میلنگ لسٹ
موجودہ زائرین
اعداد وشمار
تلاش کریں
مادہ
کفار کی مصنوعات کا مقاطعہ (بائیکاٹ)
سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ شیخ محترم! میرے اشکالات کی کئی جہت ہیں۔ امید ہے آپ گتھیاں سلجھا دینگے۔ جیسا کہ آپ کے علم میں بخوبی ہوگا کہ ایموشنل مسلمانوں نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم اپنے اپنے لیول پر "حق" سمجھ شروع کر رکھی ہے۔ اس پر وہ کوئی اخلاقی پوزیشن یا شرعی دلیل نہیں دیتے ۔ نری جذباتیت ہے اور کچھ نہیں۔ اپنے علاوہ کسی اور کو مسلمان نہیں سمجھتے ۔ فلسطین کے حقوق کے علمبردار بھی خود کو ٹھہراتے ہیں جیسے سارا درد صرف ان کے دل میں ہے۔ آپ سے سوالات ہیں کہ کیا اسرائیل کے مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہمارا اخلاقی و شرعی حق ہے اس وقت؟ اس کی حرمت یا حلت کے دلائل ہیں؟ براہ کرم تفصیلی فتوی مضمون کی شکل میں راہنمائی کے لیے لکھ دیں۔ اس کے علاؤہ دیگر کفار کی مصنوعات کے بائیکاٹ پر کیا شرعی حکم لگے گا؟ مسلمانوں پر ظلم تو چائنیز انڈینز امریکا یہ سب بھی کرتے ، تو کیا ان سب کا یوں معاشی بائیکاٹ کرنا ہی شرعی مطلوب ہے؟ اور اسرائیل کی سب سے بڑی کمپنیوں میں fiverr بھی ہے۔ اس پر لاکھوں مسلمان لاکھوں روپیہ روزانہ کا کما رہے ہیں، ان کی آمدن پر کیا حکم لگے گا؟ جزاک اللہ خیرا
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
بائیکاٹ یا مقاطعہ کرنے کی اصل تو سنت نبوی میں موجود ہے۔ جیسا کہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ نے اہل مکہ کو فرمایا تھا:
وَاللَّهِ لَا يَأْتِيكُمْ مِنَ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم
اللہ کی قسم یمامہ سے تمھارے پاس گندم کا ایک دانہ بھی نہیں آئے گا جب تک نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم اسکی اجازت نہ دے دیں۔
صحیح البخاری: 4372
مقاطعہ یا بائیکاٹ کرنے کی روش اس سے قبل بھی موجود تھی جیسا کہ قریش اور کنانہ نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کا بائیکاٹ کیا تھا۔
صحیح البخاری: 1590
بائیکاٹ کا ہتھیار پہلے زمانوں میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے جیساکہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے اناج لینے آئے اپنےبھائیوں کو رخصت کرتے ہوئے فرمایا تھا:
ائْتُونِي بِأَخٍ لَكُمْ مِنْ أَبِيكُمْ أَلا تَرَوْنَ أَنِّي أُوفِي الْكَيْلَ وَأَنَا خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِي بِهِ فَلا كَيْلَ لَكُمْ عِنْدِي وَلا تَقْرَبُونِ
میرے پاس اپنے پدری بھائی کو بھی لانا، کیا تم دیکھتے نہیں کہ میں پورا ماپ دیتا ہوں اور بہترین مہمان نواز ہوں، اگر تم اسے نہ لائے تو تمہارے لیے کوئی ماپ (اناج) میرے پاس نہیں ہوگا، اور تم میرے قریب بھی مت آنا۔
سورۃ یوسف: 59،60
گویا یوسف علیہ السلام نے اناج روکنے کو اپنا بھائی بلانے کے وسیلے اور ہتھیار کے طور پہ استعمال کیا ہے، اور وہ اس میں کامیاب رہے۔
اسی طرح کفار پہ سختی کرنے کا اللہ تعالى نے باقاعدہ حکم صادر فرمایا ہے:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ
اے نبی! صلى اللہ علیہ وسلم کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پہ سختی کیجئے۔
سورۃ التوبۃ: 73
اور کفار کو غصہ دلانے کو باعث ثواب کام قرار دیا ہے:
ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ لا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلا نَصَبٌ وَلا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلا يَطَأُونَ مَوْطِئاً يُغِيظُ الْكُفَّارَ وَلا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلاً إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ إِنَّ اللَّهَ لا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
یہ اس وجہ سے کہ انھیں اللہ کی راہ میں نہ کوئی پیاس لگتی ہے، نہ تھکاوٹ، نہ بھوک، اور نہ وہ کسی ایسی جگہ سے گزرتے ہیں جو کفار کو غصہ دلائے، اور نہ دشمن کو کوئی نقصان پہنچاتے ہیں، مگر اس کے بدلے ان کے لیے نیک عمل لکھ دیا جاتا ہے، یقینا اللہ تعالى نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
سورۃ التوبۃ: 120
اور معاشی بائیکاٹ بھی کفار کو غیظ وغضب میں مبتلا کرنے کا باعث بنتاہے، اور ان پہ سختی کرنے اور انہیں نقصان پہنچانے کی قبیل سے ہی ہے۔
اور آج تک معاشی واقتصادی مقاطعے کو جنگی ہتھیار کے طور پہ استعمال کیا جاتا ہے۔ تاریخ میں اسکی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ کسی قوم سے اقتصادی مقاطعہ انکے خلاف جنگ کا ایک بہترین ہتھیار اور نتیجہ خیز طریقہ کار ہے۔ اور جب یہ کفار کے خلاف مسلمانوں کی مناصرت کی خاطر ہو، تو یہ جہاد فی سبیل اللہ میں شامل و داخل ہے۔ جس کے ذریعے کفار کی معیشت کو کمزور اور انکے حوصلوں کو پست کیا جاسکتا ہے۔
لیکن یہ مقاطعہ ہر وقت فائدہ مند نہیں ہوتا، بلکہ کبھی اس کا نقصان فائدے سے زیادہ ہوتا ہے۔ جبکہ شریعت اسلامیہ فوائد حاصل کرنے اور نقصانات سے بچنے کا حکم دیتی ہے۔ لہذا جب مقاطعہ / بائیکاٹ کرنے سے بڑی مصلحت ہاتھ سے نکل رہی ہو، یا بڑا نقصان پیدا ہو رہا ہو، تو ایسی صورت میں مقاطعہ ناجائز ہو جاتا ہے۔ کیونکہ یہ مقاصد شریعت کے خلاف ہے۔
الغرض مقاطعہ / بائیکاٹ کا مختلف حالات میں حکم مختلف ہوتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ کسی بھی قوم یا فرد سے تجارت مقصود اصلی نہیں ، بلکہ نفع و فائدہ حاصل کرنے کا ایک وسیلہ ہے۔ کیونکہ کسی بھی فرد یا قوم کو کسی ایسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے جو اسکے اپنے پاس موجود نہ ہو، بلکہ دوسرے فرد یا قوم کے پاس موجود ہو۔ وہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے دوسرے سے وہ شے طلب کرتا ہے، جو اسے بلا عوض نہیں ملتی۔ سو یہ کسی عوض (قیمت) کے بدلے اپنے فائدے کی شے حاصل کرلیتا ہے، اور اسی کا نام تجارت ہے۔ گویا خرید وفروخت اصل مقصد نہیں، بلکہ اصل مقصد دونوں فریقوں کا ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے، تجارت (خرید وفروخت) تو اس نفع کے حصول کا اک وسیلہ اور ذریعہ ہے۔
اور یہ وسائل کبھی مصلحت کے حصول کا سبب بنتے ہیں اور کبھی فساد کا پیش خیمہ۔ اس اعتبار سے ان وسائل کو چار اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے:
1- ایسا وسیلہ جو ہو ہی فساد کا سبب، جیسے شراب نوشی، یہ نشے کا وسیلہ ہے ، اور شرع نے اسے حرام قرار دیا ہے۔
2- ایسا وسیلہ جو بذات خود تو حلال ہو، لیکن اسے حرام یا فساد کا ذریعہ بنا لیا جائے، جیسا کہ نکاح شرعا حلال ہے، لیکن اگر حلالے کی نیت سے کیا جائے تو لعنت کا سبب ہے۔ سو اسے بھی شرع نے حرام قرار دیا ہے۔
3- ایسا وسیلہ جو بذاتہ حلال و جائز ہے، اور اس سے ناجائز کام مقصود بھی نہیں ہے، لیکن عموما اس کا نتیجہ غلط نکلتا ہے، اور اس کا نقصان اس کے فائدے کی نسبت زیادہ ہے۔ جیسا کہ کفار کے سامنے ان کے معبودوں کو برا کہنا۔ شرع نے اسے بھی ناجائز وحرام قرار دیا ہے ۔
4- ایسا وسیلہ جو بذاتہ حلال و جائز ہے، اور اس سے ناجائز کام مقصود بھی نہیں ہے، لیکن کبھی ایسا ہو جاتا ہے کہ اس کا نتیجہ فساد کی صورت نکلتا ہے۔ لیکن اسکا فائدہ اسکے نقصان کی نسبت زیادہ ہے ۔ جیسا کہ سلطان جابر کے سامنے کلمہء حق کہنا۔ یہ قسم مصلحت کے اعتبار سے کبھی محض جائز ومباح ہوتی ہے، کبھی مستحب، اور کبھی فرض ۔
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے دوسری ا ور تیسری قسم کی حرمت 99 وجوہ سے واضح فرمائی ہے۔
اعلام الموقعین: جـ4 صـ 5 ط: عطاءات العلم
اسی طرح کفار ومشرکین کی بھی چار اقسام ہیں:
1- حربی کافر:
یعنی وہ کفار جو ایسے دار الکفر میں رہتے ہیں جن کے اور مسلمانوں کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ ان کے ممالک کو دار الحرب کہا جاتا ہے۔
2- معاہد کافر:
یعنی وہ کفار جو ایسے دار الکفر میں رہتے ہیں جن کے اور مسلمانوں کے درمیان عہد ومیثاق ہے۔ ان کے ممالک کو دار العہد کہا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ عصر حاضر میں معاہد کفار ممالک بھی دو طرح کے ہیں ایک غیر جانبدار اور دوسرے جانبدار۔
3- مستامن کافر:
یعنی وہ کفار جو دار الکفر کے ہی رہنے والے ہیں ، لیکن وقتی طور پر امان (ویزہ) حاصل کرکے مسلمان ملک میں آئے ہیں۔
4- ذمی کافر:
یہ وہ کفار ہیں جو مسلمانوں کے ملک میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں، اور مسلمانوں کی طرف سے مقرر کردہ جزیہ (ٹیکس) ادا کرتے اور اسلامی ملک کے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔
ان تمام کفار کے ساتھ مالی معاملات بھی چار اقسام کے ہی ہوتے ہیں:
1- کفار وغیرہ سے ایسی تجارت جس کے نتیجے میں حرام کا ارتکاب ہو۔ ایسا عقد (خرید وفروخت کا معاہدہ) شرعا باطل ہے، اور اس کی حرمت میں کسی کو کوئی شبہ نہیں۔ اور یہ عقد سابقہ سطور میں مذکور وسائل اربعہ میں سے پہلی قسم کے تحت آتا ہے۔
2- محارب یا معاہد کفار کے ساتھ ایسے اقتصادی معاملات کرنا جو کہ اصلا مباح ہیں، لیکن ان میں مقصود کافر ممالک کو معاشی ترقی دینا، اور ان کی اقتصادیات کو مضبوط کرنا ہو۔ ایسے عقد بھی شرعا حرام و ناجائز ہی ٹھہریں گے، کیونکہ اس میں کفار سے موالاۃ اور ان سے ذلت کو ختم کرنے جیسے شرعی جرائم پائے جاتے ہیں۔ اور یہ عقد سابقہ سطور میں مذکور وسائل اربعہ میں سے دوسری قسم کے تحت آتا ہے۔
3- محارب یا معاہد کفار سے ایسے معاملات طے کرنا جو بذاتہ حلال ہوں، اور ان سے مقصود بھی جائز ہو، مثلا ذاتی طور پہ نفع کمانا وغیرہ۔ لیکن کفار کو ان معاشی معاہدوں سے ایسا فائدہ حاصل ہو کہ جس سے وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں۔ خواہ یہ نقصان مسلمانوں کے قتل کرنے کی صورت میں ہو یا انہیں علاقہ بدر کرنے، یا انکے عقائد ونظریات بگاڑنے، یا انکی معیشت غیر مستحکم کرنے کی شکل میں ہو، الغرض کوئی بھی صورت ہو جس میں مسلمانوں کو کفار کی جانب سے نقصان پہنچتا ہو، اور نقصان حاصل ہونے والے فائدے کی نسبت زیادہ ہو، تو ایسے عقود (معاملات و عہد وپیمان) بھی بنیادی طور پر شریعت کی نگاہ میں حرام و ناجائز ہی ٹھہرتے ہیں۔ بالخصوص جب کفار سے منگوایا جانے والا سامان ایسا ہوکہ اسکا نعم البدل مسلمانوں کے پاس موجود ہو، یا بے ضرر کفار سے دستیاب ہو سکتا ہو۔ اور یہ عقد سابقہ سطور میں مذکور وسائل اربعہ میں سے تیسری قسم کے تحت آتا ہے۔
4- معاہد کفار سے ایسا عقد طے کرناجو بذاتہ ہی بھی حلال ہو، اور اس سے جائز مقاصد کا حصول مطلوب ہو۔ تو بنیادی طور پر اس کے مباح و جائز ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، اور کبھی ایسا عقد مستحب بلکہ کبھی واجب بن جاتا ہے۔ یہ عقد سابقہ سطور میں مذکور وسائل اربعہ میں سے چوتھی قسم کے تحت آتا ہے۔
الغرض پہلی قسم کے معاہدات تجارت کی حرمت تو بالکل واضح ہے ، جبکہ دوسری اور تیسری قسم کے عقد بھی وسائل ممنوعہ ہونے کی وجہ سے ناجائزہیں۔ سو ان تین صورتوں میں تو کفار سے مقاطعہ بنیادی طور پر واجب ہے!کیونکہ کسی بھی کام سے ممانعت اسکے الٹ کام کو واجب کر دیتی ہے جب اسکی ضد بالاتفاق ایک ہو، جیسا کہ علم اصول میں یہ بات واضح ہے۔
ان بنیادی باتوں کو سمجھنے کے بعد کفار کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا حکم سمجھنا نہایت آسان ہو جاتا ہے۔ کیونکہ معاملات میں اصل اباحت ہے، تو اباحت اصلیہ کی وجہ سے کفار سے تجارت کرنا ، ان کی مصنوعات استعمال کرنا وغیرہ سب اصلا حلال و جائز ہے۔ البتہ وہ چند صورتیں جن کا ذکر سابقہ سطور میں گزر چکا ہے، ان صورتوں میں حکم بدل جائے گا۔
چونکہ معاملات میں اصل اباحت ہے، تو کفار سے اقتصادی مقاطعہ یعنی ان سے خرید وفروخت روک لینا وغیرہ بھی اصلا حلال و مباح ہے۔ اور مصالح ومفاسد کے پیش نظر اس(بائیکاٹ) کے احکام مختلف ہوتے ہیں۔
یہاں یہ بات ذہن نشیں رہے کہ اباحت میں دونوں اطراف برابر ہوتے ہیں۔ یعنی جب کوئی کام کرنا مباح ہوتا ہے تو وہ کام نہ کرنا بھی اسی طرح مباح ہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے بنیادی طور پر مقاطعہ/ بائیکاٹ کرنے اور نہ کرنے دونوں کو مباح اصلا مباح قرار دیا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بعض حالات میں یہ مقاطعہ حرام اور بعض حالات میں واجب یا مندو ب و مستحب ہو جاتا ہے۔
جیساکہ پہلے واضح کیا جا چکا ہے کہ مقا طعہ (بائیکاٹ) جب رب کی رضا کی خاطر ہو، تو یہ جہاد کی اقسام میں سے ایک قسم ہے، کیونکہ اس سے کفار کو نقصان پہنچتا ہے ، جس کے نتیجے میں کفار مسلمانوں کو نقصان پہنچانا بند یا کم کر دیتے ہیں، یا مسلمانوں کو کچھ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ مقاطعہ (بائیکاٹ) کا ہتھیار استعمال کرنے کے نتیجے میں کبھی کفار کی طرف سے برا رد عمل بھی ظاہر ہوسکتا ہے، بالخصوص ان کافر ممالک کی طرف سے جو دنیا میں جگے بنے ہوئے ہیں۔ جس کی نتیجے میں مسلمانوں کو فائدے سے کہیں زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اور کبھی اس مقاطعہ کے دوران مسلمان خود ہی اپنا نقصان کر بیٹھتے ہیں کہ بہت سے مسلمانوں کا ہی روزگار تباہ ہو جاتا ہے۔
چونکہ معاشی بائیکاٹ کا ہتھیار استعمال کرنے کے کا مقصد (1)مصالح و فوائد حاصل کرنا (2)اور مفاسد و نقصانات ختم کرنا ہے، سو یہ دیکھنا چاہیے کہ جلب مصالح اور درء مفاسد میں سے بائیکاٹ کے نتیجے میں کیا حاصل ہو رہا ہے۔ کیا دونوں مقاصد حاصل ہو رہے ہیں ، یا دونوں ہی حاصل نہیں ہو رہے، یا دونوں میں سے کوئی ایک حاصل ہو رہا ہے؟۔ اس طرح غور کرنے سے مقاطعہ کی چار صورتیں بنیں گی:
1- دونوں مقاصد حاصل ہو ں۔یعنی مقاطعہ (بائیکاٹ) کرنے سے کفار کو نقصان پہنچے اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو کوئی بڑا نقصان بھی نہ ہو۔اور کفار کی طرف سے مسلمانوں کو پہنچنے والا ضرر کم یا ختم ہو جائے۔ تو ایسی صورت میں مقاطعہ واجب ہے!
2- دونوں مقاصد ہی حاصل نہ ہوں۔ یعنی مقاطعہ کے نتیجے میں کفار کو کوئی نقصان نہ ہو، بلکہ الٹا مسلمانوں کو نقصان پہنچے مثلا کفار مسلمانوں پہ ظلم بڑھا دیں، جنگ مسلط کر دیں، یا مسلمانوں کی معیشت کمزور کرکے رکھ دیں۔ تو ایسی صورت میں بائیکاٹ کرنا حرام ہے!
3- دونوں مقاصد میں سے پہلا مقصد (جلب مصالح) حاصل ہو ، اور دوسرا مقصد (درء مفاسد) حاصل نہ ہو۔ یعنی مقاطعہ (بائیکاٹ) کے نتیجے میں کفار کو نقصان پہنچے، لیکن ساتھ مسلمانوں کو بھی کوئی بڑا نقصان پہنچے۔ گویا مصلحت و فائدے کے حصول کے ساتھ ساتھ ایسا مفسدہ بھی پیدا ہو جائے جسے ختم کرنا مقاصد شریعت میں شامل ہے۔ تو یہاں مصلحت اور مفسدۃ میں تعارض آ جائے گا۔ تو ایسی صورت میں اگر پیدا ہونے والا فساد حاصل ہونے والی مصلحت (فائدے) سے کم تر ہو ، تو مقاطعہ کرنا مباح ہے۔ لیکن اگر حاصل ہونے والا مفسدۃ (نقصان وخرابی) فائدے سے زیادہ ہے، تو ایسی صورت میں مقاطعہ جائز نہ ہوگا۔ اور اگر مصلحت و مفسدۃ ( فائدہ اور نقصان) دونوں برابر ہوں تو تب بھی بائیکاٹ ناجائز ہوگا، کیونکہ شریعت کی نظر میں مفاسد کو دور کرنا مصالح حاصل کرنے پہ مقدم ہے۔
4- دونوں میں سے پہلا مقصد (جلب مصالح) حاصل نہ ہو، ا لبتہ دوسرا مقصد (درء مفاسد) پورا ہو جائے۔یعنی بائیکاٹ سے کفار کا کوئی خاص نقصان نہ ہو،ا ور نہ ہی مسلمانوں کو کسی نقصان کا سامنا کرنا پڑے، تو ایسی صورت میں بائیکاٹ کرنا مستحب و مندوب ہوتا ہے۔ کہ یہ بھی کفار کے خلاف احتجاج اور غیظ وغضب کا اظہار ہے۔
اس ساری بحث سے یہ نتیجہ نکلا کہ:
کفارکے معاشی معاملات اصلا حلال ہیں، ہاں اس میں کچھ استثناءات ہیں۔ اور معاشی بائیکاٹ کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ انسانی تاریخ میں اس کی کئی مثالیں ہیں۔ اور معاشی بائیکاٹ اپنے مطالبے منوانے اور مخالف کو زیر کرنے کا بہترین ہتھیار ہے۔ اور جب یہ رضائے الہی کی خاطر ہو، تو یہ جہاد فی سبیل اللہ کی ایک قسم ہے۔ اور بائیکاٹ کرنا بھی اصلا مباح ہے، لیکن مختلف حالات میں یہ کبھی واجب، کبھی حرام، کبھی مستحب ہو جاتا ہے۔
مذکورہ بالا بحث کے نتیجے میں بائیکاٹ کا عمومی حکم آپ کے سامنے واضح ہو چکا۔ اور اسکی حلت و حرمت کے دلائل بھی سامنے آچکے۔ رہا موجودہ صورت حال میں اسرائیل سے بائیکاٹ کا حکم تو آپ اگر مذکورہ بالا بحث پہ غور فرمائیں تو واضح ہوگا کہ اس بائیکاٹ کے نتیجے میں مسلمانوں کی اس شدید دشمن قوم کا معاشی نقصان ہوا ہے جو کہ حاصل ہونے والے راجح مصلحت ہے، لیکن اس کے نتیجے میں اہل غزہ پہ اسرائیل کا ظلم وستم کم نہیں ہوا، بلکہ ظلم وستم کا مسلسل جاری رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ انھیں اتنے نقصان کی کوئی پروا نہیں ہے۔ جبکہ مسلمان ملکوں میں تیار ہونے والے اسرائیلی کمپنیوں کی مصنوعات سے جڑے بہت سے مسلمانوں کا روزگار کسی حد تک متاثر ہو رہا ہے۔ یہ مفسدہ ہے جو اس بائیکاٹ کے نتیجے میں پیدا ہو رہا ہے۔ گویا یہ جاری بائیکاٹ تیسری قسم کا بائیکاٹ ہے جس میں مصلحت اور مفسدت میں تعارض آگیا ہے۔ لہذا یہ دیکھنا ہوگا کہ پہنچنے والے نقصان کا حاصل ہونے والے فائدے سے کیا تناسب ہے؟
اگر تو نقصان کم تر ہے تو یہ مباح بائیکاٹ ہے جو محض احتجاج کی قبیل سے ہے، لہذا یہ بائیکاٹ جائز ہے، لیکن واجب یا فرض نہیں، نہ ہی حرام ہے۔ اہل غزہ کی مناصرت کی نیت سے بائیکاٹ جاری رکھنے والے یقینا اپنی نیت کی وجہ سے ماجور ہیں، جبکہ بائیکاٹ سے تہی رہنے والے مجرم یا گنہگار نہیں ہیں۔
اور اگر نقصان نسبتا زیادہ ہے تو یہ بائیکاٹ حرام ہے۔
اور اگر نقصان اور فائدہ دونوں برابر ہیں تب بھی یہ بائیکاٹ حرام ہوگا۔
اب یہ فیصلہ کہ نفع اور نقصان میں تناسب کتنا ہے؟ حکومت وقت کا کام ہے، یا ان اداروں کا وظیفہ ہے جو ایسے سروے کرکے نتائج نکالتے ہیں۔ ہم صرف شرعی حکم ہی بتا سکتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے بائیکاٹ اس وقت نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے جب حکومتی سطح پہ اس کا اہتمام کیا جائے۔عوام کا اپنے طور پہ کسی قوم کا بائیکاٹ کرنا کبھی نتیجہ خیز ثابت ہوتاہے اور کبھی نہیں۔ اور نتیجہ خیز تب ہوتا ہے جب تمام عوام بائیکاٹ پہ متفق ہو جائیں، یا کم ازکم اتنی بڑی تعداد میں اکثریت بائیکاٹ کرے کہ دشمن کو خاطر خواہ نقصان پہنچے۔ یہ اس وقت ہے جب بائیکاٹ مباح ہو، اگر حرام ہو تو کسی کا بھی بائیکاٹ کرنا نا جائز ہوگا، اور اگر واجب ہو تو کسی کا بھی بائیکاٹ سے پیچھے رہنا گناہ کا باعث ہوگا۔
هذا، والله تعالى أعلم، وعلمه أكمل وأتم، ورد العلم إليه أسلم، والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وبارك وسلم
-
الاربعاء AM 08:41
2024-05-29 - 1317