میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
مباشرت کے بعد طلاق
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے خاوند مسمى محمد یوسف ولد محمد یونس نے مجھے19 ستمبر کی رات گھریلو مسائل کی وجہ سے جھگڑتے ہوئے غصے میں تین دفعہ طلاق کہہ دی، اور پھر اگلے دن رجوع بھی کر لیا۔ جبکہ طلاق کے وقت میں پاکی کی حالت میں تھی اور اس سے دو دن قبل ہم مباشرت بھی کر چکے تھے ۔ کیا یہ طلاق واقع ہوگئی ہے؟ اور اگر ہوگئی تو کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں، اور کیا رجوع کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ سائلہ: کہشکشاں بنت محمد زینول
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
صورت مسئولہ میں طلاق واقع ہی نہیں ہوئی ہے، کیونکہ یہ طلاق ایسے طہر میں دی گئی ہے جس میں زوجین مباشرت کر چکے تھے، اور جس طہر میں مباشرت کر لی جائے اس میں خاوند کے پاس طلاق دینے کا حق شرعی طور پر نہیں ہوتا۔ اگر وہ طلاق دیتا ہے تو ایسی طلاق کو طلاق محرم یا طلاق بدعت کہتے ہیں جو واقع ہی نہیں ہوتی۔
اللہ سبحانہ وتعالى کا ارشاد گرامی ہے:
يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ
اے نبی! صلى اللہ علیہ وسلم جب تم عورتوں کو طلاق دو،تو انہیں انکے مقررہ وقت میں طلاق دو۔
سورۃ الطلاق:1
اور طلاق دینے کا مقررہ وقت نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا ہے:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ، وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ العِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ
انہوں نے دورنبوی میں اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی ، توسیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے حکم دے کہ وہ اس سے رجوع کرے، پھر اسے روکے رکھے حتى کہ وہ (حیض سے) پاک ہو جائے، پھر اسے حیض آئے، پھر پاک ہو، پھر اگر وہ چاہے تو اس کے بعد روکے رکھے اور اگر چاہے تو اسے مباشرت سے قبل طلاق دے دے۔ یہ وہ مقررہ وقت ہے کہ اللہ نے جس وقت میں عورتوں کو طلاق دینے کی اجازت دی ہے۔
صحیح البخاری: 5251
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ:
شریعت نے طلاق دینے کا ایک وقت مقرر کیا ہے، لہذا اس مقررہ وقت میں ہی طلاق دی جائے۔ اس وقت مقررہ میں دی گئی طلاق ، طلاق سنی کہلائے گی اور اس وقت کے علاوہ دی گئی طلاق طلاق بدعی یا طلاق محرم (یعنی حرام طلاق) کہلائے گی، کیونکہ یہ اللہ تعالى کے حکم :
يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ
اے نبی! صلى اللہ علیہ وسلم جب تم عورتوں کو طلاق دو،تو انہیں انکے مقررہ وقت میں طلاق دو۔
سورۃ الطلاق:1
کی خلاف ورزی ہے، اور یہ بات مسلّمہ ہے کہ اللہ تعالى کی حکم عدولی حرام ہے۔ اس بات پہ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔
امام ابو محمد عبد الوہاب فرماتے ہیں:
طلاق الحائض محرم بإجماع
حائضہ عورت کو طلاق دینا بالاجماع حرام ہے۔
المعونۃ على مذہب عالم المدینۃ:1/834
امام ابن حزم ظاہری فرماتے ہیں:
لَا خِلَافَ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ قَاطِبَةً، وَفِي جُمْلَتِهِمْ جَمِيعُ الْمُخَالِفِينَ لَنَا فِي ذَلِكَ فِي أَنَّ الطَّلَاقَ فِي الْحَيْضِ أَوْ فِي طُهْرٍ جَامَعَهَا فِيهِ: بِدْعَةٌ نَهَى عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ - مُخَالِفَةٌ لِأَمْرِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ –
تمام تر اہل علم میں سے کسی کا اختلاف نہیں اور ان میں اس مسئلے میں ہمارے مخالفین بھی شامل ہیں کہ حیض کی حالت میں ، یا اس طہر میں جس میں مرد نے اپنی بیوی سے جماع کیا ہو، طلاق دینا بدعت ہے، رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، یہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے حکم کی مخالفت ہے۔
المحلى لابن حزم: 13/404 (1959)
طلاق بدعی یا طلاق محرم واقع نہیں ہوتی، کیونکہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ
جس نے بھی کوئی بھی ایسا کام کیا جس پہ ہمارا امر نہ ہو، تو وہ کام مردود ہے۔
[صحیح مسلم: 4590]
امام طاوس رحمہ اللہ خلاف سنت دی گئی طلاق کو طلاق شمار نہیں فرماتے تھے!
[مصنف عبد الرزاق: 1092]
اسی طرح خلاس بن عمرو رحمہ اللہ بھی طلاق بدعی کو طلاق نہیں مانتے تھے۔
[ محلى ابن حزم : 9/377]
اسی طرح امام ابوبکر جصاص بھی طلاق بدعی کے وقوع کے قائل نہ تھے۔
[ أحکام القرآن للجصاص: 2/75،76]
اور امام ابن حزم ظاہری بھی طلاق محرم کو طلاق شمار نہیں کرتے تھے۔
[المحلى بالآثار: 1959]
اسی طرح امام ابن تیمیہ، امام ابن القیم رحمہما اللہ اور انکے بعدبہت سے اہل علم طلاق بدعی / محرم کے عدم وقوع کے قائل ہیں۔
اور سعودی عرب کی دائمی فتوى کمیٹی کا بھی یہی فتوى ہے۔
[فتاوى اللجنة الدائمة 20/58]
شیخ صالح المنجد کا بھی یہی فتوى ہے۔
[اسلام سوال و جواب (121358)، (209403)، (175516)]
اسی طرح حال ہی میں ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان میں طلاق بدعی کے بارے میں طویل بحث کے بعد سپریم کورٹ نے بھی تمام مکاتب فکرکے علماء کے دلائل اور آراء سننے کے بعد یہی فیصلہ دیا ہے کہ بدعی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
[Shayara Bano vs Union Of India And Others, 22 August, 2017, Supreme court of India]
مذکورہ بالا دلائل سےواضح ہوا کہ محمد یوسف نے اپنی اہلیہ کہکشاں کو جو طلاق دی وہ طلاق بدعی ہونے کی وجہ سے مؤثر نہیں ہے۔ لہذا وہ دونوں میاں بیوی کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-
الجمعة PM 02:54
2023-10-13 - 1347