میلنگ لسٹ

بريديك

موجودہ زائرین

باقاعدہ وزٹرز : 125151
موجود زائرین : 63

اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
278
فتاوى
56
مقالات
187
خطبات

تلاش کریں

البحث

مادہ

دور نبوی کے کھیل

دور نبوی کے کھیل

 

کھیلو ں کو تفریحی سرگر میوں میں اہم مقام حاصل ہے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم  نے بہت سے کھیلوں کی حوصلہ افزائی فرمائی  جبکہ کئی ایسے بھی تھے جن کو برے نتائج کی بناء پر ممنوع فر ما یا ۔مختلف کھیلو ں کی حیثیت بارے  جو شر یعت سے  رہنمائی ملتی ہے وہ درجہ ذیل ہے :

1       پیدل دوڑ:

سیدنا سلمہ بن اکو ع رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ ہم ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمر اہ ایک سفر میں جا رہے تھے قافلے  میں ایک ایسا انصا ر ی شخص بھی تھا جو بہت تیز دوڑ تا تھا اور وہ اپنے ہمراہیوں کو کہہ رہا تھا کہ کوئی مجھ سے مدینہ تک دوڑ لگا ئے گا؟   وہ دوڑ لگانے والوں کو پکا ر رہا تھا۔ میں نے اس شخص کو کہا کہ "تجھے  کسی معزز شخص کا احترام نہیں ہے  اور تو کسی شریف  آد می کا خیال نہیں کر تا ؟" مطلب یہ کہ سر عام ہر ایک سے مسا بقت طلب کیے جا رہا ہے۔ وہ آدمی کہنے لگا کہ مجھے اللہ کے رسول ﷺ کے علاوہ کسی کا خیا ل نہیں ہے۔

سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:  تب میں نے رسول اللہ سے اجا زت طلب کی اور عر ض کیا: میر ے ما ں باپ آپ پر قر با ن! اگر آپ منا سب سمجھیں تو مجھے اس شخص سے دوڑ لگا نے کی اجازت دے دیں۔  آپﷺ نےفر ما یا:تمہاری مرضی۔ سیدناسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے اس کے ساتھ مدینہ تک دوڑ لگائی اور غالب آیا۔([1])

اسی طرح رسول اللہﷺ نے اپنی اہلیہ کے ساتھ دوڑ لگائی لیکن اس کے لیے آپﷺ نے خالی جگہ کا انتخاب فرمایا۔ بلکہ باقی قافلے کو آگے بڑھ جانے کا حکم دیا اور بعد ازاں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دوڑ کی مسابقت فرمائی۔([2])

2       گھوڑدوڑ:

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ گھوڑ ے دو قسم کے ہوتے تھے۔ ایک وہ جو تر بیت یا فتہ اور دوسر ے جو غیر تیار شدہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں قسم کے گھو ڑو ں کی دوڑ لگوایا کر تے تھے۔ جو تیا ر شدہ گھو ڑے تھے ان کے لئے مقا م "حفیا ء" سے لیکر "ثنیۃ الو داع" تک  کا علاقہ تھا جو کہ چھ تا سا ت میل ہے، جبکہ جو گھوڑے غیر تیار شدہ ہوتے ان کی دوڑکا مقام "ثنیۃ الوداع" سے "مسجد بنی زریق" تک تھا جو کہ ایک میل ہے ۔([3])

3       اونٹ دوڑ:

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیا ن کر تے ہیں کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اونٹنی تھی جس کا  نام "العضباء" تھا، کوئی دوسرا اونٹ یا اونٹنی اس سے بڑھ نہیں پاتی تھی۔ ایک دفعہ  ایک بدو اپنے اونٹ پر آیا اور اس نے "عضباء" سے دوڑ لگائی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی سے آگے نکل گیا۔ یہ بات مسلمانوں پر گر اں گزری۔ وہ کہنے لگے:" العضباء" مغلوب ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فر ما یا : یقیناً اللہ پر حق ہے کہ وہ دنیا میں کسی چیز کو بلند نہیں کرتا مگر اسے نیچے بھی کرتا ہے ۔ ([4])

4       کشتی کرنا (مصارعت):

محمد بن علی بن رکا نہ بیا ن کر تے ہیں :

«أَنَّ رُكَانَةَ صَارَعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَرَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» ([5])

                 بےشک رکانہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کشتی کی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پچھاڑدیا۔

5       تیر اندازی:

 سیدنا سلمہ بن اکو ع ر ضی اللہ عنہ سے مر وی ہے کہ رسول اللہ بنو اسلم قبیلے کے ایک گر وہ پر سے گزرے جوبا زار میں تیر اندازی کا مقا بلہ کر رہے تھے تو آپ علیہ السلام نے فر ما یا :

«ارْمُوا بَنِي إِسْمَاعِيلَ فَإِنَّ أَبَاكُمْ كَانَ رَامِيًا ارْمُوا» ([6])

                 اے بنو اسما عیل! تیر چلاو۔ یقیناً تمہارا با پ تیر انداز تھا ۔

اس کے بعد مقابلہ کر نے والے دو نوں گر وہو ں میں سے ایک کے سا تھ آپ ﷺخو د شامل ہو گئے۔ دوسر ے گروہ نے دیکھا تو وہ مقا بلہ  سے ر ک گیا ۔ آپ ﷺنے فر ما یا: رک کیو ں گئے ہو ؟ انہو ں نے عر ض کیا کہ آپﷺ جس گر وہ کے ساتھ ہوں اس کے خلاف ہم کیسے مسابقت کر سکتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فر ما  یا:  چلو میں دونوں کے ساتھ ہوں ۔

عقبہ بن عامر ر ضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں  کہ میں نے رسول اللہ کو قر آن کا حکم    وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ   ارشاد کرتے ہوے سنا اور آپ باربا ر فر ما رہے تھے کہ قو ۃ سے مراد تیر اندازی ہے۔([7])

 نیز عقبہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :

«مَنْ عَلِمَ الرَّمْيَ ثُمَّ تَرَكَهُ فَلَيْسَ مِنَّا» ([8])

تر جمہ:      جو تیر اندازی سیکھ کر چھوڑ دے، وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔

ان احادیث سے واضح ہے کہ تیر اندازی کو کس قد ر اہمیت عہد نبوی میں حاصل تھی ۔

6       بر چھیو ں کے ساتھ کھیلنا :

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیان کر دہ روایت میں مذکور ہے کہ عید کے دن مسجد نبوی میں حبشیوں  نے برچھیوں کے سا تھ اپنےکھیل کا مظاہر ہ کیا نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مو جو د تھے اور سیدہ عائشہ نے بھی اس مظاہرے کو دیکھا ۔ ([9])

خوشی کے مو قع پر جنگی کر تب کا اظہا ر کیا جاتا تھا۔سنن ابی داود کی حدیث میں مذکور ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت کر کے تشر یف لا ئے تو آپ علیہ السلام کی آمد کی خو شی میں بھی حبشیوں نے اسی طرح بر چھیوں کے ساتھ کھیل کا مظاہر ہ کیا تھا ۔  ([10])

 

8       شکا ر کر نا :

شکا ر عر ب میں ایک اہم ذریعہ حصول معاش تھا ۔چنانچہ قرآن وحدیث میں اس کے احکام واضح طو ر پر دے دیے گے ہیں۔

 سورۃ مائدہ میں ہے:

 وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا  ([11])

تر جمہ:      اور جب تم حلال ہو جاؤ ( احرام کھول دو )تو شکا ر کر و۔

 مزید حکم ہے :

 يَسْـَٔلُوْنَكَ مَا ذَاۤ اُحِلَّ لَهُمْ قُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ وَ مَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ([12])

تر جمہ:      وہ آپ سے در یا فت کر تے ہیں کہ ان کے لیے کیا کچھ حلال ہے؟  آپ فر ما د یجئے کہ تما م پاک چیزیں تمھار ے لیے حلال کی گئی ہیں۔ اور جن شکا ر کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھا رکھا ہے، جس کی تعلیم تمھیں اللہ نے دے رکھی ہے ۔

 

            نا پسند یدہ کھیل :

بعض کھیل ایسے ہیں جن میں نفع کم اور نقصان کا پہلو غالب ہے، ان کو شر عاً ممنو ع قر ار دیا گیا ہے۔ ان میں سے اہم در ج ذیل ہیں:

۱:         نر دشیر :

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :

«مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدِ فَقَدْ عَصَى اللهَ وَرَسُولَهُ» ([13])

                جو نرد شیر کھیلتا ہے ، وہ یقیناً اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے۔

    «مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدَشِيرِ فَكَأَنَّمَا صَبَغَ يَدَهُ فِي لَحْمِ خِنْزِيرٍ وَدَمِهِ» ([14])

                 جو نرد شیر کھیلتا ہے تو وہ ایسے ہے جیسے اس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون میں رنگا ہے ۔

نرد شیر ایک عجمی کھیل تھا جس کو مضر اثر ات کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حر ام قر ار دیا۔ جبکہ شطر نج کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے ۔ امام مالک کی رائے یہ ہے کہ وہ حرام ہے ۔ ([15])

۲:         جوا:

اللہ تعالی نے جو اکھیلنے  کو حر ام دیا ہے :

 يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَيْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ([16])

                 اے اہل ایمان! بے شک شر اب اور جوا اور بت اور تیرشیطانی عمل کی پلیدی ہیں۔ ان سے بچو تا کہ کا میاب ہو جاؤ ۔

۳:        کبوتر بازی :

سیدنا ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے مر وی ہے، بے شک نبی کر یم علیہ السلا م نے ایک شخص کودیکھا جو کبوتر ی کے پیچھے تھا تو رسول اللہ کر یم علیہ السلام نے فر مایا :

«شَيْطَانٌ يَتْبَعُ شَيْطَانَةً» ([17])

تر جمہ:      شیطان، شیطانہ کے پیچھے ہے ۔

اس میں کبوتر  بازی کے نا پسندیدہ ہونے کی دلیل ہے اور یہ ایسا کھیل ہے جس کی اجازت نہیں ہے۔([18])

۴:        جانو ر لڑانا :

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ

«نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ التَّحْرِيشِ بَيْنَ الْبَهَائِمِ» ([19])

                 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانو روں کو ایک دوسر ے کے خلاف جوش دلانے سے منع فر مایا ۔

_______________

([1])          صحیح مسلم- کتاب الجہاد والسیر- باب غزوۃ ذي قرد وغیرھا- حدیث: 1807۔ ومسند أحمد- مسند المدنیین- بقیۃ حدیث ابن الأکوع في المضاف من الأصل- حدیث: 16539

([2])        مسند أحمد- حدیث: 24118- 24119۔ وسنن ابن ماجہ- حدیث: 1979۔ وسنن أبي داؤد- حدیث: 2578

([3])        صحیح البخاري- کتاب الجہاد والسیر- باب السبق بین الخیل- حدیث: 2868۔ وصحیح مسلم- حدیث: 1870۔ وسنن أبي داؤد- حدیث: 2575۔ وسنن الترمذي- حدیث: 1699

([4])        صحیح البخاري- کتاب الجہاد والسیر- باب ناقۃ النبی- حدیث: 2872۔ وسنن أبي داؤد- حدیث: 4802۔ وسنن النسائي- حدیث: 3588۔ ومسند أحمد- حدیث: 12010

([5])        سنن أبي داؤد- کتاب اللباس- باب في العمائم- حدیث: 4078۔ وسنن الترمذي- حدیث: 1784۔ والمستدرک علی الصحیحین للحاکم- حدیث: 5903، وانظر الإرواء: 1503

([6])        صحیح البخاري- کتاب الجہاد والسیر- باب التحریض علی الرمي- حدیث: 2899۔ ومسند أحمد- حدیث: 16528۔ والمستدرک علی الصحیحین للحاکم- حدیث: 2466

([7])          صحیح مسلم- کتاب الإمارۃ- باب فضل الرمي والحث علیہ- وذم من علمہ ثم نسیہ- حدیث: 1917۔ وسنن أبي داؤد- حدیث: 2514۔ وسنن الترمذي- حدیث: 3083

([8])          صحیح مسلم- کتاب الإمارۃ- باب فضل الرمي والحث علیہ- وذم من علمہ ثم نسیہ- حدیث: 1919۔ وسنن أبي داؤد- حدیث: 2513۔ وسنن النسائي- حدیث: 3578

([9])          صحیح البخاري- کتاب النکاح- باب حسن المعاشرۃ مع الأھل- حدیث: 5190۔ وصحیح مسلم- حدیث: 892۔وسنن النسائي- حدیث: 1595۔ ومسند أحمد- حدیث: 263228

([10])         سنن أبي داؤد- کتاب الأدب- باب في النہي عن الغناء- حدیث:4923۔ ومسند احمد- حدیث: 12649۔ وسنن الکبری للبیہقی- حدیث: 13528

([11])         المائدۃ: 2

([12])         المائدۃ: 4

([13])         مالك بن أنس بن مالك بن عامر الأصبحي المدني (ف: 179هـ)موطأ مالک بتحقیق الأعظمي- کتاب الرؤیا- باب ما جاء في النرد- حدیث: 3518۔ وسنن ابن ماجہ- حدیث: 3762۔ وسنن أبي داؤد- حدیث: 4938۔ ومسند أحمد- حدیث: 19521

([14])         صحیح مسلم- کتاب الشعر- باب تحریم اللعب بالنرد شیر- حدیث: 2260۔ وسنن أبي داؤد- حدیث: 4939۔ وسنن ابن ماجہ- حدیث: 3763۔ ومسند أحمد- حدیث: 23025

([15])         موطأ مالک بتحقیق الأعظمي- کتاب الرؤیا- باب ما جاء في النرد- حدیث: 3521

([16])         المائدۃ: 90

([17])         سنن أبي داؤد- کتاب الأدب- باب في اللعب بالحمام- حدیث: 4940۔ وسنن ابن ماجہ- حدیث: 3765۔ ومسند أحمد- حدیث: 8543۔ وشعب الإیمان للبیہقي- حدیث: 6113

([18])         نیل الأوطار للشوکاني- ج: 8- ص: 106- طبع: دار الحدیث مصر

([19])         سنن أبي داؤد- کتاب الجہاد- باب في التحریش بین البہائم- حدیث: 2562۔ وسنن الترمذي- حدیث: 1708۔ وشعب الإیمان للبیہقي- حدیث: 6119

  • الخميس AM 11:31
    2023-01-05
  • 1112

تعلیقات

    = 5 + 8

    /500
    Powered by: GateGold