میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
بیک وقت تین طلاقیں
سوال
بشیر احمد اور خادم حسین سکنہ چک نمبر 13 الف تحصیل نورپور تھل ضلع خوشاب نے اپنی اپنی بیویوں کو بیک وقت تین طلاقیں دے دیں جس کے بعد انھوں نے مسلک اہل حدیث سے فتوى حاصل کرکے اپنا اپنا گھر بسا لیا اور مسلک اہل حدیث قبول کر لیا۔ اہل علاقہ میں سے بعض شر پسند عناصر نے اس کے خلاف بریلوی مکتبہ فکر کے رضوی گروہ سے فتوی حاصل کیا اور تکفیر گزیدہ فتوے کے مطابق بشیر احمد کو مسجد میں داخل ہونے اور نماز پڑھنے سے روک دیا گیا۔ جس پہ بشیر احمد نے تھانہ نورپورتھل میں اس مذہبی منافرت کے خلاف درخواست دے دی۔ جس پہ ایس ایچ او انعم صاحبہ نے فریقین کے علماء کے مابین بدھ کے دن نشست طے کر دی۔ اس مناظرانہ نشست کو درمیان میں ہی روک دیا گیا اور یہ طے پایا کہ اہل حدیث مکتبہ فکر کے علماء اپنے دلائل تحریر کرکے دیں جس پہ بریلوی مکتبہ فکر سے ان دلائل کا جواب طلب کیا جائے گا۔ پھر یہ کیس وفاقی شرعی عدالت بھیجیں گے اور وہ اس پہ فیصلہ کرے گی۔ ہمیں اس حوالے سے مفصل رہنمائی درکار ہے۔ مفتی عبد القیوم مدرسہ معاذ بن جبل چک 29 ایم بی، نورپور تھل
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
اللہ سبحانہ وتعالى نے طلاق دینے کا ضابطہ بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ
اے نبی! صلى اللہ علیہ وسلم جب تم عورتوں کو طلاق دو،تو انہیں انکے مقررہ وقت میں طلاق دو۔
سورۃ الطلاق:1
اور طلاق دینے کا مقررہ وقت نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا ہے:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ، وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ العِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ
انہوں نے دورنبوی میں اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی ، توسیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے حکم دے کہ وہ اس سے رجوع کرے، پھر اسے روکے رکھے حتى کہ وہ (حیض سے) پاک ہو جائے، پھر اسے حیض آئے، پھر پاک ہو، پھر اگر وہ چاہے تو اس کے بعد روکے رکھے اور اگر چاہے تو اسے مباشرت سے قبل طلاق دے دے۔ یہ وہ مقررہ وقت ہے کہ اللہ نے جس وقت میں عورتوں کو طلاق دینے کی اجازت دی ہے۔
صحیح البخاری: 5251
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ:
1- شریعت نے طلاق دینے کا ایک وقت مقرر کیا ہے، لہذا اس مقررہ وقت میں ہی طلاق دی جائے۔ اس وقت مقررہ میں دی گئی طلاق ، طلاق سنی کہلائے گی اور اس وقت کے علاوہ دی گئی طلاق طلاق بدعی یا طلاق محرم (یعنی حرام طلاق) کہلائے گی، کیونکہ یہ اللہ تعالى کے حکم :
يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ
اے نبی! صلى اللہ علیہ وسلم جب تم عورتوں کو طلاق دو،تو انہیں انکے مقررہ وقت میں طلاق دو۔
سورۃ الطلاق:1
کی خلاف ورزی ہے، اور یہ بات مسلّمہ ہے کہ اللہ تعالى کی حکم عدولی حرام ہے۔ اس بات پہ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔
امام ابو محمد عبد الوہاب فرماتے ہیں:
طلاق الحائض محرم بإجماع
حائضہ عورت کو طلاق دینا بالاجماع حرام ہے۔
المعونۃ على مذہب عالم المدینۃ:1/834
امام ابن حزم ظاہری فرماتے ہیں:
لَا خِلَافَ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ قَاطِبَةً، وَفِي جُمْلَتِهِمْ جَمِيعُ الْمُخَالِفِينَ لَنَا فِي ذَلِكَ فِي أَنَّ الطَّلَاقَ فِي الْحَيْضِ أَوْ فِي طُهْرٍ جَامَعَهَا فِيهِ: بِدْعَةٌ نَهَى عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ - مُخَالِفَةٌ لِأَمْرِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ –
تمام تر اہل علم میں سے کسی کا اختلاف نہیں اور ان میں اس مسئلے میں ہمارے مخالفین بھی شامل ہیں کہ حیض کی حالت میں ، یا اس طہر میں جس میں مرد نے اپنی بیوی سے جماع کیا ہو، طلاق دینا بدعت ہے، رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، یہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے حکم کی مخالفت ہے۔
المحلى لابن حزم: 13/404 (1959)
تنبیہ بلیغ:
طلاق بدعی یا طلاق محرم واقع نہیں ہوتی، کیونکہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ
جس نے بھی کوئی بھی ایسا کام کیا جس پہ ہمارا امر نہ ہو، تو وہ کام مردود ہے۔
صحیح مسلم: 4590
2- حالت حیض میں طلاق دینا منع ہے! البتہ اگر کوئی اس حالت میں طلاق دے دے تو واقع ہو جاتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس طلاق کوهِيَ وَاحِدَةٌ (یہ ایک ہے) کہہ کر شمار فرمایا تھا ( سنن الدارقطنی 3912) ۔ اور مسند ابی داود الطیالسی (67) میں فَجَعَلَهَا وَاحِدَةً (اسے ایک قرار دیا) اور سنن دار قطنی(3918) میں وَتُحْتَسَبُ بِهَذِهِ التَّطْلِيقَةِ الَّتِي طَلَّقَ أَوَّلَ مَرَّةٍ (اور یہ جو پہلی مرتبہ طلاق دی ہے اسے شمار کیا جائے گا) کے الفاظ سے اس طلاق کا مؤثر ہونا واضح ہے۔
تنبیہ بلیغ:
بعض اہل علم نے اس حدیث سے یہ اصول کشید کیا ہے کہ ہر بدعی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ کیونکہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو حیض کی حالت میں طلاق دی تھی جو کہ خلاف سنت تھی، اور نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے اسے طلاق شمار فرمایا تھا، لہذا ہر خلاف سنت طلاق واقع ہو جائے گی۔
لیکن یہ قاعدہ محل نظر ہے!
کیونکہ یہ استثناء ہے، اور مستثنیات کو کبھی قاعدہ کلیہ نہیں بنایا جاسکتا، کیونکہ اگر ایسا کیا جائے تو وہ اصل اصول او ر قاعدہ جس سے یہ استثناء ہے وہ کالعدم ہو جاتا ہے۔ طلاق کے باب میں اصل قاعدہ ہے :
فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ
انہیں انکے مقررہ وقت میں طلاق دو
[سورۃ الطلاق:1]
اور یہ قاعدہ نص قرآنی میں ہے۔ جبکہ ہر بدعی طلاق کے وقوع کا قاعدہ کسی شرعی نص میں نہیں ہے بلکہ اجتہادی و استنباطی قاعدہ ہے، اور یہ واضح ہے کہ نص اور اجتہاد میں تناقض کی صورت میں نص کو ہی ترجیح ہوگی، وگرنہ حکم شریعت معطل ہو جائے گا ، اور حکم شرع کو کالعدم کرنا کفر ہے!
اگر ہم یہ قاعدہ مان لیں کہ ہر بدعی طلاق واقع ہو جاتی ہے تو حکم شریعت فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ معطل و معدوم ہو جائے گا۔ کیونکہ شرع کا حکم ہے کہ مقررہ وقت میں طلاق دو، جبکہ یہ قاعدہ کہتا ہے کہ جب بھی طلاق دو، طلاق ہو جائے گی! تو طلاق کا وقت مقرر کرنے اور وقت مقررہ پہ طلاق دینے کا شرعی حکم لغو ٹھہرتا ہے!!!
لہذا یہ واضح ہے کہ اصل ضابطہ اور قاعدہ یہی ہے کہ سنت کے مطابق طلاق دی جائے تو واقع ہوگی، وگرنہ نہیں۔ البتہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق اس اصول سے مستثنى ہے کیونکہ اس پہ نص موجود ہے۔ اور اسی طرح بلا رجوع دی گئی تین طلاقوں میں سے بھی ایک طلاق واقع ہو جائے گی کہ اس پہ بھی صحیح مسلم کی نص موجود ہے، جو کہ آگے آ رہی ہے۔
3- عورتوں کو طلاق دینے کے لیے اللہ تعالى نے ایک وقت مقرر کیا ہے، سو اسی وقت میں طلاق دی جائے(کما تقدم)۔ اس وقت کے علاوہ دی گئی طلاق واقع نہیں ہوگی ما سوا طلاق حیض کہ اس کے استثناء کی دلیل موجود ہے (کما تقدم) اور بلا رجوع ایک سے زائد طلاقوں میں سے ایک کے واقع ہونے پہ بھی دلیل موجود ہےخواہ ایک مجلس ہو یا الگ الگ مجالس میں طلاق دی جائے:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كَانَ الطَّلاَقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَأَبِى بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلاَفَةِ عُمَرَ طَلاَقُ الثَّلاَثِ وَاحِدَةً فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِى أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ. فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ.
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ادوار اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور کے پہلے دو سال تک تین طلاق کو ایک ہی طلاق سمجھا جاتا تھا۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس کام میں لوگوں کے لیے مہلت تھی انہوں نے اس میں جلدی کرنا شروع کر دی ہے تو ہم ان پہ یہ لازم ہی کر دیں، سو انہوں نے اسے لازم کر دیا۔
( صحيح مسلم: 1472)
اس حدیث سے واضح ہے کہ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے دور مسعود میں تین طلاقیں جیسے بھی دی جاتی تھیں انہیں ایک ہی شمار کیا جاتا تھا، خواہ وہ ایک مجلس میں ہوں یا الگ الگ مجالس میں! کیونکہ حدیث میں ان ایک شمار کی جانے والی تین طلاقوں کو مجلس واحد سے مقید نہیں کیا گیا۔ (خوب سمجھ لیں!) سو جس طرح سے بھی کوئی تین طلاقیں دے وہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی، ماسوا اس طلاق کے کہ جس کےبعد مرد نے رجوع کر لیا اور پھر دوسری طلاق دی اور پھر رجوع کرکے تیسری طلاق دی تو ا س صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوں گی کیونکہ ان کے واقع ہونے پہ دلائل موجود ہیں، جن میں سے فرمان باری تعالى : الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ (طلاق دو مرتبہ ہے) [سورۃ البقرۃ: 229] بھی ہے۔
4- ایک طلاق دینے کے بعد دوسری طلاق دینے کے لیے رجوع ضروری ہے، کیونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کو بھی سنت کے مطابق طلاق دینے کے لیے رجوع کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
نیز اللہ تعالى کا فرمان ہے:
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ
طلاق دو مرتبہ ہے، پھر یا تو معروف طریقے سے روک لینا ہے، یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔
سورۃ البقرۃ: 229
یعنی پہلی اور دوسری طلاق کے بعد صرف دو ہی کام کرنے کی اجازت ہے: یا تو اچھے طریقے سے روک لیا جائے یعنی رجوع یا بعد از عدت تجدید نکاح کے ذریعے گھر بسا لیا جائے یا پھر احسان کرتے ہوئے چھوڑ دیا جائے یعنی طلاق کی عدت ختم ہونے دی جائے حتى کہ عورت آزاد ہو کر کہیں بھی اور نکاح کے قابل ہو جائے۔ اسکے علاوہ کوئی اور کام یعنی طلاق دے کر عدت کے دوران دوبارہ طلاق دے دینا شرع میں نہیں ہے! اور جس کام کی شرع میں اجازت نہ ہو وہ کام شرعًا باطل و مردود ہوتا ہے، کیونکہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ
جس نے بھی کوئی بھی ایسا کام کیا جس پہ ہمارا امر نہ ہو، تو وہ کام مردود ہے۔
صحیح مسلم: 4590
لہذا ایک طلاق کے بعد رجوع کیے بنا دوسری طلاق دینے کا عمل ہی شرعی طور پر مسترد (rejected ) ہے۔
آیت مذکورہ سے واضح ہے کہ ایک طلاق دینے کے بعد مرد کے پاس صرف دو اختیارات ہیں یا تو وہ بیوی سے رجوع کر لے اور یا پھر اسے چھوڑ دے تاکہ اسکی عدت ختم ہونے پہ یہ طلاق موثر ہو جائے۔ یعنی مرد کو ایک طلاق دینے کے بعد دوسری طلاق دینے کا حق ہی نہیں ہے جب تک وہ رجوع کرکے پہلے طلاق کو غیر مؤثر نہ کر لے۔ یہی وجہ ہےکہ نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے دور مسعود میں اگر کوئی شخص رجوع کیے بنا دوسری یا تیسری طلاق دے دیتا تو اسے شمار نہیں کیا جاتا تھا بلکہ صرف ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھی۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كَانَ الطَّلاَقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَأَبِى بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلاَفَةِ عُمَرَ طَلاَقُ الثَّلاَثِ وَاحِدَةً فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِى أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ. فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ.
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ادوار اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور کے پہلے دو سال تک تین طلاق کو ایک ہی طلاق سمجھا جاتا تھا۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس کام میں لوگوں کے لیے مہلت تھی انہوں نے اس میں جلدی کرنا شروع کر دی ہے تو ہم ان پہ یہ لازم ہی کر دیں، سو انہوں نے اسے لازم کر دیا۔
( صحيح مسلم: 1472)
اس حدیث میں یہ واضح ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے دور مسعود میں یکبارگی تین طلاق کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا۔ اور یہ بات واضح ہے کہ شریعت نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے حیات طیبہ میں مکمل ہو گئی تھی۔ گویا اس کامل شریعت میں یکبارگی تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا تصور تک نہ تھا۔
پھر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا اس میں بھی تمام مسلمان اس بات پہ متفق تھے کہ یکبارگی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوگی، اور مسلمانوں کا یہ اجماع سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی اور اس کے بعد بھی جاری رہا۔ البتہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب یہ دیکھا کہ لوگ تین طلاقیں بلارجوع دینے لگے ہیں جو کہ خلاف شریعت عمل ہے تو انہیں شرع کی اس مخالفت سے روکنے کے لیے تعزیری سزا یہ مقرر کر دی کہ اگر کوئی کسی بھی طرح سے تین طلاق دے دے گا تو ہم اسے پہ یہ تینوں طلاقیں ہی لازم کر دیں گے۔
یادرہے کہ سیدنا عمر فاروق ؓ کا یہ فیصلہ سیاسی اور تہدیدی تھا جیساکہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار 6/511،جامع الرموز 1/506،مجمع الأنہر شرح ملتقی الأبحر میں بھی لکھا ہے:
’’وَاعْلَمْ أَنَّ فِي صَدْرِ الْأَوَّلِ إذَا أَرْسَلَ الثَّلَاثَ جُمْلَةً لَمْ يُحْكَمْ إلَّا بِوُقُوعِ وَاحِدَةٍ إلَى زَمَنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ -، ثُمَّ حَكَمَ بِوُقُوعِ الثَّلَاثِ لِكَثْرَتِهِ بَيْنَ النَّاسِ تَهْدِيدًا
اسلام کے ابتدائی دور سے لیکر عمر ؓ دور خلافت تک جب اکٹھی تین طلاقیں بھیجی جاتیں تو ان پر ایک طلاق کا حکم لگایا جاتا پھر جب یہ عادت لوگوں میں زیادہ ہوگئی تو پھر تہدیدی طور پر تین طلاقوں کا حکم لگا دیا گیا ۔‘‘
فقہ حنفی کی محولہ کتب کی اس صراحت سے یہ بات ظاہر ہو گئی ہے کہ سیدنا عمر ؓ کا فیصلہ سیاسی اور تہدیدی تھا ۔جبکہ رسول اللہﷺکا فیصلہ شرعی اور حتمی ہے ۔لہذا ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق کا حکم رکھتی ہیں جسکے بعد خاوند کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہے ۔
اس حوالے سے بریلوی مکتبہ فکر کے معروف عالم سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت پیر کرم شاہ الازہری فرماتے ہیں :
’’اس کے متعلق گزارش ہے کہ حضور کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے فرمان عالیشان کے سامنے کسی کا قول حجت نہیں۔‘‘
دعوت فکر و نظر: صفحہ 27
یعنی رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان تو یکبارگی تین طلاق کو ایک قرار دینے کا ہے، لہذا نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فیصلہ شرعی دلیل و حجت نہیں بن سکتا۔
مزید لکھتے ہیں:
’’لیکن ایک خلجان ابھی تک موجود ہے جس کا ازالہ از حد اہم ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب طلاق ثلاث ایک طلاق شمار کی جاتی تھی تو الناطق بالصدق والصواب الفاروق بین الحق والباطل حضرت امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے برعکس حکم کیوں دیا۔
تو اس کے متعلق گزارش یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ ملاحظہ فرمایا کہ لوگ طلاق ثلاث کی حرمت کو جانتے ہوئے اب اس کے عادی ہوتے چلے جا رہے ہیں توآپ کی سیاست حکیمانہ نے ان کو اس امر حرام سے باز رکھنے کے لیے بطور سزا حرمت کا حکم صادر فرمایا۔ اور خلیفہ وقت کو اجازت ہے کہ جس وقت وہ دیکھے کہ لوگ اللہ کی دی ہوئی سہولتوں اور رخصتوں کی قدر نہیں کر رہے اور ان سے استفادہ کرنے سے رک گئے ہیں اور اپنے لیے عسر و شدت پسند کر رہے ہیں تو بطورتعزیر انہیں ان رخصتوں اور سہولتوں سے محروم کرنے کے بعد وہ اس سے باز آ جائیں۔
حضرت امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے یہ حکم نافذ کرتے ہوئے یہ نہیں فرمایا کہ حضور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کا یوں ارشاد گرامی ہے بلکہ کہا :
فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ (’’کاش ہم اس کو ان پر جاری کر دیں۔‘‘)
ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ یہ آپ کی رائے تھی اور امت کو اس فعل سے باز رکھنے کے لیے یہ تعزیری قدم اٹھایا گیا تھا۔ اس تعزیری حکم کو صحابہ کرام نے پسند فرمایا اور اسی کے مطابق فتوے دیے۔
لیکن حدود کے علاوہ تعزیرات اور سزائیں زمانہ کے بدلنے سے بدل جایا کرتی ہیں۔ اگر کسی وقت کوئی مقررہ تعزیر سے بجائے فائدہ کے الٹا نقصان ہو اور مصلحت کی جگہ فساد روپذیر ہونے لگے تو اس وقت تعزیر کا بدلنا از حد ضروری ہو جاتا ہے۔‘‘ انتہی۔
دعوت فکر و نظر: صفحہ 27،28
بریلوی مکتبہ فکر کے پیر صاحب کی اس صراحت سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فیصلہ تعزیری اور سیاسی فیصلہ تھا، کوئی شرعی فیصلہ نہ تھا۔ اور یہ بھی واضح ہوا کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت نہیں کی کیونکہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا حکم شرعی تھا جبکہ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کا حکم سیاسی و تعزیری تھا۔ اور نہ ہی امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے دور صدیقی اور اپنے دور، دور فاروقی کے آغاز میں موجود مسلمانوں کے اجماع کی مخالفت کی کیونکہ مسلمانوں کا اجماع و اتفاق شرعی مسئلہ پہ تھا کہ شریعت کی رو سے بلا رجوع تین طلاقیں ایک شمار ہونگی جبکہ امیر المؤمنین نے انہیں تین قرار دینا کا حکم بطور سزا نافذ فرمایا تھا۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بعد میں اس فیصلہ پر پشیمانی کا اظہار بھی فرمایا تھا جیسا کہ ابن القیم رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے جو رجوع کے قائم مقام ہے۔
خالد بن یزید بن ابو مالک اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
مَا ندمتُ عَلى شيءٍ ندامتِي عَلى ثلاثٍ : أَنْ لَا أَكُونَ حرمتُ الطَّلاقَ وعَلى أَنْ لَا أَكونَ أَنكحت المَوَالِي وَعَلى أَن لَا أَكُون قتلتُ النَّوائِح
مجھے تین چیزوں پر ندامت ہے :
1۔میں نے طلاق کو حرام نہ کیا ہوتا۔
2۔آزاد کردہ عورتوں سے نکاح نہ کرایا ہوتا۔
3۔اور کاش نوحہ کرنے والیوں کو میں نے قتل کرنے کا حکم جاری نہ کیا ہوتا۔
[اغاثة اللفهان:1/336]
ظاہر ہے اس سے مطلق طلاق دینا حرام نہیں بلکہ اکٹھی تین طلاقوں کو نافذ کرنے کا مسئلہ ہے۔
بعض لوگوں نے مسند عمر کے حوالے سے ابن قیم رحمہ اللہ کے ذکر کردہ مذکورہ قول کی سند پر اعتراض کیا ہے کہ اس کی سند میں موجود راوی خالد بن یزید بن ابو مالک ضعیف ہے مگر یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس کو ثقہ کہا ہے ۔دیگر کبار ائمہ نے بھی مذکورہ راوی کی توثیق کی ہے۔
[مسئلہ طلاق،صفحہ نمبر227-226]
المختصر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اپنے اس فیصلہ پر پشیمان ہونا ان کے رجوع کے قائم مقام ہے۔
تنبیہ بلیغ:
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے اس اثر کی سند مرسل ہے، جوکہ اصحاب الحدیث کے نزدیک ضعیف ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ اس مسئلے میں جواب احناف کو ہے ، اور انکے نزدیک مرسل روایت حجت ہوتی ہے بلکہ خیر القرون میں انقطاع و ارسال وتدلیس کچھ بھی انکے نزدیک مضر نہیں!، سو انکی ضیافت طبع کے لیے اسے درج کیا گیا ہے۔
رضی الدین محمد بن ابراہیم المعروف بابن الحنبلی، حنفی’’قفو الأثر‘‘ میں فرماتے ہیں :
وَالْمُخْتَار فِي التَّفْصِيل قبُول مُرْسل الصَّحَابِيّ إِجْمَاعًا ومرسل أهل الْقرن الثَّانِي وَالثَّالِث عندنَا
اس مسئلے کی تفصیل میں مختار قول یہ ہے کہ صحابی کی مرسل حدیث مطلقاً اور دوسرے اور تیسرے قرن کی مرسل حدیث (حنفیہ کے نزدیک ) قابل ِ قبول ہے
قفو الأثر في صفوة علوم الأثر: ۱/۶۷
امام بزدوی’’کنزالأصول إلی معرفۃ الأصول‘‘ میں فرماتے ہیں :
وأما إرسال القرن الثاني والثالث فحُجة عندنا ، وهو فوق المسند ، کذا ذکره عیسی بن أبان
أصول البزدوَي: ۱۷۱-۱۷۳
دوسری اور تیسری صدی کا ارسال ہمارے نزدیک حجت ہے، اور وہ مسند سے بھی اوپر (زیادہ قوی) ہے، اسی طرح یہ بات عیسى بن ابان نے ذکر کی ہے۔
اور حسام الدین فرماتے ہیں:
فالمرسل من الصحابي محمول علی السماع ، ومن القرن الثاني والثالث علی أنه وضح له الأمر واستبان له الإسناد، و هو فوق المسند
صحابی کی مرسل سماع پر محمول ہے، اور دوسری اور تیسری صدی کی مرسل بھی کہ اس کے لیے معاملہ واضح ہوا ، اور سند ظاہر ہوئی، اور وہ مسند سے بھی بڑھ کر ہے۔
منتخب الحسامي مع شرحہ النامي: ۱/۱۳۶-۱۳۷
احمد یار خاں نعیمی بریلوی فرماتے ہیں:
’’اور ہمارے اور جمہور کے نزدیک تو خود ارسال بھی سند کا عیب نہیں، اور حدیث مرسل مقبول ہے۔‘‘
جاء الحق: صفحہ 81
ظفر احمد عثمانی لکھتے ہیں:
فأن كان المدلس من ثقات القرون ا لثلاثة يقبل تدليسه كإرساله مطلقا، وإن كان ممن دون هؤلاء ففيه تفصيل قد مر عن قريب
تو اگر مدلس قرون ثلاثہ کے ثقات میں سے ہے تو اس کی تدلیس بھی اس کے ارسال کی طرح مطلقا قبول کی جائے گی، اور اگر اس سے نیچے کے طبقات میں ہو تو اس میں تفصیل ہے جو کہ ابھی گزری ہے۔
قواعد في علوم الحديث : ص 159
مزید لکھتے ہیں:
أن المستور في القرون الثلاثة مقبول عندنا
قرون ثلاثہ کا مستور( مجہول الحال) ہمارے نزدیک مقبول (قابل حجت) ہے۔
إعلاء السنن: 511
نيز فرماتے ہیں:
والانقطاع في القرون الثلاثة لا يضر عندنا
قرون ثلاثہ میں انقطاع ہمارے نزدیک مضر نہیں ہے۔
اعلاء السنن 521
اسی طرح لکھتے ہیں:
لأن مراسيل الثقات حجة عندنا
کیونکہ ثقہ راویوں کی مراسیل ہمارےنزدیک حجت ہیں۔
اعلاء السنن : 189
مزيد فرماتے ہیں:
والإرسال لا يضر عندنا
اور ارسال ہمارے نزدیک مضر نہیں ہے۔
اعلاء السنن : 228
امین صفدر اوکاڑوی صاحب لکھتے ہیں:
خوب یاد رکھیں کہ خیر القرون یعنی پہلےنو طبقوں کے راویوں کا ارسال، انقطاع، تدلیس یا جہالت ہمارے ہاں کوئی جرح نہیں ۔
تجلیات صفدر ، جلد2 صفحہ 99
درج بالا اقوال کی رو سے احناف کے اصول کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اپنے فیصلے پہ اظہار ندامت صحیح و ثابت ہے۔
اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ کا فتوى بھی ہے :
إِذَا قَالَ: «أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا بِفَمٍ وَاحِدٍ فَهِيَ وَاحِدَةٌ»
جب وہ (خاوند) بیک زباں کہے کہ تجھے تین طلاق، تو وہ ایک ہی ہے۔
سنن ابی داود: 2197
اور امام ابو داود رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ پہلے ان تین طلاقوں کوقضائے فاروقی کی رو سے بطور تعزیر تین ہی قرار دیتے تھے لیکن بعد میں اس سے رجوع فرما لیا اور ایک ہی طلاق قرار دینے لگے۔
ثُمَّ إِنَّهُ رَجَعَ عَنْهُ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ
بعد میں انہوں نے یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ نے رجوع فرما لیا۔
سنن ابی داود: 2198
انکے شاگر عکرمہ رحمہ اللہ بھی یہی موقف رکھتے تھے
سنن ابي داود: 2197
اور امام طاوس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هِيَ وَاحِدَةٌ عَلَى كُلِّ حَالٍ
یہ تین طلاقیں ہر حال میں (یعنی الگ الگ الفاظ سے دی جائیں یا ایک ہی لفظ سے) ایک ہی ہوگی۔
مصنف عبد الرزاق: 11087
سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت پیر کرم شاہ ازہری آیت ’’ الطلاق مرتان‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’عرب میں رواج تھا کہ خاوند اپنی بیوی کو ان گنت بار طلاق دے سکتا تھا۔ چنانچہ مفسر کبیر ابن جریر لکھتے ہیں کہ مرد جتنی بار چاہتا اپنی بیوی کو طلاق دیتا کوئی پابندی نہ تھی اور ہر بار عدت گزرنے سے پہلے وہ رجوع کر سکتا تھا۔ ایک دفعہ ایک انصاری نے اپنی بیوی کو دھمکی دی لا أقربك ولا تحلين مني کہ نہ تو میں تمھارے نزدیک جاؤں گا اور نہ تو مجھ سے آزاد ہو سکے گی۔ اس کی بیوی نے اس سے پوچھا یہ کیسے؟ تو وہ بولا کہ میں تمھیں طلاق دے دیا کروں گا اور عدت گزرنے سے پہلے رجوع کر لیا کروں گا۔ وہ اپنے تاریک مستقبل کا تصور کرکے لرزگئی اور شکوہ کناں بارگاہ رسالتمآب رحمۃ للعالمین صلى اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئی اور اپنی مظلومیت کی داستان عرض کی۔ پروردگار عالم نے اپنے حبیب مکرم پر یہ آیت نازل فرمائی جس نے عورت کے بیشتر مصائب کا خاتمہ کر دیا۔ خاوند کے حق طلاق کو تین بار تک محدود کر دیا۔ ایک بار طلاق دینے کے بعد اسی طرح دوسری بار طلاق دینے کے بعد وہ اپنی بیوی سے رجوع کر سکتا ہے اور اگر اس نے تیسری بار بھی طلاق دے دی تو اب اس کا تعلق اس عورت سے بالکل منقطع ہوگا۔ اب اسے رجوع کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔‘‘
ضیاء القرآن، جلد اول صفحہ 156،157
تنبیہ بلیغ:
بعض احباب یہ سمجھتے ہیں کہ طلاق بدعی / محرم کے واقع نہ ہونے کا نظریہ سب سے پہلے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے پیش کیا، ان سے قبل طلاق بدعی کے وقوع پہ اجماع تھا، انہوں نے اس اجماع کی مخالفت کی۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے! کیونکہ بدعی طلاق کے واقع نہ ہونے کے قائلین ہر زمانہ میں موجود رہے ہیں، مثلا:
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے دور مسعود اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت اور عہد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سال تک تین بدعی طلاقوں کو تین شمار نہیں کیا جاتا تھا بلکہ صرف ایک طلاق جو کہ طلاق سنت ہوتی اسے شمار کرکے باقی دو بدعی طلاقوں کو مسترد کر دیا جاتا تھا۔
صحيح مسلم: 1472
اور اس سے طلاق بدعی کا باطل ہونا مرفوعا بھی ثابت ہوا ، اور اجماع صحابہ سے بھی!
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد بھی بدعی طلاق کو کالعدم شمار کرنے والے بہت سے لوگ ملتے ہیں مثلا:
امام طاوس رحمہ اللہ خلاف سنت دی گئی طلاق کو طلاق شمار نہیں فرماتے تھے!
مصنف عبد الرزاق: 1092
اسی طرح خلاس بن عمرو رحمہ اللہ بھی طلاق بدعی کو طلاق نہیں مانتے تھے۔
محلى ابن حزم : 9/377
اسی طرح امام ابوبکر جصاص بھی طلاق بدعی کے وقوع کے قائل نہ تھے۔
احکام القرآن للجصاص: 2/75،76
اور امام ابن حزم ظاہری بھی طلاق محرم کو طلاق شمار نہیں کرتے تھے۔
المحلى بالآثار: 1959
لہذا یہ کہنا درست نہیں کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے قبل کوئی بھی اس موقف کا حامل نہ تھا۔
اور عصر حاضر میں شیخ صالح المنجد کا بھی یہی فتوى ہے۔
[اسلام سوال و جواب (121358)، (209403)، (175516)]
سعودی عرب کی دائمی فتوى کمیٹی کا بھی یہی فتوى ہے۔
الطلاق البدعي أنواع، منها: أن يطلق الرجل امرأته في حيض، أو نفاس، أو في طهر مسها فيه، والصحيح في هذا أنه لا يقع. ومنها: أن يطلقها ثلاثا، والصحيح أنه يعتد به طلاقا، ويعتبر طلقة واحدة على الصحيح من أقوال العلماء إذا كان ثلاثا بلفظ واحد.
طلاق بدعی کی کئی قسمیں ہیں، ان میں سے یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اپنی اہلیہ کو حیض یا نفاس یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں وہ مباشرت کر چکا ہے، اور اس بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ یہ طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اور ان (بدعی طلاق کی اقسام) میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اسے تین اکٹھی طلاقیں دے دے ، اور اس بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ یہ طلاق شمار ہوگی اور اور علماء کے درست قول کے مطابق جب اکٹھی تین طلاقیں دے تو صرف ایک ہی شمار ہوگی۔
[فتاوى اللجنة الدائمة 20/58]
اسی طرح حال ہی میں ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان میں طلاق بدعی کے بارے میں طویل بحث کے بعد سپریم کورٹ نے بھی تمام مکاتب فکرکے علماء کے دلائل اور آراء سننے کے بعد یہی فیصلہ دیا ہے کہ بدعی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
[Shayara Bano vs Union Of India And Others, 22 August, 2017, Supreme court of India]
پاکستان کے مسلم فیملی لاء آرڈیننس 1961 کے سیکشن 7 (6) میں درج ہے:
Nothing shall debar a wife whose marriage has been terminated by talaq effective under this section from remarrying the same husband, without an intervening marriage with a third person, unless such termination is for the third time so effective.
[Section 7(6) of Muslim Family law ordinance 1961]
اس میں third time کا لفظ اس بات پہ دلالت کرتا ہے کہ بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کے بعد اگر مرد اپنی بیوی سے رجوع یا بعد از عدت تجدید نکاح کرنا چاہے تو اسے اختیار ہے، اس پہ کوئی ممانعت نہیں ہے۔ ہاں اگر تین مختلف اوقات میں سنت کے مطابق یہ طلاق دے چکا ہو تو نئے مرد سے عورت کو نکاح کرنا ہوگا۔
یعنی ہمارا قانون بھی ایک ہی وقت میں دی گئی تین طلاقوں کے بعد مرد کو اپنی بیوی سے رجوع یا تجدید نکاح سے نہیں روکتا۔
یکبارگی تین طلاق کے مسئلے پہ برصغیر کے مختلف مکاتب فکر کے علماء کا ایک سیمنار اسلامک ریسرچ سنٹر احمد آباد گجرات میں 4،5،6 نومبر 73ء کو منعقد ہوا تھا جس میں متفقہ طور پہ یکبارگی تین طلاق کو ایک طلاق شمار کیا گیا تھا۔ سیمینار کی کار روائی ’’مجموعہ مقالات علمیہ‘‘ کے عنوان سے شائع شدہ ہے۔
تنبیہ ثانی:
رجوع کیے بغیر ہر طہر میں طلاق دینے کو درست و نافذ ماننے والے درج ذیل روایت سے استدلال کرتے ہیں جسے امام اعمش نے بطریق ابو اسحاق از ابو الاحوص سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے:
«طَلَاقُ السُّنَّةِ تَطْلِيقَةٌ وَهِيَ طَاهِرٌ فِي غَيْرِ جِمَاعٍ، فَإِذَا حَاضَتْ وَطَهُرَتْ طَلَّقَهَا أُخْرَى، فَإِذَا حَاضَتْ وَطَهُرَتْ طَلَّقَهَا أُخْرَى، ثُمَّ تَعْتَدُّ بَعْدَ ذَلِكَ بِحَيْضَةٍ»
سنت کے مطابق طلاق، ایک طلاق ہے جبکہ عورت حالت طہر میں ہو اور اس سے اس طہر میں جماع نہ کیا گیا ہو، تو جب وہ حائضہ ہو اور پاک ہو جائے تو بندہ دوسری طلاق دے ، اور پھر جب وہ حائضہ ہو اور پاک ہو جائے تو تیسری طلاق دے، اسکے بعد وہ وہ ایک حیض عدت گزارے۔
سنن النسائی: 3394
لیکن یہ روایت معلول ہے، اس میں امام اعمش کو غلطی لگی ہے۔ کیونکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی اصل روایت میں ہر طہر میں طلاق دینے کا ذکر نہیں ہے، جیسا کہ امام سفیان ثوری نے بطریق ابو اسحاق از ابو الاحوص روایت کیا ہے:
«طَلَاقُ السُّنَّةِ أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا فِي غَيْرِ جِمَاعٍ»
سنت کے مطابق طلاق یہ ہے کہ بندہ اسے طہر کی حالت میں طلاق دے جس طہر میں جماع نہ کیا گیا ہو۔
سنن النسائی: 3395
یعنی اس میں دوسرے اور تیسرے طہر میں طلاق دینے کا ذکر نہیں ہے۔ یہ صرف اعمش نے مقدم الذکر روایت میں بیان کیا ہے، جبکہ مؤخر الذکر روایت سفیان ثوری کی ہے جو اس اضافے سے پاک ہے۔بلکہ اسرائیل بن یونس سے بطریق ابو اسحاق از ابو الاحوص مروی اسی حدیث میں وضاحت ہے:
مَنْ أَرَادَ الطَّلَاقَ الَّذِي هُوَ الطَّلَاقُ فَلْيُطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً، ثُمَّ يَدَعَهَا حَتَّى تَحِيضَ ثَلَاثَ حِيَضٍ
جو ایسی طلاق دینا چاہتا ہے جو (شرعی ومسنون) طلاق ہے تو وہ اسے ایک ہی طلاق دے ، پھر اسے چھوڑ دے حتی کہ تین حیض گزر جائیں۔
مصنف ابن أبي شيبة، ت: الشثري: 18679
اسرائیل بن یونس کی یہ روایت اسی سند سے قدرے تفصیل سے المعجم الکبیر للطبرانی میں یوں ہے:
مَنْ أَرَادَ الطَّلَاقَ الَّذِي هُوَ الطَّلَاقُ فَلْيُمْهِلِ الْمَرْأَةَ حَتَّى إِذَا طَهُرَتْ فِي غَيْرِ جِمَاعٍ قَالَ لَهَا: اعْتَدِّي، فَإِنْ نَدِمَ وَتَتَبَّعَهَا نَفْسَهُ أَشْهَدَ رَجُلَيْنِ عَلَى رَجْعَتِهَا وَإِلَّا تَرَكَهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا
جو شخص ایسی طلاق دینا چاہتا ہے جو طلاق ہے، تو وہ عورت کو چھوڑ دے حتى کہ جب وہ پاک ہو جائے تو جماع کیے بغیر وہ اسے کہے کہ عدت گزار لے (یہ طلاق سے کنایہ ہے) تو اگر وہ نادم ہو جائے اور اسکا دل اس (عورت) کا پیچھا کرے تو دو آدمیوں کو اس کے رجوع پہ گواہ بنا لے ، اور اگر ایسا نہ ہو تو اسے چھوڑے رکھے حتى کہ اس کی عدت گزر جائے ۔
المعجم الکبیر للطبرانی: 9615
امام اعمش کے بر خلاف امام شعبہ کی روایت بھی اسی سند یعنی ابو اسحاق از ابو الاحوص سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں:
أَخْبَرَنِي أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْأَحْوَصِ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ} [الطلاق: 1] ، قَالَ: " الطَّلَاقُ لِلْعِدَّةِ: أَنْ تُطَلِّقَهَا طَاهِرًا، ثُمَّ تَدَعَهَا حَتَّى تَقْضِيَ عِدَّتَهَا أَوْ تُرَاجِعَهَا إِنْ شِئْتَ "
مجھے ابو اسحاق السبیعی الہمدانی نے خبر دی ، وہ کہتے ہیں کہ میں نےابو الاحوص کو سنا، انہوں نے کہ کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
{يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ}
اے نبی! صلى اللہ علیہ وسلم جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں انکے مقررہ وقت میں طلاق دو۔
[الطلاق: 1]
فرمایا کہ وقت مقررہ کی طلاق یہ ہے کہ تو اسے طہر کی حالت میں طلاق دے پھر اسے چھوڑ دے حتى کہ اس کی عدت ختم ہو جائے یا اگر تو چاہے تو رجوع کر لے ۔
المعجم الکبیر للطبرانی: 9613
اس سند میں امام شعبہ نے ابو اسحاق السبیعی الہمدانی کی صراحتِ سماع نقل کرکے مظنہ تدلیس کو بھی رفع فرما دیا ہے۔
اسی طرح زکریا بن ابی زائدہ نے بھی بطریق ابو اسحاق از ابو الاحوص از ابن مسعود رضی اللہ عنہ یہ روایت بایں الفاظ نقل کی ہے:
«مَنْ أَرَادَ الطَّلَاقَ الَّذِي هُوَ الطَّلَاقُ فَلْيُمْهِلْ حَتَّى إِذَا طَهُرَتِ الْمَرْأَةُ مِنَ الْحَيْضِ فَلْيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا فِي غَيْرِ جِمَاعٍ»
جو ایسی طلاق دینا چاہتا ہے جو طلاق (سنی) ہے تو وہ انتظار کرے حتى کہ جب عورت حیض سے پاک ہو جائے تو اسے جماع کیے بغیر طہر کی حالت میں طلاق دے۔
المعجم الکبیر للطبرانی: 9614
اسی سند سے زہیر بن معاویہ نے یہ روایت باین الفاظ نقل کی ہے:
مَنْ أَرَادَ الطَّلاقَ الَّذِي هُوَ الطَّلاقُ فَلْيُطَلِّقْ عِنْدَ طُهْرٍ مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ فَلْيَقُلْ: اعْتَدِّي، فَإِنْ بَدَا لَهُ رَاجَعَهَا، وَأَشْهَدَ رَجُلَيْنِ، وَإِلا كَانَ الثَّانِيَةَ فِي مَرَّةٍ أُخْرَى "، فَكَذَلِكَ قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: {الطَّلاقُ مَرَّتَانِ}
جو ایسی طلاق دینا چاہتا ہے جو (واقع ہونے والی) طلاق ہےتو وہ حالت طہر میں جماع کیے بغیر طلاق دے اور کہے کہ عدت گزار لے، اگر اس کا جی چاہے تو اس سے رجوع کر لے اور دو آدمیوں کو گواہ بنا لے، وگرنہ دوسری طلاق تو دوسری مرتبہ ہوگی، اسی طرح اللہ تعالى نے فرمایا ہے طلاق دو مرتبہ ہے۔
احکام القرآن للطحاوی: 1792
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ ابو اسحاق السبیعی الہمدانی سے ابو الاحوص عن ابن مسعود والی روایت نقل کرنے میں امام اعمش خطا کا شکار ہوئے ہیں جس کی دلیل امام سفیان ثوری، زہیر بن معاویہ، اسرائیل بن یونس، امام شعبہ بن حجاج،اور زکریا بن ابی زائدہ جیسے حفاظ کی اسی سند سے روایت ہے، جس میں انہوں نے ہر طہر میں طلاق دینے کا تکرار ذکر نہیں فرمایا بلکہ بعض طرق میں تو واضح کیا ہے کہ ایک ہی طلاق دے کر چھوڑ دیا جائے حتى کہ عدت گزر جائے اور یہ وضاحت چھوڑنے کے بجائے ہر طہر میں طلاق دینے کے واضح خلاف ہے، جس سے امام اعمش کی روایت کی علت واضح ہوتی ہے۔
دوسری دلیل:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ بالا روایت کے بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں:
يا ابن عمر ما هكذا أمرك الله إنك قد أخطأت السنة والسنة أن تستقبل الطهر فتطلق لكل قرء
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن عمر! اللہ تعالى نے اس طرح حکم نہیں دیا۔ تونے غلط طریقہ اپنایا ہے۔ سنت یہ ہے کہ طہر کا آغاز ہو تو ہر طہر میں طلاق دے۔
سنن الدارقطنی: 438
لیکن یہ روایت بھی منکر ہے کہ اس میں عطاء بن ابی مسلم خراسانی متفرد ہیں، اور انہوں نے یہ الفاظ بیان کرنے میں ثقات کی مخالفت کی ہے۔
عطاء خراسانی نے یہ روایت حسن عن ابن عمر کی سند سے بیان کی ہے۔ اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ نقل کرنے کرنے والے کئی لوگ ہیں مثلا:
1- امام نافع:
انکی روایت بخاری مسلم، ابو داود، نسائی ، ابن ماجہ، موطا مالک، دارقطنی وغیرہ میں ہے۔
2- سالم:
انکی روایت بخاری، مسلم، ابو داود، ترمذی، دارمی، دارقطنی وغیرہ میں ہے۔
3- یونس بن جبیر:
انکی روایت بخاری، مسلم، ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ وغیرہ میں ہے۔
4- أنس بن سیرین:
انکی روایت بخاری، مسلم، مسند احمد، دارقطنی وغیرہ میں ہے۔
5- سعید بن جبیر:
انکی روایت نسائی، مسند ابی یعلى، مسند طیالسی وغیرہ میں ہے۔
6- ابو الزبیر:
انکی روایت مسلم، ابو داود، مسند احمد، بیہقی وغیرہ میں ہے۔
7- طاوس:
انکی روایت صحیح مسلم، مسند احمد، اور طبرانی کبیر میں ہے۔
8- ابو وائل:
انکی روایت ابن ابی شیبہ، اور بیہقی میں ہے۔
9- ابن سیرین:
انکی روایت مسند ابی داود طیالسی میں ہے۔
10- شعبی:
انکی روایت دارقطنی اور بیہقی میں ہے۔
11- میمون بن مہران:
انکی روایت بیہقی میں ہے۔
یہ سب ثقات عطاء خراسانی کی عن الحسن عن ابن عمر کی سند سے بیان کردہ روایت کے بر خلاف روایت کرتے ہیں، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس روایت میں عطاء خراسانی کو غلطی لگی ہے۔ اور عطاء خراسانی کے بارہ میں حافظ صاحب نے تقریب میں فرمایا ہے: صدوق يهم كثيرا ويرسل ويدلس۔ اور انکی یہ روایت معنعن بھی ہے۔ عطاء خراسانی کے سوا باقی تمام تر ثقات ہر طہر میں طلاق دینے کے برخلاف صرف ایک طلاق دینے کا ذکر کرتے ہیں جیسا کہ ہماری اثنائے تحریر میں ذکر کردہ روایت میں ہے۔
تنبیہ ثالث:
الگ الگ مجالس میں دی گئی طلاقوں کو الگ الگ شمار کرنے کے لیے عموما حدیث رکانہ رضی اللہ عنہ پیش کی جاتی ہے، جو درج ذیل ہے:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
طَلَّقَ رُكَانَةُ بْنُ عَبْدِ يَزِيدَ أَخُو بَنِي الْمُطَّلِبِ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ، فَحَزِنَ عَلَيْهَا حُزْنًا شَدِيدًا، قَالَ: فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ طَلَّقْتَهَا؟ قَالَ: طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا، قَالَ: فَقَالَ: فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: فَإِنَّمَا تِلْكَ وَاحِدَةٌ فَأَرْجِعْهَا إِنْ شِئْتَ قَالَ: فَرَجَعَهَا
رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں، پھر اس پہ بہت زیادہ غمزدہ ہوئے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تونے کیسے طلاق دی تھی؟ تو انہوں نے کہا تین، کہتے ہیں کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ایک ہی مجلس میں؟ تو انہوں نے کہاں جی ہاں! تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ایک ہی ہے لہذا اگر تو چاہتا ہے تو رجوع کر لے، تو انہوں نے رجوع کر لیا
مسند احمد : 2387
لیکن اسے داود بن الحصین نے عکرمہ سے روایت کیا ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ داود بن الحصین کی عکرمہ سے روایت ضعیف ہوتی ہے، لہذا یہ روایت پایہء ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ یاد رہے کہ عموما اس روایت کو صحیح مسلم کی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ والے روایت کے ساتھ بطور تائید پیش کیا جاتا ہے اور اس مسئلے میں صحیح مسلم کی مذکورہ بالا حدیث ہی کافی ہے کہ جس میں دور نبوی میں تین طلاق کو ایک شمار کرنے کا ذکر ہے۔
5- ایک طلاق سے رجوع کرنے کے بعد بھی دوسری طلاق تب دے سکتے ہیں جب رجوع کے بعد عورت کو ایک حیض آئے اور پھر اسکے بعد طہر آئے تو اس اگلےطہر میں مباشرت کیے بغیر طلاق دی جا سکتی ہے۔
6- طلاق دینے کےلیے ضروری ہے کہ جس طہر میں طلاق دی جا رہی ہے اس طہر میں مباشرت نہ کی گئی ہو، کیونکہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو یہی طریقہ بتا کر نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے اسے اللہ کا مقرر کردہ طریقہ قرار دیا ہے۔
البتہ جس طہر میں جماع کیا گیا ہو، اگر اس میں حمل ٹھہر جائے تو حالت حمل میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے،کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالى نے حاملہ طلاق یافتہ عورت کے لیے وضع حمل عدت مقرر فرمائی ہے:
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ
اور حمل والیاں، انکی عدت یہ ہے کہ وہ حمل وضع کریں۔
(سورۃ الطلاق: 4)
تنبیہ بلیغ:
وقوع طلاق کے لیے زوجہ کا اس طلاق پہ مطلع ہونا، یا طلاق کے الفاظ سننا ضروری نہیں۔ مرد اگر لکھ کر یا بول کر طلاق دے دے اور شریعت کے مقرر کردہ طریقے کے مطابق دی گئی ہو تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
تنبیہ ثانی:
طلاق پہ دو گواہ ہونا ضروری ہیں، اللہ تعالى کا فرمان ہے:
فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ذَلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ
ان (بیویوں) کو یا تو اچھے طریقے سے روک رکھو یا اچھے طریقے سے چھوڑ دو، اور اپنے میں سے دو عادل (مرد) گواہ بنا لو، اور اللہ کی خاطر گواہی قائم کرو۔ اس حکم کے ساتھ اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور یوم آخرت پہ ایمان رکھتا ہے۔
سورۃ الطلاق:2
یاد رہے کہ یہ گواہی یا تو طلاق کے موقع پہ موجود دو صاحب عدل مردوں کی طرف سے ہوگی، یا پھر طلاق دینے والا طلاق کا اقرار لوگوں کے سامنے کرے تو اس کے اقرار پہ گواہ بھی طلاق کے گواہ بن جائیں گے۔ اور اگر طلاق پہ کوئی گواہ نہ ہو تو شرعی طور پہ طلاق واقع نہیں ہوگی۔
تنبیہ ثالث:
اگر مختلف اوقات میں دو بار سنت کےمطابق طلاق دے کر خاوند رجوع کر چکا ہو، اور پھر تیسری مرتبہ بھی مقررہ وقت میں طلاق دے دے تو یہ بیوی اس پہ حرام ہو جائےگی۔ اب وہ عورت کسی اور مرد سے معروف طریقے کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے نکاح کرے گی۔ ہاں اگر اسکا یہ دوسرا خاوند فوت ہو جائے یا نباہ نہ ہونے پہ اسے طلاق دے دے اور عدت بھی گزر جائے تو پھر پہلے خاوند کے لیے اس سے نکاح کرلینا جائز ہوگا:
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ
پھر اگر وہ اسے (تیسری) طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہیں ہوگی، یہاں تک کہ اس کے علاوہ کسی اور خاوند سے نکاح کرے، پھر اگر وہ اسے طلاق دے دے تو (پہلے) دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ دونوں آپس میں رجوع کرلیں، اگر سمجھیں کہ اللہ کی حدیں قائم رکھیں گے
سورة البقرة: 230
یاد رہے کہ یہ نکاح کی بات ہے مروجہ حلالہ نہیں !۔ حلالہ کرنے والے پہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے :
لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ، وَالْمُحَلَّلَ لَهُ
اللہ حلالہ کرنے والے پر اور جس کے لیے حلالہ کیا جاتا ہے اس پر لعنت کرے۔
سنن ابی داود: 2072
بعض لوگ نے بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کو تین شمار کرکے حلالے کا جو کاروبار شروع کر رکھا ہے وہ اس حدیث کی رو سے ملعون ہے۔ وہ ایسی مطلقہ عورت کا ایک یا دو دن کے لیے کسی مرد سے عارضی نکاح کر دیتے ہیں اور وہ شب باشی کے بعد مقررہ وقت پہ طلاق دے دیتا ہے، پھر وہ عورت پہلے خاوند سے نکاح کر لیتی ہے۔ یہ سخت جرم اور کبیرہ گناہ ہے حدیث مذکورہ میں اسی فعل پہ لعنت کی گئی ہے۔
بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے پیر کرم شاہ ازہری حلالے کے بارے میں یہ حدیث درج کرنے کے بعد ترجمہ یوں کرتے ہیں:
’’حلالہ کرنے والے پھی اللہ کی لعنت اور جس (بے غیرت) کے لے حلالہ کیا جائے اس پر بھی اللہ کی لعنت۔‘‘
دعوت فکر ونظر: صفحہ 29
مزید لکھتے ہیں:
’’اس سلسلے میں ایک اور حدیث بھی سن لیں۔ اس کا ترجمہ حلالہ کی اجازت دینے والے علماء خود کر لیں
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: "أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِالتَّيْسِ الْمُسْتَعَارِ؟ " قَالُوا: بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: "هُوَ الْمُحَلِّلُ، لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ"
(بغرض سہولت قارئین ترجمہ پیش خدمت ہے:
’’رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمھیں کرائے کے سانڈ کی خبر نہ دوں؟ ہم نے کہا ضرور اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حلالہ کرنے والا ہے۔ اللہ کی لعنت ہو حلالہ کرنے والے پر بھی اور اس پر بھی جس کے لیے حلالہ کیا جائے‘‘ )
ان علماء ذی شان کے بتائے حل کو اگر کوئی بد نصیب قبول کر لیتا ہوگا۔ تو اسلام اپنے کرم فرماؤں کی ستم ظریفی پہ چیخ اٹھتا ہوگا۔ اور دین سبز گنبد کے مکیں کی دہائی دیتا ہوگا۔
اب حالات دن بدن بد تر ہو رہے ہیں ۔ جب بعض طبیعتیں اس غیر اسلامی اور غیر انسانی حل کو قبول نہیں کرتیں اور پنے گوشہء عافیت کی ویرانی بھی ان سے دیکھی نہیں جاتی تو وہ پریشان اور سراسیمہ ہو کر ہر دروازہ کھٹکٹاتے ہیں۔‘‘
دعوت فکر ونظر: صفحہ 29
مزید رقمطراز ہیں:
جب یہ تعزیر بے غیرتی کی محرک ہو بلکہ اس کی موجودگی سے ارتداد کا دروازہ کھل گیا ہو ، ان حالات میں کیا علماء اسلام کا یہ فرض نہیں کہ امت مصطفى علیہ التحیۃ والثناء پر در رحمت کشادہ کریں۔
دعوت فکر ونظر: صفحہ 29
پیر صاحب آیت فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’یہاں سے تیسری طلاق اور اس کے حکم کا بیان ہے۔ یعنی اگر تیسری طلاق بھی اس نے دے دی تو اب جب تک وہ کسی دوسرے خاوند سے بالکل اسی طرح بسنے کی نیت سے نکاح نہ کرے جیسے اس نے پہلے خاوند کے ساتھ کیا تھا اور پھر وہ دوسرا خاوند ہم بستری کرنے کے بعد کچھ مدت گزرنے پر اپنی مرضی سے اسے طلاق نہ دے دے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے نکاح میں نہیں جاسکتی۔ یہ ہے قرآن کریم کا واضح ارشاد جس میں تاویل کی گنجائش نہیں۔ آجکل اس کا حل حلال کی باعث صد نفرین صورت میں تلاش کر لیا گیا ہے۔ اس کے متعلق حضور نبی کریم صلى ا للہ علیہ وسلم کا یہ حکم پیش نظر رہے لعن اللہ المحلل والمحلل لہ
ترجمہ: حلالہ کرنے والے پر بھی اللہ کی پھٹکار اور جس (بے غیرت) کے لیے حلالہ کیا جا رہا ہے اس پر بھی اللہ کی پھٹکار۔‘‘
ضیاء القرآن، جلد اول، صفحہ 159
بریلوی مکتبہ فکر کے پیر ، سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت پیر کرم شاہ ازہری کے ان تصریحات کے مطابق حلالہ کرنا کروانا بے غیرتی والا عمل ہے۔ اور ایسا کرنے اور کروانے والا بے غیرت اور کرائے کا سانڈ ہے۔ اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی زبانی لعنت زدہ ہے۔ یہ درشت الفاظ پیر صاحب کی شستہ نوک قلم سے یقینا دینی حمیت و غیرت کی وجہ سے سرزد ہوئے ہیں۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-
السبت PM 03:32
2023-09-23 - 3389