہے۔ اور سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو عول کا موجد بتایا ہے۔جبکہ حقیقت میں موصوف خود اس مسئلہ کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں اور اپنی غلطی پہ پردہ ڈالنے کے لیے امت کو غلط قرار دے بیٹھے ہیں۔ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو موجد قرار دے کر یہ باور کروا  رہے ہیں کہ عول قرآن وحدیث میں نہیں ہےانکی اپنی اختراع ہے، جبکہ حقیقت میں عول قرآن مجید میں موجود  اللہ کا حکم ہے۔

جاوید احمدغامدی صاحب نے عول کے مسئلہ کو تالیف عبارت کی غلط فہم کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موصوف خود قرآن کی عبارت کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں! کیونکہ اس آیت مبارکہ

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ

اللہ تمھیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔

سورۃ النساء: 11

میں تو واقعتًا یہ متعین نہیں کیا گیا کہ اولادکا  یہ حصہ ترکے کے کتنے حصے میں سے ہے۔ اور یہی طریقہ تقسیم وراثت میں اختیار کیا جاتا ہے۔ کہ جب میت کی اولاد میں بیٹے بیٹیاں ہوں تو وہ سب عصبہ بنتے ہیں۔ اور عصبات کو حصہ اصحاب الفروض کو حصہ دینے کے بعد دیا جاتا  ہے۔ لہذا اگر میت کے والدین اور اولاد موجود ہوگی تو پہلے والدین کو حصہ دے دیا جائے گا پھر باقی ماندہ سارا مال میت کی اولاد میں  ’’لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ‘‘ کے اصول کے تحت تقسیم ہوگا۔ حدیث نبوی میں بھی اس صورت  میں یہی طریقہ کار  مقرر کیا گیا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ

جن کے حصے کتاب اللہ میں  مقرر ہیں انہیں انکے حصے دو اور جو باقی بچ جائے تو وہ قریب ترین مرد رشتہ دار کے لیے ہے۔

صحیح البخاری:6732

یعنی اصحاب الفروض کو حصہ دینے کے بعد باقی بچ جانے والا مال قریبی عصبہ کو دیا جائے گا۔ اور میت کی اولاد میں جب بیٹے اور بیٹیاں ہوں تو بیٹوں کی وجہ سے بیٹیاں بھی عصبہ ٹھہرتی ہیں سو اصحاب الفروض کو پہلے انکے حصے دے دیے جائیں گے اور باقی  ماندہ مال میت کے بیٹوں یا بیٹوں اور بیٹیوں میں تقسیم ہوگا۔ اکیلے بیٹے ہی ہوں تو سارا مال ان میں برابر تقسیم ہو جائے گا اور اگر ساتھ بیٹیاں بھی ہوں تو باقی رہ جانے والے مال کی تقسیم کا اصول مقرر  کر دیا گیا ہے کہ ہر بیٹے کو بیٹی کی نسبت دوگنا دیا جائے گا۔

یہاں تو غامدی صاحب کافہم درست ہے۔  لیکن یہاں سے آگے بڑھتے ہی وہ پھسل گئے اور گمراہی کی گہری کھائی میں جا گرے!

کیونکہ آگے اللہ تعالى نے فرمایا ہے:

فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ

اگر (میت کی اولاد میں ) عورتیں دو سے زائد ہوں تو انکے لیے اس میں سے دو تہائی ہےجو اس ( میت) نے چھوڑا ہے ، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اسکے لیے آدھا ہے۔

سورۃ النساء: 11

یعنی اگر میت کی اولاد میں عورتیں یعنی میت کی بیٹیاں ہوں دو یا دو سے زائد تو انہیں اس مال میں سے دو تہائی ملے گا، جو میت  نے چھوڑا ہے، اور اگر اکیلی ہو گی تو اسی میں سے نصف ملے گا۔ یعنی یہاں اللہ تعالى نے اس دو تہائی کے بارے میں یہ واضح فرما دیا ہے کہ یہ دو تہائی میت کے کل ترکہ میں سے ہوگا۔ غامدی صاحب یہاں ’’مَا تَرَكَ ‘‘ کو شیر مادر سمجھ کر پی گئے ہیں اور اپنے باطل نظریہ کی بنیاد نص قرآنی کے معنی میں تحریف پہ رکھی ہے۔

ہمارے ممدوح فرماتے ہیں ’’ دو بیٹیوں کو باقی ترکہ کا دو تہائی دیا جانا چاہیے۔‘‘ جبکہ قرآن نے ’’ثلثا ما بقی‘‘  (باقی ماندہ میں سے دو تہائی) نہیں فرمایا بلکہ ’’فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ‘‘ (میت کے کل ترکہ میں سے دو تہائی) فرمایا ہے۔ یعنی قرآن مجید کی نص صریح تو دو یا زائد بیٹیوں کو کل ترکہ میں سے دو تہائی دینے  کا حکم دیتی ہے، جبکہ ہمارے ممدوح ان بیٹیوں کو میت کی اولاد ہونے کے جرم میں باقی ماندہ ترکہ میں سے دو تہائی دے رہے ہیں۔ اور موصوف کا یہ نظر قرآن مجید فرقان حمید کی صریح نص کے خلاف ہے۔گویا جس بات کو پوری امت کی غلطی قرار دے کےبار بار اس پہ ہنس رہے ہیں حقیقت میں یہ انکی اپنی غلطی ہے! کہ پوری امت نے وہ معنى سمجھا ہے جو قرآن کے الفاظ میں موجود ہے جبکہ موصوف اپنے نہاں خانہ دماغ میں پیدا شدہ معنى کو قرآن پہ مسلط کرنے کے لیے آیت قرآنی میں سے ’’مَا تَرَكَ‘‘ کے الفاظ کو  ہی ہضم کر گئے ہیں۔ اور فرما رہے ہیں کہ یہ ایمان کا مسئلہ ہے، جی ہاں واقعی ایمان کا مسئلہ ہے کہ امت نے قرآن کے ایک لفظ کو بھی نہیں چھوڑا اور غامدی صاحب ’’مَا تَرَكَ‘‘ کو چھوڑ کر ’’أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ‘‘ کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں! سو انہیں اپنے ایمان کی فکر کرنا چاہیے اور اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے  کہ ’’فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ‘‘ میں انکے لیے واضح وعید ہے!

قرآن کا درست معنى وہی ہے جو نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے سمجھا ہے۔ اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اولاد میں دو یا زائد بیٹیاں ہونے کی صورت میں بیٹیوں کو باقی مال کا دو تہائی نہیں دیا بلکہ کل ترکہ میں سے دو تہائی دیا ہے ۔ یعنی اس صورت میں جب میت کی اولاد میں بیٹے موجود نہ ہوں صرف بیٹیاں ہی ہوں تو بیٹیاں عصبہ نہیں بنیں گی بلکہ اصحاب الفروض میں شامل ہوں گی۔ اسکی مثال دور نبوی میں پیش آنے والا یہ واقعہ ہے:

سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

جَاءَتْ امْرَأَةُ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ بِابْنَتَيْهَا مِنْ سَعْدٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَاتَانِ ابْنَتَا سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، قُتِلَ أَبُوهُمَا مَعَكَ يَوْمَ أُحُدٍ شَهِيدًا، وَإِنَّ عَمَّهُمَا أَخَذَ مَالَهُمَا، فَلَمْ يَدَعْ لَهُمَا مَالًا وَلَا تُنْكَحَانِ إِلَّا وَلَهُمَا مَالٌ، قَالَ: «يَقْضِي اللَّهُ فِي ذَلِكَ» فَنَزَلَتْ: آيَةُ المِيرَاثِ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَمِّهِمَا، فَقَالَ: «أَعْطِ ابْنَتَيْ سَعْدٍ الثُّلُثَيْنِ، وَأَعْطِ أُمَّهُمَا الثُّمُنَ، وَمَا بَقِيَ فَهُوَ لَكَ»

سعد بن الربیع کی زوجہ محترمہ  اپنی سعد رضی اللہ عنہ سے دو بیٹیاں لے کر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم یہ دونوں سعد بن الربیع کی بیٹیاں ہیں، ان کا والد آپ کے ساتھ احد کے دن (جنگ میں) شہدی ہوگیا ہے، اور ان کے چچا نے ان کا سارا مال لے لیا ہے، اور  ان کے لیے کوئی مال نہیں چھوڑا، اور مال کے بغیر انکی شادی نہیں  ہوسکتی۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بارے میں اللہ تعالى فیصلہ فرمائے گا۔ تو میراث والی آیت (سورۃ النساء کی آیت 11،12) نازل ہوئی تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان بچیوں کے چچا کو پیغام بھیجا کہ سعد کی بیٹیوں کو دو تہائی دے دو اور انکی ماں کو آٹھواں حصہ دے دواور جو باقی بچے گا وہ تیرے لیے ہے۔

جامع الترمذی: 2092

اس  حدیث میں بھی واضح ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ کے بھائی کو یہ نہیں فرمایا کہ سعد رضی اللہ عنہ کی بیوہ کو آٹھواں حصہ دے کر جو باقی بچے اس میں سے دو تہائی سعد   رضی اللہ عنہ کی بیٹیوں کو دے دو، بلکہ فرمایا ہے کہ سعد کی بیٹیوں کو دوتہائی اور بیوی کو آٹھواں حصہ دے دو، جو کہ واضح ہے کہ کل ترکہ میں سے دو تہائی اور  کل ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے کیونکہ پھر فرمایا کہ جو باقی بچے وہ تیرے لیے ہے۔گویا یہ حدیث بھی ہمارے ممدوح کی میراث دانی کا جنازہ نکال رہی ہے۔ کیونکہ انکی فہم کے مطابق تو پہلے میت کی زوجہ کو ثمن ملنا چاہیے تھا پھر باقی مال میں سے میت کی بیٹیوں کو ثلثان ملتا۔ لیکن یہاں تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے پہلے ذکر ہی بیٹیوں کا فرمایا ہے اور باقی مال کی کوئی بات تک نہیں فرمائی، بلکہ پہلے بیٹیوں کو ثلثان اور بیوی کو ثمن دینے کے بعد باقی مال کی بات کی ہے کہ وہ تیرے لیے ہے ۔یہی بات اللہ تعالى نے قرآن مجید فرقان حمید میں بیان فرمائی ہے۔ کہ بیٹیاں اگر دو یا زائد ہوں تو  ’’فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ‘‘ ان کے لیے اس میں سے دو تہائی ہے جو اس (میت) نے چھوڑا ہے۔ یعنی کل مال کا دو تہائی بیٹیوں کو ملے گا۔ کیونکہ ’’ثُلُثَا‘‘  کی اضافت ’’مَا تَرَكَ‘‘ کی طرف ہے جس کا واضح معنى ہے کہ اس کا دو تہائی جو اس نے چھوڑاہے ، نہ کہ اس کا دو تہائی جو اس میت کے وارثوں نے باقی چھوڑا۔ سعد رضی اللہ عنہ کی میراث سے متعلق اس واقعہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ جن آیات میں بیٹیوں او ربہنوں کو دو تہائی حصہ دینے کا بیان ہے اس سے مراد کل ترکہ کی دو تہائی ہے، نہ کہ باقی ترکہ کی۔ اپنے خانہ ساز نظریہ کو تحفظ دینے کے لیے قرآن و حدیث کی غلط توجیہات او رباطل تاویلات کرنا منکرین حدیث کا شیوہ ہے، اہل ایمان کا طریقہ نہیں۔

اللہ تعالى نے والدین کا حصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:

وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ

اور اس (میت ) والدین میں سے ہر ایک کے لیے اس (میت) کے  ترکہ  میں سے چھٹا حصہ ہے، اگر اس (میت) کی اولاد ہو۔

سورۃ النساء: 11

یہاں بھی اللہ سبحانہ وتعالى نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ اگر میت کی اولاد موجود ہو تو والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ میت کے کل ترکہ میں سے ملے گا۔ یعنی چھٹا حصہ والدہ کو اور چھٹا حصہ میت کے والد کو جمیع ترکہ میں سے ادا کرنا ہوگا۔

پھر فرمایا:

فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ

اگر اس (میت ) کی اولاد نہ ہو اور اسکے وارث اسکے ماں باپ ہوں تو ماں کے لیے ایک تہائی حصہ ہے۔ اور اگر اس (میت) کے ایک سے زائدبھائی/ بہن  ہوں تو ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے۔

سورۃ النساء: 11

یہاں دو باتیں قابل غور ہیں ایک تو یہ کہ میت کی اولاد نہ  ہونے کی صورت میں وارث صرف میت کے ماں باپ کو قرار دیا گیا ہے۔ یعنی میت کی بیوی یا خاوند کے سوا  میت کے وارث اسکے ماں باپ ہی ہونگے۔یعنی نسبی رشتہ داروں میں سے ماں باپ کے سوا کوئی وارث نہیں ہوگا۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ میت اگر عورت ہے تو اسکے خاوند اور مرد ہے تو اسکی بیوی کو حصہ دینے کے بعد چونکہ میت کی اولاد نہیں ہے باقی سارا مال میت کے والدین میں تقسیم کیا جائے گا جس میں سے میت کی ماں کو ایک تہائی ملے گا۔ میت کے والد کا حصہ کتنا ہے اسکا تعین خود ہی ہو جائے گا کہ باقی سارے کے مالک چونکہ اس کے والدین ہیں تو والدہ کو بقیہ میں سے ایک تہائی دے کر باقی کا دو تہائی والد کو دیا جائے گا۔ اور اگر میت کا خاوند یا بیوی نہ ہو تو میت کا سارا ترکہ ہی والدین میں اسی نسبت سے تقسیم کیا جائے گا۔ اور اگر صرف والدہ ہو تو اسکے لیے ترکہ میں سے تہائی حصہ ہےبشرطیکہ میت کی اولاد یا ایک سے زائد بھائی نہ ہوں۔

اور اگر میت کے ایک سے زائد بھائی /بہن ہوں تو میت کی والدہ کو کل ترکہ میں سے چھٹا حصہ ملے گا، اور اگر والدہ کے ساتھ والد بھی ہو تو زوجین میں سے کسی ایک کو حصہ دینے کے بعد باقی مال کا چھٹا حصہ والدہ  کو اور باقی سارا والد کو ملے گا۔

یاد رہے کہ یہاں بھی ہمارے ممدوح غلطی کا شکار ہوئے ہیں جس کا ذکر اس ویڈیو میں تو نہیں تاہم  انکی ’’میزان‘‘ میں موجود ہے وہ فرماتے ہیں ’’ بھائی ایک بھی ہو، والدین کا حصہ کم ہوجائے گا۔‘‘ جبکہ مسٹر موصوف کا یہ نظریہ بھی خود ساختہ ہے او رقرآن مجید کے مخالف ہے! کیونکہ  ’’إِخْوَةٌ‘‘ جمع کا لفظ ہے۔ اس سے مراد ایک سے زیادہ بھائی بہن ہیں۔ ایک بھائی کے لیے أخ اور ایک بہن کے لیے أخت کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اور یہ ترکیب بھی اللہ تعالى نے قرآن مجید میں استعمال فرمائی ہے:

وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ

اور اگر کوئی مرد، جس کا ورثہ لیا جا رہا ہے، ایسا ہے جس کا نہ ماں باپ ہو نہ اولاد، یا ایسی عورت ہے اور اس کا ایک بھائی یا بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے۔

سورۃ النساء: 12

یعنی اگر ایک بھائی یا ایک بہن کا یہاں بھی تذکرہ کرنا ہوتا تو اللہ تعالى یہ الفاظ استعمال فرماتے جو اگلی آیت میں استعمال فرمائے ہیں۔ لیکن اس آیت میں ’’أَخٌ أَوْ أُخْتٌ‘‘   کے بجائے ’’إِخْوَةٌ‘‘  کا لفظ استعمال فرمایا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں الگ معنى مراد ہے جو اس مذکور لفظ کے موافق ہے، اور وہ معنى  ہے دو  یا دو سے زیادہ بہن بھائی۔

اور بیوی کا حصہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالى نے فرمایا ہے:

فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ

تو اگر تمہاری کوئی اولاد ہے تو ان (تمہاری بیویوں) کے لیے آٹھواں حصہ ہے اس میں سے جو تم نے چھوڑا ہے۔

سورۃ النساء: 12

یہاں بھی بات بالکل واضح ہے کہ میت کی اگر اولاد موجود ہو تو میت کی بیوی کو میت کے کُل ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ملے گا۔

اب جب کہ یہ بات و اضح ہوگئی کہ قرآن مجید فرقان حمید میں دو بیٹیوں کو کُل ترکہ میں سے دوتہائی ، بیوہ کو کُل ترکہ میں سے آٹھواں اور والدین کو کُل ترکہ میں سے ایک تہائی(سدس+ سدس)  دینے  کا حکم ہے۔ تو قرآنی حکم کے مطابق تقسیم بھی کل ترکہ میں سے ہی کی جائے گی۔ اور پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کسی میت کی دو بیٹیاں، ایک بیوہ اور ماں اور باپ وارث ہوں تو انہیں کُل ترکہ میں سے  بالترتیب ثلثان، ثمن، سدس ، اور سدس دینا اللہ تعالى کا حکم ہے۔اسی حکم ربانی کو نافذ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ترکہ کی تقسیم میں یہ تناسب قائم رکھا جائے جو اللہ تعالى نے مقرر فرمایا ہے۔ سو ہم میت کا ترکہ یوں تقسیم کریں گے:

ورثاء

حصص

دو بیٹیاں

ثلثان (دو تہائی)

بیوہ

ثمن (آٹھواں)

والد

سدس (چھٹا)

والدہ

سدس (چھٹا

پھر ہم دیکھتے ہیں  کہ دو عدد تہائی حصے، دو عدد چھٹے حصے اور ایک آٹھواں حصہ کل مال میں سے ہم نے ورثاء کو دینا  ہےتو اس کے لیے کل مال کے اتنے حصے کیے جائیں جو سب کوپورے آ جائیں تو ہم ان اعداد کا ذو اضعاف اقل نکالتے ہیں جو کہ 24 ہے ۔ یعنی کل مال کو 24 برابر حصوں میں تقسیم کرکے ہر ایک کو ان میں سے اسکا حصہ دے دیں گے۔ اسے وراثت کی اصطلاح میں تصحیح مسئلہ کہتے ہیں:

 

ورثاء

حصص

24(تصحیح)

دو بیٹیاں

ثلثان (دو تہائی)

16

بیوہ

ثمن (آٹھواں)

3

والد

سدس (چھٹا)

4

والدہ

سدس (چھٹا

4

اب ہم دیکھتے ہیں کہ حصص کی تقسیم کے بعد کل 27 حصے درکار ہیں سو ہم کُل مال کے اتنے حصے بنا لیں گے جتنے حصے درکار ہیں۔ اسے علم میراث کی اصطلاح میں عول کہا جا تا ہے:

 

ورثاء

حصص

24(تصحیح)

27(عول)

دو بیٹیاں

ثلثان (دو تہائی= ⅔)

16

16

بیوہ

ثمن (آٹھواں=⅛)

3

3

والد

سُدس (چھٹا=⅙)

4

4

والدہ

سُدس (چھٹا=⅙)

4

4

 

اب فرض کریں کہ میت کا کُل ترکہ 24000 روپے ہے تو اسے میت کے ان مذکورہ ورثاء میں ایسے تقسیم کریں گے:

 

ورثاء

حصص

24(تصحیح)

27(عول)

27/24000=888.888

دو بیٹیاں

ثلثان (دو تہائی= ⅔)

16

16

888.888 ×16  =14222.22

بیوہ

ثمن (آٹھواں=⅛)

3

3

888.888 × 3 =2666.66

والد

سُدس (چھٹا=⅙)

4

4

888.888 × 4 =3555.55

والدہ

سُدس (چھٹا=⅙)

4

4

888.888 × 4 =3555.55

 

اس طرح اللہ سبحانہ وتعالى کے حکم  پہ  عمل ہو جاتا ہے اور ورثاء کو  ان کا مقرر کردہ حصہ بھی مل جاتا ہے۔ کرناصرف اتنا ہے کہ ذو اضعاف اقل کے مطابق حصص تقسیم کرنے ہیں، اور جتنے حصص درکار ہوں کل مال کے اتنے حصص بنا لینے ہیں۔ 

اگر ریاضی کے حساب سے اسے سمجھنا چاہیں تو مفروضہ کل ترکہ 24000 روپے مذکورہ افراد میں یوں تقسیم ہوگا:

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ وراثت کے متفقہ اصول کے مطابق  ہر وارث کو جتنا حصہ ملا ہے، اتنا حصہ ہی ریاضی کے طریقے پہ تقسیم کرنے سے ملا ہے۔ اور اس میں اللہ تعالى کے فرمان ’’مَا تَرَكَ‘‘ کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔  الغرض یہ حساب ہر لحاظ سے درست ہے۔

جبکہ ہمارے ممدوح کے بتائے گئے طریقے کے مطابق تو اللہ کے حکم پہ عمل ہی نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالى نے کل ترکہ میں سے دو تہائی، کل ترکہ میں سے آٹھواں، کل ترکہ میں سے چھٹا حصہ دینے کا حکم دیا  ہے، جبکہ وہ بعض ورثاء کو یہ حصہ کل ترکہ میں سے دیتے ہیں اور بعض کو باقی ترکہ میں سے۔

تنبیہ بلیغ:

اس ضمن میں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ ہمارے ممدوح نے اپنے نظریہ میراث کی بنیاد جس اصول پہ رکھی ہے وہ یہ ہے کہ:

’’کسی وارث کے لیے جو حصہ مقرر کر دیا جائے، اس میں کمی کسی صورت بھی نہیں ہونی چاہیے‘‘

لیکن یہ نظریہ ہی باطل ہے۔ کیونکہ یہ کبھی ضروری نہیں کہ ورثاء کے حصے یوں مقرر کیے جائیں کہ تمام ترکہ ان میں  پورا تقسیم ہو جائے اور کچھ بچے ہی نہ، بلکہ ہو سکتا ہے کہ حصص کے  مطابق ترکہ تقسیم ہونے  کے بعد بھی کچھ باقی بچ جائے اور وہ اسی تناسب سے ورثاء میں دوبارہ تقسیم کر دیا  جائے یوں انکے حصص میں متناسب اضافہ ہو جائے گا۔ علم میراث میں اسی کا نام ’’رد‘‘ ہے۔ مثلا میت کے ورثاء میں صرف اس کی والدہ ہے اور کوئی بھی  نہیں تو اسکا اصل مقرر حصہ ایک تہائی (%33.33) ہے ، لیکن چونکہ اور کوئی وارث نہیں ہے تو باقی کا دو تہائی (%66.66) بھی والدہ کو ہی دے دیا جائے گا۔

اور یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی ورثاء زیادہ ہوں توانکے حصص میں متناسب کمی کی جائے، اور  اسی صورت کو علم الفرائض کی اصطلاح میں ’’عول‘‘ کہتے ہیں کہ جس سے ہمارے ممدوح خار کھائے بیٹھے ہیں۔اس کی مثال اول الذکر مسئلہ ہے جسے ہم نے تفصیل سےحل کیا  ہے۔

یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ جب بھی کوئی قانون یا اصول مقرر کیا جاتا ہے تو وہ عمومی حالات کے لیے ہوتا ہے، اور ہمیشہ یہ امکان رہتا ہے کہ کچھ خاص صورتیں ہوں جو اس قانون یا اصول کے بجائے استثنائی ضوابط پہ قائم ہوں۔ جیسے نماز میں اصل قانون قیام کا ہے لیکن مریض کے لیے استثناء موجود ہے کہ وہ بیٹھ کر ادا کر لے اور اس کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹ کر نماز ادا کر لے۔ نماز میں سکون واطمینان کو لازم قرار دیا گیا ہے لیکن حالت جنگ بھی بھاگتے دوڑتے بھی نماز ادا کرنے کی رخصت ہے۔ تو یہ خاص حالات کے لیے استثناء ہے۔اسی طرح میراث کے باب میں بھی کچھ عمومی اصول وقوانین ہیں اور بعض خاص حالات میں چند استثناءات ہیں، جنہیں ’’رد‘‘ اور ’’عول‘‘  کے نام سے جانا جاتا ہے۔

عول کا باب بھی بہت منضبط ہے کہ چھے (6) اگر ذو اضعاف اقل (تصحیح مسئلہ) ہو تو 7،8،9،10 پہ عول ہوتا ہے۔ اور اگر بارہ (12) ہو تو وہ 13،15،17 پہ عول ہوتا ہے۔ اور اگر چوبیس (24) ہو توو ہ  صرف 27 پہ عول ہوتا ہے جیسا کہ ہمارے زیر بحث مسئلہ میں ہے۔

اور پھر قرآن مجید فرقان حمید میں بھی حصص کی کمی کا طریقہ  منصوص ہے جیسا کہ آیث میراث کی وضاحت میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ والدہ کے لیے ایک تہائی حصہ مقرر کیا گیا ہے بشرطیکہ میت کی اولاد یا دو سے زائد بہن بھائی نہ ہوں، اگر ان میں سے کوئی فریق بھی ہو گا تو میت کی والدہ کا حصہ ایک تہائی سے آدھا کم ہو جائے گا اور صرف چھٹا حصہ ملے گا۔اسی طرح میت عورت ہو اور اسکی اولاد نہ ہو تو اسکے خاوند کو کل ترکہ میں سے آدھا مل جائے گا، اور اگر اولاد ہو تو اس کا خاوند صرف چوتھائی ترکہ کا وراث بنے گا یعنی آدھا حصہ کم ہو جائے گا۔ اسی طرح میت اگر مرد ہے اور اسکی اولاد نہیں ہے تو اس کی بیوہ کو کل ترکہ میں سے چوتھا حصہ ملے گا، لیکن اگر میت کی اولاد ہو گی تو بیوہ کو چوتھے حصے کے بجائے آٹھواں حصہ ملے گا، یعنی اس طرح بیوہ کا حصہ آدھا رہ جائے گا۔ اسی طرح میت کی بیٹی اکیلی ہو تو ترکہ میں سے 50 فیصد کی مالک بنتی ہے لیکن اگر دو بیٹیاں ہوں تو ان میں سے ہر بیٹی کو 33.33 فیصد ملتا ہے پھر اگر انکے ساتھ ایک بھائی بھی ہو تو مزید کم ہو کر ان کا حصہ 25 فیصد فی کس رہ جاتا ہے اور 50 فیصد بھائی کو مل جاتا ہے۔ الغرض ورثاء کے زیادہ ہونے کے سبب حصص میں متناسب کمی تو قرآن مجید فرقان حمید کی نص میں موجود ہے ۔اور عول میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے!

اب کیا کیا جائے  کہ ہمارے ممدوح کو نہ تو قرآن کی صحیح سمجھ آسکی، نہ علم الفرائض (وراثت کا علم) سیکھ سکے، اور نہ ہی ریاضی کی کچھ سوجھ بوجھ حاصل کر سکے۔ انہیں صرف دو دونی چار کا پہاڑ آتا ہے جو  انہوں نے پڑھ کے سنا دیا، جبکہ یہ کچی کلاس کا دو دونی چار کا پہاڑا نہیں بلکہ بڑی کلاسوں  کی ریاضی ہے!۔ اور سامنے بیٹھے سامعین بھی سطحی سی تعلیم کے حامل ہیں یا تجاہل عارفانہ سے کا م لے رہے ہیں کہ ان کی ہاں میں ہاں ملائے جا رہے ہیں اور موصوف کی کھسیانی ہنسی سے محظوظ ہوتے ہوئے چودہ سو سال سے امت میں جاری علم میراث کو کوس رہے ہیں۔ سمجھ خود کو نہیں ہے اور غلط پوری امت کو کہا جا رہا ہے، یا للعجب!

گر نہ بیند بروز شپرہ چشم

چشمہ آفتاب را چہ گناہ

آخر میں ہم موصوف کو ناصحانہ گزارش کرتے ہیں کہ وحی الہی کے علوم میں اگر کوئی خامہ فرسائی کرنی ہی ہے تو اس علم کے ماہرین سے استفادہ کر لیں تاکہ ضلوا فأضلوا کی صف سے نکل سکیں۔ اور اگر فلسفہ میں سے حکمت نظریہ کی شاخ ریاضیات پہ بات کرنی ہے تو بھی اس فن کے ماہرین  سے فیض حاصل کریں تاکہ آپ دو دونی چار سے دو چار قدم آگے بھی بڑھ سکیں۔

إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ

مهم

ہمیں جو لنک موصول ہوا تھا، جس پہ موجود ویڈیو سننےکے بعد یہ مضمون تحریر کیا گیا تھا ، اب وہ ویڈیو لنک پہ موجود نہیں ہے۔اگر کسی صاحب کی دسترس میں  مذکورہ ویڈیو ہو تو ہمیں مہیا  فرما کر شکر یہ کا موقع دے۔

ذیل میں اس ویڈیو سے متعلق واٹساپ پیغام کی تصویر منسلک ہے، شاید یہ تصویر ویڈیو تلاش کرنے میں معاون ثابت ہو سکے۔

  • الثلاثاء PM 09:13
    2023-01-03
  • 2098

تعلیقات

    = 6 + 1

    /500
    Powered by: GateGold