اعداد وشمار
مادہ
یوم ِعرفہ اور خط ِتاریخ ِعالم
یوم ِعرفہ اور خط ِتاریخ ِعالم
محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ
ہمارے ممدوح جناب حامد کمال الدین صاحب بڑے کمال کے آدمی ہیں، جب کچھ غلط بھی کہتے ہیں تو بھی کمال کر جاتے ہیں۔ موصوف اپنے تئیں ’متجدد‘ العصر ہیں، اور جملہ علوم عقلیہ و نقلیہ میں خود کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں بھی در اندازی کرتے ہیں جہاں کی انھیں ابجد ہی معلوم نہیں ہوتی!
عرفہ کے روزے پہ بحث کرتے ہوئے اپنی فلکیات دانی کا جنازہ تو وہ کب کا نکال چکے، اس بار ہمارے ممدوح اپنی جغرافیہ دانی کا بھی بیچ چوراہے بھانڈا پھوڑ گئے!
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی!
موصوف فرماتے ہیں:
پوری زمین پر "بدھ" ایک ہی دن ہوتا ہے، فرق ہو گا تو بس "گھنٹوں" کا؛ اور اس "گھنٹوں کے فرق" سے، چاہے وہ کتنا بھی ہو، روئے زمین پر "بدھ" کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ "جمعرات" دنیا میں ایک ہی دن ہو گی۔ "جمعہ" دنیا کو ایک ہی دن کرنے میں کبھی کوئی مسئلہ نہیں آیا۔ "یکم جنوری" پورے روئے زمین پر "یکم جنوری" ہی ہوتا ہے۔ کبھی روئےزمین پر دو "ڈیٹس" نہیں ہوئیں۔ کوئی نہیں کہتا کہ چونکہ ایک ملک میں ابھی ناشتے کا وقت ہے اور دوسرے ملک میں عین اسی لمحے عشائیے کا وقت، لہٰذا دو ڈیٹس کر دیتے ہیں!!!۔ انتہی
اگر موصوف نے کبھی اپنی ٹیبل پہ رکھے گلوب کو ہی کبھی بغور دیکھا ہوتا تو یہ غلطی نہ کرتے!
زمین کو جن فرضی خطوط میں تقسیم کیا گیا ہے گلوب پہ وہ لکیریں لگی ہوئی ہیں۔ یہی لکیریں ہی سمجھ لیں تو دماغ روشن ہو جائے!
یہ لکیریں خطوط طول البلد اور خطوط عرض البلد کہلاتی ہیں۔
طول البلد کے خطوط گلوب کے گرد شمال سے جنوب کی جانب چلتے ہیں، لیکن انھیں مشرق سے مغرب کی طرف ناپا جاتا ہے۔ یعنی یہ زمین کو مشرق اور مغرب میں تقسیم کرتے ہیں۔ اس کی ابتداء ’’پرائم میرڈین‘‘ سے ہوتی ہے، جو قطب شمالی سے گرین وچ سے ہوتے ہوئے قطب جنوبی تک پہنچتا ہے۔ دو طول البلد کے درمیان خالی جگہ ’خطہ‘ یا ’گور(gore)‘ کہلاتا ہے۔
عرض البلد کے خطوط زمین کے گرد مشرق سے مغرب کی سمت چلتے ہیں، لیکن انھیں نقشے پہ شمالا جنوبا ناپا جاتا ہے۔ یعنی یہ زمین کو شمال و جنوب میں تقسیم کرتے ہیں۔ اس کی ابتداء خط استوا سے ہوتی ہے جو بالکل زمین کے وسط میں ہے۔ دو عرض البلد کے درمیان کی جگہ کو ’عرضی خطہ‘ یا ’زون (zone)‘ کہتے ہیں۔
چی پی ایس (گلوبل پوزیشنگ سسٹم) سے قبل جی آر (گلوبل ریفرنس سسٹم) کے دور میں زمین پر کسی جگہ کی بالکل صحیح تعیین کے لیے ہمیں ان خطوط کی مدد درکار ہوتی تھی۔ اب دور جدید میں بھی اس کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ اس طریقہ تعیین موضع کو 5ntersection and Grid system کہا جاتا ہے۔ زمین پہ واقع ہر مقام کسی نہ کسی عرض البلد اور طول البلد کے خط کو چھو رہا ہوتا ہے جس کی تعیین کرکے مطلوبہ مقام کا محل وقوع معلوم کیا جاتا ہے۔ ان کو معاون خطوط (Coordinate) کہا جاتا ہے جن کی پیمائش درجات میں کی جاتی ہے۔ ان دونوں خطوط کے ملنے سے درمیان میں بننے والی جگہ کو ’چوکور خطہ‘ یا ’ گریٹکول (Garticule)‘ کہتے ہیں۔
صفر درجہ طول البلد کے خط کو ’خط گرینچ‘ کہتے ہیں۔ یہ خط شرقا غربا زمین کو دو مساوی حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ گرین وچ برطانیہ کی شاہی رصد گاہ ہے۔ اس میں ایک باغ میں ایک تار گزرتا ہے، جسے مبدأ طول فرض کیا گیا ہے۔ یہاں یہ خط مستقیم، لیکن یہی خط جب پیچھے کی طرف گھومتا ہے تو منحنی ہو جاتا ہے اور وہ ’عالمی خط تاریخ‘ کہلاتا ہے۔ یہ صفر درجہ طول البد سے بالکل دوسری جانب 180 درجہ طول البلد پہ ہے۔ لندن میں میں جب دن کے بارہ بج رہے ہوں تو یہاں رات کے بارہ بجے ہوتے ہیں۔ سورج جیسے ہی اس خط کو پار کرتا ہے، تاریخ بدل جاتی ہے۔ گلوب پہ غور کریں گے تو یہ خط آپ کو ٹیڑھا نظر آئے گا۔ اس کو ٹیڑھا اس لیے کیا گیا ہے کہ سیدھا لانے میں ایک ہی ملک میں دو تاریخیں ہو جاتیں، سو اسے ٹیڑھا کرکے اس پریشانی سے بچا گیا ہے۔
اس فرضی خط کے دائیں طرف اگر اتوار ہے تو بائیں طرف پیر کا دن، دائیں طرف 9 تاریخ ہے تو بائیں طرف 10 تاریخ...!
تصویر کو دیکھیں اس میں دو بورڈ لگے ہوئے ہیں ان دو بورڈوں کے درمیان موجود خلا ہی ’عالمی خط تاریخ‘ ہے۔ اس بورڈ کے بائیں طرف اگر آج بدھ ہے تو دائیں طرف جمعرات کا دن ہوگا۔ اگر آپ اس طرح کھڑے ہوں کہ آپ کا دائیں پاؤں دائیں بورڈ اور بائیاں پاؤں بائیں بورڈ کی طرف ہو تو آپ بیک وقت دو دنوں میں کھڑے ہوں گے!
لیجئے مسٹر حامد صاحب! ایک ہی سیکنڈ میں دو دن اور دو تاریخیں آپ کی محبوبہ انگریزی دنیا میں بھی پائی جاتی ہیں۔
یہ تو حال تھا شمسی تقویم والوں کا کہ انھوں نے خود سے ایک خط فرض کرکے تاریخ کو تقسیم کیا ہے۔
جبکہ اللہ تعالى نے فطری طور پہ تاریخ کی تقسیم کا دار ومدار چاند پہ رکھا ہے۔ ’’ھی مواقیت للناس والحج‘‘ اور ’’لتعلموا عدد السنین والحساب‘‘ سے منشائے ربانی واضح ہے۔
لہذا اسلامی نکتہ نظر کے مطابق زمین کے جس خطے میں بھی سب سے پہلے چاند نظر آ جائے گا وہیں سے تاریخ کی ابتداء ہو گی۔ اور یہ مستقل طور پہ کوئی ایک خطہ نہیں ہوتا! کبھی کسی خطے میں چاند پہلے نظر آ جاتا ہے تو کبھی کسی خطے میں۔ جہاں بھی نظر آگیا وہیں شرعی عالمی خط تاریخ ہے۔ اور وہاں سے مغرب کی جانب یکم تاریخ شروع ہو جاتی ہے۔ اور سارے گلوب پہ گھوم کے جب دوبارہ اسی جگہ تاریخ پہنچتی ہے تو مہینے کا دوسرا دن شمار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
چونکہ اسلامی ماہ وسال کا حساب قمری تقویم کے مطابق ہوتا ہے سو اس میں علم فلکیات کی رو سے امکان رؤیت کا اعتبار کرتے ہوئے مطلع کی تحدید کی جاتی ہے۔ اور جس خطے میں چاند نظر آیا ہے اس کے مغرب کی جانب تو یکم تاریخ ہو گی ہی، اسکے مشرقی جانب بھی جہاں تک چاند کے نظر آنے کا امکان ہو، اسے ایک مطلع شمار کرکے یکم تاریخ مانی جاتی ہے۔ مشرق کی جانب مطلع کی حد کلومیٹر یا میل کے حساب سے ایک جیسی نہیں رہتی بلکہ جس جگہ چاند دیکھا گیا ہے وہاں چاند کی عمر کے حساب سے مشرقی جانب مطلع کی حد کا تعین کیا جاتا ہے، کہ اس شہر سے کتنے کلومیٹر / میل مشرق کی جانب یکم تاریخ مانی جائے گی۔ البتہ اس سے عین مغرب کی جانب یکم تاریخ ہی شمار ہوگی۔ لیکن اس کے دائیں بائیں جانب یعنی شمالی اور جنوبی خطے اور قریب کے شمال مغربی اور جنوب مغربی خطوں یکم تاریخ مانی جائے گی یا نہیں اس کا فیصلہ رؤیت یا امکان رؤیت سے کیا جاتا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ سورج مسلسل محو سفر ہے اور زمین محو گردش، چوبیس گھنٹوں میں ہر وقت کہیں نہ کہیں دن کے بارہ بجے ہوتے ہیں اور کہیں نہ کہیں رات کے بارہ، اور کہیں نہ کہیں سورج غروب ہو رہا ہوتا ہے اور کہیں نہ کہیں طلوع۔ اگر زمین پہ کسی خطے کو دن اور تاریخ کا نقطہ آغاز نہ مانا جائے تو نہ دن بدلے گا نہ تاریخ...!
انگریزوں نے اس کے حل کے لیے زمین کے ایک نقطے پہ عالمی خط تاریخ کھینچ کر معمہ حل کیا ہے۔ جبکہ مسلمانوں کے لیے اللہ تعالى خود ہی عالمی خط تاریخ متعین فرماتا ہے، جسے اہل علم و بصیرت جان لیتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں ایک ہی وقت میں دنیا میں دو دن اور دو تاریخیں موجود ہوتی ہیں۔
انگریزی تاریخ بھی اسی طرح چلتی ہے اور اسلامی تاریخ بھی!
اب اگر مثلا سعودیہ میں چاند نظر آگیا تو وہاں سے مغرب کی جانب یکم تاریخ کا آغاز ہوگیا، اور کچھ وہ مشرقی علاقے جو مطلع کی حد میں آتے ہیں وہاں بھی یکم تاریخ شمار کر لی گئی۔ اس کے بعد مغرب کی جانب یکم تاریخ بڑھتے بڑھتے پاکستان پہنچی تو یہاں بھی یکم ذو الحجہ ہو گئی، پھر سمندر پار کرے جب یہ یکم تاریخ دوبارہ سعودیہ میں داخل ہوئی تو یکم سے دو ہوگئی۔
اور جب محرم کا چاند پاکستان میں سعودیہ سے دو گھنٹے پہلے نظر آ جائے گا تو یہاں سے یکم تاریخ کا آغاز ہو گا۔ اور پھر جب یہ یکم دوبارہ پاکستان میں داخل ہوگی تو دو تاریخ بن جائے گی!
اگر مسٹر حامد کمال الدین صاحب تعصب کی عینک اتار کر اپنے ہی فرمودے پہ غور فرمائیں تو اس مخمصے کا شکار نہ ہوں کیونکہ موصوف نے یہ بھی لکھا ہے اور متصل لکھا ہے کہ :
"نیو ایئر" کی رات چوبیس گھنٹے میں پورے عالم پر اپنا چکر پورا کر لیتی ہے، اور وہ "گھنٹوں کے فرق" کے باوجود ایک ہی رات کو "نیو ایئر" کی رات مان کر منا لیتے ہیں۔ انتہى۔
ہمارے ممدوح نے جیسے نیو ایئر نائٹ کو پورے عالم کا چکر چوبیس گھنٹوں میں پورا کرایا ہے، ایسے ہی یوم عرفہ کا کو بھی پورے عالم کا چکر چوبیس گھنٹوں میں پورا کر لینے دیتے تو ملامت سے بچ جاتے۔
یہ کتنا ستم ہے کہ آپ کی نیو ائیر نائٹ تو چوبیس گھنٹوں میں چکر پورا کرے اور ہمارا یوم عرفہ ایک سیکنڈ میں ہی دنیا گھوم جائے!
-
الخميس PM 04:45
2025-06-05 - 356





