تازہ ترین
اٹھارھواں پارہ => دورہ ترجمۃ القرآن 1444 انیسواں پارہ => دورہ ترجمۃ القرآن 1444 بیسواں پارہ => دورہ ترجمۃ القرآن 1444 ایک طہر میں متعدد طلاقیں => مسائل طلاق رجوع کیے بغیر طلاق => مسائل طلاق ماہ بہ ماہ طلاق => مسائل طلاق حالت حیض میں طلاق => مسائل طلاق طلاق کی عدت => مسائل طلاق بدعی طلاق => مسائل طلاق حالت نفاس میں طلاق => مسائل طلاق

میلنگ لسٹ

بريديك

موجودہ زائرین

باقاعدہ وزٹرز : 43925
موجود زائرین : 41

اعداد وشمار

47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
268
فتاوى
54
مقالات
187
خطبات

تلاش کریں

البحث

مادہ

صحیح البخاری سے کیا مراد ہے؟

سوال:

امام بخاری رح کی کتاب "ا لجامع المسند الصحيح المختصر من أُمور رسول الله صلى الله عليه وسلّم وسننه وأيامه " (  جسے عام طورپر مختصرا صحیح بخاری کہا جاتا ہے) کے "صحیح" ہونے سے کیا مراد ہے.. میں سوال کو مزید تقسیم کرتا ہوں تاکہ ابہام پیدا نہ ہو  
صحیح بخاری کی صحت پر اجماع سے کیا مراد ہے؟  
کیا دو گتوں کے درمیان موجود ہر شے معتبر ہے اور اسکا انکار"انکار حدیث" ہے؟  
کیا اس صحیح سے مراد یہ ہے کہ صحیح بخاری میں درج کی گئی تمام با اسناد روایات بلحاظ سند صحیح ہیں (مرفوع، موقوف، مرسل )؟  
کیا اس سے مراد فقط اتنا ہے کہ اس میں درج شدہ تمام روایات بلحاظ متن اہل سنہ کے نزدیک ثابت ہیں جنکی سند میں اگر کوئی ضعف موجود بھی ہے (صحیح بخاری میں) تو دوسری کتب احادیث میں اس کی صحیح سند موجود ہے؟  
یا چند ہم عصر علماء کے مطابق صحیح کا دعوی صرف مرفوع احادیث کے لئے ہے اور صرف مرفوع احادیث پر ہی محدثین کا اجماع ہے؟  ( کیونکہ انکے بقول صحیح بخاری کی جن روایات پر محدثین نے آج تک اعتراضات کیے وہ موقوف روایات ہیں)  
بطور حدیث کے ادنی طالب علم کے یہ سوالات میں نہایت احترام و عقیدت سے آپ کو ارسال کر رہا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ان شاء الله آپ انکا تفصیلی جواب دیں گے اور اگر ممکن ہوا تو اس ضمن میں  حدیث رسول الله ص کی محبت میں کوئی کتابچہ تحریر فرما کر حدیث سے محبت رکھنے  والے  طلباء کے اشکالات رفع فرمائیں گے...  
جزاکم الله خیرا...

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

صحیح البخاری کی صحت پر اجماع سے مراد یہ ہے کہ صحیح البخاری میں امام صاحب نے جن روایات کو اصالۃً ذکر فرمایا ہے وہ سب صحیح ہیں اور انکے صحیح ہونے پہ امت متفق ہے۔

صحیح البخاری کے دو گتوں کے درمیان ہر شے معتبر نہیں ہے۔ اس میں کچھ معلقات و موقوفات ایسی ہیں جو صحیح ثابت نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے خود کچھ معلقات صیغہء تمریض سے ذکر فرما کر انکے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

رہی انکار حدیث کی بات، تو صحیح البخاری میں اصالۃً مذکور روایات کو انکار کرنا انکار حدیث ہی کہلائے گا۔ لیکن کسی معین شخص کو منکر حدیث کہنے سے قبل اسکی حالت دیکھنا ہوگی کہ وہ ان روایات کا کس طرح سے انکار کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟ ہو سکتا ہے جسے آپ انکار سمجھ رہے ہوں وہ انکار نہ ہو۔

صحیح البخاری میں کچھ روایات اصالۃً ذکر ہیں اور کچھ استشہادًا‘ جن روایات کو بطور استشہاد پیش کیا گیا ہے انکی سند میں کچھ کلام ہے۔ لیکن چونکہ ان روایات کا متن صحیح بخاری میں ہی مذکور اصل روایات کے مطابق ہے تو باعتبار متن وہ روایات بھی صحیح ہیں شمار ہونگی۔

اسی طرح بعض بظاہر معلول روایات مثلا: مدلسین کی معنعن روایات بھی حقیقت میں صحیح ہیں ۔ خواہ ان کی متابعت دیگر کتب سے دستیاب ہو یا نہ۔ کیونکہ امام بخاری کے علاوہ بھی جہابذہ نقاد نے ان روایات کو صحیح مانا ہے ۔

 

 

 

هذا، والله تعالى أعلم،وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم،والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وأصحابه وأتباعه، وبارك وسلم


وکتبہ
ابو عبد الرحمن محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ

  • الاربعاء PM 12:08
    2022-02-09
  • 1094

تعلیقات

    = 7 + 5

    /500
    Powered by: GateGold