میلنگ لسٹ

بريديك

موجودہ زائرین

باقاعدہ وزٹرز : 125154
موجود زائرین : 53

اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
278
فتاوى
56
مقالات
187
خطبات

تلاش کریں

البحث

مادہ

روزے کی جگہ فدیہ دینے کی شرعی حیثیت

روزے کی جگہ فدیہ دینے کی شرعی حیثیت

محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ

شروع اسلام میں اللہ سبحانہ وتعالى نے روزہ رکھنے یا فدیہ دینے کے درمیان اہل ایمان کو اختیار دیا تھا کہ جو چاہے روزہ رکھ لے اور جو چاہے روزہ نہ رکھے بلکہ فدیہ دے دے۔ اور بیمار یا مسافر جو بیماری یا سفر کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتے اور فدیہ بھی نہیں دے سکتے انہیں بیماری یا سفر ختم ہونے کے بعد روزوں کی تعداد پوری کرنے کا حکم دیا۔

اللہ تعالى کا فرمان ہے:

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ 

تو تم میں سے جو مریض ہو یا سفر پہ ہو وہ بعد کے دنوں میں رزوے پورے کر لے اور وہ لوگ جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں وہ ایک مسکین کا کھانا فدیہ میں دیں۔ اور جو بھی خوشی سے نیکی کرے تو وہ اسکے لیے بہتر ہے۔ اور اگر تم روزہ ہی رکھو (روزہ کی جگہ فدیہ نہ دو) تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔

سورۃ البقرۃ: 184

لیکن اسکے بعد اللہ سبحانہ وتعالى نے اگلی آیت نازل فرما کر فدیہ کی رخصت ختم کر دی اور سب کے لیے روزہ رکھنے کو ہی لازم قرار دے دیا۔

نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ عمر رضی اللہ عنہ نے پڑھا:

فِدْيَةُ طَعَامِ مَسَاكِينَ 

مساکین کے کھانے کا فدیہ ہے۔

تو فرمانے لگے:

 «هِيَ مَنْسُوخَةٌ»
یہ منسوخ ہے۔

صحیح البخاری: 1949

 

وہ آیت جس سے اللہ تعالى نے فدیہ کی رخصت کو منسوخ کیا وہ یہ ہے:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

رمضان کا مہینہ وہ ہے کہ جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ہدایت اور (حق وباطل میں) فرق کرنے کی واضح دلیلیں ہیں، تو تم میں سے جو اس مہینے میں موجود ہو (اس پر) لازم ہے کہ وہ اسکا روزہ رکھے اور جو بیمار ہو یا کسی سفر پہ ہو تو(اس پر) دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنا (لازم) ہے۔ اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی  کا ارادہ نہیں رکھتا اور تاکہ تم گنتی پوری کرو اور تاکہ اللہ نے جو تمہیں ہدایت دی ہے اس پر تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔

سورۃ البقرۃ: 185

سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

«كُنَّا فِي رَمَضَانَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَنْ شَاءَ صَامَ وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ فَافْتَدَى بِطَعَامِ مِسْكِينٍ»، حَتَّى أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ} [البقرة: 185]

ہم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں رمضان المبارک کے مہینہ میں تھے تو جو چاہتا روزہ رکھتا اور جو چاہتا روزہ نہ رکھتا بلکہ ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے دیتا۔ حتى کہ یہ آیت نازل ہوئی:

فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ

تو تم میں سے جو بھی اس مہینے میں موجود ہو اس پر لازم ہے کہ وہ اس ماہ کے روزے رکھے۔

صحيح مسلم: 1145

یعنی اس آیت کے نازل ہونے تک فدیہ والا معاملہ چلتا رہا اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو سب کو روزہ رکھنے  کا حکم دے دیا گیا اور فدیہ کی رخصت کو منسوخ کر دیا گیا۔ابن ابی لیلى رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

حَدَّثَنَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَزَلَ رَمَضَانُ فَشَقَّ عَلَيْهِمْ، فَكَانَ مَنْ أَطْعَمَ كُلَّ يَوْمٍ مِسْكِينًا تَرَكَ الصَّوْمَ مِمَّنْ يُطِيقُهُ، وَرُخِّصَ لَهُمْ فِي ذَلِكَ، فَنَسَخَتْهَا: {وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ} [البقرة: 184] فَأُمِرُوا بِالصَّوْمِ

ہمیں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بتایا کہ رمضان (کے روزوں) کی فرضیت نازل ہوئی تو ان پر شاق (دشوار) گزری، توطاقت رکھنے والوں میں سے جو بھی ہر دن ایک مسکین کو کھلا دیتا وہ روزہ چھوڑ دیتا اور انہیں اس کام کی رخصت دی گئی تھی۔ پھر اس (رخصت) کو {وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ}(اگر تم روزہ ہی رکھو تو تمہارے لیے بہتر ہے) نے منسوخ کر دیا، تو انہیں روزہ ہی رکھنے کا حکم دے دیا گیا۔

صحیح البخاری: قبل حدیث:1949، تغلیق التعلیق: جـ3 صـ185، السنن الکبرى للبیہقی: 7894

البتہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا موقف اسکے برعکس تھا وہ یہ سمجھتے تھے کہ فدیہ کی رخصت والی آیت منسوخ نہیں ہوئی بلکہ اسکا حکم باقی ہے۔ لیکن وہ اسے انتہائی بوڑھے شخص کے حق میں سمجھتے تھے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ موقف یعنی کہ " فدیہ والی آیت محکمہ ہے منسوخہ نہیں اور یہ شیخ فانی کے بارہ میں ہے " کس بناء پر تھا انکی کیا دلیل تھی ؟ حقیقت کا علم تو اللہ تعالى ہی کے پاس ہے لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ کے موقف پر بحث کے بعد میں جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ اس آیت "وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ" کو " وَعَلَى الَّذِينَ يُطَوَّقُونَهُ فَلاَ يُطِيقُونَهُ " پڑھتے تھے۔

عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو یہ پڑھتے ہوئے سنا: 

 وَعَلَى الَّذِينَ يُطَوَّقُونَهُ فَلَا يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ

اور ان لوگوں کے ذمہ ایک مسکین کا کھانا ہے جو (روزہ رکھنے کی) مشقت کے مکلف ٹھہرائے گئے ہیں لیکن وہ اسکی طاقت نہیں رکھتے تو ایک مسکین کے کھانے کا فدیہ ہے۔

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

 لَيْسَتْ بِمَنْسُوخَةٍ هُوَ الشَّيْخُ الْكَبِيرُ وَالْمَرْأَةُ الْكَبِيرَةُ لَا يَسْتَطِيعَانِ أَنْ يَصُومَا فَيُطْعِمَانِ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا 

یہ منسوخ نہیں ہے ، یہ بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت ہیں جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے تو وہ ہر دن کے بعد ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔

صحیح بخاری: 4505

 اس حدیث میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کو پہلے سے ہی بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کے بارے میں سمجھتے تھے نہ کہ بیمار اور مسافر کے بارےمیں ! اور کہتے تھے کہ یہ آیت جیسے نازل ہوئی ویسے ہی ثابت ہے اس میں کچھ بھی منسوخ نہیں ہوا۔

 جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول پیش کرنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ تو ہے لیکن ان لوگوں کے حق میں باقی ہے اور پھر وہ اس میں دائمی مریض کو بھی شامل کر دیتے ہیں ۔

 اور اسی حدیث سے ان لوگوں کا بھی رد ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یطیقونہ " کا معنى " لا یطیقونہ " ہے ۔

 الغرض ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہ آیت منسوخ نہیں ہے، اور صرف بوڑھے مرد وعورت کے لیے ہے کسی اور کے لیے نہیں ، اور اسکے الفاظ ہیں :" وَعَلَى الَّذِينَ يُطَوَّقُونَهُ فَلاَ يُطِيقُونَهُ "

اب ہم چلتے ہیں سید الفقہاء والمحدثین سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے طرز استدلال کی طرف کہ انہوں نے یہ استدلال کیسے کیا ؟ انکی قراءت میں الفاظ "وَعَلَى الَّذِينَ يُطَوَّقُونَهُ فَلاَ يُطِيقُونَهُ" یہ معنى دیتے ہیں کہ :  " اور وہ لوگ جو کوشش کرکے روزہ رکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ رکھ نہیں پاتے " 

ان الفاظ پر اگر آگے دیکھے بغیر غور کیا جائے تو یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ شیخ فانی اور شیخہ فانیہ فدیہ دے لیں کیونکہ بیمار جب مرض کی شدت ہو جائے تو اس میں تو روزہ رکھنے کی سکت ہی نہیں  اور اسکے لیے" فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ  (بعد کے دنوں میں گنتی پوری کرنا ہے)" کا فرمان جاری ہو چکا ہے اور مسافر کے لیے بھی . اور صرف ایسی کیفیت والے یہی لوگ بچتے ہیں یعنی بوڑھے مرد و عورت ، لہذا یہ حکم ان لوگوں کے لیے خاص ہے ۔

 اس طرز استدلال کو سمجھنے کے بعد اسکے سہو اور خطا کی طرف ہم چلتے ہیں : 

اس استدلال کا سہو اسی آیت سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ آیت کے اگلے الفاظ :

 وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ 

(اگر تم روزہ ہی رکھو تو تمہارے لیے بہتر ہے)

 اس استدلال کو باطل قرار دیتے ہیں !!!

 کیونکہ شیخ فانی اور شیخہ فانیہ میں جب قوت صیام ہی نہیں تو أن تصوموا خیر لکم (اگر تم روزہ ہی رکھو تو تمہارے لیے بہتر ہے) کا کیا معنى !!!

کیونکہ یہ تو تکلیف ما لا یُطاق ( یعنی ایسے کام کا کسی کو کہنا جس کی اس میں سکت نہیں) بن جاتی ہے۔ اور شارع حکیم کی طرف سے کبھی تکلیف ما لا یطاق ممکن ہی نہیں۔ بلکہ اسکا تو اصول ہے:

لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا

اللہ تعالى کسی کو بھی اسکی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔

سورۃ البقرۃ:286

یعنی وہ لوگ جن کے بارہ میں اللہ تعالى خود فرمائیں کہ لا یطیقونہ (یعنی وہ اسکی طاقت نہیں رکھتے) اور پھر انہی کو کہا جائے  وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ (اگر تم روزہ ہی رکھو تو تمہارے لیے بہتر ہے) مطلب کہ تم میں طاقت تو نہیں لیکن پھر بھی تم رکھ لو تو بہتر ہے۔ کیسا عجب مطالبہ ہے! اور یقینا ایسا مطالبہ اللہ سبحانہ وتعالى کی طرف سے نہیں ہوسکتا۔

 الغرض سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ استدلال اور موقف مبنی بر سہو ہے ۔

ان دلائل سے واضح ہوا کہ :

۱۔ فدیہ کی رخصت جب دی گئی تو یہ مسافر و مریض کے لیے خاص نہ تھی بلکہ ہر اس شخص کے لیے تھی جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتا ہو۔

۲۔ بعد میں اس رخصت کو منسوخ کر دیا گیا ہے ۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ منسوخ اس رخصت کو کیا گیا ہے جو دی گئی تھی اور وہ رخصت مریض ومسافر کے لیے نہ تھی جن کے حق میں رخصت تھی انہی کے حق میں منسوخ ہوگئی ۔

 مریض ومسافر نہ پہلے رخصت میں شامل تھے اور نہ ہی بعد میں ! بلکہ انہیں پہلے بھی صحت و اقامت کی حالت میں روزوں کی تعداد پوری کرنے کا کہا گیا تھا اور بعد میں بھی۔ خوب سمجھ لیں!

 ۳۔ اب مریض یا انتہائی بوڑھے کے لیے فدیہ کی رخصت محتاج دلیل ہے کہ قرآن وحدیث سے اس پر دلیل ہو کہ اللہ نے ان لوگوں کو فدیہ دینے کی رخصت دی ہے ! جیکہ ایسی کوئی ’’ دلیل ‘‘  ندارد !

 اور اللہ تعالى قرآن میں واضح لفظوں میں فرما رہے ہیں کہ " فدیہ کے حکم کو منسوخ کرکے اور روزے کو ہی لازم قرار دے کر اللہ تم پر آسانی کرنا چاہتے ہیں " یعنی اللہ رب العزت کے ہاں روزہ ہی رکھنا آسانی ہے۔

اس ساری بحث کے بعد یہ مسئلہ واضح ہوگیا کہ مریض صحت کی امید رکھیں اور جب صحت یاب ہوں تو جو روزے قضاء ہوئے وہ رکھ لیں۔ بلکہ اس سے پہلے ہی کوشش کریں کہ سردی کے موسم میں ٹھنڈے اور چھوٹے دن ہوتے ہیں ان دنوں میں روزہ رکھنے کی کوشش کریں امید واثق ہے کہ وہ روزے رکھ پائیں گے۔ اور روزوں کی قضائی دیتے ہوئے مسلسل رکھنا بھی ضروری نہیں آپ اپنی سہولت دیکھتے ہوئے ایک دن روزہ رکھ کر ایک دن کا ناغہ کر لیں یا ایک دن روزہ رکھ لیں اور دو دن کا وقفہ کر لیں۔ جیسے آسانی ہو ویسے کر لیں۔ لیکن رکھنا روزہ ہی ہوگا۔ فدیہ کا حکم منسوخ ہوچکا ہے۔

فائده:

اگر کوئی مریض صحت یاب نہیں ہوتا اور وہ اپنی زندگی میں روزے بھی نہ رکھ سکا۔ تو اسکی طرف سے اسکے اولیاء روزے رکھیں گے۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ»

جو شخص فوت ہو جائے اور اسکے ذمہ روزہ ہو تو اسکا ولی اسکی طرف سے روزہ رکھے۔

صحیح البخاری: 1952

  • الخميس PM 02:16
    2023-01-05
  • 1223

تعلیقات

    = 8 + 9

    /500
    Powered by: GateGold