اعداد وشمار
مادہ
نشے میں طلاق
سوال
میں اور میرا شوہر ایک دعوت پہ گئے تھے، وہاں میرے شوہر نے شراب پی تھی، جب ہم گھر واپس آ رہے تھے تو پیسوں کی وجہ سے ہماری لڑائی ہو گئی، اور اس نے غصے سے اپنے کپڑے پھاڑنے شروع کر دیے۔ جب گھر آئے تو میرے شوہر نے نشے کی حالت میں گھر کا سامان توڑنا شروع کر دیا میں نے اپنے بھائیوں کو بلایا کہ میرے شوہر کو سمجھائیں ، لیکن نشے کی حالت میں ہونے کی وجہ سے میرے شوہر نے میرے بھائیوں کے ساتھ جھگڑا شروع کر دیا جو طول پکڑ گیا۔ میرے بھائیوں نے کہا کہ ہماری بہن اور بچوں کو چھوڑو اور جاؤ، تو میرے شوہر نے کہا کہ تب جاؤں گا جب قصہ ختم کروں گا، اور اس نے اسی دوران مجھے طلاق دے دی اور پھر دوسرے کمرے میں لڑائی کرتے ہوئے کہا کہ میں اسے طلاق دیتا ہوں۔ جب وہ ہوش میں آیا تو نادم ہوا اور اب وہ ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ شریعت اسلامیہ میں اس کا کتاب وسنت کی روشنی میں کیا حل ہے؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
صورت مسئولہ میں طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔ کیونکہ آپ کا خاوند نشے کی حالت میں تھا، اور اسے اچھے برے کی کوئی تمیز باقی نہ رہی تھی۔
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّما الأعمالُ بِالنِّـيَّاتِ، وإِنَّما لِكُلِّ امْرِئٍ ما نَوَىَ
اعمال کا دار ومدار نیتوں پہ ہے، ہر شخص کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔
صحیح البخاری:1
نشے میں دھت، شدید غضب میں مبتلا، اور مجنون کی کوئی نیت اور ارادہ نہیں ہوتا، کیونکہ اس کی عقل کام نہیں کر رہی ہوتی۔لہذا ایسے شخص کی طلاق واقع نہیں ہوتی، کیونکہ اس کا ارادہ ہی نہیں ہے۔
اسی طرح سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے شراب کی حرمت سے قبل شراب پی رکھی تھی تو نشے کی حالت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اونٹنی کوہانیں کاٹ ڈالیں اورپیٹ چا کرکے جگر نکال لیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو علم ہو تو نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی، آپ صلى اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے تو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ شراب کے نشے میں چور تھے اور آنکھیں سرخ تھیں انھوں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا تو کہا تم تو میرے باپ کے غلام ہی ہو۔ رسو ل اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ منظر دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ نشے میں دھت ہے، سو آپ خاموشی سے واپس تشریف لے آئے۔
صحیح البخاری: 2925
اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نشے میں بات کرنےوالا چونکہ بے اختیار ہوتا ہے سو اس کی باتوں کی شرعا کوئی حیثیت نہیں ہوتی، وگرنہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو ایسا جملہ کہنا گستاخی کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے نشے کی وجہ سے اس پہ مواخذہ نہیں فرمایا۔ اسی طرح اگر کوئی نشے میں دھت شخص طلاق دے تو اس کی طلاق بھی شرعا مؤثر نہیں ہوگی۔
اسی طرح ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک ضعیف روایت بھی اس معنى میں ہے، وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا طَلَاقَولا عِتَاقَ في غَلَاق
عقل ماؤف ہونے کی حالت میں نہ طلاق ہے اور نہ ہی غلام کی آزادی۔
سنن ابی داود: 2193
درج بالا دلائل کی رو سے یہ بات واضح ہے کہ بشر ط صحت سوال صورت مسئولہ میں طلاق واقع نہیں ہوئی اور آمنہ ولد محمد نعیم اور شہباز ولد اشفاق کا رشتہ ازدواج قائم ہے۔ وہ اپنا ازدواجی تعلق برقرار رکھ سکتے ہیں۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-
الاحد PM 03:13
2025-08-31 - 204





