میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
عیدین کا خطبہ سننا فرض ہے ؟
سوال
عید الفطر اور عید الاضحى کا خطبہ سننا فرض ہے یا صرف مستحب۔ سنا ہے کہ ابوداود شریف میں یہ روایت ہے کہ جو چاہے خطبہ سن لے اور چاہے خطبہ سنے بغیر چلا جائے۔ اس بارہ میں صحیح موقف کیا ہے؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
عیدین کی نماز ادا کرنا اور خطبہ سننا دونوں ہی فرض ہیں۔ نبی مکرم ﷺ نے نماز عید ادا کرنے کا بھی حکم دیا ہے اور خطبہ و دعاء میں شامل ہونے کا بھی حکم صادر فرمایا ہے :
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: أُمِرْنَا أَنْ نُخْرِجَ الحُيَّضَ يَوْمَ العِيدَيْنِ، وَذَوَاتِ الخُدُورِ فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ المُسْلِمِينَ، وَدَعْوَتَهُمْ وَيَعْتَزِلُ الحُيَّضُ عَنْ مُصَلَّاهُنَّ، قَالَتِ امْرَأَةٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِحْدَانَا لَيْسَ لَهَا جِلْبَابٌ؟ قَالَ: «لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا»
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم عیدین کے دن حائضہ اور پردہ نشیں عورتوں کو بھی لائیں، وہ بھی مسلمانوں کی جمعیت اور انکی دعاء میں شامل ہوں اور حائضہ عورتیں نماز والی جگہ سے الگ رہیں۔ ایک عورت نے کہا: اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کسی ایک کے پاس اگر پردے لیے بڑی چادر نہ ہو، تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے ساتھ جانے والی اسے اپنی چادر میں لے لے۔
صحيح البخاري: 351
اس حدیث سے واضح ہے کہ نماز عید اور خطبے میں سبھی مسلمانوں کا شامل ہونا ضروری ہے حتى کہ اگر کسی عورت نے نماز نہیں بھی پڑھنی وہ بھی اس اجتماع میں شریک ہو اور مسلمانوں کی دعاء میں شامل ہو۔ اور یہ تو واضح ہے کہ دعاء خطبے کا حصہ ہے۔ لہذا دعاء میں شرکت کا حکم خطبے میں شرکت کے حکم کو مستلزم ہے۔ جو کہ وجوب و فرضیت پہ دلالت کرتا ہے۔
بعض لوگ سنن أبی داود کی اس روایت کو دلیل بنا کر خطبہ کے استحباب کے قائل ہیں:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِيدَ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ، قَالَ: «إِنَّا نَخْطُبُ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَجْلِسَ لِلْخُطْبَةِ فَلْيَجْلِسْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَذْهَبَ فَلْيَذْهَبْ»، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: «هَذَا مُرْسَلٌ عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»
سیدنا عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید میں حاضر ہوا، تو جب نماز مکمل کی تو فرمایا: ہم خطبہ دیں گے، تو جو خطبے کے لیے بیٹھنا چاہے بیٹھ رہے، اور جو جانا چاہے چلا جائے۔
سنن أبی داود: 1155
لیکن یہ روایت پایہء ثبوت کو نہیں پہنچتی!
کیونکہ یہ روایت مرسل ہے جیسا کہ امام ابو داود رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:
هذا مرسل، عن عطاء عن النبى صلى الله عليه وسلم
یہ روایت عطاء از نبی صلى اللہ علیہ وسلم مرسل روایت ہے۔
سنن أبی داود: 1155
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ عطاء کی روایت کو مرسل قرار دیتے ہیں۔
فتح الباری لابن رجب :9/49
امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا خطأ، والصواب مرسل
تحفة الأشراف: 5315
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هَذَا حَدِيثٌ خُرَاسَانِيٌّ غَرِيبٌ غَرِيبٌ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَاهُ غَيْرُ الْفَضْلِ بْنِ مُوسَى
یہ خراسانی حدیث ہے جو کہ عجیب وغریب ہے، ہم نہیں جانتے کہ فضل بن موسى کے سوا اسے کسی نے روایت کیا ہو۔
صحيح ابن خزيمة: 1462
امام یحیى بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هَذَا خَطَأٌ، إِنَّمَا هُوَ مِنْ عَطَاءٍ فَقَطْ. وَإِنَّمَا يَغْلَطُ فِيهِ الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى السِّينَانِيُّ يَقُولُ: عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ السَّائِبِ.
یہ غلطی ہے! یہ روایت در اصل عطاء سے (مرسلا) مروی ہے۔ اس میں فضل بن موسى سینانی نے غلطی کی ہے اور اسے (عطاء ) عن عبد اللہ بن السائب (کہہ کر موصول) بنا دیا ہے۔
السنن الکبیر للبیقہی : 6292 ، تاریخ بن معین برواية الدوري 3/ 15 (56)
امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الصَّحيحُ مَا حدَّثَنا بِهِ إبراهيمُ بْنُ مُوسَى، عَنْ هِشَامِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْج، عَنْ عَطَاءٍ: أنَّ النبيَّ مُرسَلًا
صحیح روایت وہ ہے ہمیں ابراہیم بن موسى نے ہشام بن یوسف از ابن جریج از عطا عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم مرسل روایت کی ہے۔
العلل لابن أبی حاتم: 513 ت الحمید
امام عبد الرزاق نے بھی اسے ابن جریج عن مرسل نقل کیا ہے۔
مصنف عبد الرزاق:5670
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ بھی اسے بایں سند مرسل ہی روایت کرتے ہیں۔
السنن الکبیر للبیہقی: 6293 ت الترکی
یعنی سفیان ثوری، عبد الرزاق، اور ہشام بن یوسف تینوں ہی اسے ابن جریج از عطاء مرسل روایت کرتے ہیں، جبکہ فضل بن موسى نے غلطی سے اسے موصول بنا دیا ہے۔
فضل بن موسى سینانی اگرچہ ثقہ ہیں لیکن انکے اوہام و تفردات ہیں۔ امام علی بن مدینی نے بھی اسکی ایک روایت پہ نکیر فرمائی ہے۔
التعديل والتجريح، لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح للباجي: 1223
اور فرماتے ہیں کہ یہ منکر روایات بیان کرتا ہے۔
ميزان الاعتدال: 6754
امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اسکی ایک روایت پہ نکیر فرمائی ہے۔
العلل الكبير للترمذي: 429
جبکہ فضل بن موسى کی مخالفت کرنے والے ہشام بن یوسف الصنعانی ثقہ متقن ہیں اور ابن جریج اور سفیان ثوری سے روایت کرنے میں امام عبد الرزاق الصنعانی سے بھی مقدم ہیں ، جیسا کہ ابن معین رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔
تاريخ ابن معين رواية الدوري: 538
یعنی امام عبد الرزاق، ہشام بن یوسف اور سفیان ثوری، تینوں فضل بن موسى السینانی کے مخالفت کرتے ہیں اور تینوں فضل بن موسى سے اوثق واثبت ہیں۔
آئمہ فن کے کلام سے واضح ہے کہ فضل بن موسى نے اسے موصولا روایت کرنے میں غلطی ہے۔ جبکہ حقیقت میں یہ روایت مرسل ہے، اور مرسل روایت ضعیف ہوتی ہے۔
ابن ترکمانی نے اس علت پہ رد کیا ہے کہ فضل بن موسى ثقہ ہے، اور ثقہ کی زیادت قبول ہے، جبکہ مرسل روایت کی جو سند امام بیہقی نے نقل فرمائی ہے اس میں سفیان سے روایت کرنے والا قبیصہ ہے، اور قبیصہ اگرچہ فی نفسہ ثقہ ہے، لیکن ابن معین اور ابن حنبل وغیرہ نے اس کی سفیان سے روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، لہذا اس کی وجہ سے فضل والی روایت کو معلول نہیں قرار دیا جاسکتا۔
الجوهر النقي على سنن البيهقي: 3/ 301
اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس اسے ’’کلام متین اور نقد مبین‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔
ارواء الغلیل: 3/97 (629)
لیکن مذکورہ بالا بحث کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ یہ نقددرست نہیں! کیونکہ قبیصہ کی سفیان سے روایت کو معلول کہنے والے ابن معین رحمہ اللہ نے خود اس روایت کو معلول قرار دے کر مرسل کو صحیح کہا ہے۔ اور سفیان سے روایت کرنے میں قبیصہ متفرد نہیں جیسا کہ ابو محمد جرجانی نے ذکر کیا ہے:
وَالصَّحِيحُ رِوَايَةُ الْجَمَاعَةِ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: صَلَّى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِالنَّاسِ الْعِيدَ
صحیح حدیث سفیان ثوری سے روایت کرنے والی جماعت کی ہے جنھوں نے اسے ابن جریج عن عطاء مرسلا بیان کیا ہے۔
علة الحديث المسلسل في يوم العيدين لأبي محمد الجرجاني ص58
اور پھر ابن جریج سے مرسلا نقل کرنے میں سفیان ثوری متفرد نہیں ہیں بلکہ امام عبد الرزاق اور ہشام بن یوسف بھی شریک ہیں، جیسا کہ سطور بالا میں واضح کیا جاچکا۔ لہذا محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ کا اس حدیث کو صحیح قرار دینا درست نہیں۔
تعجب یہ ہے کہ حدیث مسلسل بیوم عید میں اسی روایت کو سفیان ثوری از ابن جریج از عطاء از ابن عباس موصلا ذکر کیا گیا ہے جو کہ واضح خطا ہے۔
مسلسل العيدين صـ (31 - 33) و (35) للخطيب البغدادي، مسلسل العيدين صـ (3 - 5) و (7 - 9) لعبد العزیز الکتانی، الأحاديث العيدية المسلسلة صـ (3 - 9) للسلفی
اس مسلسل بیوم عید کا مدار بشر بن عبد الوہاب الاموی پہ ہے، جو کہ سخت ضعیف ہے۔
امام ذہبی فرماتے ہیں:
كأنه هو وضعه، أو المنفرد به عنه وهو أبو عبيد الله أحمد بن محمد بن فراس الفراسي
شاید کہ اس روایت کو اسی نے خود گھڑا ہے یا پھر اس سے نقل کرنے والے ابو عبید اللہ احمد بن محمد فراس الفراسی نے گھڑا ہے۔
ميزان الاعتدال: 1204
الغرض خطبہ عید سننا فرض ہے، جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں موجود حکم نبوی سے واضح ہے۔ اور اس کے لیے کوئی قرینہ صارفہ نہیں ہے جو اسے استحباب پہ محمول کرے۔ لہذا خطبہ عید سنے بغیر لوٹ آنے والا ایک فرض چھوڑنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا۔
فائدہ:
عطاء رحمہ اللہ خطبہ عید کو مستحب سمجھتے تھے تو امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا:
لا نقول بقول عطاء، أرأيت لو ذهب الناس كلهم على من كان يخطب
ہم عطاء رحمہ اللہ کے موقف کے قائل نہیں ہیں، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ اگر تمام لوگ ہی چلے جائیں تو امام خطبہ کسے سنائے گا؟
فتح الباری لابن رجب: 9/49
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-
الخميس PM 12:26
2024-06-06 - 1290