اعداد وشمار

14
اسباق
47
قرآن
15
تعارف
14
کتب
280
فتاوى
58
مقالات
188
خطبات

مادہ

مسئلہ عول میں مسٹر غامدی کے چست گواہ کا تعاقب

مسئلہ عول میں مسٹر غامدی کے چست گواہ کا تعاقب

 

از قلم: محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ

آج سے کوئی  اڑھائی سال قبل منکر حدیث جاوید احمد غامدی صاحب کا ایک ویڈیو کلپ کا یوٹیوب لنک مجھے میرے قابل صد احترام شیخ کی طرف سے موصول ہوا، اور اس کا جواب تحریر کرنے کا مجھے حکم ہوا۔ سو اس حکم کی تعمیل کی سعادت اللہ تعالی نے مجھے بخشی اور اس ویڈیو کلپ میں موجود غامدی صاحب نے عول سے متعلق اپنے معروف نظریہ پہ جو کچھ کہا اس کا جواب راقم نے تحریر کیا اور موصوف  - علیہ ما علیہ- کے نظریے کا رد قرآن مجید فرقان حمید، سنت نبویہ، اور علم حساب کی روشنی میں پیش کیا۔ ہمارے ممدوح غامدی صاحب سمجھدار نکلے اور انھوں نے مذکورہ ویڈیو کلپ یوٹیوب سے ڈیلیٹ کروا دیا۔

غامدی صاحب کا عول کے انکار کا نظریہ ان کی کتاب میزان میں بھی موجود ہے اور مذکورہ ویڈیو کلپ کے سوا دیگر ویڈیوز میں بھی انھوں نے اپنا موقف بیان کیا ہے جو کہ یوٹیوب وغیرہ پہ موجود ہیں۔ اور ان  کے اس موقف سے ہم اس وقت کے آگاہ ہیں جب سے  ان کی کتاب میزان شائع ہوئی۔ غالبا 2005ء میں غامدی صاحب کے اس نظریہ انکار عول پہ مولانا نعیم الحق ملتانی (صاحبِ ’’بھینس کی قربانی لفظ بقر کی زبانی‘‘) سے راقم کا علمی مباحثہ  مولانا یوسف گجر صاحب کے گھر زیڈ ٹاؤن ملتان میں مولانا رحمت اللہ شاکر اور مولانا احسان الہی گجر صاحب کی موجودگی میں  بھی ہوا۔ الغرض ان کا یہ نظریہ اور اس پہ بحث مباحثے کا دور نیا نہیں ہے۔

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغِ مصطفویؐ سے شرار بُولہبی

لیکن ایک مجہول الحال شخص جس نے غامدی صاحب والا موقف کہیں سے پڑھ سن لیا، اٹھا اور اس موقف کو اپنا موقف بنا کر پیش کیا اور اسے خالص اپنی تحقیق باور کروایا اور دل میں چھپا چور بار بار موصوف کو یہ کہنے پہ مجبور کرتا ہے کہ جب میں یہ تحریر لکھ کر فارغ ہوا تو مجھے غامدی  صاحب کا کلپ ملا انھوں نے بھی میرے والا موقف ہی اپنایا ہوا تھا۔ میں نے غامدی صاحب سے یہ موقف نہیں لیا۔ اب بارہا اس صراحت و وضاحت کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے، اہل نظر بخوبی جانتے ہیں۔ اور لطف یہ ہے کہ عول کے انکار کا جو موقف غامدی صاحب نے اپنایا ہے، اور اردو دان طبقے میں انھی کی وجہ سے یہ موقف پھیلا ہے، یہ موقف موصوف غامدی صاحب -علیہ ما علیہ-کی بھی اپنی اختراع نہیں ہے! بلکہ ان سے پہلے امامیہ شیعہ، اور ظاہریہ اس موقف کے قائل رہے ہیں۔ معری کے کلام کو اپنا شہکار باور کروانے کی سعی لا حاصل کرنے والے غامدی صاحب  کے بہت سے موقف اسی طرح مسروقہ  ہیں جو اہل علم پہ مخفی نہیں!

خیر... غامدی صاحب نے تو اپنا ویڈیو کلپ ڈیلیٹ کروا دیا اور وہ کلپ دوبارہ نشر نہیں کیا گیا۔ البتہ مؤخر الذکر مجہول الحال شخصیت نے مولانا نعمان بشیر صاحب حفظہ اللہ کو اپنا رسالہ بھیجا تو انھوں نے میرے مضمون کی پی ڈی ایف فائل موصوف کو واٹساپ بھیج دی۔ جس پہ کچھ عرصہ بعد موصوف نے اپنے تئیں نقد کرنے کی کوشش کرکے اپنی جہالت پہ مہر تصدیق ثبت کی۔ جو نقد موصوف نے کیا، وہ اتنا فضول اور سطحی ہے کہ اس کا جواب دینے کی کوئی خاص ضرورت مجھے محسوس نہیں ہوئی۔ لیکن بعض علماء کرام کی طرف سے یہ فرمائش ہوئی کہ

کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں

آج غالب غزل سرا نہ ہوا

لہذا  بطور نمونہ موصوف کے مزعومہ نقد پہ کچھ تبصرہ رقم کیے دیتا ہوں ۔ موصوف نے جو’’برہنہ علمی گالیاں‘‘ راقم کو دی ہیں، ان سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف علمی پہلو پہ ہی توجہ کروں گا کہ

وَلقدْ مررْتُ على اللّئيمِ يسبُّني

فمضيْتُ ثُمَّت قُلْتُ لا يعْنينِي

 

Î ...موصوف فرماتے ہیں:

’’قارئین کرام طاہر صاحب کا یہ لکھنا  ’’عول قرآن مجید میں موجود  اللہ کا حکم ہے‘‘ یہ بالکل قرآن مجید پر سفید جھوٹ باندھا گیا ہے ۔ کیا مولانا محمد رفیق طاہر صاحب واپسی تحریر میں اسکا کوئی حوالہ، سورۃ کا نام، آیت نمبر پیش کر دیں گے؟ ہرگز نہیں کر سکتے!‘‘ انتہی۔

اس کے بعد موصوف مجھ پہ اور دیگر علماء کرام پہ خوب برسے ہیں اور آخر میں ’انا للہ ‘ پڑھ کر بات ختم کی ہے۔

کاش موصوف کھلی آنکھوں سے اس تحریر کو پڑھتے تو مجھ سے یہ مطالبہ نہ کرتے کیونکہ میں نے اگر دعوى کیا ہے تو اس کی دلیل بھی اسی تحریر میں موجود ہے۔ میں اسی تحریر کا اقتباس پیش کرتا ہوں ملاحظہ فرمائیے:

’’.........جبکہ حقیقت میں عول قرآن مجید میں موجود  اللہ کا حکم ہے۔

جاوید احمدغامدی صاحب نے عول کے مسئلہ کو تالیف عبارت کی غلط فہم کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موصوف خود قرآن کی عبارت کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں! کیونکہ اس آیت مبارکہ

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ

اللہ تمھیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔

سورۃ النساء: 11

میں تو واقعتًا یہ متعین نہیں کیا گیا کہ اولادکا  یہ حصہ ترکے کے کتنے حصے میں سے ہے۔ اور یہی طریقہ تقسیم وراثت میں اختیار کیا جاتا ہے۔ کہ جب میت کی اولاد میں بیٹے بیٹیاں ہوں تو وہ سب عصبہ بنتے ہیں۔ اور عصبات کو حصہ اصحاب الفروض کو حصہ دینے کے بعد دیا جاتا  ہے۔ لہذا اگر میت کے والدین اور اولاد موجود ہوگی تو پہلے والدین کو حصہ دے دیا جائے گا پھر باقی ماندہ سارا مال میت کی اولاد میں  ’’لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ‘‘ کے اصول کے تحت تقسیم ہوگا۔ حدیث نبوی میں بھی اس صورت  میں یہی طریقہ کار  مقرر کیا گیا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ

جن کے حصے کتاب اللہ میں  مقرر ہیں انہیں انکے حصے دو اور جو باقی بچ جائے تو وہ قریب ترین مرد رشتہ دار کے لیے ہے۔

صحیح البخاری:6732

یعنی اصحاب الفروض کو حصہ دینے کے بعد باقی بچ جانے والا مال قریبی عصبہ کو دیا جائے گا۔ اور میت کی اولاد میں جب بیٹے اور بیٹیاں ہوں تو بیٹوں کی وجہ سے بیٹیاں بھی عصبہ ٹھہرتی ہیں سو اصحاب الفروض کو پہلے انکے حصے دے دیے جائیں گے اور باقی  ماندہ مال میت کے بیٹوں یا بیٹوں اور بیٹیوں میں تقسیم ہوگا۔ اکیلے بیٹے ہی ہوں تو سارا مال ان میں برابر تقسیم ہو جائے گا اور اگر ساتھ بیٹیاں بھی ہوں تو باقی رہ جانے والے مال کی تقسیم کا اصول مقرر  کر دیا گیا ہے کہ ہر بیٹے کو بیٹی کی نسبت دوگنا دیا جائے گا۔

یہاں تو غامدی صاحب کافہم درست ہے۔  لیکن یہاں سے آگے بڑھتے ہی وہ پھسل گئے اور گمراہی کی گہری کھائی میں جا گرے!

کیونکہ آگے اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ

اگر (میت کی اولاد میں ) عورتیں دو سے زائد ہوں تو انکے لیے اس میں سے دو تہائی ہےجو اس (میت) نے چھوڑا ہے ، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اسکے لیے آدھا ہے۔

سورۃ النساء: 11

یعنی اگر میت کی اولاد میں عورتیں یعنی میت کی بیٹیاں ہوں دو یا دو سے زائد تو انہیں اس مال میں سے دو تہائی ملے گا، جو میت  نے چھوڑا ہے، اور اگر اکیلی ہو گی تو اسی میں سے نصف ملے گا۔ یعنی یہاں اللہ تعالی نے اس دو تہائی کے بارے میں یہ واضح فرما دیا ہے کہ یہ دو تہائی میت کے کل ترکہ میں سے ہوگا۔ غامدی صاحب یہاں ’’مَا تَرَكَ ‘‘ کو شیر مادر سمجھ کر پی گئے ہیں اور اپنے باطل نظریہ کی بنیاد نص قرآنی کے معنی میں تحریف پہ رکھی ہے۔

ہمارے ممدوح فرماتے ہیں ’’ دو بیٹیوں کو باقی ترکہ کا دو تہائی دیا جانا چاہیے۔‘‘ جبکہ قرآن نے ’’ثلثا ما بقی‘‘  (باقی ماندہ میں سے دو تہائی) نہیں فرمایا بلکہ ’’فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ‘‘ (میت کے کل ترکہ میں سے دو تہائی) فرمایا ہے۔ یعنی قرآن مجید کی نص صریح تو دو یا زائد بیٹیوں کو کل ترکہ میں سے دو تہائی دینے  کا حکم دیتی ہے، جبکہ ہمارے ممدوح ان بیٹیوں کو میت کی اولاد ہونے کے جرم میں باقی ماندہ ترکہ میں سے دو تہائی دے رہے ہیں۔ اور موصوف کا یہ نظر قرآن مجید فرقان حمید کی صریح نص کے خلاف ہے۔گویا جس بات کو پوری امت کی غلطی قرار دے کےبار بار اس پہ ہنس رہے ہیں حقیقت میں یہ انکی اپنی غلطی ہے! کہ پوری امت نے وہ معنى سمجھا ہے جو قرآن کے الفاظ میں موجود ہے جبکہ موصوف اپنے نہاں خانہ دماغ میں پیدا شدہ معنى کو قرآن پہ مسلط کرنے کے لیے آیت قرآنی میں سے ’’مَا تَرَكَ‘‘ کے الفاظ کو  ہی ہضم کر گئے ہیں۔ اور فرما رہے ہیں کہ یہ ایمان کا مسئلہ ہے، جی ہاں واقعی ایمان کا مسئلہ ہے کہ امت نے قرآن کے ایک لفظ کو بھی نہیں چھوڑا اور غامدی صاحب ’’مَا تَرَكَ‘‘ کو چھوڑ کر ’’أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ‘‘ کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں! سو انہیں اپنے ایمان کی فکر کرنا چاہیے اور اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے  کہ ’’فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ‘‘ میں انکے لیے واضح وعید ہے!

قرآن کا درست معنى وہی ہے جو نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے سمجھا ہے۔ اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اولاد میں دو یا زائد بیٹیاں ہونے کی صورت میں بیٹیوں کو باقی مال کا دو تہائی نہیں دیا بلکہ کل ترکہ میں سے دو تہائی دیا ہے ۔ یعنی اس صورت میں جب میت کی اولاد میں بیٹے موجود نہ ہوں صرف بیٹیاں ہی ہوں تو بیٹیاں عصبہ نہیں بنیں گی بلکہ اصحاب الفروض میں شامل ہوں گی۔‘‘   انتہی.

یہ وہ مکمل عبارت ہے جو میرے سابقہ مضمون میں موجود ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اپنے دعوے پہ میں نے سورۃ النساء کی آیت پیش کی ہے اور پھر اس کا حوالہ (آیت نمبر) بھی تحریر کیا ہے (جسے میں نے نمایاں کرنے کے لیے سرخ دے دیا ہے)۔ اور پھر اس کا معنى ومفہوم بھی واضح کیا ہے۔ یعنی جو کام میں اپنے مضمون میں پہلے سے کر چکا ہوں ہمارے ممدوح صاحب اسے سمجھنے سے قاصر رہے اور اپنی غباوت کا بھنڈا بیچ چوراہے یہ کہہ کر پھوڑ رہے ہیں کہ اس پہ آیت پیش ہی نہیں کرسکتے۔ یا للعجب!

وكم من عائبٍ قولًا صحيحا                                       وآفتهُ من الفهمِ السقيمِ

ولكنْ تأخذُ الآذانُ منه                                على قدر القرائح والفهومِ

 

¢...  موصوف میری  مذکورہ بالا عبارت سے اقتباس نقل کرکے فرماتے ہیں:

’’راقم کہتا ہےکہ ایک بیٹی یا زیادہ بیٹیاں بھی اولاد ہی ہیں اور وہ بھی بعض اوقات عصبہ بالغیر اور عصبہ مع الغیر بن جاتی ہیں لہذا انھیں بھی باقی ماندہ مال سے ہی نصف یا دو تہائی دیا جانا چاہیے جس سے عول کی صورت پیدا ہی نہیں ہوتی۔‘‘ انتہی۔

اس سادگی پہ کون مر نہ جائے اے خدا..!

اولا:

یہاں راقم موصوف جو کہہ رہے ہیں اس کی دلیل قرآن مجید سے دیں گے؟ ہرگز نہیں دے سکتے!  فَإِن لَّمۡ تَفۡعَلُواْ وَلَن تَفۡعَلُواْ فَٱتَّقُواْ ٱلنَّارَ ٱلَّتِي وَقُودُهَا ٱلنَّاسُ وَٱلۡحِجَارَةُۖ أُعِدَّتۡ لِلۡكَٰفِرِينَ  [البقرة: 24] 

یہ مسئلہ کہ اصحاب الفروض کو حصہ دینے کے بعد باقی ماندہ مال عصبات کو دینا ہے، یہ تو صحیح بخاری کی اس حدیث میں مذکور ہے جو میرے منقولہ بالا کلام میں موجود ہے۔ اگر تو موصوف  اس حدیث کو مانتے ہیں جس میں اصحاب الفروض کو حصہ دینے کے بعد باقی مال عصبات کو دینے کا ذکر ہے تو پھر ان پہ لازم ہے کہ وہ یہ حدیث بھی مانیں جسے میں اپنے سابقہ مضمون میں لکھ چکا ہوں:

’’سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

جَاءَتْ امْرَأَةُ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ بِابْنَتَيْهَا مِنْ سَعْدٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَاتَانِ ابْنَتَا سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، قُتِلَ أَبُوهُمَا مَعَكَ يَوْمَ أُحُدٍ شَهِيدًا، وَإِنَّ عَمَّهُمَا أَخَذَ مَالَهُمَا، فَلَمْ يَدَعْ لَهُمَا مَالًا وَلَا تُنْكَحَانِ إِلَّا وَلَهُمَا مَالٌ، قَالَ: «يَقْضِي اللَّهُ فِي ذَلِكَ» فَنَزَلَتْ: آيَةُ المِيرَاثِ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَمِّهِمَا، فَقَالَ: «أَعْطِ ابْنَتَيْ سَعْدٍ الثُّلُثَيْنِ، وَأَعْطِ أُمَّهُمَا الثُّمُنَ، وَمَا بَقِيَ فَهُوَ لَكَ»

سعد بن الربیع کی زوجہ محترمہ  اپنی سعد رضی اللہ عنہ سے دو بیٹیاں لے کر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم یہ دونوں سعد بن الربیع کی بیٹیاں ہیں، ان کا والد آپ کے ساتھ احد کے دن (جنگ میں) شہدی ہوگیا ہے، اور ان کے چچا نے ان کا سارا مال لے لیا ہے، اور  ان کے لیے کوئی مال نہیں چھوڑا، اور مال کے بغیر انکی شادی نہیں  ہوسکتی۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بارے میں اللہ تعالی فیصلہ فرمائے گا۔ تو میراث والی آیت (سورۃ النساء کی آیت 11،12) نازل ہوئی تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان بچیوں کے چچا کو پیغام بھیجا کہ سعد کی بیٹیوں کو دو تہائی دے دو اور انکی ماں کو آٹھواں حصہ دے دواور جو باقی بچے گا وہ تیرے لیے ہے۔

جامع الترمذی: 2092

اس  حدیث میں بھی واضح ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ کے بھائی کو یہ نہیں فرمایا کہ سعد رضی اللہ عنہ کی بیوہ کو آٹھواں حصہ دے کر جو باقی بچے اس میں سے دو تہائی سعد   رضی اللہ عنہ کی بیٹیوں کو دے دو، بلکہ فرمایا ہے کہ سعد کی بیٹیوں کو دوتہائی اور بیوی کو آٹھواں حصہ دے دو، جو کہ واضح ہے کہ کل ترکہ میں سے دو تہائی اور  کل ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے کیونکہ پھر فرمایا کہ جو باقی بچے وہ تیرے لیے ہے۔گویا یہ حدیث بھی ہمارے ممدوح کی میراث دانی کا جنازہ نکال رہی ہے۔ کیونکہ انکی فہم کے مطابق تو پہلے میت کی زوجہ کو ثمن ملنا چاہیے تھا پھر باقی مال میں سے میت کی بیٹیوں کو ثلثان ملتا۔ لیکن یہاں تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے پہلے ذکر ہی بیٹیوں کا فرمایا ہے اور باقی مال کی کوئی بات تک نہیں فرمائی، بلکہ پہلے بیٹیوں کو ثلثان اور بیوی کو ثمن دینے کے بعد باقی مال کی بات کی ہے کہ وہ تیرے لیے ہے ۔یہی بات اللہ تعالی نے قرآن مجید فرقان حمید میں بیان فرمائی ہے۔ کہ بیٹیاں اگر دو یا زائد ہوں تو  ’’فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ‘‘ ان کے لیے اس میں سے دو تہائی ہے جو اس (میت) نے چھوڑا ہے۔ یعنی کل مال کا دو تہائی بیٹیوں کو ملے گا۔ کیونکہ ’’ثُلُثَا‘‘  کی اضافت ’’مَا تَرَكَ‘‘ کی طرف ہے جس کا واضح معنى ہے کہ اس کا دو تہائی جو اس نے چھوڑاہے ، نہ کہ اس کا دو تہائی جو اس میت کے وارثوں نے باقی چھوڑا۔ سعد رضی اللہ عنہ کی میراث سے متعلق اس واقعہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ جن آیات میں بیٹیوں او ربہنوں کو دو تہائی حصہ دینے کا بیان ہے اس سے مراد کل ترکہ کی دو تہائی ہے، نہ کہ باقی ترکہ کی۔ اپنے خانہ ساز نظریہ کو تحفظ دینے کے لیے قرآن و حدیث کی غلط توجیہات او رباطل تاویلات کرنا منکرین حدیث کا شیوہ ہے، اہل ایمان کا طریقہ نہیں۔‘‘

اب موصوف یا تو عول کو تسلیم کریں کہ ان تمام ورثاء کو سارے ترکے میں سے یہ حصص دیے جائیں، یا پھر عصبات کو اصحاب الفروض سے بچا ہوا دینے کا اصول چھوڑیں، کیونکہ یہ دو نوں باتیں ہی حدیث نبوی میں ہیں!قرآن مجید میں کہیں بھی ترکہ کی تقسیم میں اصحاب الفروض کو پہلے اور عصبات کو بعد میں ’’ما بقی‘‘ (یعنی باقی ماندہ میں سے حصہ دینے) کا ذکر تک نہیں ہے!

الجھا ہے پانوں یار کا زلف دراز میں

لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

 

 

ثانیا:

موصوف کی مندرجہ بالا عبارت سے مترشح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ اصول ہے کہ ’’جو بھی کسی بھی صورت میں عصبہ بن جائے، اسے باقی ماندہ میں سے ہی ملے گا ۔‘‘ کیونکہ بیٹیوں کے بارے میں وہ یہی ارشاد فرما رہے ہیں کہ چونکہ وہ بھی کبھی عصبہ بن جاتی ہیں لہذا انھیں باقی ماندہ مال سے ہی نصف یا دو تہائی دیا جانا چاہیے۔ تو موصوف اس مسئلے کا کیا حل فرمائیں گے جس پہ غامدی صاحب نے خامہ فرسائی فرمائی تھی، اور موصوف نے اپنا موقف بالکل غامدی صاحب کے موافق تسلیم کیا تھا، وہ مسئلہ یہ تھا:

ورثاء

حصص

دو بیٹیاں

ثلثان (دو تہائی)

بیوہ

ثمن (آٹھواں)

والد

سدس (چھٹا)

والدہ

سدس (چھٹا)

اس مسئلہ پہ غور کیجئے کہ یہاں والدہ اور بیوہ یہ دو ورثاء  ہیں جو کبھی عصبہ نہیں بنتے۔ والد بھی عصبہ بن جاتا ہے اور بیٹیاں بھی۔

اب غامدی صاحب نے جو حل پیش کیا اور جس سے موصوف نے موافقت ظاہر کی اس کے مطابق تو والدین یعنی والد اور والدہ دونوں کو پہلے سارے ترکہ میں سے حصہ دے کر باقی ماندہ سے بیٹیوں کو حصہ دیا تھا۔ جبکہ اگر موصوف کا اصول درست تسلیم کیا جائے تو غامدی صاحب کی تقسیم غلط ٹھہرتی ہے کیونکہ والد تو عصبہ  بن جاتا ہے جبکہ بیوہ عصبہ نہیں بنتی، سو تقسیم یوں کرنا چاہیے تھی کہ پہلے سارے  ترکے میں سے والدہ کو چھٹا، اور بیوہ کو آٹھواں حصہ دیا جائے پھر باقی ماندہ سے والدکو چھٹا اور بیٹیوں کو دو تہائی دیا جائے۔ اور ایسا کرنے سے ترکہ مکمل تقسیم نہیں ہوتا...!

اب موصوف یہ تسلیم کریں گے کہ میرا غامدی سے اختلاف ہے، یا یہ مانیں گے کہ میرا اصول غلط ہے؟! دونوں باتوں میں سے جو بھی تسلیم کریں گے وہی ’’اکبر من اختھا‘‘  ثابت ہوگی...!

ثالثا:

موصوف فرما رہے ہیں:

 ’’راقم کہتا ہے کہ..... (بیٹیوں کو) باقی ماندہ مال سے ہی نصف یا دو تہائی دیا جانا چاہیے‘‘  ۔

جبکہ قرآن مجید فرقان میں اللہ تعالی نے فرما یا ہے’’فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ‘‘ (میت کے کل ترکہ میں سے دو تہائی)۔

 اب موصوف خود بتائیں کہ ان کی بات مانیں یا قرآن مجید کی مانیں؟ اگر وہ کہیں گے کہ قرآن کی مانو تو قرآن نے ’’فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ‘‘ (میت کے کل ترکہ میں سے دو تہائی) کہا ہے۔ اور اگر کہیں گے اللہ کی چھوڑو اور میری مانو اور انہیں ما ترک میں سے نہیں بلکہ ما بقی  (باقی ماندہ) میں سے حصہ  دو تو یہ موصوف ’’طاغوت‘‘ بن جائیں گے اور کفر اکبر کے مرتکب ہوں گے!

فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم...!

 

£...موصوف میری تحریر میں موجود لفظ ’’ما ترک‘‘ کے معنى سے جب پریشان ہوئے تو انھوں نے  ’’ ماترک ‘‘ میں لفظ ما کے عموم کی تخصیص کرنے کے لیےیوں پاپڑ بیلے:

’’قارئین کرام! اللہ تعالی کے استعمال کیے ہوئے الفاظ بڑے جامع ہوتے ہیں۔یہی حال لفظ ’’ما ترک‘‘ کا ہے۔ اللہ تعالی نے ہر قسم کے ترکہ (یعنی کل ترکہ یا باقی ماندہ ترکہ) پر ’’ما ترک‘‘  کا لفظ بولا ہے۔ مثلا ساری امت اس بات پر متفق ہے اور قرآن حکیم کی نص سے بھی یہ ثابت ہے کہ وراثت قرض اور وصیت کی ادائیگی کے بعد ہی تقسیم کی جاتی ہے۔ لہذا یہاں اللہ تعالی کا بولا ہوا ’’ما ترک‘‘ کا لفظ (کل ترکہ میں سے قرض اور وصیت کی مقدار کو نکالنے کے بعد بھی ) ما بقی (باقی ماندہ ترکہ) پر بھی بولا گیا ہے۔‘‘ انتہی۔

مزید فرماتے ہیں:

جناب والا! ’’ما ترک‘‘ کا  ترجمہ ’’کل ترکہ‘‘ نہیں ہوتا، بلکہ ’’ما ترک‘‘ کا لغوی ترجمہ  ’’جو چھوڑا، جو بچا‘‘ ہوتا ہے۔

لہذا ’’ ما ترک‘‘ کا ترجمہ ’’کل ترکہ‘‘ کرنا یا ’’کل چھوڑا ہوا مال‘‘ کرنا قرآن حکیم کی صریحاتحریف ہے اور اپنے اسلاف میں سے کسی ایک کی اندھی تقلید ہے۔‘‘ انتہی۔

اولا:

اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی...!

موصوف نے بڑا زور لگا کے بہت دور کی کوڑی لانے کی کوشش کی ہے، لیکن اس کوشش کے نتیجے میں ان کا اپنا کلام ہی مجموعہ اضداد بن گیا ہے! کہ پہلے موصوف نے فرمایا:

’’اللہ تعالی نے ہر قسم کے ترکہ (یعنی کل ترکہ یا باقی ماندہ ترکہ) پر ما ترک کا لفظ بولا ہے۔‘‘

پھر اپنا فرمودہ چند سطروں کے بعد ہی بھول گئے اور گویا ہوئے کہ:

           ’’ما ترک‘‘ کا  ترجمہ ’’کل ترکہ‘‘ نہیں ہوتا‘‘

اور

’’ ما ترک‘‘ کا ترجمہ ’’کل ترکہ‘‘ کرنا یا ’’کل چھوڑا ہوا مال‘‘ کرنا قرآن حکیم کی صریحاً تحریف ہے اور اپنے اسلاف میں سے کسی ایک کی اندھی تقلید ہے۔‘‘

پہلے کہا کہ اللہ تعالی نے کل  ترکہ یا باقی ماندہ ترکہ پر ما ترک کا لفظ بولا ہے۔ اور پھر خود ہی کہا کہ یہ ترجمہ قرآن کی صریحاً تحریف ہے اور آباء کی تقلید ہے۔ 

تو کیا مقدم الذکر سطر میں  موصوف نے بھی خود اپنے آباء کی تقلیدمیں قرآن حکیم کی صریحا تحریف کی؟!

یعنی جس کام سے ہمیں روک رہے وہی تو خود بھی انجام دے رہے ہیں!

نہ تنہا من دریں میخانہ مستم

جنید وشبلی وعطار ہم شد مست

ثانیاً:

وصیت اور قرض کو تو اللہ تعالی نے خود الگ کر دیا ہے:

مِنۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٖ يُوصِي بِهَآ أَوۡ دَيۡنٍۗ  [النساء: 11] 

مِنۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٖ يُوصِينَ بِهَآ أَوۡ دَيۡنٖۚ  

مِّنۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٖ تُوصُونَ بِهَآ أَوۡ دَيۡنٖۗ 

مِنۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٖ يُوصَىٰ بِهَآ أَوۡ دَيۡنٍ غَيۡرَ مُضَآرّٖۚ  [النساء: 12] 

یعنی اللہ سبحانہ وتعالى خود فرما رہے ہیں کہ وصیت کو پورا کرنے اور قرض کی ادائیگی کرنے کے بعد جو کچھ میت نے چھوڑا ہے اس میں سے فلاں کو اتنا ، فلاں کو اتنا، فلاں کو اتنا حصہ دو۔ لہذا میت کے ترکہ میں سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا پھر باقی ماندہ مال میں سے ایک تہائی سے وصیت پوری کی جائے گی اور پھر اس کے بعد جو مال باقی بچا وہ میت کے ورثاء میں انکے حصص کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔

شیعوں کی ہمنوائی میں موصوف اور ان کے پیش روغامدی ویگر عقل پرست منکرین حدیث عول کا انکار کرتے ہوئے جو ایک وارث کو کل ترکہ میں سے دے کر دوسرے کو باقی ترکہ میں سے دینے کے قائل ہیں ، وہ اپنے اس نظریہ پہ قرآن کی کوئی آیت آج تک پیش نہیں کر سکے اور نہ ہی تا قیامت کر سکتے ہیں   وَلَوۡ كَانَ بَعۡضُهُمۡ لِبَعۡضٖ ظَهِيرٗا

ثالثا:

 موصوف نے وصیت اور قرض کو منہا کرنے کی وجہ سے لفظ ’’ما‘‘ کے عموم کی مطلق نفی کر دی ہے۔ جبکہ یہ عام خص عنہ البعض ہے۔ یعنی ایسا عام ہے جس میں سے نص قرآنی نے وصیت اور قرض کو الگ کر دیا گیا ہے۔وصیت اور قرض کے بعد ’’ما‘‘ کا عموم باقی ہے۔  اوراگر کسی نے کوئی وصیت ہی نہ کی ہو اور اس پہ کوئی قرض بھی نہ ہو، تو ’’ما‘‘اپنے عموم پہ ہی رہے گا۔ یعنی اس کے جمیع ترکہ میں سے ہی ورثاء کو حصے دیے جائیں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ چونکہ ترکے میں سے وصیت و قرض کو الگ کیا گیا ہے لہذا اپنی من مرضی سے کسی فرد کو کل ترکہ میں سے حصہ دے دو اور کسی کو باقی میں سے!۔ قرآن مجید فرقان حمید نے جو الفاظ عام بولے ہیں انھیں عموم پہ ہی رکھا جائے گا،ان کے عموم کے صرف وہ افراد خاص ہوں گے جنہیں وحی الہی خود خاص کر دے۔ باقی ماندہ پہ عام والا حکم ہی جاری ہوگا۔ اور وحی الہی کی دلیل کے بغیر قرآن مجید کے عام کی تخصیص کرنا شریعت سازی  ہے، جو کہ متفقہ طور پہ حرام ہے!

اور موصوف یہ جانتے تھے کہ میرے اس دعوى پہ کوئی دلیل نہیں ہے ، اسی لیے اپنی اس بلا دلیل فکر کو انھوں نے ’’راقم کہتا ہےکہ‘‘ کہہ کر پیش کیا ہے۔یہاں سوال یہ ہے کہ آپ ہیں کون؟ آپ کی حیثیت ہی کیا ہے؟ جو قرآن مجید میں موجود اللہ تعالی کے حکم کے مقابلہ میں اپنا قول پیش کرسکیں!

جیسا کہ موصوف نے کہا کہ ’’اللہ تعالی کے استعمال کیے ہوئے الفاظ بڑے جامع ہوتے ہیں‘‘ واقعی ایسا ہے کہ کلام الہی بڑا جامع ہے اور جامع ہونے کے ساتھ ساتھ ’’مانع‘‘ بھی ہے! لیکن موصوف نے الفاظ قرآنی کی نہ مانعیت سمجھی اور نہ ہی اس میں جامعیت باقی رہنے دی۔ جامعیت کا تقاضا تو یہ تھا کہ ان تمام تر افراد کو ’’ما ترک‘‘ سے حصہ دیا جائے۔ جبکہ موصوف صرف ایک فرد کو ’ما ترک‘ سے حصہ دے کر باقیوں کا  کچھ حصہ شیر مادر سمجھ کر پی گئے! اور انہیں باقی ماندہ  میں سےدینے والی بندر بانٹ شروع کر دی۔ اور قرآنی الفاظ کی یہی کمال مانعیت ہے کہ موصوف کے دماغ میں اٹھنے والا غلط معنى جو انھوں نے غامدی اورشیعوں کی تقلید میں سوچا ہے، قرآن مجید کے الفاظ اس معنى کی ہرگز کوئی گنجائش ہی نہیں دیتے!

کیونکہ

ورثاء

حصص

دو بیٹیاں

ثلثان (دو تہائی)

بیوہ

ثمن (آٹھواں)

والد

سدس (چھٹا)

والدہ

سدس (چھٹا)

میں سے اگر والد اور والدہ کو چھٹا چھٹا حصہ کل مال سے دیا جائے تو ایک تہائی مال یہیں ختم ہو جاتا ہے۔ اور بیوہ کبھی بھی عصبہ نہیں بنتی لہذا اسے بھی کل ترکہ میں سے آٹھواں حصہ دیا جائے گا۔ مثلا

ترکہ اگر 24 روپے ہے تو 4،4 روپے ماں باپ کو مل گئے اور 3 روپے بیوہ کو مل گئے ۔اب باقی 13 روپے رہ گئے۔ موصوف کی آئیڈیالوجی کے مطابق اس باقی 13 روپے میں سے دو تہائی بیٹیوں کو ملیں گے، ان 13 روپوں میں سے دو تہائی  یعنی 8.66 روپے تو بیٹیوں کو مل گئے باقی 3.33روپے کہاں جائیں گے؟ اس کا حل موصوف نہیں  بتا سکے!کہیں یا باقی ماندہ میں سے ایک تہائی موصوف اپنے گھر تو نہیں لیجانا چاہتے؟! ہمارے ممدوح بھاگے تھے عول سے کہ اس میں تمام ورثاء کے حصص میں کمی واقع ہوتی ہے۔ لیکن خود جو کمال کیا وہ واقعی کما ل ہے کہ والدین اور زوجین کو تو مناسب حصہ دے دیا لیکن میت کی بیٹیوں کا حصہ انتہائی کم کر دیا اور پھر اس بندر بانٹ میں بندر کی طرح اپنے لیے بھی بچا لیا۔ اسے کہتے ہیں ’’فر من المطر وقام تحت الميزاب‘‘۔ قرآن نے تو دو بیٹیوں کو دو تہائی حصے دیے تھے جبکہ موصوف اور ان کے عقل پرست پیش رو دونوں بیٹیوں کو جائیداد میں سے ساتواں حصہ بھی مکمل دینے کو تیار نہیں!۔

اس مسئلہ میں عول کے منکر رافضی شیعہ موصوف اور ان کے پیشوا مسٹر غامدی سے بہتر رہے ہیں کہ انھوں نے یہاں دو بیٹیوں کو باقی ماندہ میں سے دوتہائی دینے کے بجائے سارا باقی ماندہ دو بیٹیوں کو دیا ہے،  اور مکمل ترکہ تقسیم کر دیا۔ جبکہ موصوف اور انکے پیشوا باقی ماندہ سے دو تہائی دینے پہ مصر ہیں اور ترکہ مکمل تقسیم کرنے سے قاصر ہیں!

رابعاً:

موصوف نے ’’ما ترک‘‘ کا ترجمہ کرکے جس چیز کی نفی کرنا چاہی وہ ان کے کیے گئے ترجمہ میں بھی موجود ہے، ملاحظہ فرمائیں موصوف کہتے ہیں:

جناب والا! ’’ما ترک‘‘ کا  ترجمہ ’’کل ترکہ‘‘ نہیں ہوتا، بلکہ ’’ما ترک‘‘ کا لغوی ترجمہ  ’’جو چھوڑا، جو بچا‘‘ ہوتا ہے۔

اب کوئی بھی عقل مند غور کرے تو اسے آسانی سے بات سمجھ آسکتی ہے  کہ میت نے ’’جو چھوڑا‘‘  ہو وہی اس کا کل ترکہ ہوتا ہے۔ کیونکہ بات میت کے چھوڑے ہوئے کی  ہو رہی ہے نہ کہ وارث کے حصہ لینے کے بعد چھوڑنے کی۔

اور جو دوسرا معنی ’’جو بچا‘‘ موصوف نے کیا ہے، اس معنى پہ کسی بھی معتبر لغت سے کوئی دلیل پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں! اور پیش کر بھی کیسے سکتے ہیں کہ ’’ترک‘‘ کا معنى ’’چھوڑا‘‘ ہوتا ہے ’’بچایا‘‘ نہیں۔ اور اگر موصوف یہ کہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ میت نے اپنا مال زندگی میں خرچ ہونے سے جو بچایا وہ مراد ہے تو یہ ترجمہ نہیں بلکہ مفہوم ہو سکتا ہے۔ اور اگر یہ مفہوم بھی مان لیں تو بھی نتیجہ وہی نکلتا ہے کہ جب وہ مرا تو جو کچھ بھی باقی تھی وہ اس کا کل ترکہ ہی تھا!۔ فاعتبروا یا اولی الابصار....!

 

¤... موصوف نے زوجہ و ابوین اور زوج و ابوین والے مسئلہ میں والدہ کو زوج / زوجہ کو حصہ دینے کے بعد ثلث دینے کو بہت اچھا لا ہے کہ یہاں ماں کو ’’ماترک‘‘ سے ثلث کیوں نہیں دیا گیا۔ یہاں بعد فرض احد الزوجین ثلث دینے سے ثابت ہوتا ہے کہ باقی ہر جگہ بھی یہی کام ہوگا کہ ’ما ترک‘ کا معنى ’ما بقی‘ ہی کیا اور سمجھا جائے گا۔

جبکہ اس مسئلہ کی وضاحت میں اپنے سابقہ مضمون میں بایں الفاظ کر چکا ہوں کہ:

’’ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ

اگر اس (میت ) کی اولاد نہ ہو اور اسکے وارث اسکے ماں باپ ہوں تو ماں کے لیے ایک تہائی حصہ ہے۔ اور اگر اس (میت) کے ایک سے زائدبھائی/ بہن  ہوں تو ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے۔

سورۃ النساء: 11

یہاں دو باتیں قابل غور ہیں ایک تو یہ کہ میت کی اولاد نہ  ہونے کی صورت میں وارث صرف میت کے ماں باپ کو قرار دیا گیا ہے۔ یعنی میت کی بیوی یا خاوند کے سوا  میت کے وارث اسکے ماں باپ ہی ہونگے۔ یعنی نسبی رشتہ داروں میں سے ماں باپ کے سوا کوئی وارث نہیں ہوگا۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ میت اگر عورت ہے تو اسکے خاوند اور مرد ہے تو اسکی بیوی کو حصہ دینے کے بعد چونکہ میت کی اولاد نہیں ہے باقی سارا مال میت کے والدین میں تقسیم کیا جائے گا جس میں سے میت کی ماں کو ایک تہائی ملے گا۔ میت کے والد کا حصہ کتنا ہے اسکا تعین خود ہی ہو جائے گا کہ باقی سارے کے مالک چونکہ اس کے والدین ہیں تو والدہ کو بقیہ میں سے ایک تہائی دے کر باقی کا دو تہائی والد کو دیا جائے گا۔ اور اگر میت کا خاوند یا بیوی نہ ہو تو میت کا سارا ترکہ ہی والدین میں اسی نسبت سے تقسیم کیا جائے گا۔ اور اگر صرف والدہ ہو تو اسکے لیے ترکہ میں سے تہائی حصہ ہےبشرطیکہ میت کی اولاد یا ایک سے زائد بھائی نہ ہوں۔‘‘ انتہی۔

ثانیا:

اس آیت مبارکہ  ’’ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ‘‘  میں اللہ سبحانہ وتعالى نے وہ صورت بیان کی ہے جب وارث صرف ماں باپ ہوں،ان کے سوا کوئی اور وارث نہ ہو، تو میت کے بھائیوں کی موجودگی میں ماں کو سدس اور ان کی عدم موجودگی میں ثلث ملے گا، اور باقی ماندہ سارا والد کا ہوگا، کیونکہ وارث صرف انہی دونوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔جب میت کے بھائی بہن دو یا زائد ہوں تو تب میت کی ماں سدس کی حقدار ہے اور جب نہ تو میت کی اولاد ہو اور نہ ہی میت کے بھائی بہن ہوں تو صرف والد اور والدہ حق دار ٹھہریں گے تو ان کے درمیان ترکہ ’’للذکر مثل حظ الانثین‘‘ کے عصبہ والے اصول کے تحت ہی تقسیم ہوگا۔ اور یہ بات سابقہ سطور میں ہم بیان کر آئے ہیں کہ عصبات کو ان کا حصہ اصحاب الفروض کو حصہ دینے کے بعد دیا جاتا ہے۔

لہذا جب میت کے نسبی رشتہ داروں میں صرف والدین ہی حصہ دار ہوں تو وہ چونکہ عصبہ والے اصول کے تحت وارث بنتے ہیں، لہذا زوجین میں سے اگر کوئی بقید حیات ہے تو اسے پہلے اس کا فرضی حصہ دیا جائے گا اور بعد میں والدین کو’’ للذکر مثل حظ الاثنیین‘‘ کے اصول کے تحت باقی ماندہ میں سے ایک حصہ والدہ کو دیا جائے گا جو کہ بقیہ کا ایک ثلث ہے اور دو حصے والد کو جو کہ بقیہ کا دو ثلث ہے۔

حیرت ہے کہ موصوف نے اس صورت میں والدین کو حصہ دینے سے متعلق  تفسیر ابن کثیر سے اقتباس نقل کیا اور پھر خود ہی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’اگر ماں کو کل ترکہ سے تیسرا حصہ دیتے ہیں تو اللہ تعالی کے قائم کردہ اصول للذکر مثل حظ الانثیین کا خلاف لازم آتا ہے‘‘۔ انتہى۔

لیکن یہ بھول گئے کہ ’للذکر مثل حظ الانثیین‘ کا اصول جن افراد پہ لگتا ہے ، انہیں اصحاب الفروض کو حصہ دینے کے بعد باقی ماندہ میں سے حصہ دیا جاتا ہے۔

اور لطف تو یہ ہے کہ موصوف ’’ما ترک‘‘ کا معنى ’’ما بقی‘‘ ثابت کرتے کرتے اپنے سابقہ اصول کہ ’’والدین کو تقسیم ترکہ  میں مقدم رکھا جائے گا‘‘ کے خلاف موقف اختیار کر بیٹھے ہیں، اور انھیں خبر تک نہیں ہوئی! اور ’’ما ترک‘‘ کو ’’ما بقی‘‘ بنانے میں بھی ناکام رہے۔

تنبیہ بلیغ:

یہاں یہ بات پھر ذہن میں رہے کہ آیت مذکورہ میں ایسی صورت بیان ہو رہی ہے جس میں وارث صرف ماں باپ ہی ہیں، لفظ ’’وورثہ ابواہ‘‘ سے یہ بات اظہر من الشمس ہےکہ والدین کے ساتھ کوئی اور وارث نہیں ہے۔ لہذا جس مال میں والدین حصہ دار ہیں اس کا ثلث یا سدس والدہ کو دیا جائے گا۔ اور زوجین کی موجود گی میں پہلے زوجین کو حصہ دینے کے بعد ہی باقی مال کے وارث  صرف ماں باپ رہ جاتے ہیں، جبکہ زوجین کی موجودگی میں ’’ورثہ ابواہ‘‘ نہیں ہوتا بلکہ ’’ورثہ زوجہ و ابواہ‘‘ والی حالت ہوتی ہے! اور یہ حالت نص  میں مذکور حالت کے سوا ہے۔اور زوجین میں سے کسی ایک موجودگی میں مال تقسیم کرنے کے لیے اس آیت ’’وورثہ ابواہ‘‘ اور اس سے اگلی آیت ’’ولکم نصف ما  ترک ازواجکم.... الخ‘‘ کو جمع کیا جائے گا۔

 

تنبیہ ثانی:

قرآن مجید میں کہیں بھی ایسا  حکم نہیں ہے کہ زوجین میں سے کسی ایک کی موجودگی میں بھی والدہ کو کل مال سے ثلث یا سدس دیا جائے ۔ کیونکہ’’وورثہ ابواہ‘‘ کا لفظ متقاضی ہے کہ یہ حصص تب مقرر ہیں جب والدین کے سوا کوئی اور وارث نہ ہو۔ خوب سمجھ لیں!

 

¥... موصوف میری نقل کردہ  سعد بن الربیع رضی اللہ عنہ کی بیٹیوں اور بیوہ سے متعلق حدیث پہ تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اس حدیث سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ صرف بیٹیوں اور ماں کی موجودگی میں ان کے حصص کل ترکہ ہی سے نکالے جائیں گے اور جو باقی بچے گا  وہ عصبہ کا ہوگا۔ لیکن اگر والدین کے ساتھ خاوند یا بیوہ موجود ہو تو پھر بیٹیوں کو باقی ماندہ ترکہ سے دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ صحیح قول کے مطابق صحابہ کرام نے والدین کے ساتھ خاوند یا بیوہ کی موجودگی میں والدہ کو باقی ماندہ ترکہ سے ایک تہائی دلوایا ہے۔‘‘

اس کے بعد موصوف نے اسی بات کا تکرار کیا ہے اور سابقہ بحث کا اعادہ فرمایا ہے۔

جبکہ ہم سابقہ نکتے میں یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ والدہ کو بیوہ یا خاوند سے بچے ہوئے کا باقی ماندہ دینے پہ قرآن مجید کی نص ’’وورثہ ابواہ‘‘ دلالت کرتی ہے، جیسا کہ سابقہ سطور میں تفصیل بیان کی جاچکی ہے۔ جبکہ بیٹیوں کو باقی ماندہ دینے پہ کوئی دلیل نہیں ہےبلکہ یہ نص کی موجودگی میں وہی شیطانی قیاس ہے جو سب سے پہلے ابلیس نے کیا تھا۔ پھر لطف یہ ہے کہ ساری بحث میں موصوف نے ہمارے حل کردہ مسئلے پہ بے جا اعتراضات تو کیے ہیں لیکن خود اس مسئلہ کو حل نہیں کیا...!کیونکہ اگر حل کرنے کی کوشش کرتے تو ان کے اصول انہی کے گلے پڑ جاتے ، جیسا کہ صفحہ 14 میں اشارہ کیا گیا ہے۔... فاعتبروا یا اولی الابصار!

لیکن موصوف کی کمال ڈھٹائی دیکھیے کہ بار بار یہ باور  کروانے کی سعی لاحاصل کرتے چلے جاتے ہیں کہ زوجہ/زوج اور والدین اور بنات والے مسئلہ میں اگر بیٹیوں کو  باقی ماندہ ترکہ میں سے دیا جائے تو عول کی قابل اعتراض صورت ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن خود یہ مسئلہ حل نہیں کرتے بلکہ بے پر کی اڑا کر آگے نکل جاتے ہیں۔ ایک دفعہ بیٹیوں کو باقی ماندہ میں سے دے کے تو دیکھیں پھر معلوم ہوگا کہ عول سے بھاگ کر وہ کس قابل اعتراض صورت حال سے دوچار ہوگئے ہیں ، کہ باقی ماندہ میں سے نصف یا ثلثان دے کر باقی کا نصف یا ثلث ان کے سر پہ عذاب بنا کھڑا ہوگا!

سَوْفَ تَرَىَ وَيَنْجَلِي الغُبَارُ

‌أَفَرَسٌ ‌تَحْتَكَ أَمْ حِمَارُ

 

¦...موصوف والدین اور زوجین کو کل ترکہ میں سے حصہ دینے والے مسئلہ کو درست تسلیم کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

’’لیکن اکیلی بیٹیوں یا اکیلی بہنوں کو مذکورہ بالا بیان کردہ اصحاب الفروض کو ادا کرنے کے بعد باقی ماندہ ترکہ میں سے کتاب اللہ کی ہدایت کے مطابق ادا کیا جائے گا۔ بس ہمارا یہی سادہ آسانی والا اور صحیح موقف ہے۔ ‘‘

گویا موصوف یہاں تک آتے آتے اپنا اصول بھول گئے جو انھوں نے پہلے (نمبر 2 میں) وضع کیا تھا، یا اس سے دستبردار ہوگئے ، یا انھوں نے اسے صرف بیٹیوں اور بہنوں سے خاص کر دیا  ، ملاحظہ فرمائیں :

’’راقم کہتا ہےکہ ایک بیٹی یا زیادہ بیٹیاں بھی اولاد ہی ہیں اور وہ بھی بعض اوقات عصبہ بالغیر اور عصبہ مع الغیر بن جاتی ہیں لہذا انھیں بھی باقی ماندہ مال سے ہی نصف یا دو تہائی دیا جانا چاہیے جس سے عول کی صورت پیدا ہی نہیں ہوتی۔‘‘ انتہی۔

یعنی پہلے تو باقی ماندہ میں سے دینے کی علت یہ بیان فرمائی تھی کہ چونکہ وہ عصبہ بن جاتی ہیں اور عصبہ کو باقی ماندہ میں سے ملتا ہے لہذا بیٹیوں کو باقی ماندہ میں سے ملنا چاہیے۔ تو عصبہ بننے میں صرف بیٹیاں یا بہنیں ہی اکیلی نہیں ہیں، بلکہ والد بھی عصبہ بن جاتا ہے ، لیکن یہاں آ کر انھوں نے اپنے اس بے دلیل اصول کو بلا دلیل بہنوں اور بیٹیوں سے خاص کر دیا ۔اور پھر اسے سادہ اور آسانی والا اور صحیح موقف قرار دے رہے ہیں۔ کاش وہ اس پہ کوئی ایک دلیل ہی پیش کر دیتے۔ لیکن وہ نہ تو بیٹیوں اور بہنوں کو باقی ماندہ میں سے دینے کی دلیل پیش کرسکے ہیں اور نہ ہی اس اصول کو بہنوں بیٹیوں کے ساتھ خاص کرنے کی توجیہ کر سکے ہیں۔    هَاتُواْ بُرۡهَٰنَكُمۡ إِن كُنتُمۡ صَٰدِقِينَ  

 پھر عجب یہ کہ تحریر کے آغاز میں موصوف نے سارا زور اس بات پہ لگایا ہے کہ ’ما ترک‘ کا معنى ’ما بقی‘ یعنی بچا ہوا، چھوڑا ہوا ہے۔ لیکن یہاں والدین کے لیے مستعمل ’ما ترک‘ کا معنى کل ترکہ کر رہے ہیں!۔ یعنی جب چاہتے ہیں ’ما ترک‘ کا معنى بدل لیتے ہیں !۔

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں!

ہُوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!

  • ... موصوف رقمطراز ہیں:

’’ اس کے بعد مولانا رفیق طاہر صاحب نے علامہ جاوید احمد غامدی صاحب کی تفسیر ’المیزان‘ کی ایک غلطی نکالی ہے۔..... لیکن راقم نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی‘‘

اس پہ اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ’’ذَٰلِكَ مَبۡلَغُهُم مِّنَ ٱلۡعِلۡمِ‘‘ یعنی موصوف کا مبلغ علمی یہی ہے کہ انھوں نے ’’المیزان‘‘ کوبھی ’’تفسیر‘‘ ہی سمجھ لیا ہے۔کاش انھوں نے غامدی صاحب کی’’المیزان‘‘ دیکھی ہوتی!۔

 

¨... موصوف نے ’والدین، زوجہ، اور دو بیٹیوں‘ والے مسئلہ کے ہمارے بیان کردہ حل پہ پھر وہی گھسا پھٹا اعتراض جڑا ہے کہ اس مسئلے میں بیٹیوں کو باقی ماندہ میں سے دیا جائے، اور کل مال کے 27 حصے کرنے کے بجائے 24 حصوں سے ہی وراثت تقسیم کی جائے۔ ان کے اس اعتراض کا وہی جواب ہے جو بارہا ہم پہلے دے چکے ہیں کہ اللہ تعالی نے ’’ما ترک‘‘ سے بیٹیوں کو  ’دو تہائی‘ دینے کا حکم دیا ہے اور یہ اسی طرح ہی ممکن ہے۔ جبکہ موصوف زوجہ اور والدین کو حصہ دینے کے بعد باقی بچ جانے والے مال سے صرف دو تہائی دے کر ایک تہائی شیر مادر سمجھ کر پی جانا چاہتے ہیں!۔

 

©... موصوف نے پھر  ہمارے حل کردہ مذکورہ مسئلہ پہ وہی رٹا رٹایا اعتراض دہرایا ہے کہ

’’اس گوشوارے کے مطابق نہ ہی اللہ کے حکم پہ عمل ہوتا ہے اور نہ ہی ورثاء کو اللہ کی طرف سے مقرر کیے ہوئے حصے ملتے ہیں۔ ‘‘

جبکہ ہم اپنے سابقہ مضمون میں یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ ہر حقدار کو میت کے ترکے میں سے اس کے حصے کے تناسب سے عول کے ذریعہ اس کا حق مل جاتا ہے۔

پھر اس مذکورہ مسئلہ پہ اعتراض اٹھایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:

’’ اللہ تعالی کا حکم ہے کہ بیوہ کو ’ثمن‘ یعنی آٹھوں  حصہ دیں تو وہ 24000 میں سے 3000 بنتا ہے، جبکہ اس مسئلہ میں اسے 2666.66 مل رہا ہے، والد اور والدہ کو ’سدس‘ یعنی چھٹا حصہ دینے کا حکم ہے جو 24000 میں سے 4000 بنتا ہے، جبکہ اس مسئلے میں ان دونوں میں سے ہر ایک کو 3555.55 مل رہا ہے۔‘‘

جس مسئلے پہ اعتراض کیا جا رہا ہے وہ درج ذیل ہے:

ورثاء

حصص

24(تصحیح)

27(عول)

27÷24000=888.888

دو بیٹیاں

ثلثان (دو تہائی= ⅔)

16

16

888.888 × 16 =14222.22

بیوہ

ثمن (آٹھواں=⅛)

3

3

888.888 × 3 =2666.66

والد

سُدس (چھٹا=⅙)

4

4

888.888 × 4 =3555.55

والدہ

سُدس (چھٹا=⅙)

4

4

888.888 × 4 =3555.55

اس میں آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں  کہ ہر فریق کو میت کے ترکہ میں سے اس کے حصے کے تناسب سے اس کا حق دیا گیا ہے۔

لیکن موصوف نے اعتراض کرتے ہوئے والدین اور زوجہ کے حصوں کو تو 24000 میں سے نکل لیا، اور جب میت کی اولاد یعنی بیٹیوں کی باری آئی توانھیں سانپ سونگھ گیا، حالانکہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے انھیں بھی  میت کے ترکہ میں سے دو تہائی دینے کا حکم دیا ہے اور وہ 24000 میں سے 16000 بنتا ہے۔

اگر والدہ اور والد کو 4،4 ہزار، زوجہ کو 3 ہزار دیا جائے اور بیٹیوں کو دوتہائی 16 ہزار دیا جائے تو یہ کل رقم 27 ہزار بن جاتی ہے، جبکہ ترکہ صرف 24 ہزار ہے۔

موصوف زمانہ جاہلیت کی سوچ کے مطابق بیٹیوں کا حصہ کم سے کم تر بلکہ کم ترین کرتے جارہے ہیں کہ والدین اور زوجہ کو 11 ہزار دے کر باقی 13 ہزار میں سے دوتہائی دینا چاہتے ہیں ،یعنی جنھیں 16 ہزار ملنا تھا انھیں  صرف 8666.66 روپے پہ ٹرخا دینا چاہتے ہیں یعنی ان کے اصل حصہ کا تقریبا نصف دے کے رخصت کرنا چاہتے ہیں اور پھر باقی ماندہ کا دو تہائی دے کر ایک تہائی یعنی 4333.33 روپے شاید خود کھا جانا چاہتے ہیں! اور پھر اسے ہی درست اور حق قرار دینے پہ مصر بھی ہیں!

خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد

جو چاہے تیرا ’فہم‘ کرشمہ ساز کرے

موصوف فرماتے ہیں:

’’کیا تقسیم وراثت میں اس عول والے قانون سے بڑھ کر کوئی اور ظلم اور زیادتی والا قانون یا فامولا ہوسکتا ہے؟‘‘

موصوف کے اس سوال کا جواب آپ سطور بالا میں  ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ جس عول کو وہ ظلم اور زیادتی والا قانون فارمولا قرار دے رہے ہیں، اس میں تو تمام تر ورثاء کو انکے مقرر کردہ حصص کے تناسب سے ان کا حق مل جاتا ہے۔ جبکہ موصوف اور ان کے اکابر کی آئیڈیالوجی کے مطابق دور جاہلیت اور ہندوانہ رسم ورواج کی طرح بیٹیوں کو انکے تقریبا آدھے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ یقینا یہ بہت بڑے ظلم اور شدید زیادتی والا فارمولا ہے جسے یہ لوگ نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اور کیوں نہ ہو کہ ان کے اس فارمولے کے مطابق والدین اور زوجہ کو حصہ دینے کے بعد باقی بچنے والے مال میں سے دو تہائی بیٹیوں کو دے کر باقی ماندہ کا ایک تہائی ورثاء میں سے کسی کو نہیں دیا جاتا۔

موصوف رقمطراز ہیں:

’’ ہمارے ممدوح حضرت مولانا  محمد رفیق طاہر صاحب اور ان کے بعض ہمنوا علمائے کرام کہتے ہیں کہ ہم نے وراثت کے اس قانون اور ضابطہ کو نہیں چھوڑنا کیونکہ یہ چند جید صحابہ کرام کا بنایا گیا قانون ہے۔‘‘

موصوف جھوٹ باندھنے میں بھی ید طولى رکھتے ہیں، کیونکہ یہ مقولہ میرا ہرگز نہیں ہے، اور نہ ہی عول کو اختیار کرنے کی وجہ، بلکہ میں نے تو عول کو کتاب اللہ کا حکم قرار دیا ہے اور اسی وجہ سے اسے تسلیم کیا ہے۔ اور اپنی سابقہ تحریر میں اپنے اس دعوے کو ثابت بھی کر چکا ہوں۔

پھر مسئلہ عول میں  ہمارے ہمنوا علماء کرام کو ’’بعض‘‘ کہہ کر قلت کی طرف اشارہ کرنا بھی موصوف کی دیدہ دلیری ہے۔ کیونکہ عول کا انکار صرف بعض شیعہ (متقدمین شیعہ میں بھی عول کے قائلین موجود ہیں۔)یا  بعض عقل پرست معتزلہ نے کیا ہے، یاانکے ہمنوا ظاہریہ بنے ہیں۔ جبکہ عول کے قائلین جمہور اور اکثریت میں ہیں ۔یعنی ان کی  حالت ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ والی ہے۔ اور حالانکہ موصوف خود اور انکے ہمنوا عصر حاضر کے عقل پرست بقول بعضے ’’ شرذمة قليلون، ضفادع حياض، لم ترد إلا الماء الواصل إلى الكعب‘‘ کا مصداق ہیں۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عول والے موقف کو رد کرنے کے لیے موصوف اجتہادی غلطی کےامکان پہ تکیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’سب اہل علم اس بات پر بھی متفق ہیں کہ بعض اوقات اور بعض مسائل میں صحابہ کرام سے بھی کسی اجتہادی غلطی کا ہونا جانا ناممکن نہیں تھا‘‘

یقینا ایسا ہی ہے کہ ہر بشر سے خطا کا صدور ممکن ہے، اس کا کسی کو انکار نہیں، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی بشر ہی تھے، سو ان سے کسی غلطی کا ہو جانا ان کی شان کے منافی نہیں ہے۔ لیکن بات کسی موقف کو غلط قرار دینے اور غلط ثابت کرنے کی ہے!۔ بلا دلیل کسی موقف کو غلط قرار دینا ہر کس وناکس کے لیے ممکن ہے، لیکن کسی موقف کو غلط ثابت کرنا ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کا کام نہیں ہے۔ پھر جو موقف غلط ہو ہی نہ، اسے غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یہی حال اس عول والے مسئلے کا ہے، کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ موقف درست ہے، غلط ہے ہی نہیں، یہی وجہ ہے کہ موصوف اسے غلط ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود غلط ثابت نہیں کر سکے۔ کیونکہ اس طریقہ عول کے مطابق ہر فریق کو اسکا مقرر کردہ حصہ میت کے کل ترکہ میں سے مل جاتا ہے اور کسی ایک کے ساتھ بھی نا انصافی نہیں ہوتی۔

پھرموصوف دیپک راگ الاپنے کے بعد فرماتے ہیں:

’’ہم نے اللہ کے فضل سے دو اور دو چار کی طرح یہ بات سمجھا دی ہے کہ اس عول کے طریقہ میں سو فیصد غلطی موجود ہے۔‘‘

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موصوف کے اختیار کردہ طریقہ کا غلط ہونا اظہر من الشمس ثابت ہو چکا ہے۔ کہ اس کے مطابق اگر وارث زوجہ اور والدین اور دو بیٹیاں ہوں تو بیٹیوں کو ان کے مقرر کردہ حصے میں سے تقریبا آدھا ملتا ہے۔ اور پھر اس طریقہ تقسیم میں کچھ مال باقی بھی بچ جاتا ہے جو کہ ورثاء میں سے کسی کو بھی  موصوف نہیں دیتے۔

اگر وہ کہیں کہ باقی ماندہ سارا ہی بیٹیوں کو دے دیا جائے تو پھر اللہ تعالی کا حکم ’’فلہن ثلثا‘‘ کہ ان کے لیے دو تہائی ہے، پر عمل نہیں ہوتا بلکہ موصوف ’ماترک‘ کا معنى  ’ما بقی‘ کرکے باقی ماندہ میں سے دو تہائی دینے کے پابند ہیں۔

پھر اسی طرح اگر میت کے ورثاء میں خاوند، والدہ، اور دو ماں جائی بہنیں ہوں تو اللہ تعالی کے حکم کے مطابق ان کے درمیان میت کے ترکے کی تقسیم اس طرح ہوگی:

ورثاء

حصص

6(تصحیح)

8 (عول)

خاوند

نصف

3

3

والدہ

سدس (چھٹا)

1

1

دو اخیافی بہنیں

ثلث (ایک تہائی)

4

4

 

 

 

 

 

اب دیکھیے کہ ان تینوں قسم کے ورثاء میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو کسی بھی صورت میں عصبہ بن کر باقی ماندہ مال کا مستحق ٹھہرتا ہو کیونکہ یہ سبھی اصحاب الفروض ہیں، اور ہمیشہ صاحب فرض ہی رہتے ہیں۔عول کے ذریعہ مذکورہ بالا طریقے سے ان کے درمیان وراثت تقسیم ہو جاتی ہے۔

لیکن موصوف جو عول کے منکر ہیں، اور جن ورثاء کو کبھی کسی صورت میں باقی ماندہ ترکہ ملتا ہے، انھیں مقرر و متعین حصے بھی باقی ماندہ میں سے ہی دینے کے قائل ہیں، ان کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ کیونکہ اس مسئلے میں کوئی ایک فریق بھی ایسا نہیں جسے ان کے اصول کے مطابق باقی ماندہ دیا جاسکے۔

اسی طرح جیسا کہ پہلے واضح کیا کہ باپ بھی بعض صورتوں میں عصبہ محض بن جاتا ہے اور باقی ماندہ مال لیتا ہے، تو موصوف کے اصول کے مطابق اول الذکر مسئلہ میں باپ کو بھی باقی ماندہ میں سے دینا چاہیے، لیکن وہاں موصوف اپنے اس اصول سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں، اور والد کو کل ترکہ میں سے دے کر صرف بیٹیوں کو باقی ماندہ میں سے دینے کا ظلم کرتے ہیں۔

 

ª... میں نے اپنی سابقہ تحریر میں ریاضی کے الجبرا کے قانون کے مطابق بھی اول الذکر مسئلہ کو حل کیا تھا ، جس سے واضح ہوا کہ جو نتیجہ عول والے طریقےسے نکلتا ہے وہی ریاضی کے اصولوں سے بھی نکلتا ہے۔ اس پہ موصوف ہنستے ہوئے فرماتے ہیں:

’’وراثت کو آپ نے پہلے ریاضی (حساب) کے طریقے سے حل کیا پھر الجبرا کے طریقے سے حل کیا تو جواب تو دونوں صورتوں ایک جیسا ہی آنا تھا۔‘‘

گویا موصوف یہ ماننے پہ مجبور ہیں کہ ریاضی کے مطابق حساب کتاب ایسے ہی ہوگا جیسا کہ عول کے مطابق ہوا۔ جس کا ظاہر نتیجہ ہے کہ موصوف کا طریقہ کار ریاضی وحساب سے کے قوانین سے الگ ہے جو کسی بھی طور درست نہیں ہے۔

اس کے بعد موصوف نے ہمیں ریاضی کا وہ اصول سمجھانے کی کوشش کی ہے جو ہم برسہابرس پہلے ہی سمجھے ہوئے ہیں، اور ہمیں اس سے انکار بھی نہیں ہے۔ اسی لیے تو ہم نے میت کے کل ترکہ کو 24 کے بجائے 27 حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ اور اب موصوف ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ

’’گوشواروں میں درج حصص کا مجموعہ 24 سے بڑھ جاتا ہے‘‘۔  انتہى۔

ناصحا! دل میں تو اتنا تو سمجھ اپنے کہ ہم

لاکھ ناداں ہوئے، کیا تجھ سے بھی ناداں ہوگئے؟!

چونکہ شریعت اسلامیہ نے میت کے کل ترکہ میں سے سدس، ثمن، ثلثان  دینے کا حکم دیا ہے تو میت کے کل ترکہ کو ہم نے 27 چھوٹے چھوٹے اجزاء میں تقسیم کیا، پھر ذو اضعاف اقل (24) میں سے ہر ایک کو اس کے حصے  میں سے ایک ایک حصہ دینا شروع کیا، جب یہ 27 حصص مکمل ہوگئے تو تقسیم ختم ہوگئی۔ یہ سادہ سا کام عول میں ہوتا ہے، جسے سمجھنے سے موصوف اور ان کے ہمنوا قاصر ہیں، سو اس پہ اعتراض کیے بیٹھے ہیں کہ ’الناس أعداء لما جهلوا‘...!

 

«... میں نے اپنی تحریر میں غامدی صاحب کے اصول  ’’کسی وارث کے لیے جو حصہ مقرر کر دیا جائے، اس میں کمی کسی صورت بھی نہیں ہونی چاہیے‘‘ کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’یہ نظریہ ہی باطل ہے۔‘‘ اس پہ موصوف یوں برسے ہیں:

’’مولوی رفیق کی دیدہ دلیری دیکھیے کہ وہ اللہ تعالی کے پیش کردہ اس نظریہ اور حکم کے بارے میں کہتا ہے کہ نظریہ ہی باطل ہے حالانکہ اس سلسلہ میں آیات میراث کے آخر میں اللہ تعالی حکم صادر فرما رہے ہیں ﵟوَمَن يَعۡصِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُۥ يُدۡخِلۡهُ نَارًا خَٰلِدٗا فِيهَا وَلَهُۥ عَذَابٞ مُّهِينٞﵞ [النساء: 14] ’’جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے  اور اس کی حدوں سے بڑھ جائے (یعنی اللہ تعالی کے مقرر کردہ حصوں میں کمی بیشی کرے) تو اللہ اسے دوزخ لے جائے گا وہ ہمیشہ اس میں رہے گأ اور اس کے لیے ذلت والا عذاب ہے‘‘

لیکن مولوی موصوف کہتا ہے کہ ورثاء  کے حصص میں کمی والا نظریہ ہی باطل ہے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)‘‘۔ انتہى۔

 

وَكَمْ ‌مِنْ ‌عَائِبٍ ‌قَوْلًا ‌صَحِيحًا            وآفَتُهُ مِنْ الفَهْمِ السَّقِيمِ

وَلَكِنْ تَأْخُذُ الآذان مِنْهُ                 عَلَى قَدْرِ القَرَائِحِ والفهُومِ

موصوف ہمارا کلام سمجھ ہی نہیں پائے اور اس پہ اعتراض جڑ دیا۔ حالانکہ اس اجمال کی تفصیل ہم  نے مثالوں سے واضح کی تھی۔ مقصود کلام یہ  تھا کہ جب اللہ تعالی کسی ایک وارث کے لیے ایک حصہ مقرر فرما دیں ، تو اللہ تعالی خود ہی دوسری صورت میں اس حصے میں کمی یا اضافہ فرما دیتے ہیں، لہذا یہ کہنا کہ ایک مرتبہ ایک وارث کو جو حصہ مقرر ہوا ہے اس میں کمی نہیں ہو سکتی، یہ درست نہیں ہے۔ آیت میراث میں ہی اس کی مثالیں موجود ہیں، مثلا بیٹی اکیلی ہو تو کل ترکہ میں سے آدھے کی حقدار بنتی ہے، اور اگر اس کے ساتھ دوسری شامل ہو جائے تو دو نوں کو دو تہائی ملتا ہےیعنی ہر ایک کو ایک تہائی جو کہ نصف سے کم ہے، اور اگر ان کے ساتھ دو بھائی بھی شریک ہو جائیں تو ان کا حصہ عصبہ بن جانے کی وجہ سے مزید کم ہو جاتا ہے۔ اور یہ کمی اللہ تعالی کی مقرر کردہ کمی ہی ہے۔ اسی طرح والدہ کو ایک تہائی ملتا ہے لیکن میت کی اولاد یا دو سے زائد بہن بھائیوں کی موجود گی میں یہ حصہ آدھا رہ جاتا ہے اور صرف چھٹے حصے کی وارث بنتی ہے۔  ایسے ہی خاوند کا حصہ نصف ہے، لیکن میت کی اولاد ہو تو چوتھائی ہے، اور بیوی کا حصہ چوتھائی ہے لیکن میت کی اولاد ہو تو آٹھواں ملتا ہے، وھلم جرا...

عول میں ہونے والی کمی بھی اسی طرح سے اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ کمی ہے، جو موصوف کی سمجھ سے بالا تر ہے، لہذا موصوف اسے ماننے کو تیار نہیں ہیں۔

پھر موصوف نے ہماری پیش کردہ مثال میں سے ’’رد‘‘ والی مثال پہ تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

          ’’ مولوی رفیق صاحب کو یہ جان لینا چاہیے کہ ہمیں  ’’رد‘‘ پہ کوئی اعتراض نہیں ہے‘‘۔

 

آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے....!

کمال ہے کہ موصوف کو ’’رد‘‘ پہ کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن ’’عول‘‘ پہ اعتراضات کی فہرست طویل ہے!۔ حالانکہ ’عول‘ اور ’رد‘ دونوں ایک ہی جیسے ہیں۔ عول میں تمام ورثاء کے حصص میں ذو اضعاف اقل سے متناسب کمی ہوتی ہے، جبکہ  رد میں اس پہ متناسب اضافہ ہوتا ہے۔

 مثلاً:

ورثاء

حصص

6(تصحیح)

5(رد)

بیٹی

نصف

3

3

پوتی

سدس

1

1

والدہ

سدس

1

1

دیکھیے کہ اس مسئلے میں ذو اضعاف اقل 6 بنتا ہے، اور ہر فریق کو اس کے مطابق حصہ دیا گیا تو ایک مکمل حصہ باقی بچ گیا۔ جس طرح عول میں  ورثاء کے حصص بڑھ جانے پہ ہم کل ترکہ کے حصص بڑھا لیتے ہیں ویسے ہی یہاں رد میں چونکہ حصص زیادہ تھے جبکہ ورثاء کے حصص کم بن رہے تھے تو ہم نے کل ترکہ کو ہی 6 کے بجائے 5 حصص میں تقسیم کر دیا اور اس کے مطابق ورثاء کو ان کا حق دے دیا۔

’رد‘ کے ذریعے یہ اضافہ بھی ’عول‘ کے ذریعے کمی کی طرح اللہ تعالی کا حکم ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے جو حصص مقرر فرمائے ہیں، وہ در اصل تقسیم ترکہ کے لیے ’’تناسب‘‘ ہے کہ ورثاء میں جب ترکہ تقسیم کیا جائے تو ان کے درمیان یہ تناسب برقرار رکھا جائے۔ اور عول  اور رد وہ تناسب برقرار رکھنے کا ہی ذریعہ ہیں۔ جبکہ موصوف کی آئیڈیالوجی اللہ تعالی کے مقرر کردہ تناسب کو ختم کر دیتی ہے۔ جیسا کہ سابقہ سطور میں مثالوں سے بات واضح کی جاچکی ہے۔

تنبیہ:

موصوف نے جو نظریہ ’’عول‘‘ سے متعلق اپنایا ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ ’’رد‘‘ کے بارے میں بھی اپنا وہی اصول کار فرما رکھیں، اور باقی بچ جانے والا حصہ سب پہ انکے حصص کے تناسب سے تقسیم کرنے کی بجائے ورثاء میں تقدیم وتاخیر کا نظریہ اپناتے ہوئے مثلا والدہ کو دے دیں۔

لیکن یہاں موصوف ’رد‘ کا رد کرنے سے قاصر ہیں اور عول والا تناسب کا اصول ’رد‘ میں تسلیم کرنے پہ مجبور ہیں، یہ دوغلی پالیسی آخر کیوں ہے؟

بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

موصوف کا نظریہ میراث بھی مجموعہ اضداد ہے! کہ عول والی سابقہ مثال میں بھی موصوف کے نظریہ کے مطابق تقسیم کرنے پہ باقی ماندہ ترکہ کا دو تہائی بیٹیوں کو دینے کے بعد باقی ماندہ ترکہ کا ایک تہائی باقی بچتا ہے، جس سے موصوف صرف نظر کیے ہوئے ہیں۔ اسے بھی وہاں رد کے طریقے مطابق سب پہ تقسیم کردیتے، یا اپنی آئیڈیالوجی کے مطابق ورثاء میں تقدیم وتاخیر کا پاس کرتے ہوئے کسی ایک فریق کو دے دیتے، لیکن وہاں ایسا کچھ نہیں کر سکے۔ اور رد کو من و عن تسلیم کر کے یہ مان رہے ہیں کہ میراث میں ’تناسب‘ کا اصول کارفرما ہوتا ہے، جس کا عول میں رد کرتے چلے آئے ہیں...!

 

¬... موصوف فرماتے ہیں:

’’ ہم اللہ تعالى کے فضل مولانا رفیق طاہر صاحب کو  اور ان کے ہمنوا دوسرے مولوی صاحبان کو یہ چیلنج کرتے ہیں کہ وہ وراثت کی کسی بھی مثال میں جتنے مرضی کثیر تعداد میں ورثاء لے آئیں ، ہم ان شاء اللہ کسی کے حصہ میں کمی کیے بغیر اور عول  کا تکلف کیے بغیر ہی وہ وراثت حل کر دیں گے  ان شاء اللہ‘‘

تنبیہ:

ہم نے موصوف کی عبارت  ’’ اللہ تعالى کے فضل مولانا رفیق طاہر صاحب ‘‘  من وعن نقل کیا ہے، یہاں موصوف لفظ ’سے‘ لکھنا جوش میں آکر بھول گئے ہیں شاید، اور نہ چاہتے ہوئے بھی راقم کو ’’اللہ تعالى کا فضل‘‘ مان گئے ہیں!

الفضل ما شہدت بہ الأعداء...!

موصوف  اپنے دعوے میں تو گویا خود کو عصر حاضر کا سب بڑا میراثی ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کہ جو میراث کسی اور سے تقسیم نہ ہو سکے وہ  میں کر دوں گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ موصوف نے 13 صفحات کی تحریر کے جواب میں 24 صفحے کالے کر ڈلے ہیں لیکن میراث کا ایک مسئلہ بھی حل نہیں کیا ہے۔ اور کچھ نہیں ، کم از کم وہ ایک مسئلہ جو بطور مثال ان کے پیشوا غامدی صاحب نے بیان کیا اور جس پہ میں نے تفصیل سے لکھا اس ایک مسئلے کو ہی اپنی آئیڈیالوجی کے مطابق حل کرتے اور پھر کہتے کہ دیکھیں ایسے وراثت تقسیم ہوتی ہے۔ لیکن موصوف اپنی ساری تحریر میں دعووں کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکے ہیں۔  کیونکہ اگر وہ عملاً یہ مسئلہ حل کرنے بیٹھتے تو انھیں اپنے دعووں کی قلعی کھلتی نظر آتی، سو وہ اس کام سے تہی دست رہے ہیں۔ ہم اکبر کی طرح   یہ نہیں کہتے کہ

دعویٰ بہت بڑا ہے ریاضی میں آپ کو

طول شب فراق کو تو ناپ دیجئے

صرف موصوف مذکورہ بالا مسئلہ ہی اپنے اصولوں کی رو سے حل کر نے کی کوشش کریں پھر تماشا دیکھیں کہ بقول  میر

چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا

جمال یار نے منہ اس کا خوب لال کیا

­...  موصوف رقمطراز ہیں:

’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں چارپانچ صحابہ کرام نے ایک وراثت کو ان حالات میں حل کیا کہ وہ کسی وجہ سے صحیح بات تک نہ پہنچ سکےتھے۔ بلکہ ایک اجتہادی غلطی کی وجہ سے عول کے ذریعے سے ہی فیصلہ کر لیا تھا۔ لیکن اب اللہ تعالى کے فضل حالات بدل گئے ہیں بہت سے دلائل اور قرائن سے عول کی صورت کو لازم کرنے والی غلطی معلوم ہو گئی ہے اور اس کا ازالہ کیا جا چکا ہے(الحمد للہ رب العالمین) لہذا اب ان حالات میں اور اس علم کے باوجود بھی مذکورہ غلطی اختیار کرکے عول کی صورت پیدا کرنا اور پھر عول پر ہی عمل کرنا امن کی حالت میں بھی بھاگتے  اور دوڑتے ہوئے نماز پڑھنے کے مترادف ہے۔‘‘

 

ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے

خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد

موصوف نے اپنی فکری غلطی کو حق سمجھ رکھا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے لے کر اب تک ساری امت کو غلط قرار دینے کی غلطی کر رہے ہیں!۔ اور یہ باور  کروا رہے ہیں کہ گزشتہ چودہ صدیوں میں یہ حق کسی کو سمجھ نہیں آیا جو کہ اب مجھے سمجھ آیا ہے یا غامدی صاحب کو سمجھ آیا ہے۔ جبکہ ہم پہلے بیان کر چکے کہ عول کا انکار عقل پرستوں اور شیعوں نے بہت پہلے سے کر رکھا ہے اور ان کی اصل بیماری انکار حدیث ہے جس کے نتیجے میں یہ درفطنی چھوڑی گئی ہے۔ اور وہی غلطی موصوف بھی دہرا رہے ہیں!۔ پھر اپنے فہم کے درست ہونے پہ نہ تو قرآن سے کوئی دلیل پیش کرسکے ہیں اور نہ ہی حدیث سے اور نہ ہی لغت عرب سے اور نہ ہی عقل سلیم سے!

حقیقت تو یہ ہے کہ موصوف اور ان کے ہمنوا جس غلطی پہ ہیں ہم نے اس کا ازالہ قرآن مجید اور احادیث نبویہ اور لغت و عقل سلیم کی رو سے کر دیا ہے۔ لہذا اگر اب بھی موصوف اپنی ضد پہ اڑے رہتے ہیں تو ان کی کیفیت حالت امن میں دوڑ کر نماز پڑھنے والی  ہے!۔ ویسے حیرانی ہے کہ ہم نے غامدی صاحب کی جس ویڈیو پہ نقد کیا وہ انھوں نے اپنے چینل سے ہمارے نقد کے بعد حذف کروا دی۔ لیکن یہ موصوف ’مدعی سست گواہ چست‘ کے مصداق  جس کا دفاع غامدی صاحب نہ کرسکے اپنے تئیں اس مثل تار عنکبوت موقف کا دفاع کرنے بیٹھ گئے ہیں!

 

®...  ہم نے  ورثاء کے حصص میں کمی پہ جو مثالیں قرآن مجید سے دیں، موصوف اس پہ خوب برسے ہیں اور ایک مرتبہ پھر اپنا مبلغ علمی ظاہر کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

’’عول کے طریقے میں اللہ تعالى کے بتائے ہوئے حصص ورثاء کو نہیں دیے جاتے بلکہ ان میں کمی کرکے دیے جاتے ہیں مثلا اللہ نے حکم دیا ہے کہ اگر اکلوتی بیٹی ہو تو اس کو نصف دینا ہے۔ لیکن ہم نے عول کے ذریعے اس کو نصف 2/1 کے بجائے کبھی 3/1 دیتے ہیں تو کبھی 13/6 دیتے ہیں۔ اللہ تعالى نے میت کے والد اور والدہ کو اولاد کی موجودگی میں ہر ایک کو سدس 6/1 دینے کا حکم دیا ہےلیکن ہم عول کا فارمولا استعمال کرتے ہوئے 6/1 کے بجائے کبھی 8/1 دیتے ہیں تو کبھی 10/1 تو کبھی 13/2  دیتے ہیں ۔ اللہ تعالى نے خاوند کو اولاد کی عدم موجودگی کی صورت میں نصف 2/1 دینے کا حکم دیا ہے لیکن عول کے ذریعے 2/1 کے بجائے اسے کبھی  3/1 تو کبھی 4/3 تو کبھی 10/3 دیتے ہیں۔‘‘

جیسا کہ پہلے واضح کیا جا چکا ہے کہ اللہ تعالى نے قرآن مجید فرقان حمید میں جو حصص ورثاء کے لیے مقرر کیے ہیں یہ سب حصص انھیں میت کے تمام تر کے میں سے دینے کا حکم ہے جس پہ اللہ کا کلام ’’ماترک‘‘ دلالت کرتا ہے۔ جب ترکہ لینے والے ایک سے زائد ہو جائیں تو یہی مقرر کردہ حصص ان سب کو میت کے سارے ترکے میں  سے دینے کا حکم ہے، اور ہم عول کے ذریعے ایسا ہی کرتے ہیں کہ ہر وارث کو اس کا مقرر کردہ حصہ میت کے کل ترکے میں سے دیتے ہیں ۔ اور ان حصص کو  تقسیم وراثت میں تناسب سمجھتے ہیں۔ اکلوتی بیٹی کو 2/1 دینے کا حکم ہے تو اسے 2/1 ہی ملتا ہے، اس سے کم نہیں ہوتا، لیکن چونکہ یہ نصف  2/1 ایک اکیلا حصہ نہیں بلکہ لینے والے مثلا خاوند 4/1 اور والد 6/1 اور والدہ 6/1 کے حقدار ہیں تو ہم سب کو ان کے حصص کے مطابق ترکہ میں سے دیتے ہیں ۔

 

ورثاء

حصص

12(تصحیح)

13(عول)

بیٹی

نصف

6

6

والد

سدس

2

2

والدہ

سدس

2

2

خاوند

ربع

3

3

 جبکہ موصوف ایسے مسئلے میں خاوند اور والدین کو تو مکمل حصہ دے دیتے ہیں جبکہ اکلوتی بیٹی کو 2/1 کے بجائے  12 میں سے 7 حصص نکال کر باقی ترکہ کے 5 حصص میں سے آدھا یعنی صرف اڑھائی حصے دیتے ہیں!۔ اور باقی کے اڑھائی اپنے گھر لے جاتے ہیں! کیونکہ موصوف نے اپنی تحریر میں اس کا کوئی مصرف ذکر نہیں کیا...!۔ 12 میں سے اڑھائی  2/1 نہیں ہوتے بلکہ  4/1 بھی نہیں ہوتے! یہ 5/1 تقریبا بنتے ہیں!

اس مثال کو سمجھ لینے سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ موصوف کا معاملہ ’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘ والا ہے! کہ خود کتاب اللہ میں مقرر کردہ حصص میں کمی کرتے ہیں اور الزام ہمیں دیتے ہیں۔

یہ عذرِ امتحانِ جذبِ دل کیسا نکل آیا

وہ الزام ہم کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا

 

¯...  آخرمیں ہم نے غامدی صاحب کی درفطنیوں پہ ان کے مبلغ علمی کے حوالے سے جو تبصرہ کیا ہے، اسے موصوف ’زہر آلود تیر کی تیزی‘ سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’مذکورہ بالا طعنہ و تشنیع اور خطابات کے حقدار اور مصداق علامہ جاوید احمد غامدی کی بجائے خود مولانا رفیق طاہر صاحب ہی ہیں (واللہ اعلم بالصواب)‘‘

موصوف کے پیشوا  غامدی صاحب کو جو ہم نے ’’علم میراث سے نابلد‘‘ اور ’’علم ریاضی سے ناآشنا‘‘ قرار دیا ہے، یہ کہاں تک درست ہے

دل والے خود ہی لکھ لیں گے کہانی اس افسانے کی!

 

یہ چند سطریں احباب گرامی قدر کے پرزور مطالبے پہ بغرض احقاق حق و اباطل باطل تحریر کی ہیں، وگرنہ شبانہ روز مصروفیات میں ایسی تحریروں کو خاطر میں لانےکا مزاج نہیں ہے کہ

اتنی جگہ کہاں ہے دل پاکباز میں!

ہمارے مضمون پہ غامدی صاحب اگر کوئی خامہ فرسائی فرماتے تو ہم بھی کچھ لکھتے، خیر ... ’مدعی سست گواہ چست ‘ کے مصداق گواہ موصوف نے حقِ غامدی میں جو شہادت دی ، وہ آپ کے سامنے ’شہادۃ الزور‘ ثابت ہو چکی ہے۔ واللہ الموفق والمعین

وكتبه

أبو عبد الرحمن محمد رفيق الطاهر

17/11/1446هـ

  • السبت PM 06:47
    2025-05-17
  • 428

تعلیقات

    = 3 + 3

    /500
    Powered by: GateGold